• 27 اپریل, 2024

’مولیٰ بس‘ کے نظارے اور ’کیا خدا کافی نہیں ہے‘ کے نظارے مجھے تو ہر لمحہ نظر آتے ہیں کیونکہ اگر ویسے میں دیکھوں تومیری کوئی حیثیت نہیں ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر آپ (خلیفہ رابع ؒ۔ناقل) کی وفات کے بعد دشمنوں کا خیال تھا کہ اب تو یہ جماعت گئی کہ گئی اب بظاہر کوئی نظر نہیں آتا کہ اس جماعت کو سنبھال سکے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نظارے سب نے دیکھے۔ بچوں نے بھی اور نوجوانوں نے بھی، مردوں نے بھی اور عورتوں نے بھی اپنے ایمانوں کو مضبوط کیا۔ حتیٰ کہ غیر از جماعت بھی کیا مسلمان اور کیا غیرمسلمان سب نے ہی یہ نظارے دیکھے کیونکہ ایم ٹی اے کے ذریعے یہ ہر جگہ پہنچ رہے تھے۔ لندن میں مجھے کسی نے بتایا کہ ایک سکھ نے کہا کہ ہم بڑے حیران ہوئے آپ لوگوں کا یہ سارا نظام دیکھ کر اور پھر انتخاب خلافت کا سارا نظارہ دیکھ کر۔ پاکستان میں ہمارے ڈاکٹر نوری صاحب کے پاس ایک غیر از جماعت بڑے پیر ہیں یا عالم ہیں وہ آئے (مریض تھے اس لئے آتے رہے) اور ساری باتیں پوچھتے رہے کہ کس طرح ہوا، کیا ہوا اور پھر بتایا کہ میں نے بھی ایم ٹی اے پر دیکھا تھا۔ دشمن بھی وہ جس طرح کہتے ہیں نہ کہ کھلے طور پر تو نہیں دیکھتے لیکن چھپ چھپ کر ایم ٹی اے دیکھتے ہیں۔ یہ سارے نظارے دیکھے اور ڈاکٹر صاحب کو کہنے لگے کہ یہ ایسا نظارہ تھا جو حیرت انگیز تھا۔ اور باتوں میں ڈاکٹر صاحب نے کہا ٹھیک ہے آپ کو پھر تسلیم کرنا چاہئے کہ جماعت احمدیہ سچی ہے کہتے ہیں کہ یہ تو میں نہیں کہتا، یہ مجھے ابھی بھی یقین ہے کہ جماعت احمدیہ سچی نہیں ہے لیکن یہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت آپ کے ساتھ ہے۔ تو جب اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت ہمارے ساتھ ہو گئی تو پھر اور کیا چیز رہ گئی۔ یہ آنکھوں پر پردے پڑے ہونے کی بات ہے اور دلوں پر پردے پڑے ہونے کی بات ہی ہے۔

اب اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو خلافت کے منصب پر فائز کیا کہ اگر دنیا کی نظر سے دیکھا جائے تو شاید دنیا کے لوگ اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کریں لیکن خداتعالیٰ دنیا کا محتاج نہیں ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا کہ:
’’خوب یاد رکھو کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور جھوٹا ہے وہ انسان جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ انسانوں کا مقرر کردہ ہوتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح مولوی نورالدین صاحب اپنی خلافت کے زمانے میں چھ سال متواتر اس مسئلے پر زور دیتے رہے کہ خلیفہ خدا مقرر کرتا ہے، نہ انسان۔ اور درحقیقت قرآن شریف کو غور سے مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک جگہ بھی خلافت کی نسبت انسانوں کی طرف نہیں کی گئی بلکہ ہر قسم کے خلفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ انہیں ہم بناتے ہیں۔‘‘

(انوارالعلوم جلد۲ صفحہ۱۱)

پھر آپؓ فرماتے ہیں :
’’خداتعالیٰ جس شخص کو خلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کو زمانے کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے اگر وہ احمق، جاہل اور بیوقوف ہوتا ہے‘‘۔ پھر فرمایا کہ: ’’اس کے یہ معنی ہیں کہ خلیفہ خود خدا بناتا ہے اس کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جب کسی کو خدا خلیفہ بناتا ہے تو اسے اپنی صفات بخشتا ہے۔ اور اگر وہ اسے اپنی صفات نہیں بخشتا تو خداتعالیٰ کے خود خلیفہ بنانے کے معنی ہی کیا ہیں۔‘‘

(الفرقان۔ مئی جون ۱۹۶۷ء صفحہ۳۷)

میں جب اپنے آپ کو دیکھتا ہوں، اپنی نااہلی اور کم مائیگی کو دیکھتا ہوں اور میرے سے زیادہ میرا خدا مجھے جانتا ہے کہ میرے اندرکیا ہے تو اس وقت ہر لمحے اللہ تعالیٰ کی قدرت یاد آ جاتی ہے۔

مکرم میر محمود احمد صاحب نے ایک شعر کہا

؎مجھ کو بس ہے میرا مولیٰ، میرا مولیٰ مجھ کو بس
’کیا خدا کافی نہیں ہے‘ کی شہادت دیکھ لی

اس کی بیک گراؤنڈ جو میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایک تو ’کیا خدا کافی نہیں‘ کی شہادت ’اَلَیۡسَ اللّٰہُ‘ کی انگوٹھی ہے جو خلیفۃ المسیح کو ملتی ہے۔ اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین انگوٹھیاں تھیں جو آپؑ کے تین بیٹوں کو ملیں۔ اور جو ’مولیٰ بس‘ کی انگوٹھی تھی (ایک انگوٹھی جس پر ’مولیٰ بس‘ کا الہام کندہ تھا) وہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ کے حصہ میں آئی تھی اور یہ میں نے پہنی ہوئی ہے۔ اس کے بعد میرے والد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو ملی اور ان کی وفات کے بعد میری والدہ نے مجھے دے دی۔ میں تو اس کو بڑی سنبھال کے رکھتا تھا، پہنتا نہیں تھا لیکن انتخاب خلافت کے بعد میں نے یہ پہننی شروع کی ہے۔ تو ’مولیٰ بس‘ کے نظارے اور ’کیا خدا کافی نہیں ہے‘ کے نظارے مجھے تو ہر لمحہ نظر آتے ہیں کیونکہ اگر ویسے میں دیکھوں تو میری کوئی حیثیت نہیں ہے۔

لوگوں کے دلوں میں محبت اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے۔ کوئی انسان محبت پیدا نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھا دے۔ تو مخالفوں کی خوشیوں کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح پامال کیا۔ اب بھی بعض مخالفین شور مچاتے ہیں، منافقین بھی بعض باتیں کر جاتے ہیں۔ وہ چاہے جتنا مرضی شور مچالیں، جتنا مرضی زور لگا لیں، خلافت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے اور جب تک اللہ چاہے گا یہ رہے گی اور جب چاہے گا مجھے اٹھا لے گا اور کوئی نیا خلیفہ آ جائے گا۔ لیکن حضرت خلیفہ اول ؓ کے الفاظ میں میں کہتا ہوں کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ ہٹا سکے یا فتنہ پیدا کر سکے۔ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مضبوط ہے اور ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہے۔ افریقہ میں بھی مَیں دورہ پرگیا ہوں ایسے لو گ جنہوں نے کبھی دیکھا نہیں تھا اس طرح ٹوٹ کر انہوں نے محبت کا اظہار کیا ہے جس طرح برسوں کے بچھڑے ملے ہوتے ہیں یہ سب کیا ہے؟ جس طرح ان کے چہروں پر خوشی کا اظہار میں نے دیکھا ہے، یہ سب کیا ہے؟۔ جس طرح سفر کی صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرکے وہ لوگ آئے، یہ سب کچھ کیا ہے؟۔ کیا دنیا دکھاوے کے لئے یہ سب خلافت سے محبت ہے جو ان دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے۔ تو جس چیز کو اللہ تعالیٰ پیدا کر رہا ہے وہ انسانی کوششوں سے کہاں نکل سکتی ہے۔ جتنا مرضی کوئی چاہے، زور لگا لے۔ عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو باقاعدہ میں نے آنسوؤں سے روتے دیکھا ہے۔ تو یہ سب محبت ہی ہے جو خلافت کی ان کے دلوں میں قائم ہے۔ بچے اس طرح بعض دفعہ دائیں بائیں سے نکل کے سیکیورٹی کو توڑتے ہوئے آ کے چمٹ جاتے تھے۔ وہ محبت تو اللہ تعالیٰ نے بچوں کے دل میں پیدا کی ہے، کسی کے کہنے پہ تو نہیں آ سکتے۔ اور پھر ان کے ماں باپ اور دوسرے ارد گرد لوگ جو اکٹھے ہوتے تھے ان کی محبت بھی دیکھنے والی ہوتی تھی۔ پھر اس بچے کو اس لئے وہ پیار کرتے تھے کہ تم خلیفہ وقت سے چمٹ کے اور اس سے پیار لے کر آئے ہو۔ یہ سب باتیں احمدیت کی سچائی کی دلیل ہیں۔ اگر کسی کی نظر ہو دیکھنے کی تبھی دیکھ سکتا ہے۔ چند لوگ اگر مرتد ہوتے ہیں یا منافقانہ باتیں کرتے ہیں تو ان کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ایک بدفطرت اگر جاتا ہے تو جائے، اچھا ہے خس کم جہاں پاک۔ وہ اپنے بدانجام کی طرف قدم بڑھا رہا ہے وہی اس کا انجام مقدر تھا جس کی طرف جا رہا ہے۔ لیکن جب اس کے مقابل پر ایک جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ سینکڑوں سعید روحوں کو احمدیت میں داخل کرتا ہے۔

یاد رکھیں وہ سچے وعدوں والا خدا ہے۔ وہ آج بھی اپنے پیارے مسیح کی اس پیاری جماعت پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ وہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا۔ وہ آج بھی اپنے مسیح سے کئے ہوئے وعدوں کو اسی طرح پورا کر رہا ہے جس طرح وہ پہلی خلافتوں میں کرتا رہا ہے۔ وہ آج بھی اسی طرح اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نواز رہا ہے جس طرح پہلے وہ نوازتا رہا ہے اور ان شاء اللہ نوازتا رہے گا۔ پس ضرورت ہے تو اس بات کی کہ کہیں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرکے خود ٹھوکر نہ کھا جائے۔ اپنی عاقبت خراب نہ کر لے۔ پس دعائیں کرتے ہوئے اور اس کی طرف جھکتے ہوئے اور اس کا فضل مانگتے ہوئے ہمیشہ اس کے آستانہ پر پڑے رہیں اور اس مضبوط کڑے کو ہاتھ ڈالے رکھیں تو پھر کوئی بھی آپ کابال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(خطبہ جمعہ 21؍ مئی 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مئی 2021