• 2 اگست, 2025

خلفائے سلسلہ احمدیہ کے ساتھ روح پرور اور پُرشفقت یادیں

خلافتِ حقہ وہ شجرۂ طیبہ ہے جس کی شاخیں ایک طرف آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہوتی ہیں تو دوسری طرف اس کی جڑیں زمین کی اتھا گہرائیوں میں پیوست ہوتی ہیں اور یہ وہ سدا بہار درخت ہے جو ہر لحظہ اور ہر آن اپنے رب سے تازہ بتازہ شیریں پھل لا کر مومنوں کی تسکین کے سامان پیدا کرتا ہے اور اسکی مہک اور خوشبو مومنوں کے دلوں کو ہمیشہ معطر رکھتی ہے اور انہیں نئی روحانی زندگی عطا کرتی ہے۔ یہ وہ حبل اللہ ہےجس کومضبوطی سے تھامنے اور اس کی کامل اطاعت و فرمانبرداری کا حکم ہے ۔ اس لئے خلافت کے ساتھ زندہ اور براہ راست تعلق رکھنا ہر احمدی کے لئےضروری ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے اپنے خطبۂ جمعہ فرمودہ 17 جنوری 1930ء میں فرمایا:
’’جب تک خلافت قائم ہے ہر ایک احمدی کا براہِ راست خلیفہ کے ساتھ تعلق ہے۔ جسے خدا تعالیٰ سےہر ایک انسان کا براہ ِ راست تعلق ہے‘‘

(خطباتِ محمود جلد12۔ صفحہ262)

ایک احمدی اور خلیفۂ وقت کاتعلق کیا ہے؟ اس بارہ میں حضرت مسیح موعود ؑکو الہاماً ملنے والی بشارت، حضرت مسیح موعود ؑ کے اپنے بیان اور پھر ان پر حضرت مصلح موعودؓ ؓ کے تبصرہ کو پڑھیں اور خلیفۂ وقت کے مقام کو سمجھیں اور اس تعلق، پیار اور محبت میں جتنا بڑھ سکتے ہیں، بڑھیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کو الہاماً یہ بشارت دی تھی:
’’میں تیری محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالوں گا اور میں اپنی آنکھوں کے سامنے تیری پرورش کروں گا۔‘‘

(روحانی خزائن جلد22 صفحہ239)

نیز حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ:
’’ہزار ہا انسان خدا نے ایسے پیدا کئے کہ جن کے دلوں میں اس نے میری محبت بھر دی‘‘

(روحانی خزائن جلد22 صفحہ239)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ یہ الہٰی وعدہ نہ صرف آپ کی زندگی میں ہی بڑی شان سے پورا ہوا بلکہ آپ کے بعد قائم ہونے والی خلافت حقہ کے ذریعہ آج تک پورا ہوتا چلا آرہا ہے اور قیامت تک ان شاء اللہ پورا ہوتا چلا جائے گا۔ احمدیوں کو اپنے پیارے امام سے جو للّٰہی محبت کا تعلق ہے اس کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں۔ خلافت سے یہ زندہ تعلق ایک ایسا شاداب درخت ہے جسے ادب و احترام کے پانیوں سے سیراب کیا جاتا ہے۔ جو دعاؤں کے جلو میں پروان چڑھتا ہے اور اس پر اخلاص و عقیدت کے پھول اور محبتوں اور چاہتوں کے پھل لگتے ہیں۔ خلافت سے یہ محبت اُس خدا کی عطاء ہے جس نے فرمایا ہے کہ خلیفہ بنانا میرا کام ہے۔ اُسی نے اس خلافت کی بارش سے ہر قسم کی زمین کو سیراب فرمایا ہے اور ہر چھوٹے بڑے کو اس محبت سے حصہ عطا فرمایا ہے۔ لیکن صرف ہم احمدی ہی اپنے آقا سے محبت نہیں کرتے بلکہ ہماری محبت سے کہیں بڑھ کر خلیفۂ وقت کے دل میں ہمارے لئے محبت موجزن رہتی ہے۔ خلافت سے زندہ تعلق پیدا کرنے کے لئے اِس حبل اللہ، عروۂ وثقیٰ کو، اس کڑے کو بڑی مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’’کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ‘‘ کے قرآنی حکم کے تحت پیارے امام کی صحبت اختیار کرنا اور خلیفۂ وقت کے ساتھ محبت و عقیدت اور فدائیت کا قریبی تعلق استوار کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ اس کے لئے ذاتی اور فیملی ملاقاتیں کرنا اور شرفِ مصافحہ حاصل کر کے خلیفۃ اللہ کے نور کو براہ ِراست اپنے اندر جذب کرنا یقیناً اِس محبت کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ بخدا یہی وہ چہرے ہیں جن کو پاکر اور انکے احکامات پرعمل پیرا ہونا نارِ جہنم کو حرام کر دیا کرتا ہے اوران نورانی وجودوں کو ایک بار دیکھ لینے سے جسم و روح کی قسما قسم کی جہنم ہمیشہ کے لئے ٹھنڈی پڑجاتی ہے۔ پھر دعائیہ خطوط کے ذریعہ براہِ راست رابطہ رکھ کر بھی اس تعلق کو مزید بڑھا یا اور زندہ رکھا جاسکتا ہے۔ جب تک ہم باربار خلیفۃ المسیح سے دعائیں اور مشورے نہیں لیں گے ہمارے کاموں میں برکت نہیں پڑسکتی۔ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:
’’جس پر خدا اپنے الہام نازل فرماتا ہے۔ جس کو خدا نے اس جماعت کا خلیفہ اور امام بنا دیا ہے اس سے مشورہ اور ہدایت حاصل کر کے تم کام کر سکتے ہو۔ اس سے جتنا تعلق رکھو گے اسی قدر تمہارے کاموں میں برکت پیدا ہوگی۔جس طرح وہی شاخ پھل لا سکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو۔ وہ کٹی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جدا ہو‘‘

(الفضل 20 نومبر 1946ء)

پس خلیفۂ وقت سے زندہ تعلق ایک احمدی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ خلافت سے تعلق کے معنیٰ مَیں تو یہ سمجھتا ہوں کہ خلیفۂ وقت کی کامل اطاعت کی جائے اور اس کی طرف سے آنے والے ہر حکم کے سامنے سر ِتسلیم خم کیا جائے جس طرح کی اطاعت کانمونہ حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیش کیا۔ اسلئے چاہیئے کہ ہم خلیفۂ وقت کے مقام کا عرفان حاصل کریں اور اس سے وابستہ رہیں اور اسکی کامل اطاعت کو اختیار کریں کیونکہ تمام برکتیں خلیفۂ وقت سے تعلق کے نتیجہ میں مل سکتی ہیں۔ ایک بڑی برکت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اُس کی دعاؤں کی قبولیت کو بڑھا دیتا ہے۔ خلیفۂ وقت کی دعاؤں کی قبولیت کے حوالے سے سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک پُر معارف ارشاد اس طرح ہے:
’’اسی طرح پر اللہ تعالیٰ جس کسی کو منصبِ خلافت پر سرفراز کرتا ہے۔ تواس کی دعاؤں کی قبولیت بڑھا دیتا ہے۔ کیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے۔‘‘

(منصبِ خلافت ۔انوارالعلوم جلد2۔ صفحہ47)

اس لئے اخلاص و وفا کے ساتھ خلیفۂ وقت کی خدمت میں اپنے لئے اپنے بیوی بچوں کے لئے دعا کے لئے لکھتے رہنا چاہیئے۔ اور خلیفۂ وقت کے لئے بھی ہمیشہ اور بڑی باقاعدگی کے ساتھ دعائیں کرنی چاہیئں اور اس کے ارشادات کو توجہ سے سننا اور ان پر عمل کرنا لازم بنائیں۔

یاد رکھیں کہ جس قدر آپ کا خلیفۂ وقت سے ذاتی تعلق ہوگا اور ان کے مقاصد عالیہ کی تکمیل کے لئے ہر روز بڑی توجہ، انہماک اور الحاح سے بکثرت دعائیں کریں گے اور اس کے ساتھ سچی محبت رکھیں گے۔ تو اسی قدر آپ دینی ودنیاوی حسنات سے حصہ پائیں گے۔ خلفائے حضرت مسیح موعودؑکی احباب جماعت سے محبت و شفقت کے نظارے تو ہم دن رات مشاہدہ کرتے ہیں۔ یقیناً قارئین الفضل نے بھی اس نعمت سے وافر حصہ پایا ہوگا۔ خلیفۂ وقت سے ذاتی اور فیملی ملاقات کی صورت آج ہر احمدی کو میسّر ہے خواہ وہ دنیا کے کسی ملک میں رہتا ہو۔ خلیفۂ وقت کے قدموں میں حاضر ہو کر وہ یہ شرف حاصل کر سکتا ہے۔ پھر خلیفۂ وقت کے عالمگیر دورہ جات کے دوران ان ممالک کے احمدیوں کو یہ سعادت اپنے ملک میں رہتے ہوئے مل جاتی ہےجس کی روح پرور یادوں سے نہ صرف وہ محظوظ ہوتے ہیں بلکہ اوروں کے دلوں میں بھی وہ خلیفۂ وقت کی محبت کی ایک لَو لگا دیتے ہیں۔ ذیل میں خاکسار خلفائے سلسلہ احمدیہ کے ساتھ اپنی چند روح پرور یادیں شیئر کررہاہے۔ وباللہ التوفیق۔

زیارت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ناصر آباد اسٹیٹ (سندھ) میں 1950ء کی دہائی میں آمد، قیام، نمازیں پڑھانا اور خطبۂ جمعہ ارشاد فرمانا آج تک مجھے یاد ہے۔ چمن میں آتے وقت مصافحہ کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ کَنجےجی ریلوے سٹیشن پر حضور ؓ کی آمد و الوداع کے مناظر بھی یاد ہیں۔ میرے والد محترم کو حضورؓ کے ناصر آباد اسٹیٹ میں بعض دوروں کے دوران اذان دینے کا شرف حاصل ہو تا رہا۔ ان کی آواز دور دور تک سنائی دیتی تھی اوروہ خوش الحان بھی تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ساتھ چند یادیں

جہاں تک حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے ساتھ یادوں، ملاقاتوں اور حضورؒ کی شفقوں کا تعلق ہے تو حضور ؒ کے خلافت پر متمکن ہونے سے پہلے حضورؒ صدر، صدر انجمن احمدیہ ربوہ پاکستان، پرنسپل تعلیم الاسلام کالج اور صدر مجلس انصار اللہ پاکستان جیسے جلیل القدر عہدوں پر فائز تھے۔ اس لئے جماعت میں معروف و مشہور تھے۔ پھر جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی حضور کی تقریر ہوتی تھی۔ اس لئے حضور کی شخصیت سے میں متعارف تھا۔ پھر جب حضوؒر خلیفہ منتخب ہو گئے تو اسی رات کو آپ کی بیعت کا شرف حاصل ہوگیا اور وہ جو سنا کر تے تھے کہ لوگوں نے خلافت ثانیہ کی بیعت کے وقت ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر مسجد نور قادیان میں بیعت کی تھی وہ نظارہ ہم نے مسجد مبارک ربوہ میں نہ صرف دیکھا بلکہ اس کا حصہ بھی بننے کی توفیق ملی۔ پھر کیا تھا کہ ہوسٹل جامعہ احمدیہ کے طلباء صبح و شام ہوسٹل سے نکل کر پہاڑی درّہ کو کراس کر کے گول بازار سے ہوتے ہوئے مسجد مبارک میں حضور کی اقتداء میں نمازیں پڑھنے جاتے اور حضور کے درس و ارشادات سے مستفید ہوتے۔ اب حضور ؒکی گفتگو کا رنگ ہی اور تھا اور حضور ؒکی زبان ِمبارک سے الہٰی حقائق و معارف بڑی تیزی کے ساتھ بیان ہو رہے ہوتے تھے جن کو سننے کے لئے لوگ جوق در جوق مختلف محلہ جات سے آتے تھے۔ اجتماعی بیعت کے بعد پھر انفرادی بیعت کے لئے بھی حضورؒ کی خدمت میں خط لکھے گئے۔ ابھی تھوڑے دن ہی گزرے تھے کہ ہمارے پرنسپل مکرم سیّد میر داؤد احمد صاحب غفر اللہ لہٗ نے حضور کو جامعہ کے طلباء سے خطاب کی دعوت دی۔ اس طرح ہم حضور ؒکی ہدایات و نصائح سے زیادہ قریب سے متمتع ہوئے۔ مجلس خدام الاحمدیہ کے بعض پروگراموں میں بھی حضورؒ کا قُرب نصیب ہوتا رہا۔ پھر مربی سلسلہ بننے کے بعد پاکستان میں ایک بار تقرری کے حوالہ سے حضورؒ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے بعد کی کچھ ملاقاتوں کا احوال درج کرتا ہوں:
جب 1971ء کی گرمیوں میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اسلام آباد تشریف لائے جہاں حضور رحمہ اللہ رہائش پذیر تھے وہاں پر احباب جماعت نمازوں کی ادائیگی اور ملاقات کیلئے حاضر ہوتے۔ ایک روزکھڑے کھڑے حضور آنے والوں کو شرفِ ملاقات بخش رہے تھے۔جب میں نے السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا تو حضور ؒنے فرمایا:

Ich freue mich Sie zu sehen

ترجمہ: میں آپکو دیکھ کر خوش ہوا ہوں۔ میں نے فوری طور پر جواباً عرض کیا:

Ich freue mich auch Sie zu sehen

ترجمہ: ’’میں بھی آپکو مل کر خوش ہوا ہوں‘‘۔

اسی طرح میرے دونوں ساتھیوں مکرم ملک منصور عمر صاحب اور مکرم صالح محمد خاں صاحب سے بھی حضورؒ نے جرمن اور فرنچ زبان میں ایک ایک جملہ ارشادفرمایا۔ اس کے بعد نماز پڑھی اور ہم واپس راولپنڈی آگئے۔ کچھ دنوں کیلئے حضورؒ کا وہاں پر قیام تھا۔پھر حضور ؒ واپس ربوہ تشریف لے گئے۔

اچانک ایک دن وکالتِ تعلیم ربوہ کی طرف سے ہمیں خط آیا کہ حضورانورؒ نے ہمیں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ماڈرن لینگو یجز کے ہوسٹل میں داخل ہونے کا ارشاد فرمایا ہے۔ سبحان اللہ! پیارے آقا کی اس شفقت اور رہائش کی مشکلات سے رہائی پر ہم نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ بعد میں پتا چلا کہ اسلام آباد سے واپس جانے کے بعد ایک روز حضور انورؒ نے حضرت سیّد میر داؤد احمد صاحب ؒ سے فرمایا کہ آپکے شاگرد اچھا پڑھ رہے ہیں۔ مکرم سیّد میر داؤد احمد صاحب کو ہماری رہائش کی مشکلات کا علم تھا۔ ہم نے تو کسی سے کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ تاہم مسجد نور راولپنڈی میں مرکز سے آنے جانے والے ہمیں دیکھتے تھے، کسی نے میر صاحب کو بتا دیا ہو گا۔ حضور انورؒ کے اس ارشاد پرکہ ’’آپکے شاگرد اچھا پڑھ رہے ہیں‘‘۔ حضرت میر صاحبؒ نے مناسب موقع سمجھ کر حضور انورؒ سے عرض کی کہ حضور! انکو رہائش کی مشکلات ہیں تو اس پر حضور انورؒ نے ہمیں ہوسٹل میں شفٹ ہو جانے کا ارشاد فرمایا۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔

تقریب سنگِ بنیاد مسجد گوتھن برگ میں شمولیت
اور حضورؒ سے شرفِ ملاقات

جب 27 ستمبر 1975ء کو مسجد گوتھن برگ،سویڈن کا حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ نے سنگِ بنیاد رکھا تو خاکسار کو جو ان دنوں مسجد فضلِ عمر ہمبر گ کا امام تھا اور مکرم فضل الہٰی انوری صاحب امیر و مشنری انچارج جرمنی کو اس تقریب میں شامل ہونے کی سعادت ملی۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ 28 ستمبر 1975ء کو حضور رحمہ اللہ نے گوتھن برگ کے (ہوٹل سکینڈے نیویا) میں یورپی ممالک کے مبلغین کی کانفرنس کی صدارت بھی فرمائی جس میں یورپ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کو ترقی دینے پر غور کیا گیا۔

پھر 1976ء میں سکنڈے نیوین مشنز کے دورہ کے دوران 20 اگست 1976ء کو گوتھن برگ سویڈن میں حضورؒ نے مسجد کا افتتاح بھی فرمایا تھا۔ اس موقع پر جرمنی سے مکرم فضل الہٰی انوری صاحب نے متعلقہ افسران سے خصوصی کوشش کرکے اسائیلم پر موجود احباب جماعت کو اس تقریب میں شامل ہونے کی اجازت دلوائی۔ اور پھر فرینکفرٹ سے ایک بس لے کر گئے۔ خاکسار کو اس بس میں سوار ہونے کے لئے راستہ میں ایک سٹاپ پر شامل ہونے کی توفیق مل گئی۔ مسجد کے افتتاح کے بعد شام کوحضور رحمہ اللہ کی ایک ہوٹل میں قیام گاہ پر خاکسار اور مکرم انوری صاحب نے ملاقات بھی کی جس کے بعد حضور رحمہ اللہ نے ہمارے ساتھ ایک فوٹو بھی بنوائی۔

سکنڈے نیویا کے دورے کے بعد حضورؒ کا اگلا پروگرام جرمنی تشریف لانے کا تھا اس لئے ہدایت تھی کہ سرحد پر حضور رحمہ اللہ کا استقبال کیا جائے۔ ہمبرگ مشن کے پاس اُس وقت کوئی گاڑی نہیں تھی۔ Nord Deutschland اور West Deutschland میں صرف دو تین احباب جماعت کے پاس گاڑیاں تھیں۔ البتہ ہمارے لئے Kempen کی جماعت کے ایک دوست مکرم مسعود احمد خان صاحب کی گاڑی تھی جسے ہم دونوں لے کر بارڈر پر مقررہ وقت پر حاضر ہو گئے۔ استقبال کے بعد حضور رحمہ اللہ بمعہ قافلہ قریب ہی ایک ہوٹل میں تشریف لے گئے جہاں پر چائے/کافی وغیرہ سے بمعہ قافلہ حضور رحمہ اللہ کی تواضع کی گئی۔ یہاں پر ایک اخباری نمائندہ بھی آیا اور اس نے حضور رحمہ اللہ کی تصاویر لیں اور میرا انٹرویوبھی لیا۔ اس انٹرویو میں حضور رحمہ اللہ کے تعارف کے علاوہ حضورؒ کے دورہ کی تفصیلات بھی بتائی گئی تھیں۔ حضور رحمہ اللہ کے دورے کے مقصد کاذکر کرتے ہوئے اخبار نے لکھا کہ وہ اسلام کی اشاعت اور جماعت احمدیہ کے ممبران کی تربیت کے لئے ہے۔ اس خبر کو اس نے حضور رحمہ اللہ کے دو تصاویر سے مزّین کیا۔ اس کے بعد ہمبرگ کے لئے روانگی ہوئی۔حضور رحمہ اللہ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ آپ آگے چلیں۔ کچھ دیر تک ہماری گاڑی آگے چلتی رہی مگر پھر ہماری گاڑی پیچھے رہ گئی اور قافلہ آگے چلا گیا۔ ہمبرگ میں داخل ہونے سے کچھ پہلے قافلے کی گاڑیاں رکی رہیں حتیٰ کہ ہم بھی آ ملے پھر یہ قافلہ اکٹھا ہو کر بخیر وعافیت مسجد فضل ِ عمر ہمبرگ پہنچا۔ فالحمد للہ۔ مجھے وہ دن خوب یاد ہیں اور آج ہمبرگ میں نہ صرف مشن کے پاس بلکہ احباب جماعت کے پاس بھی کئی کئی اور نہایت عمدہ گاڑیاں ہیں۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ ؒ ہمبرگ تشریف لائے تو حضورؒ کی رہائش مشن ہاؤس میں ہی تھی۔ مبلغ کی رہائش گاہ میں جو ایک بیڈ روم تھا اس میں دو نئے سنگل بیڈ خرید کر رکھے گئے تھے۔ اور بھی اس کمرے کی خاص طور پرآ رائش کی گئی تھی۔ اُس روز رات کو ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور سکیورٹی کے نقطۂ نظر سے ایک خادم باہرچھتری لیکر ڈیوٹی پر کھڑا تھا۔ رات کو کسی وقت اس پر حضوؒر کی نظر پڑی کہ بارش ہو رہی ہے اور ایک خادم درخت کے نیچے کھڑا ہے تو حضور ؒ مسجد کی طرف تشریف لائےجہاں ہم بیٹھے ہوئے تھے۔ حضورؒ نے از راہِ شفقت مجھے فرمایا:
’’اس خادم کو بلالو-بارش میں کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں۔ تاہم ساتھ ہی یہ ہدایت بھی فرمائی کہ مشن ہاؤس کا باہر کا دروازہ کھلا رکھیں اور کوئی جاگتا رہے۔‘‘

جرمنی سے پاکستان واپسی پر حضورؒ سے ملاقات

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے اگلی ملاقات کا شرف اس وقت نصیب ہوا جب خاکسار کا تبادلہ پاکستان میں کر دیا گیا اور 16 مارچ 1978ء کو کراچی پہنچ گیا۔ پھر سندھ سے آئے ہوئے عزیز رشتہ داروں سے مل کر میں اپنی اہلیہ کو لے کر عازم ربوہ ہوا۔ ربوہ پہنچ کر دفتر میں حاضری دی۔ جلد ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ حضورؒ نے فرمایا کہ میں تو آپ کا انتظار کر رہا تھا اور فکر مند تھا کہ ربوہ کیوں نہیں پہنچے۔ دراصل کراچی پہنچ کر عزیزوں سے میل ملاقات اور ٹرین کی بکنگ میں کچھ وقت صرف ہو گیا تھا جس وجہ سے ربوہ پہنچنے میں قدرے تاخیر ہوگئی تھی۔

حضور ؒ نے جرمنی کے بارے میں کچھ باتیں دریافت فرمائیں۔ پھر بچوں کے بارےمیں دریافت فرمایا تو اس پر میں نے عرض کیا کہ جنوری 1974ء میں میری جرمنی روانگی کے چند دن بعد بیٹا پیدا ہوا تھا جو کہ پیدائش کے تیسرے دن بقضائے الہٰی وفات پا گیا۔ اس پر حضور ؒنے کچھ دیر خاموشی کے بعد میری اہلیہ کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ کے تو بہت بچے ہونے ہیں۔ ہنستے کھیلتے اچھلتے کودتے۔ پھر تھوڑا رک کر فرمایا۔ مگر ایک شرط ہے کہ اگر آپ نے بچے کی وفات پر صبر کیا ہوگا تو پھر اللہ تعالیٰ آپ کو اولاد دے گا۔ ہمیں حضور ؒ کی بات سن کر خوشی ہوئی کہ حضور ؒ کی زبان مبارک سے اولاد کی بشارت عطا ہوئی۔ حضورؒ سے ملاقات کے بعد میری اہلیہ کو کچھ فکر لاحق ہوئی کہ میں نے صبر کیا بھی تھا کہ نہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں 1980ء میں بیٹی عزیزہ قرۃ العین سے نوازا۔ اس کے بعد 1981ء میں بیٹا عزیزم بلال احمد پیدا ہوا۔ اور پھر بیٹا عزیزم لقمان خالد 1985ء میں پیدا ہوا۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی دستی بیعت

جب 1982ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد پہلی مرتبہ یورپ کے دورہ ہر جرمنی تشریف لائے تو خاکسار نے ڈنمارک اور جرمنی کی سرحد پر آپؒ کا استقبال کیا۔ ہمبرگ میں قیام کے بعد حضورؒ فرینکفرٹ تشریف لے آئے۔ یہاں پر دیگر پروگراموں کے علاوہ ایک سوال و جواب کی مجلس بھی منعقد ہوئی جس کے بعد حضورؒ نے اجتماعی بیعت کا شرف بخشا اور مجھے اور مکرم منصور احمد خان صاحب امیر و مبلغ انچارچ جرمنی کو اپنا اپنا ہاتھ حضورؒ کے ہاتھ کے نیچے رکھنےکا ارشاد فرمایا۔ اور پھر حضورؒ ؒ نے بیعت کے الفاظ دہرائے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔

1988ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے لائبیریا کا جب دورہ فرمایا تو خاکسار وہاں پر امیر و مبلغ انچارج کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ یہ دورہ 31 جنوری سے 2 فروری تک تھا۔ حضورؒ جب تشریف لائے تو وہاں مجھے آپ ؒ کا استقبال کرنے کی توفیق ملی۔ بلکہ وہاں پر تو صدر مملکت کی طرف سے وزیر تعلیم نے بھی حضورِ انور رحمہ اللہ کا استقبال کیا۔ استقبال کے لئے ممبرانِ جماعت کے ہمراہ خاکسار ائرپورٹ منروویا Monrovia Roberts Field میں کھڑا تھا تو وزیر تعلیم نے مجھے کہا کہ ہم نے جہاز کے کپتان کو پیغام بھیج دیا ہے کہ His Holiness کو پیغام دے دیا جائے کہ جہاز کے اترنے کے بعد از خود باہر تشریف نہ لائیں بلکہ ہم جہاز کے اوپر آکر ان کو Welcome کہیں گے۔ پھر آپ باہر تشریف لائیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ خاکسار اور عزت مأب وزیر تعلیم لائبیریا جہاز کے لینڈ کرنے کے بعد جہاز کے اندر گئے اور حضورؒ کو Welcome کہا۔

یکم فروری کو لائبیریا کے صدر Dr. Samuel Kanneon Doe سے ملاقات کا پروگرام رکھا ہوا تھا جو کہ Executive Mansion میں ہونی تھی۔ حضورؒ Hotel Africa میں قیام پزیر تھے۔ ملاقات کا وقت گیارہ بجے تھا۔ چنانچہ خاکسار نے وہاں پہنچ کر حضورؒ کو اطلاع بھجوائی۔ تھوڑی دیر میں آپؓ باہر تشریف لے آئے۔ گاڑیاں تیار تھیں۔ روانگی سے قبل حضورؒ نے از راہ شفقت مجھے ارشاد فرمایا کہ میں حضورؒ کی گاڑی میں بیٹھ جاؤں۔ تعمیل ارشاد میں جب خاکسار گاڑی میں بیٹھ گیا اور قافلہ روانہ ہوا تو حضورؒ نے بعض جماعتی امور کے بارہ میں گفتگو شروع فرمائی اور بعض باتیں مجھ سے دریافت فرمائیں۔ گفتگو کے دوران خاکسار نے unjustice کا لفظ استعمال کیا۔ اس پر حضور ؒ نے فرمایا unjustice نہیں injustice ہوتا ہے۔ چنانچہ اس امر کو یاد کرکے میں ہمیشہ خوش ہوتا ہوں کہ حضورؒ نے میری اصلاح فرمائی۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء۔

حضورؒ کو چند مرتبہ جلسہ سالانہ کے موقع پر جرمنی آنے پر بھی خاکسار نے جرمنی کی سرحد یا پھر کسی اور مقررہ جگہ پر امیر صاحب کے ہمراہ Welcome کہا۔ ایسے ہی ایک موقع پر طے پایا کہ بجائے اس کے کہ ہم سرحد پر کسی جگہ استقبال کریں بہتر ہوگا کہ ہم بلجیم مشن ہاؤس سے ہی حضورؒ کی معیّت میں واپس آئیں۔ چنانچہ مکرم امیر صاحب جرمنی کے ساتھ ایک وفد وہاں پہنچ گیا۔ مشن کے وسیع و عریض احاطہ میں ایک Grill پارٹی ہو رہی تھی اس میں بھی ہم مدعو تھے۔ حضورؒ کے بائیں طرف مکرم امیر صاحب جرمنی تشریف فرما تھے اور ان کے ساتھ خاکسار بیٹھا ہوا تھا۔ اس سے چند روز قبل کنری سندھ میں میرے چچا کا انتقال ہو گیا تھا جس کی اطلاع میں نے حضورؒ کی خدمت میں بھجوائی تھی۔ چنانچہ اس موقع پر حضورؒ نے میرے چچا کی وفات پر تعزیت فرمائی اور مجھ سے پوچھا کہ ناصر آباد کی جومسجد نئی بنی ہے وہ آپ نےدیکھی ہے؟

میں نے جواباً عرض کیا کہ ناصر آباد (سندھ ضلع تھرپار کر) گئے ہوئے کافی سال ہوگئے ہیں نئی مسجد میں نے نہیں دیکھی۔ اس پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب کی بار جب وہاں جائیں تو ضرور مسجد دیکھنا۔میں نے عرض کیاکہ ان شاء اللہ العزیز۔ چنانچہ جب میں اوائل 2003ء میں پاکستان رخصت پر پاکستان گیا تو حضور انورؒ کے ارشاد کی تعمیل میں میں ناصر آباد بھی گیا اوریہ مسجد بھی دیکھنے کی توفیق ملی۔ اس کے بعد جب میں ربوہ آیا تو میں نے حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی سے شرف ملاقات حاصل کیا اور آپ کو بتایا کہ مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے یہ مسجد دیکھنے کا ارشاد فرمایا تھا سو الحمدللہ اس ارشاد کی تعمیل کر دی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی شفقتیں اور احباب جماعت سے پیار و محبت کی داستانیں تو ہر احمدی اپنے دل میں لئے ہوئے پھرتا ہوگا۔ میں بھی حضورؒ کی اس شفقت پر پھولے نہیں سماتا کہ حضورؒ نے مجھے اپنے ایک خط میں جبکہ میں دار الذکر لاہور میں بطور مربی سلسلہ خدمت بجا لا رہا تھا، مجھے برادرم حیدر علی ظفر کہہ کر مخاطب فرمایا:

لندن، مؤرخہ 6 جون 1985ء

برادرم حیدر علی ظفر

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اللہ تعالیٰ آپ کی خدماتِ دینیہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔ رمضانِ المبارک میں سلسلہ کے لئے خاص دعاؤں پر زور دیں۔ اللہ آپ کے اہل و عیال کو سفرو حضر میں خیریت سے رکھے۔ سبھی کو آپ کے لئے قرۃ العین بنائے۔ تمام دوستوں کو محبت بھرا سلام اور عید مبارک پہنچا دیں۔

والسلام
خاکسار
مرزا طاہر احمد
خلیفۃ المسیح الرابع

حضرت خلیفۃ المسیح الخامِس ایّدہ اللہ تعالیٰ
سے وابستہ چند شفقتوں کا احوال

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ ِالعزیز کے ساتھ حضور کے مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد جو مصافحہ کیا تھا اُس کی یاد، اسکا سرور تو ساری عمر اُن خوشکن لمحات کی یاد دلاتا رہے گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وفات کے روز ہی خاکسار لندن پہنچ گیا تھا۔ یوکے کی جماعت نے خلافت کمیٹی کے ممبران کی رہائش اور ان کی مسجد فضل میں آمد و رفت کے لئے خاص انتظام کیا ہوا تھا۔ نمازوں کے لئے مسجد فضل جاتے تھے۔ باقی وقت ہوٹل میں دعاؤں میں گزرتا تھا۔ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ جو کہ ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ تھے جب وہ لندن پہنچ گئے تو ان کے دستخطوں سے مجلس انتخاب خلافت میں شامل ہونے کی باقاعدہ تحریری اطلاع مل گئی اورگیسٹ ہاؤس کے لئے آتے جاتے وہ بھی نظر آتے تھے۔ پھر 22اپریل 2003ء کو بعد نماز مغرب و عشاء انتخاب خلافت کمیٹی کی کاروائی منعقد ہوئی اور اس کے نتیجہ میں صدر ِمجلس مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید انجمن احمدیہ نے حضرت سیّدنا مرزا مسرور احمد صاحب ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کے خلیفۃ المسیح الخامس منتخب ہونے کا اعلان فرمایا۔ اس کے بعد حضور انور صدر مجلس کی معیّت میں محراب میں تشریف لائے۔ پھر حضور نے منتخب ہونے والے خلیفہ کے لئے مقرر عہد دوہرایا۔ اس کے بعد سب ممبران کمیٹی سے بیعت لی۔ پھر سب کو فرداً فرداً شرف مصافحہ و معانقہ بخشا۔ جس شفقت سے آپ نے ہر ایک ممبر کو گلے لگایا اس کا سُرور زندگی بھر آتا رہے گا۔ معانقہ کے وقت حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں میں یہی عرض کر سکا :
’’اللہ تعالیٰ روح القدس سے آپ کی تائید فرمائے‘‘۔ اس کے بعد سے تو یہ دعا کہ ’’اللھم اید امامنا بروح القدس و بارک لنا فی عمرہ و امرہ‘‘ ہمیشہ وردِ زبان رہتی ہے۔

مجھے 2006ء میں حج بیت اللہ کی توفیق ملی۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ حج پر روانگی سے پہلے اور اسی طرح حرمین شریفین میں قیام کے دوران میں حضور کی خدمت میں خط لکھتا رہا اور وہ اس طرح کہ میں فون پر برادرم مکرم منظور احمد صاحب شادؔ کو درخواست کر دیتا اور وہ خط بنا کر حضور کی خدمت میں بھجوا دیتے۔ جب حج سے واپس آیا تو ان خطوط کے جوابات بھی آئے ہوئے تھے۔ حج سے واپس آنے کے بعد مَیں حضور ایّد اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نے بڑی شفقت اور محبت سے مجھے فرمایا:
’’اب تو آپ الحاج ہوگئے ہیں‘‘۔

ملاقات کے دوران حضور نے حج کے دوران واقعات دریافت فرمائے۔ میں نے حضور کی خدمت میں یہ بھی عرض کیا کہ مجھے حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی عمرہ کرنے کی توفیق ملی ہے۔ فالحمد اللہ علیٰ ذالک۔

امام وقت سے ملاقات اور مصافحہ

الحمد للہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اکیلے بھی اور فیملی کے ساتھ بھی ملاقات کا شرف حاصل کرنے کی توفیق ملی۔ علاوہ ازیں متعدد بار صرف مصافحہ کرنے کی بھی سعادت ملی۔ خلیفۂ وقت سے جن کو معانقہ کا شرف حاصل ہو یہ اس کی بڑی خوش بختی ہے لیکن اگر صرف مصافحہ کا موقعہ ہی مل جائے تو یہ بھی بہت برکتوں کا موجب ہوتا ہے۔ امامِ وقت کے ساتھ مصافحہ کے سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کادرج ذیل فرمان ہمیشہ میرے سامنے رہا:
’’پہلی بات تو یہ ہے کہ خلفاء کی اپنی طرف سے بیعت نہیں ہوتی بلکہ رسول کی نیابت میں ہوتی ہے۔ ہمارے سلسلہ میں رسول کریم ﷺ کی نیابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حاصل ہوئی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نیابت خلیفہ کو حاصل ہوتی ہے۔ ادھر رسول کریم ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ پر بیعت کرنا قرار دیا ہے۔ چونکہ خلیفہ کے ہاتھ کو رسول کی نیابت حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے امام وقت سے مصافحہ کرنا بھی برکت رکھتا ہے۔ ۔۔۔۔۔ یہ مصافحہ ملاقات کے وقت کا مصافحہ ہوتا ہے۔ اس وقت اگرچہ مصافحہ کے لئے بہت تھوڑا وقت ہوتا ہے مگر یاد رکھنا چاہیئے خدا تعالیٰ مامورین خلفاء کی برکات کو مختصر وقت میں پورا کر دیتا ہے۔ اگر یہ بات ان کو حاصل نہ ہوتو وہ اپنا کام پورا ہی نہ کر سکیں‘‘

(انوار العلوم جلد12۔ صفحہ579)

الحمد للہ حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے جرمنی کے ہردورے پر دو بار مصافحہ کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ حضور اپنی تشریف آوری پر استقبال کے لئے گئی ہوئی پائلٹ کار کے ممبران اور اسی طرح روانگی کے وقت ان ممبران کو مصافحہ کا شرف بخشتے تھے۔ پورے دورے کے دوران حضور انور کی مجالس میں پروگراموں میں قریب بیٹھنے کی سعادت بھی ملتی رہی۔ آمین کی تقریب کے موقعہ پر گفتگو بھی ہو جاتی۔ اسی طرح جلسہ گاہ میں آمد پر بات چیت ہو جاتی مگر مصافحے صرف دو ہی ہوتے تھے۔

خلیفۂ وقت کی خدمت میں دعائیہ خطوط

خلیفۂ وقت سے زندہ تعلق کے لئے دعائیہ خطوط بہت اچھا ذریعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے اس کی توفیق ملتی رہی اور مل رہی ہے اور اس طرح میرے پاس بیسیوں خطوط حضور کے اپنے دستخطوں کے موجود ہیں جن میں حضور نے مجھے اپنی دعاؤں سے نوازا ہے۔ اللہ کرے کہ حضور کی یہ دعا ئیں میرے حق میں قبول ہوں اور صراط مستقیم پر چلنا نصیب رہے اور میرا انجام بخیر ہو۔ حضور کی طرف سے آنے والے خطوط نہ صرف میرے لئے بلکہ میری اولاد کے لئے بہت بڑے قیمتی سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان خطوط میں سے ایک خط اس طرح ہے جس میں حضور نے لکھا :

لندن

11.07.2008

پیارے مکرم حیدر علی ظفر صاحب مبلغ سلسلہ۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ کا خط ملا۔ اللہ وفا اور ایثار اور پیار میں بڑھائے اور بے لوث خدمت کی توفیق دے اور اپنے مقبول بندوں میں شمار کرے اور ہمیشہ فضلوں سے نوازتا رہے نیز آپ سب کا ہر آن حامی و ناصر اور نگہبان ہو۔ آمین

والسلام
خاکسار
(دستخط) مرزا مسرور احمد
خلیفۃ المسیح الخامس

مؤرخہ11 نومبر 2017ء کو خاکسار پر جرمنی میں فالج کا حملہ ہوا تھا جس سے صحت یابی کے بعد 2018ء میں فیملی کے ساتھ حضور انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ملاقات کے لئے لندن حاضر ہوا تو حضور انورنے Reha میں قیام اور Physiotherapy کے متعلق گفتگو فرمائی۔ ازراہِ شفقت کچھ ادویّہ تجویز فرمائیں اور ہاتھ میں چھڑی رکھنے کے فوائد کا بھی ذکر فرمایا ۔ ملاقات کے اختتام پر حضور انور کے ساتھ ایک فیملی گروپ فوٹو ہواجس کے بعد الوداع ہوتے وقت حضورنے اپنے دفتر میں رکھی ہوئی اپنی ایک چھڑی مجھے عنایت فرمائی جو کہ گھر سے باہر نکلتے وقت میرے پاس ہوتی ہے۔ اس چھڑی پر کندہ کیا ہوا ہے

(AMEER-L-MU`MINEEN V)

خداتعالیٰ کی ذات تو ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتی ہے مگر اب میں حضور کی شفقت ومحبت کو بھی ہر وقت اپنے پاس پاتا ہوں۔

نائب امیر مقرر ہونے کے بعد

1998ء میں جماعت احمدیہ جرمنی کا مبلغ انچارج مقرر کئے جانے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا جو بھی جرمنی کا دورہ ہوا اس میں حضور انورؒ کا بارڈر پر یا جہاں بھی حضور کا ارشاد ہوتا استقبال کرنے اور الوداع کہنے کے لئے محترم امیر صاحب جرمنی، مبلغ انچارج اور جنرل سیکریٹری صاحب پائلٹ کار میں سفر کرتے۔ یہی طریق خلافتِ خامسہ میں بھی جاری ہے۔

نائب امیر جرمنی بننے کے بعد حضور کے استقبال کرنے کے لئے ملکی بارڈر یا جہاں حضور ارشاد فرماتے، استقبال کے لئے میرا جانا نہیں بنتا تھا۔ اس لئے اس موقعہ پر مصافحہ نہ ہو سکنے پر محرومی کا احساس تھا اس لئے میں نے حضور انور کی خدمت میں درخواست کی کہ جب حضورِ انور جرمنی تشریف لائیں اور پھر مسجدبیت السبوح ورُود فرمائیں جہاں پر حضور انور کا شاندار استقبال ہوتا ہے وہاں پر لوکل امیر صاحب فرینکفرٹ حضور کو خوش آمدید کہتے ہیں اور مصافحہ کا شرف حاصل کرتے ہیں وہاں پر یہ عاجز بھی حضور کو خوش آمدید عرض کرے گا۔ چنانچہ اس کے بعد دو دوروں میں ایسا ہی ہوا۔ اور مجھے حضور نے مصافحہ کا شرف بخشا۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء

خلفاء مسیح موعودؑ کی شفقت و محبت کی چند جھلکیاں میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا ہے کہ وہ اپنے فضل سے ہم سب کو خلافت کی کامل اطاعت کرتے ہوئے اس سے وابستہ رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔

(حیدر علی ظفر۔ مبلغ سلسلہ و نائب امیر جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مئی 2021