• 7 مئی, 2024

علم وعمل (قسط دوم)

علم وعمل
قسط دوم

اطاعت اور فرمانبرداری دین حق کی ایک بنیادی تعلیم ہے۔ دین حق کا مطلب ہی فرمانبرداری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہےکہ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوا (تغابن: 17) ایک مسلمان کی شان یہ ہے کہ اس کی زبان پر ہمیشہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کے الفاظ ہوں اور اس کا عمل اس کے مطابق ہو۔ ایک صحابیؓ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سنا کہ بیٹھ جاؤ۔ بظاہر مخاطب لوگ کوئی اور تھے لیکن وہ صحابیؓ اسی جگہ بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے گھسٹتے ہوئے مسجد نبوی میں حاضر خدمت ہوئے۔ ایسا ہی واقعہ حضرت مسیح موعود ؑکی زندگی میں بھی پیش آیا۔ آپ کے رفیق کاطرز عمل بھی وہی تھا۔ حضرت مولانا نور الدین صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دہلی سے ارشاد ملا کہ فوراً آ جاؤ۔ آپ اس وقت مطب میں مصروف تھے۔ ارشاد سنتے ہی دہلی جانے کے لئے روانہ ہو گئے۔ راستہ سے گھر والوں کو پیغام بھجوادیا کہ میں ارشاد کی تعمیل میں اپنے آقا کے قدموں میں حاضر ہو رہا ہوں۔ ریل کے ٹکٹ کے پیسے بھی جیب میں نہ تھے۔ اس توکّل کا پھل اللہ تعالیٰ نے اس طرح دیا کہ غیب سے غیر معمولی حالات میں اس کے اسباب مہیا کر دئیے اور نور الدینؓ پروانہ وار حاضر خدمت ہو گیا۔

حضرت حافظ روشن علی صاحب کی مثال سنئے۔ ابتدائی زندگی میں تنگدستی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے پاس صرف ایک جوڑا کپڑوں کا ہوا کرتا تھا۔ آپ ہر جمعہ کی رات وہ جوڑا دھو لیتے اور جمعہ کی صبح کو پہن لیتے تھے۔ ایک رات سردیوں کے موسم میں وہ جوڑا آپ نے دھویا ہوا تھا کہ رات کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے پیغام آیا کہ گورداسپور کرم دین والے مقدمے کی پیشی کے لئے ابھی روانہ ہونا ہے آپ بھی آ جائیں۔ حضرت حافظ روشن علی صاحب کی اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ دیکھئے کہ آپ نے وہ کپڑے گیلے ہی پہن لئے اور سردی سے بچاؤ کے لئے اُوپر سے لحاف لے لیا اور فوراً حضور کے ساتھ چل پڑے۔

(تنویر القلوب جلد اوّل صفحہ 117)

اطاعت اور فرمانبرداری اس کو کہتے ہیں۔ نہ کوئی معذرت نہ کوئی عذر اور نہ ہی کوئی وضاحت یا تاخیر۔ ارشاد سنا اور اس کی تعمیل کو سعادت جانا۔

قرآن کریم میں انصار صحابہ کرامؓ کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

وَیُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَلَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ

(الحشر: 10)

کہ ایسے نیک بندے ہیں جو اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں باوجود اس کے کہ انہیں خود تنگی در پیش ہوتی تھی۔ ایثار کی یہ خوبی اسلامی اخلاق فاضلہ میں سے ہے۔ دوسروں کی ضروریات اور حاجات کو مقدم کرنا اور دوسروں کی خاطر دکھ اُٹھا کر انہیں آرام مہیا کرنا انسان کی عالی ظرفی، ہمدردی اور نیکی کوثابت کرتا ہے۔ تاریخ اسلام کے اوّلین دور میں صحابہ کرامؓنے اپنے عمل سے ایسی زرّیں داستانیں رقم کی ہیں جو اپنی عظمت کے اعتبار سے آج بھی زندہ ہیں اور زندگی بخش ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک فاقہ زدہ شخص آیا۔ اتفاق سے آپ کے گھر میں اس روز پانی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ آپ ؐ نے صحابہؓ سے کہا کہ کون ہے جو آج اس کی مہمانی کا حق ادا کرے گا؟ حضرت ابو طلحہؓ نے اس مہمان کو ساتھ لیا اور اپنے گھر لے آئے لیکن اتفاق ایسا تھا کہ ان کے گھر میں بچوں کے کھانے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ دونوں میاں بیوی نے بچوں کو بھوکا سلا دیا اور ان کا کھانا مہمان کے آگے رکھ دیا اور کسی بہانہ سے چراغ بجھا دیا۔ مہمان نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا اور دونوں میاں بیوی نے بھوکے پیاسے رات بسر کی اور مہمان کو اس بات کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔ کتنا پیارا ایثار تھا حضرت طلحہ ؓ اور ان کی بیوی کا کہ صبح کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بشارت دی کہ عرش پر خدا بھی تمہارے اس فعل سے بہت خوش ہوا۔

ایک جنگ میں تین صحابہؓ سخت زخمی ہو گئے۔ پیاس کی شدت سے جان بلب تھے۔ ایک صحابیؓ کو پانی پیش کیا گیا تو اُن کی نظر دوسرے پیاسے پر پڑی۔ فرمایا پہلے اُسے دو۔ دوسرا پانی پینے لگا تو تیسرے پر نظر پڑی۔ کہ وہ پیاس سے بے تاب ہے۔ اُس نے کہا کہ پہلے تیسرے کو پانی پلاؤ۔ پانی پلانے والا اس تیسرے کے پاس آیا تو وہ شہید ہو چکا تھا۔ جلدی میں دوسرے کی طرف لَوٹا تو وہ بھی دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔ پہلے کی طرف جلدی سے پلٹا تو دیکھا کہ وہ بھی جام شہادت نوش کر چکا ہے!ایسا ایثار دنیا کی تاریخ میں یقینا بے مثال ہے کہ ہر ایک دوسرے کو اپنی ذات پر مقدم رکھتا ہے اور تینوں ہی یکے بعد دیگرے اپنی جانیں نچھاور کر دیتے ہیں۔

حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی روایت ہے کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت مہمان آئے جن کے پاس سرمائی بستر نہ تھے۔ موجود بستر ختم ہو جانے پر منتظمین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے اندر سے بستر منگوانے شروع کئے اور مہمانوں کی ضروریات پوری کی گئیں۔منشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں عشا کے بعد گھر کے اندر حاضر ہوا تو میں نے یہ نظارہ دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سردی کی وجہ سے بغلوں میں ہاتھ دئیے بیٹھے تھے۔ ساتھ ہی صاحبزا دہ محمود لیٹے ہوئے تھے۔جن کے اُوپر مسیح پاک نے اپنا چوغہ اتار کر دیاہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ مسیح پاک علیہ السلام نے اپنا اور بچوں کا لحاف اور بچھونا،سب کا سب مہمانوں کے لئے بھجوا دیا تھا۔ منشی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ آپ کے پاس تو کوئی ایک بستر بھی نہیں رہا جبکہ سردی بہت زیادہ ہے آپ نے فرمایا۔
منشی صاحب! مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے۔ اور ہمارا کیا ہے۔رات کسی نہ کسی طرح گزر ہی جائے گی۔’’

(رفقاء احمد جلد4 صفحہ113)

اور اب سنئے حضرت مسیح پاک کے ایک تربیت یافتہ اور بے لوث خدمت گزار حضرت حافظ معین الدین صاحب کا ایک دل گداز واقعہ۔ ان کا واقعہ سنتے ہوئے ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال بھی کرنا چاہئے کہ ہم ان کی جگہ ہوتے تو کیا ہم بھی ایسا ہی کرتے؟ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار جب حضرت مسیح پاک علیہ السلام جالندھر تشریف لے گئے تو مجھے حکم دیا کہ تم ہمارے مکان میں رہنا۔ خرچ کے لئے ایک چونّی مجھے دے گئے اور ساتھ ہی فرمایا کہ اگر کچھ قرض کسی سے لو گے تو میں آ کر ادا کر دوں گا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں کبھی ننگل گاؤں میں جا کر روٹی کھا لیتا اور کبھی درختوں کے پتے کھا کر دن گزار دیتا۔ ایک روز ہشیار پور سے ایک مہمان آ گیا۔ میں نے اس کو کہیں سے روٹی لا کر کھلائی۔ صبح کے وقت اپنے ہمسایہ کے گھروں سے آٹا مانگ کر اور ایک دوسرے گھر سے روٹی پکوا کر اس کو کھلائی۔ اور اسی طرح شام کو بھی اس کو کھانا کھلایا۔ تیسرے روز بھی وہ یہیں رہا حالانکہ حضرت صاحب یہاں نہیں تھے۔ میں اس کو لے کر قریبی گاؤں گیا اور اُس کو ایک دکان پر بٹھا کر گھر گھر جا کر لوگوں سے دانے مانگے۔ جب ایک سیر کے قریب دانے ہو گئے تو کسی کے گھر جا کر چکّی سے انہیں پیسا اور آٹا لے کر اس کے ساتھ قادیان آیا اور روٹی پکوا کر اس کو کھلائی۔ چوتھے روز وہ خود چلا گیا۔

کسی نے حافظ معین الدین صاحب سے پوچھا کہ آپ نے یہ گداگری کیوں کی؟ تو آپ نے فرمایا۔
’’میں نے اپنے واسطے تو گداگری کبھی نہیں کی مگر مہمان کو روٹی کھلانی تو ضروری تھی۔‘‘

(رفقائے احمد جلد13 صفحہ310)

قرآن مجید میں بار بار اس بات کی تاکید آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے اموال خرچ کرو۔ انفاق فی سبیل اللہ کو مذہب اسلام میں جہاد کا درجہ حاصل ہے۔ مال کی محبت انسان کی طبیعت میں رچی بسی ہوئی ہے۔ محنت سے کمائے ہوئے مال کو راہ خدا میں خرچ کرنا ہر زمانہ میں ایک امتحان رہا ہے اور بالخصوص مادی ترقی کے اس دور میں تو انسان کے ایمان کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ راہِ خدا میں خرچ کرنے والا ہے یا نہیں۔ ہاں وہ لوگ جو اس بات پر محکم یقین رکھتے ہیں کہ دولت کا دینے والا خدا ہے یہ ہماری کوشش اور محنت کا نتیجہ نہیں، ان کے لئے یہ مرحلہ بہت آسان ہو جاتا ہے۔ وہ کھلے دل کے ساتھ پوری بشاشت کے ساتھ راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرتے چلے جاتے ہیں اور سجداتِ شکر بجا لاتے ہیں کہ ہمارے مولیٰ نے ہمیں توفیق دی ہے۔

انفاق فی سبیل اللہ کے واقعات سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے اس اسلامی تعلیم پر جس طرح دل و جان سے عمل کیا وہ تاریخ عالم میں بے مثل ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ایک غزوہ کے موقع پر نصف مال پیش کر دیا اور سوچا کہ میں اس میدان میں سب پر سبقت لے گیا ہوں۔ تھوڑی دیر میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ آئے اور اپنا سارا مال پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔ مسابقت کی یہ دلفریب ادائیں ان فدائیوں نے کہاں سے سیکھیں؟ ان کے معلم، ہمارے معلّم اور کل جہان کے معلّم اور ساری دنیا کے لئے اسوہٴ حسنہ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو اخلاق فاضلہ کے ہر میدان میں ہمیشہ سب سے آگے اور سب کے لئے بہترین نمونہ تھے۔

اس دورِ آخرین میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِسی دبستان ِ محمد ؐ سے یہ اخلاق سیکھے اور اُن پر ایسا عمل کر کے دکھایا کہ آپ کے در پر دھونی رَما کر بیٹھنے والوں میں بھی یہی اخلاقِ فاضلہ جگمگاتے نظر آتے ہیں۔ ابتدائی زمانہ کی بات ہے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کو ایک اشتہار شائع کرنے کے لئے ساٹھ روپے کی ضرورت تھی۔ آپ نے حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی سے فرمایا کہ ضرورت فوری ہے کیا ممکن ہے کہ آپ کی جماعت اس ضرورت کو پورا کر سکے؟حضرت منشی صاحب نے حامی بھر لی اور تھوڑی دیر میں مطلوبہ رقم لا کر حضور کی خدمت میں پیش کر دی۔ چند روز بعد حضرت منشی اروڑے خان صاحب ملنے آئے اور حضور نے کپورتھلہ جماعت کا شکریہ ادا کیا کہ آپ لوگوں نے بروقت مدد کی اس پر یہ راز کھلا کہ منشی ظفر احمد صاحب نے تو جماعت کے کسی دوست سے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔صرف اپنی بیوی کا زیور بیچ کر فوری طور پر جماعتی ضرورت پوری کر دی تھی! کتنی جان نثاری اور کتنی خاکساری اور کتنی بے نفسی ہے اس ایک واقعہ میں۔

حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے واقعہ سے مجھے دورِآخرین کے حضرت میاں شادی خان صاحب کی یاد آئی۔ سیالکوٹ کے لکڑی فروش بہت متوکّل انسان تھے۔ تنگدست تھے لیکن دل کے بادشاہ۔ ان کے بارہ میں مسیح پاک علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ انہوں نے۔ ’’در حقیقت وہ کا م کیا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہٗ نے کیا تھا۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ315)

اس فدائی انسان کا نمونہ یہ تھا کہ انہوں نے ایک موقعہ پر اپنے گھر کا سارا سازوسامان فروخت کر کے تین سو روپے حضور کی خدمت میں پیش کر دئیے۔ اُس زمانہ کے لحاظ سے یہ بہت بڑی قربانی تھی۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے ایک مجلس میں اس پر اظہار ِ خوشنودی فرمایا کہ میاں شادی خان نے تو اپنا سب کچھ پیش کر دیا۔ میاں شادی خان صاحب نے سنا تو سیدھے گھر گئے۔ ہر طرف نظر دوڑائی سارا گھر خالی ہو چکا تھا صرف چند چارپائیاں باقی تھیں۔ فوری طور پر ان سب کو بھی فروخت کر ڈالا اور ساری رقم لا کر حضور کے قدموں میں ڈال دی اور حضور کے منہ سے نکلی ہوئی بات لفظاً لفظاً پوری کردی۔

انفاق فی سبیل اللہ کی توفیق کسی انسان کو تب ملتی ہے جب اس کو توکل علی اللہ کی نعمت نصیب ہوئی ہو۔ اس تعلق میں حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی کا خوبصورت نمونہ یاد رکھنے کے لائق ہے۔ آپ کے صاحبزادے حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب بیان کرتے ہیں۔

’’ہمارے گھر میں خرچ نہ تھا۔ میرے والد صاحب نے میری والدہ سے پوچھا، آٹا ہے؟ کہا نہیں۔ مال ہے؟ جواب نفی میں ملا۔ ایندھن ہے؟وہی جواب تھا۔ جیب میں ہاتھ ڈالا۔ صرف دو روپے تھے فرمانے
لگے۔ اس میں تو اتنی چیزیں پوری نہیں ہوسکتیں۔ اچھا میں ان دو روپوں سے تجارت کرتا ہوں۔ وہ دو روپے کسی غریب کو دے کر خود نماز پڑھنے چلے گئے۔ راستہ میں اللہ تعالیٰ نے دس روپے بھیج دئیے۔ واپس آ کر فرمایا۔ ’’لو میں تجارت کر آیا ہوں۔ اب سب چیزیں منگوالو۔ اللہ کی راہ میں مال دینے سے گھٹتا نہیں،بڑھتا ہے۔‘‘

(انعامات خدا وند کریم صفحہ 221-222)
تصنیف حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد لدھیانوی)

بنی نوع انسان کی ہمدردی اور غم خواری اسلام کی ایک بنیادی تعلیم ہے۔ دوسروں کے آرام کا خیال رکھنا اور ان کی خاطر خود تکلیف اُٹھا کر ان کے آرام کا خیال رکھنا بہت ہی عمدہ خلق ہے۔ ہر شخص دل میں یہ نیک جذبات اور ارادے تو ضرور رکھتا ہے لیکن جب تک ان ارادوں کو عمل میں نہ ڈھالا جائے اس وقت تک اس فرض کا حق ادا نہیں ہوتا۔ یہ میدان بہت وسیع ہے اور اس خلق کو اپنی زندگیوں میں جاری کرنے کے بے شمار انداز ہیں۔ میں چند مثالیں عرض کرتاہوں۔ ذرا دیکھیں کہ یہ مثالیں ہم سب کے لئے دعوت عمل کا کتنا زور دار پیغام اپنے اندر رکھتی ہیں۔

حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ ٗ کو جب اللہ تعالیٰ نے خلیفہ مقرر فرمایا تو آپ کو دوسروں کے آرام اور ضروریات کا اتنا خیال رہتا کہ آپ راتوں کو عموماً گشت کیاکرتے اور براہِ راست یہ معلوم کرتے کہ لوگ کس حال میں زندگی گزاررہے ہیں۔ ایک رات یہ نظارہ دیکھا کہ ایک عورت کھانا پکا رہی ہے اور بچے اس کے پاس بھوک کی شدت سے چلا رہے ہیں پوچھا کہ بچوں کو کھانا کیوں نہیں دیتی؟ تو کہنے لگی کہ ہنڈیا میں کھانا نہیں، پتھر ڈالے ہوئے ہیں اور بھوکے بچوں کو بہلانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ حضرت عمرؓ پر یہ دیکھ کر کپکپی طاری ہو گئی۔ بڑھیا اور بچوں کی حالت دیکھ کر اپنی ذمہ داری کے حوالے سے ندامت میں ڈوب گئے۔ فوراً واپس آئے اور بیت المال سے کھانے کے سامان کی بوری تیار کی غلام سے کہا کہ اسے اُٹھا کر میری کمر پر رکھ دو۔ غلام کہنے لگا کہ امیر المومنین آپ کیوں اٹھاتے ہیں میں اس خدمت کے لئے حاضر ہوں۔ فرمایا دنیا میں تو تم یہ بوجھ میرے لئے اُٹھا سکتے ہو لیکن قیامت کے روز تم میرا کوئی بوجھ نہیں اُٹھا سکتے! امیر المومنینؓ نے بوری اپنی کمر پر اٹھائی۔ بڑھیا کے گھر لائے۔ کھانا تیار ہوا اور بچوں نے کھایا اور بڑے مزے کی نیند سوئے۔ بڑھیا نے خوش ہو کر کہا۔ خدا آپ کو جزا دے، امیر المومنینؓ بننے کے اہل تو آپ ہیں نہ کہ عمر۔ حضرت عمرؓ کی عظمتِ کردار دیکھئے اور خاموش خدمت کا حسین انداز دیکھئے کہ بڑھیا کو ندامت سے بچانے کے لئے آپ نے بڑھیا پر یہ راز نہ کھولا کہ وہ عمر تو میں ہی ہوں۔ عاجزی اور خاکساری سے سر جھکا کر رخصت ہوگئے۔

حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے زمانے کی بات ہے ایک دفعہ بہت رات گئے ایک مہمان آگیا۔ اس وقت گھر میں کوئی چارپائی خالی نہ تھی۔ سب سو رہے تھے۔ حضور نے مہمان سے کہا کہ ذرا ٹھہریں میں ابھی انتظام کرتا ہوں۔ آپ یہ فرما کر اپنے گھر کے اندر تشریف لے گئے اور پھر دیر تک باہر تشریف نہ لائے مہمان نے سوچا کہ شاید آپ بھول گئے ہیں اس وقت چارپائی کا کوئی انتظام نہیں ہو سکا اس لئے آپ واپس نہیں آئے۔ اتنے میں اس نے ایک نظارہ دیکھا اور حیرت کی تصویر بن گیا۔ اس نے ڈیوڑھی میں سے گھر کے اندر جھانک کر دیکھا کہ اندر صحن میں ایک صاحب جلدی جلدی چارپائی بُن رہے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اپنے دست ِمبارک میں مٹی کا ایک دیا پکڑے اُس کے پاس کھڑے ہیں۔ تھوڑی دیر میں چارپائی تیار ہوئی تو وہ اُس مہمان کو پیش کر دی گئی۔ یہ نظارہ دیکھ کر مہمان کی عجیب حالت تھی۔ عرقِ ندامت میں غرق کہ میں نے آدھی رات کوحضور علیہ السلام کو اِس قدر تکلیف دی۔ اُدھر حضرت مسیح علیہ السلام کا خُلق دیکھئے کہ آپ با ر بار اُس مہمان سے معذرت خواہ ہیں کہ معاف کرنا چارپائی لانے میں بہت دیر ہوگئی۔

انسان اپنے لئے، اپنے بیوی بچوں کے لئے دعائیں کرتا ہے۔ دوسروں کے لئے بھی دعائیں کرنے کی توفیق ملتی ہے کہ یہ بھی اسلامی تعلیمات میں شامل ہے لیکن دوسروں کے لئے دعا کرنے کا جو واقعہ میں ذکر کرنے لگا ہوں کم لوگوں نے سنا ہو گا اور بہت تھوڑے ہوں گے جو کبھی خود اس کیفیت سے گزرے ہوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے زمانے کا واقعہ ہے۔ چوہدری حاکم دین صاحب بورڈنگ کے ایک ملازم تھے۔ ان کی بیوی پہلے بچے کی ولادت کے وقت بہت تکلیف میں تھی۔ اِس کربناک حالت میں رات کے بارہ بجے وہ حضرت خلیفۃ المسیح ا لاوّل کے دروازہ پرحاضر ہوئے۔ دروازہ پر دستک کی آواز سن کر پوچھا کون ہے؟ اجازت ملنے پر اندر جا کر زچگی کی تکلیف کا ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی حضور فوراً اُٹھے، اندر جا کر ایک کھجور لے کر آئے اُس پر دعا کر کے اُنہیں دی اور فرمایا۔ یہ اپنی بیوی کو کھلا دیں اور جب بچہ ہو جائے تو مجھے بھی اطلاع دیں۔ چوہدری حاکم دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں واپس آیا کھجور بیوی کو کھلا دی اور تھوڑی ہی دیر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچی کی ولادت ہوئی۔ رات بہت دیر ہو چکی تھی میں نے خیال کیا کہ اتنی رات گئے دوبارہ حضور کو اِس اطلاع کے لئے جگانا مناسب نہیں۔ نماز فجر میں حاضر ہو کر میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھجور کھلانے کے جلد بعد بچی پیدا ہوگئی تھی۔ اِس پر حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل نے جو فرمایا وہ سننے اور یاد رکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ دل گدازالفاظ طبیعت میں رقت پیدا کر دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔
’’میاں حاکم دین! تم نے اپنی بیوی کو کھجور کھلا دی اور تمہاری بچی پیدا ہوگئی۔ تم اور تمہاری بیوی آرام سے سو گئے۔ مجھے بھی اطلاع دے دیتے تو میں بھی آرام سے سو رہتا۔ میں تو ساری رات جاگتا رہا اور تمہاری بیوی کے لئے دعا کرتا رہا۔‘‘

چوہدری حاکم دین صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا اور بے اختیار رو پڑے اور کہنے لگے۔

’’کہاں چپڑاسی حاکم دین اور کہاں نور الدین اعظم۔‘‘

(مبشرین احمد صفحہ38 نیز رفقائے احمدجلد8 صفحہ71-72)

ہمارے محبوب آقا سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ تین باتیں جن سے انسان کو ایمان کی حلاوت اور مٹھاس محسوس ہوتی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ حا لتِ کفر سے ایک بار نکل آنے کے بعد دوبارہ کفر کر طرف لوٹ جانے کو اتنا ہی نا پسند کرے جتنا آگ میں دوبارڈالے جانے کو۔ یہ ہے وہ استقامت جو ایک سچے مومن کی نشانی ہے۔ ایک مومن کو خواہ وہ پیدائشی مومن ہو یا بعد میں اسلام لایا ہو، زندگی کے دوران ایسے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جن میں اُس کے ایمان کا امتحان لیا جاتا ہے۔ لیکن حالات خواہ کچھ بھی ہوں،مصائب کتنے بھی شدید ہوں ہر حالت میں پوری استقامت کے ساتھ ایمان پر قائم رہنا ایک سچے مومن کی شان ہے۔ اسلام کی سچائی کا یقین اگر علم ہے تو اس ایمان پر قائم رہنا اور استقامت سے قائم رہنا عمل صالح ہے۔ تاریخ اسلام کا ہر دور ایسی روشن مثالوں سے منوّر نظر آتا ہے کہ مسلمانوں نے ہر مصیبت برداشت کی، ہر امتحان میں سرخرو ہوئے، حتیٰ کہ بعض نے اس راہ میں اپنی جانیں بھی قربان کر دیں لیکن ایک بارایمان کا مزہ چکھ لینے کے بعد پھر اس شیریں جام کو اپنے منہ سے کبھی جدا نہیں کیا۔اپنے عمل سے انہوں نے صبر و استقامت کی ایسی تاریخ رقم کی کہ ہمیشہ ایک مثال کے طور پر پیش کی جاتی رہے گی۔ واقعات کی تعداد اتنی ہے کہ انتخاب ایک مسئلہ ہے اور واقعات اس قدر دردناک ہیں کہ بیان کی طاقت نہیں۔

حضرت بلالؓ کا ظالم آقا آپ کو چلچلاتی دھوپ میں گرم ریت پر لٹا دیتا اور سینہ پر بھاری گرم پتھر رکھ دیتا کہ آپ حرکت بھی نہ کر سکیں لیکن آفرین ہے سیدنا بلالؓ کی استقامت پر کہ اس حالت میں بھی احد احد کے الفاظ کہتے ہوئے توحید الٰہی کا اقرار کرتے چلے جاتے۔ حضرت خبابؓ کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا جاتا۔ ظالم آقا ان کے سینے پر سوار ہو جاتا اور یہ عذاب اس وقت جا کر ختم ہو تا جب جسم کی رطوبت نکل نکل کر آگ کو سرد کر دیتی۔ حضرت عمّار بن یاسر استقامت کا ایک بلند مینار تھے۔ ان کو اور ان کے والدین کو ظالموں نے ایسے ایسے زہرہ گداز مظالم کا نشانہ بنایا کہ آج بھی اُن کا ذکر آنے پر انسانیت کی جبیں عرقِ ندامت سے تَر ہو جاتی ہے۔ظالم ابوجہل نے ان کی والدہ کی شرم گاہ میں نیزہ مار کر شہید کر دیا۔ بدبخت ظالموں نے سب کچھ کیا لیکن ان کے ایمان اور استقامت کو متزلزل نہ کر سکے۔ کیوں نہ ایسا ہوتا وہ اُس خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے جا نثاروں میں سے تھے جن پر تاریخ انسانیت میں سب نبیوں سے زیادہ مظالم روا رکھے گئے۔ جس طرح اُس کوہِ صبر و استقامت کے سامنے ظلم کی ہر چوٹی سر نگوں ہوتی رہی اُسی طرح اُس کے جانثاروں نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ وہ صبر و استقامت کے سامنے ظلم کی ہر چوٹی سر نگوں ہوتی رہی اُسی طرح اُس کے جانثاروں نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ وہ صبر و استقامت کے بادشاہ کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔

یہ واقعات ایسے نہیں کہ محض تاریخ کے صفحات کی زینت بن چکے ہوں بلکہ یہ وہ زندہ و پائندہ صداقتیں ہیں جو اِس دور میں بھی بڑی شان سے دوہرائی جا رہی ہیں۔ صاحبزادہ سید عبد اللطیف شہید کی عظیم الشان شہادت نے کس شان سے ثابت کیا کہ دین کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کرنے والے کبھی بھی کم نہیں ہوتے۔ بادشاہ کی تاجپوشی کرنے والے اس بزرگ انسان کو ایک من چوبیس سیر وزنی زنجیر میں جکڑا گیا۔ ناک چھید کر نکیل ڈال کر سرِ مقتل لایا گیا۔ ہر طرح کا لالچ دیا گیا۔ باربار فہمائش کی گئی مگر استقامت کے اس شاہزادے نے سنگسار ہونا قبول کر لیا لیکن ایمان کا سودا کرنا گوارا نہ کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کابل کا یہ عظیم فرزند پتھروں کے ڈھیر میں چھپ کر ہمیشہ کی زندگی پا گیا۔

جان کی بازی لگا دی، قول پر ہارا نہیں

حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ایک اور عاشق صادق حضرت مولانا بُرہان الدین صاحب جہلمی نے جس شان سے راہِ خدا میں دکھ اُٹھائے اور استقامت کا عَلَم سر بلند رکھا اس کی بھی اپنی ہی ایک نرالی شان ہے۔ حضرت مسیح پاکؑ ایک دفعہ ایک گلی سے گزر رہے تھے۔ حضرت مولوی صاحب بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے کہ اچانک اس گلی کی ایک بڑھیا کی آتش غیض وغضب بھڑک اُٹھی اور اس نے غصہ سے بے قابو ہو کر گھر کی گندگی اٹھا کر حضور پر پھینک دی۔ گندگی حضور پر تو نہ گری لیکن حضرت مولوی برہان الدین صاحب کے سرپر پڑی۔ ناک پر ایک مکھی بیٹھ جائے تو انسان غصہ سے بے قابو ہو جاتا ہے یہاں گندگی کا ایک ڈھیر تھا جو آپ پر گرا دیا گیا لیکن یہ سب کچھ خدا کی راہ میں تھا اور صرف اِس وجہ سے یہ سلوک آپ سے ہوا کہ آپ نے خدا کے فرستادہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کو مانا تھا۔ آپ نے اس بظاہر ذلت کو اپنے لئے ایک سعادت جانا اور عجیب وارفتگی اور مستی کے انداز میں منہ اُوپر اُٹھا کر اُس بڑھیا کو دیکھا اور کہا۔

’’پا او مائیے ہور پا!‘‘

ایک اور موقع پر مخالفین نے آپ کو پکڑ کر بہت مارا اور بالآخر زمین پر گرا کر آپ کی چھاتی پر سوار ہو گئے اور آپ کے منہ میں گوبر بھرنا شروع کر دیا۔ ذرا اس سفّا کی اور ظلم کا تصوّر کیجئے اور دیکھیں کہ اس حالت میں اس عاشق صادق اور پروانہٴ مسیحِ دوراں کا ردّ عمل کیا تھا۔ اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

’’او بُرہانیا! ایہہ نعمتاں فیر کِتھوں؟‘‘

صبر و استقلال کی یہ چٹانیں، عزم و استقامت کے یہ پہاڑ قامت وجود، اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو عطا فرمائے جنہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ اپنے عہدِ بیعت میں سچے اور ثابت قدم ہیں۔اللہ اُن سے راضی ہو اور وہ اُس سے راضی ہوں۔

راہِ خدا میں دکھ اُٹھانے اور ضرورت پڑنے پر جانیں نثار کرنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہمارے اس دور میں جو احمدیت کا ایک سنہری دور ہے اور آنے والی نسلیں ہمیشہ اس دور کو محبت اور چاہت سے یاد کیا کریں گی۔ اس دور میں بھی سینکڑوں شہیدانِ احمدیت نے احمدیت کے چمن کو اپنے خون سے سینچا ہے اور ہزار ہا اسیرانِ راہِ مولیٰ نے احمدیت کی آبرو کی خاطر اپنی عزتیں قربان کی ہیں۔ آج اس وقت بھی یہ اسیرانِ راہِ مولیٰ جیل کی تاریک و تار کوٹھریوں میں آ ہنی سلاخوں کے پیچھے،عشق و وفااور صبر و استقامت کی قندیلیں روشن کئے بیٹھے ہیں۔لاریب انہی قندیلوں سے ایک روز سارا جگ منور ہو کر رہے گا۔

علم و عمل کے تقاضے بے شمار ہیں۔چند مثالیں آپ کی خدمت میں عرض کی ہیں۔ آخر میں مَیں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک اور میدانِ عمل بھی ہے جو ہماری راہ دیکھ رہا ہے۔ یہ میدان اپنے عہد و پیمان کو پورا کرنے کا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ تاریخ ِ اسلام کے ہر دور میں کس طرح عشاقِ اسلام نے اپنے ایمان کے تقاضوں کو عملی رنگ میں پورا کر دکھایا۔ انہوں نے علم وعمل کے عَلَم کو بڑی شان سے سر بلند رکھا اور کبھی بھی سرنگوں نہ ہونے دیا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اِن وفا شعار،راست باز اور صادِق القول صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین کا کس محبت سے ذکر فرمایا ہے۔ اس آیت کریمہ میں جو میں نے شروع میں بیان کی تھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ

(الاحزاب: 22)

کہ مومنوں میں ایسے مرد ہیں جنہوں نے،جس بات پر اللہ سے عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ پس ان میں سے وہ بھی ہے اس نے اپنی منت اور اپنے وعدہ کو عملاً پورا کر دکھایا وَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ اور ا ن میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو وفا کے ساتھ ابھی انتظار کر رہے ہیں وَمَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا اوروہ ایسے ہیں کہ انہوں نے ہر گز اپنے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ ہاں وہ اُس وقت کے منتظر ہیں کہ کب موقع ملے اور وہ اپنے وعدوں کو پورے اخلاص کے ساتھ پورا کر سکیں۔

یاد رہے کہ ہم نے بھی اپنے مولیٰ سے کچھ عہد و پیمان کئے ہیں۔ ہم نے بھی امام وقت کے مقدس ہاتھ میں ہاتھ دے کروفا کی کچھ قسمیں کھائی ہیں۔ عہد بیعت کو بار بار صمیمِ قلب سے دوہرایا ہے۔ یاد رکھو کہ آج ان قسموں کو پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اپنے وعدوں کو سچ کر دکھانے کا دن آ گیا ہے۔ خدا تعالیٰ نے ہمیں عِلم کے بے پناہ خزانوں سے نوازا، قرآنِ کریم کا بحرِ عظیم ہمیں عطا ہوا۔ احادیث کا انمول خزانہ ہمیں نصیب ہوا۔ مسیح زماں نے روحانی خزائن کی دولت سے ہمیں مالا مال کیا۔ اب ان سب علوم کو عمل کے سانچے میں ڈھالنے کا وقت آگیا ہے یہ باتوں کا وقت نہیں، عملاً کچھ کر دکھانے کا وقت ہے۔ دیکھو کہ دعوت الی اللہ، تربیت او ر اصلاح ِ نفس کے کتنے وسیع میدان ہیں جو ہمارے منتظر ہیں۔ کتنے تقاضے ہیں جو ہم نے پورے کرنے ہیں۔ اُٹھو! اور صدق و وفا کے ساتھ، اپنے نیک عزائم کو اعمال کے قالب میں ڈھالتے چلے جاؤ۔

عشق و وفا کی یہ سچی داستانیں، اسلاف کے یہ ایمان افروز واقعات، صرف سننے سنانے کی باتیں نہیں۔ اِن زندگی بخش واقعات میں ہم سب کے لئے ایک عظیم درسِ نصیحت مُضمر ہے۔ جس عَلَم کو صحابہؓ نے اور ہمارے اسلاف نے سر بلند رکھا اُسے سر بلند رکھنا اور کل عالم پر لہراتے چلے جانا ہمارا فرض ہے۔

پس اے دینِ احمد کے فدائیو! اور احمدیت کے جانثارو! اُٹھو اور خدمتِ دین کرنے کی جو بے تاب تمنائیں آج ہمارے سینوں میں موجزن ہیں ان سب کو عملی جامہ پہناؤ۔ خدا کے حضور اپنے سچے اور مخلصانہ ارادے، اعمالِ صالحہ کے خوبصورت طشتوں میں سجا کر پیش کروکہ اللہ تعالیٰ کے حضور منہ کی باتیں اور زبانی دعوے کچھ حقیقت نہیں رکھتے۔ اُس دربار میں تو نیک اور پُر خلوص اعمال کے نذرانے ہی قبو ل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حسنِ عمل اور سعئ مشکور کی توفیق عطا فرمائے اور شرفِ قبولیت عطا فرمائے آمین۔

(مولانا عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

پچھلا پڑھیں

اختتام قاعدہ یسرناالقرآن و آغاز قرآن کریم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اپریل 2022