• 3 مئی, 2024

’’زبان وجود کی ڈیوڑھی ہے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ )

زبان اور اس سے تعلق رکھنے والی تعلیمات پر خاکسار کے بہت سے آرٹیکلز روز نامہ الفضل آن لائن اور روزنامہ ’’گلدستہ علم و ادب‘‘ آن لائن میں شائع ہو چکے ہیں۔ تاہم اس ہفتے ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 3زیر مطالعہ رہی۔ ایک ارشاد جو میری نظروں سے گزرا وہ یہ ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں۔
’’زبان وجود کی ڈیوڑھی ہے اور زبان کو پاک کرنے سے گویا خدا تعالیٰ، وجود کی ڈیوڑھی میں آجاتا ہے۔ جب خدا،ڈیوڑھی میں آگیا تو پھر اندر آنا کیا تعجب ہے؟‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ245-246 ایڈیشن1984ء)

مندرجہ بالا ارشاد میں لفظ ڈیوڑھی غور طلب ہے۔اس کے بارے میں خاکسار کچھ عرض کرتا ہے۔ پرانے وقتوں میں گھروں کی تعمیر میں صدر دروازہ کے ساتھ ایک passage (راستہ) رکھا جاتا تھا جو ڈیوڑھی کہلاتا تھا۔ جس سے گزر کر گھر میں رہنے والے یا مہمان اندر داخل ہوا کرتے تھے۔ اور گھر کی خواتین اپنے گھروں اور صحن کی صفائی کے ساتھ ساتھ ڈیوڑھی اور اس سے ملحقہ گیٹ یا دروازہ بھی صاف کیا کرتی تھیں بلکہ بعض خواتین گھروں کی صفائی ستھرائی کا آغاز ہی ڈیوڑھی اور اس سے ملحقہ حصوں سے کرتی تھیں۔صفائی کرنے والے کپڑے کو گیلا کر کے پوچا مارتیں یا صافی لگاتی تھیں تاکہ گلیوں اور سڑکوں سےگزرنے والے لوگوں پر گھر کا اچھا اثر پڑے اور آنے والے مہمانوں پر خوش آئند اثرات مرتب ہوں۔

خاکسار کی اس تمہیدی وضاحت کے تناظر میں اگرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کو پڑھیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کا وجود ایک مکان کی طرح ہے جس کا دروازہ یا ڈیوڑھی منہ اور زبان ہے۔ جس کی صفائی ستھرائی گھر کی طرح بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ضروری ہے جس طرح عام مکانوں اور ڈیوڑھیوں کی صفائی کی جاتی ہے۔ اور جس طرح مہمان گھروں میں ڈیوڑھیوں کے ذریعہ داخل ہوتے ہیں جن میں کپڑے کا پوچا لگا ہوا ہو تو وہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ایک مومن کے وجود کے اندر اس کی ڈیوڑھی یعنی منہ اور زبان کے ذریعہ حلول کرتا ہے۔ جو پاک صاف ہونا ضروری ہے۔

قرآن میں غلط زبان کے استعمال کی ممانعت

آئیں! سب سے پہلے اللہ کی پاک کتاب ’’القرآن الکریم‘‘ سے اس حوالہ سے رہنمائی لیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ سورۃ فاطر آیت 11میں ایک مومن کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ عزّت کے طلبگار یاد رکھیں کہ عزّت، اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ تمہاری نیک اور پاک باتیں اس کی طرف چڑھ کر جاتی ہیں اور اس کے نتیجہ میں عمل منتج ہوتے ہیں وہ عمل اُس انسان کو بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ اس آیت کے الفاظ یوں ہیں۔

اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ

(فاطر: 11)

اس کے علاوہ قرآن کریم میں ایسی باتوں کے کرنے اور بعض باتوں سے رکنے کا ارشاد فرمایا ہے جن کا تعلق زبان سے ہے جیسے آواز کو دھیما رکھنا (لقمان: 20)، لوگوں سے نرم لہجہ سے گفتگو کرنا (البقرہ: 84)، اپنے بھائیوں کے لئے دُعا کرنا (الممتحنہ: 13) قول زور (جھوٹ) سے بچنا (الصف: 3-4)، بغیر علم کے کوئی بات کرنا (بنی اسرائیل: 37)، بہتان تراشی سے پرہیز (النساء: 113)، لوگوں پر عیب لگانے کی ممانعت (الحجرات: 12)، غیبت کرنے کی ممانعت (الحجرات: 14) وغیرہ وغیرہ۔ ان کے علاوہ بہت سی نیکیوں کی طرف قرآن توجہ دلاتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے جن کا تعلق زبان سے ہے۔

احادیث میں زبان کے استعمال کی تعلیم

آئیے! احادیث کے وسیع و عریض باغیچہ میں داخل ہوتے ہیں۔ دو منہ والے انسان کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بد ترین انسان قرار دیا جو ایک بات کسی سے کہے اور دوسروں کے پاس جا کر اور بات کرے۔

(مسلم کتاب البرو الصلہ)

  • پھر ایک موقع پر فرمایا کہ طعنہ زنی کرنے والا، دوسرے پر لعنت کرنے والا، فحش کلامی کرنے والا اور یاوہ گو زبان دراز مومن نہیں ہو سکتا۔

(حدیقۃ الصالحین صفحہ817)

  • ایک دفعہ آپؐ سے کسی نے نجات کے متعلق سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اَمْسِکْ لِسَانَکَ کہ اپنی زبان روک رکھو۔

(ترمذی باب حفظ اللّسان)

  • ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان کو اشارہ کر کے یا اُسے پکڑ کر سوال کرنے والے کو سمجھایا کہ اسے روک کر رکھو۔

حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات
کی روشنی میں زبان کی حفاظت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ

  • ’’حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص ناف کے نیچے کے عضو اور زبان کو شر سے بچاتا ہے اس کی بہشت کا ذمہ دار میں ہوں‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ382)

  • پھر فرمایا ‘‘ تم اپنی زبان پر حکومت کرو نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں اور اناپ شناپ بولتے رہو۔’’

(ملفوظات جلد1 صفحہ382)

  • پھر فرمایا ‘‘ خدا نے تعلیم دی ہے کہ زبان کو سنبھال کر رکھا جائے اور بے معنیٰ، بے ہودہ، بے موقع،غیر ضروری باتوں سے احتراز کیاجائے۔’’

(ملفوظات جلد1 صفحہ381)

  • پھر نہایت حکیمانہ اور پیارے انداز میں حضرت مسیح موعود ؑ احباب جماعت کو زبان کے درست استعمال کی طرف یوں توجہ دلاتے ہیں۔

’’یاد رکھو ہر قفل کے لئے ایک کلید ہے۔ بات کے لئے بھی ایک چابی ہے۔ وہ مناسب طرز ہے جس طرح دواؤں کے نسبت میں نے ابھی کہا ہے کہ کوئی کسی کے لئے مفید ہے اور کوئی کسی کے لئے مفید ہے۔ ایسے ہی ہر ایک بات ایک خاص پیرائے میں خاص شخص کے لئے مفید ہو سکتی ہے۔ یہ نہیں کہ سب سے یکساں بات کی جائے۔ بیان کرنے والے کو چاہئے کہ کسی کے بُرا کہنے کو بُرا نہ منائے بلکہ اپنا کام کئے جائے اور تھکے نہیں۔ امراء کا مزاج بہت نازک ہوتا ہے اور وہ دنیا سے غافل بھی ہو جاتے ہیں۔ بہت باتیں سُن بھی نہیں سکتے۔ انہیں کسی موقعہ پر کسی پیرائے میں نہایت نرمی سے نصیحت کرنا چاہئے۔‘‘

(ملفو ظات119-120 ایڈیشن 1984ء)

  • اسی مضمون کو ایک اور جگہ پر یوں بیان فرمایا کہ

’’جسے نصیحت کرنی ہو اُسے زبان سے کرو۔ ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرایہ میں ادا کرنے سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہے اور دوسرے پیرایہ میں دوست بنا دیتی ہے پس جَادِلْـهُـمْ بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ (النحل: 126) کے موافق اپنا عمل درآمد رکھو۔ اسی طرز کلام ہی کا نام خدا نے حکمت رکھا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ233)

تیز زبان کو چھری سے بھی مناسبت دی جاتی ہے جو اگر مناسب طرز پر استعمال نہ کی جائے تو رشتہ داروں اور خونی عزیزوں کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’زبان سے ہی انسان کافر ہو جاتا ہے۔ دنیامیں زبان سے ہی سب کام چلتے ہیں۔ زبان کو قابو میں رکھو۔ دیکھو عورت اور مرد کا آپس میں نکاح ہوتا ہے تو صرف زبان سے ہی اقرار لیا جاتا ہے اور صرف اتنا کہنے سے کہ میں تجھے طلاق دیتا ہوں۔ ان کا یہ سب رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد10 صفحہ16)

خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑنے کا محاورہ تو ہم نے سن رکھا ہے۔ ہمارے معاشرے اور خاندانوں میں بھی ہم اس محاورہ کا اطلاق ہوتا دیکھتے ہیں۔ اگر کسی خاندان میں کوئی کرخت موجود ہو، اس کو اپنی زبان پر قابو نہ ہو اور وہ اناپ شناپ بکتا ہو تو ہم نے بالعموم دیکھا ہے کہ یہ کرخت اور سخت زبان پھر آگے بچوں میں بھی چلتی ہے اِلَّامَا شَآءَ اللّٰہُ۔ ورنہ اولاد بھی جھگڑالو ہوتی ہے۔ اور جس گھر کے بڑے، اسلامی آداب سے مرصع ہوں۔ نرمی، خوش خلقی سے بات کرتے ہوں تو اس نیکی کا اثر آگے فیملی ممبرز میں جاری رہتا ہے۔ اور وہ گھرانہ با اخلاق ہوتا ہے۔

اس مضمون کو ایک شاعر نے کیا ہی اچھے انداز میں یوں بیان کیا ہے

سات نسلوں کا تعارف ہے لہجہ
جب کوئی بولے تو نام و نسب کھلتا ہے

شاعر نے اس شعر میں کہا ہے کہ انسان کے لہجہ سے اس کا اور اس کی فیملی کا نہ صرف تعارف ہوتا ہے بلکہ انسان کے طرز کلام سے اس کے خاندان کا نام و نسب بھی ظاہر ہوتا ہے۔

پس جماعت احمدیہ بھی ایک خاندان کی طرح ہے اور اس خاندان کے سربراہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں جن کا انداز ِ کلام نہایت دھیما، شفقت سے بھرا اور پُر کشش ہے ان کے منہ سے موتی بکھرتے ہیں اور ہر انسان کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے روحانی خاندان کے سربراہ کی حیاتِ مبارکہ کو اپنائیں اور ہمارے مونہوں سے بھی موتی جھڑیں جب ہم بات کریں۔ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا ہی کرے۔ آمین

جھوٹ کا رمضان سے کوئی تعلق نہیں

’’زبان وجود کی ڈیوڑھی ہے‘‘ کے مضمون کو آج رمضان کے موسم میں رمضان کے ساتھ نہ جوڑا جائے تو یہ مضمون ادھورا رہ جائے گا۔ اس ڈیوڑھی کے ذریعہ ایک مومن کھانا کھا کر سحر و افطار کرتا ہے اور اسے یہ تاکید کی جاتی ہے کہ ان مبارک ایّام میں حلال چیزیں بھی کچھ وقت کے لئے حرام کر دی گئی ہیں۔ حرام تو حرام ہی ہیں۔ ان سے اجتناب ضروری ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے

مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ االزُّوْرِ وَ الْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِیْ اَنْ یَّدَعْ طَعْمَہٗ وَ شَرَابَہٗ۔

(صحیح بخاری کتاب الصوم)

اس ارشاد نبویؐ کا ترجمہ یہ ہے کہ جو جھوٹی بات اور جھوٹے عمل کو نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو کوئی حاجت نہیں کہ وہ روزہ رکھ کر اپنا کھانا پینا چھوڑے۔ اللہ کی نظر میں ایسے روزوں کی کوئی وقعت نہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس حوالہ سے فرمایا تھا کہ
’’سب سے مہلک بیماری جھوٹ ہے۔ یہ ایسی بدی ہے جو سب نیکیوں کو کھا جاتی ہے۔ یہ ایسا تیزاب ہے جو سونے کو بھی گلا دیتا ہے۔ اس سے بچیں اور اپنے گھروں کو سچائی کی آماجگاہ بنادیں۔‘‘

پھر اسی کی تفصیل میں فرمایا کہ رمضان میں جھوٹ کے خلاف جہاد کریں اور دعائیں کریں۔ چھوٹے بڑے دعائیں کریں کہ اللہ ہمیں جھوٹ کی لعنت سے بچائے۔ بعض احمدی نیکیاں اختیار کرتے ہیں عام زندگی میں جھوٹ بھی نہیں بولتے۔ لیکن جب کبھی ایسا موقع آجائے گواہی دینی ہو،اسائلم لینا ہو تو فوراً جھوٹ بول دیتے ہیں۔ انشورنس کا ناجائز استعمال ہوتا ہے۔حکومت بھی دے رہی ہے اور آپ اپنا کام بھی کر رہے ہیں اور جب پکڑے جائیں تو جھوٹ بول دیتے ہیں۔‘‘

(الفضل 26فروری 1994ء)

ان اہم امور کی طرف ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی بار ہا توجہ دلا چکے ہیں اور سچائی کے ساتھ اپنے اسائلم کیس لڑنے کی تلقین فرمائی ہے۔

اسی طرح روزہ میں لڑائی جھگڑے کی ممانعت ہے کیونکہ جھگڑے کے دوران بھی زبان کا غلط استعمال ہو جاتا ہے۔ اسی پر فرمایا کہ تم جواباً کہو ’’اِنِّیْ صَآئِمٌ‘‘ کہ میں روزے سے ہوں۔

پس آئیں! اس رمضان کو سچائی کا رمضان بنا دیں اور اپنے گھروں اور وجود سے جھوٹ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

اختتام قاعدہ یسرناالقرآن و آغاز قرآن کریم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اپریل 2022