• 18 اپریل, 2024

عادت اللہ اس طرح پرجاری ہے

عادت اللہ اس طرح پرجاری ہے کہ جب کوئی رسول یا نبی یا محدّث اصلاحِ خلق اللہ کے لئے آسمان سے اترتا ہے تو ضرور اس کے ساتھ اور اس کے ہمرکاب ایسے فرشتے اترا کرتے ہیں کہ جو مستعد دلوں میں ہدایت ڈالتے ہیں اور نیکی کی رغبت دلاتے ہیں۔ اور برابر اترتے رہتے ہیں جب تک کفر اور ضلالت کی ظلمت دور ہو کر ایمان اور راست بازی کی صبح صادق نمودار ہوجیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتاہے تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ ۙ﴿ۛ۵﴾ سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ سو ملائکہ اور روح القدس کا تنزل یعنی آسمان سے اترنا اسی وقت ہوتاہے جب ایک عظیم الشان آدمی خلعتِ خلافت پہن کر اور کلام الٰہی سے شرف پاکر زمین پر نزول فرماتاہے۔ روح القدس خاص طورپر اس خلیفہ کو ملتی ہے اور جو اس کے ساتھ ملائکہ ہیں وہ تمام دنیا کے مستعد دلوں پرنازل کئے جاتے ہیں۔ تب دنیا میں جہاں جہاں جوہر قابل پائے جاتے ہیں سب پر اُس نور کا پرتَوہ پڑتاہے اور تمام عالم میں ایک نورانیت پھیل جاتی ہے اور فرشتوں کی پاک تاثیر سے خود بخود دلوں میں نیک خیال پیدا ہونے لگتے ہیں اور توحید پیاری معلوم ہونے لگتی ہے اور سیدھے دلوں میں راست پسندی اور حق جوئی کی ایک روح پھونک دی جاتی ہے اور کمزوروں کو طاقت عطا کی جاتی ہے اور ہر طرف ایسی ہوا چلنی شروع ہو جاتی ہے کہ جو اس مصلح کے مدعا اور مقصد کو مدد دیتی ہے۔ ایک پوشیدہ ہاتھ کی تحریک سے خود بخود لوگ صلاحیت کی طر ف کھسکتے چلے آتے ہیں اور قوموں میں ایک جنبش سی شروع ہو جاتی ہے۔ تب ناسمجھ لوگ گمان کرتے ہیں کہ دنیا کے خیالات نے خود بخود راستی کی طرف پلٹا کھایاہے۔ لیکن درحقیقت یہ کام ان فرشتوں کا ہوتاہے کہ جواس خلیفۃ اللہ کے ساتھ آسمان سے اترتے ہیں اور حق کے قبول کرنے اور سمجھنے کے لئے غیر معمولی طاقتیں بخشتے ہیں۔ سوئے ہوئے لوگوں کو جگادیتے ہیں اور مستوں کو ہوشیار کرتے ہیں اور بہروں کے کان کھولتے ہیں اور مُردوں میں زندگی کی روح پھونکتے ہیں اور ان کو جو قبروں میں ہیں باہرنکال لاتے ہیں۔ تب لوگ یکدفعہ آنکھیں کھولنے لگتے ہیں اور ان کے دلوں پروہ باتیں کھلنے لگتی ہیں جوپہلے مخفی تھیں۔ اور درحقیقت یہ فرشتے خلیفۃ اللہ سے الگ نہیں ہوتے۔ اُسی کے چہرہ کا نور اور اسی کی ہمت کے آثار جلیّہ ہوتے ہیں جواپنی قوتِ مقناطیسی سے ہر ایک مناسبت رکھنے والے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں خواہ وہ جسمانی طورپر نزدیک ہویا دور ہو اور خواہ آشنا ہو یا بکلی بیگانہ اور نام تک بے خبرہو۔

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ12-13 حاشیہ)

پچھلا پڑھیں

اختتام قاعدہ یسرناالقرآن و آغاز قرآن کریم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اپریل 2022