دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 21
اپنی زبان میں دعا کرنے کی حکمت
جب ایک راستباز بندہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور وفاداری کے اعلیٰ درجہ پر پہنچ کر فنا فی اللہ ہوجاتا ہے اور کمال درجہ کی نیستی ظہور پاتی ہے اس وقت وہ ایک نمونہ خدا کا ہوتا ہے اور حقیقی طورپر وہ اس وقت کہلا تا ہے اَنۡتَ مِنِّیۡ یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے جو دعا سے ملتا ہے۔ یاد رکھو دعا جیسی کوئی چیز نہیں ہے اس لئے مومن کا کام ہے کہ ہمیشہ دعا میں لگا رہے اور اس استقلال اور صبر کے ساتھ دعا کرے کہ اس کو کمال کے درجہ تک پہنچادے اپنی طرف سے کوئی کمی اور دقیقہ فروگزاشت نہ کرے اور اس بات کی بھی پروا نہ کرے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا بلکہ
گر نباشد بدست راہ بردن
شرط عشق است در طلب مردن
جب انسان اس حد تک دعا کو پہنچاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس دعا کا جواب دیتا ہے جیسا کہ اس نے وعدہ فرمایا ہے اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن: 61) یعنی تم مجھے پکارو میں تمہیں جواب دوں گا۔ اور تمہاری دعا قبول کروں گا۔ حقیقت میں دعا کرنا بڑا ہی مشکل ہے۔ جب تک انسان پورے صدق و وفا کے ساتھ اور صبر اور استقلال سے دعا میں لگا نہ رہے تو کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں جو دعا کرتے ہیں مگر بڑی بیدلی اور عجلت سے چاہتے ہیں کہ ایک ہی دن میں ان کی دعا مثمر بہ ثمرات ہوجاوے حالانکہ یہ امر سنت اللہ کے خلاف ہے اس نے ہر کام کے لئے اوقات مقرر فرمائے ہیں اور جس قدر کام دنیا میں ہورہے ہیں وہ تدریجی ہیں۔ اگرچہ وہ قادر ہے کہ ایک طرفۃ العین میں جو چاہے کردے اور ایک کُنۡ سے سب کچھ ہوجاتا ہے مگر دنیا میں اس نے اپنا یہی قانون رکھا ہے۔ اس لئے دعا کرتے وقت آدمی کو اس کے نتیجہ کے ظاہر ہونے کے لئے گھبرانا نہیں چاہیئے۔
یہ بھی یاد رکھو دعا اپنی زبان میں بھی کرسکتےہو بلکہ چاہیئے کہ مسنون ادعیہ کے بعد اپنی زبان میں آدمی دعا کرے کیونکہ اس زبان میں وہ پورے طورپر اپنے خیالات اور حالات کا اظہار کرسکتا ہے اس زبان میں وہ قادر ہوتا ہے۔
دعا نماز کا مغز اور روح ہے اور رسمی نماز جب تک اس میں روح نہ ہو کچھ نہیں اور روح کے پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ گریہ و بکا اور خشوع و خضوع ہو اور یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی حالت کو بخوبی بیان کرے اور ایک اضطراب اور قلق اس کے دل میں ہو اور یہ بات اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی۔ جب تک اپنی زبان میں انسان اپنے مطالب کو پیش نہ کرے۔ غرض دعا کے ساتھ صدق اور وفا کو طلب کرے اور پھر اللہ تعالیٰ کی محبت میں وفاداری کے ساتھ فنا ہو کر کامل نیستی کی صورت اختیار کرے۔ اس نیستی سے ایک ہستی پیدا ہوتی ہے جس میں وہ اس بات کا حقدار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے کہے کہ اَنۡتَ مِنِّیۡ۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ5-7 آن لائن ایڈیشن 1984ء)
نماز اور دعا
سو تم نمازوں کو سنو ارو اور خداتعالیٰ کے احکام کو اس کے فرمودہ کے بموجب کرو۔ اس کی نواہی سے بچے رہو۔ اس کے ذکر اور یاد میں لگے رہو۔ دعا کا سلسلہ ہر وقت جاری رکھو اپنی نماز میں جہاں جہاں رکوع و سجود میں دعا کا موقع ہے دعا کرو۔ اور غفلت کی نماز کو ترک کردو۔ رسمی نماز کچھ ثمرات مترتب نہیں لاتی اور نہ وہ قبولیت کے لائق ہے۔ نماز وہی ہے کہ کھڑے ہونے سے سلام پھیرنے کے وقت تک پورے خشوع خضوع اور حضور قلب سے ادا کی جاوے اور عاجزی اور فروتنی اور انکساری اور گریہ و زاری سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس طرح سے ادا کی جاوے کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہو۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تو کم از کم یہ تو ہو کہ وہی تم کو دیکھ رہا ہے۔ اس طرح کمال ادب اور محبت اور خوف سے بھری ہوئی نماز ادا کرو۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ236)
نماز کے بعد دعا
سوال ہوا کہ نماز کے بعد دعا کرنا یہ سنت اسلام میں ہے یا نہیں؟ فرمایا:
ہم انکار نہیں کرتے۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی ہوگی مگر ساری نماز دعا ہی ہے اور آج کل دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نماز کو جلدی جلدی ادا کرکے گلے سے اتارتے ہیں۔ پھر دعاؤں میں اس کے بعد اس قدر خشوع خضوع کرتے ہیں کہ جس کی حد نہیں اور اتنی دیر تک دعا مانگتے رہتے ہیں کہ مسافر دو میل تک نکل جاوے۔ بعض لوگ اس سے تنگ بھی آجاتے ہیں تو یہ بات معیوب ہے۔ خشوع و خضوع اصل جزو تو نماز کی ہے وہ اس میں نہیں کیا جاتا۔ اور نہ اس میں دعا مانگتے ہیں۔ اس طرح سے وہ لوگ نماز کو منسوخ کرتے ہیں۔ انسان نماز کے اندر ہی ماثورہ دعاؤں کے بعد اپنی زبان میں دعا مانگ سکتا ہے۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ367)
ہمیشہ دعا میں لگے رہو
میں تو ہمیشہ دعا کرتا ہوں مگر تم لوگوں کو بھی چاہیئے کہ ہمیشہ دعا میں لگے رہو۔ نمازیں پڑھو اور توبہ کرتے رہو۔ جب یہ حالت ہوگی تو اللہ تعالیٰ حفاظت کرے گا اور اگر سارے گھر میں ایک شخص بھی ایسا ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کے باعث سے دوسروں کی بھی حفاظت کرے گا۔ کوئی بلا اور دکھ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے سوا نہیں آتا اور وہ اس وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور مخالفت کی جاوے۔ ایسے وقت پر عام ایمان کام نہیں آتا بلکہ خاص ایمان کام آتا ہے۔ جو لوگ عام ایمان رکھتے ہیں وہ ان بلاؤں سے حصہ لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی پروا نہیں کرتا مگر جو خاص ایمان رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع کرتا ہے اورآپ ان کی حفاظت فرماتا ہے مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہ۔
… میں اگر کسی کے لئے دعا کروں اور خداتعالیٰ کے ساتھ اس کا معاملہ صاف نہیں وہ اس سے سچا تعلق نہیں رکھتا تو میری دعا اس کو کیا فائدہ دے گی؟ لیکن اگر وہ صاف دل ہے اور کوئی کھوٹ نہیں رکھتا تو میری دعا اس کے لئے نُوْرٌ عَلیٰ نُوْر ہوگی۔
زمینداروں کو دیکھا جاتا ہے دو دو پیسے کی خاطر خدا کو چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ خدا انصاف اور ہمدردی چاہتا ہے اور وہ پسند کرتا ہے کہ لوگ فسق فحشا اور بے حیائی سے باز آویں۔ جو ایسی حالت پیداکرتے ہیں تو خداتعالیٰ کے فرشتے ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ مگر جب دل میں تقویٰ نہ ہو اور کچھ حصہ شیطان کا بھی ہو تو خدا شراکت پسند نہیں کرتا اور وہ سب چھوڑ کر شیطان کا کردیتا ہے کیونکہ اس کی غیرت شرکت پسند نہیں کرتی۔ پس جو بچنا چاہتا ہے اس کو ضروری ہے کہ وہ اکیلا خدا کا ہو مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہ۔ خدا تعالیٰ کبھی کسی صادق سے بیوفائی نہیں کرتا ساری دنیا بھی اگر اس کی دشمن ہو اور اس سے عداوت کرے تو اس کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتی۔ خدا بڑی طاقت اور قدرت والا ہے اور انسان ایمان کی قوت کیساتھ اس کی حفاظت کے نیچے آتا ہے اور اس کی قدرتوں اور طاقتوں کے عجائبات دیکھتا ہے پھر اس پر کوئی ذلت نہ آوے گی۔ یاد رکھو خداتعالیٰ زبردست پر بھی زبردست ہے بلکہ اپنے امر پر بھی غالب ہے۔ سچے دل سے نمازیں پڑھو اور دعاؤں میں لگے رہو۔ اور اپنے سب رشتہ داروں اور عزیزوں کو یہی تعلیم دو۔ پورے طورپر خدا کی طرف ہو کر کوئی نقصان نہیں اٹھاتا۔ نقصان کی اصل جڑ گناہ ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ 67-70)
(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)