اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ چیز ودیعت فرما رکھی ہے کہ وہ اپنی حیات گذشتہ کےنشیب وفراز میں تلخ وشیریں واقعات کو سوچ سوچ کر غمی اور مسرت کی کیفیت میں جا پہنچتا ہے۔
آج میں بھی خلافت کی عنایات،برکات اور شفقتوں میں سے چند ایک یادیں رقم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔درحقیقت ایک احمدی تو ہر لمحہ ہی خلافت کے روحانی، ظاہری اور باطنی چشمہ سے سیراب ہوتا رہتا ہے جس کے نتیجہ میں بہت سے ایمان افروز واقعات جنم لیتے رہتے ہیں۔ ان کا شمار ممکن نہیں ہے۔ انہی یادوں میں سے چند ایک واقعات قلمبند کررہا ہوں۔ امید ہے یہ خوبصورت یادیں اور واقعات قارئین کرام کے لئے ازیاد ایمان وایقان کا باعث ہونگے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔
شجراپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے
ایک بہت ہی دلچسپ اور خوبصور ت واقعہ پیش خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ واقعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مسند خلافت پر متمکن ہو نے سے پہلے کا ہے ۔یہ واقعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اخلاق عالیہ اور سیرت طیبہ کا مظہر ہے۔میں سینیگال سے پاکستان رخصت پر آیا ہوا تھا۔ سینیگال واپس جانے کے لئے دفتر وکالت تبشیر ربوہ نے میرے لئےفیصل آباد سے کراچی کا ٹکٹ خرید کردیا۔ ان دنوں مبلغین کو کراچی سے بیرون پاکستان کا ائر ٹکٹ دیا جاتا تھا۔ اندرون ملک ٹرین پر سفر کی اجازت ہوا کرتی تھی۔ ربوہ سے وکالت تبشیر ربوہ کے زیر انتظام مرکزی گاڑی پر فیصل آباد پہنچا۔ میری سیٹ میری خواہش کے مطابق کھڑکی کی جانب اکیلی سیٹ بُک کرادی گئی تھی۔ ٹرین کی آمد پر میں اپنی ریزرو سیٹ پر جا کربیٹھ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں ڈبے کے باقی مسافر بھی اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان ہوگئے۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ میری سیٹ کے قریب ہی ایک جانب خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ احباب تشریف فرما ہیں جن میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب، مکرم میر قمر سلمان صاحب اور ان کے ساتھ ربوہ کے ایک اوراحمدی دوست تھے۔ ان کے علاوہ ایک غیر شناسا آدمی بھی بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ یہ معزز ہستیاں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہیں۔ چونکہ میں ایک لمبے عرصہ سے بیرون ملک تھا اس لئے ان میں سے کسی کے ساتھ ذاتی واقفیت نہیں تھی۔ ابھی گاڑی سٹیشن پر ہی تھی کہ میں اپنے خیالات میں مگن گاڑی کی کھڑکی میں سے باہر کی جانب شہر کا نظارہ کر رہا تھا۔ اتنے میں کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ میں نے جب مُڑ کر دیکھا تو یہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تھے۔ یہ میری زندگی میں پہلا موقعہ تھا کہ مجھے آپ سے ہمکلام ہونے کی سعادت ملی۔علیک سلیک کے بعد فرمانے لگے کہ آپ ہمارے ساتھ والی سیٹ پر آجائیں۔ میں نے کہا کہ وہاں تو ایک آدی بیٹھا ہوا ہے۔ فرمایا کہ ہم نے اس آدمی سے آپ کے ساتھ جگہ بدلنے کے لئے درخواست کی ہے جو اس نے قبول کرلی ہے۔ میرے لئے عجیب کشمکش کا عالم تھا۔ بہرحال آپ کی محبت اور اصرار پر میں ان کے بنچ پر آگیا۔ دوسرا آدمی میری جگہ پر منتقل ہوگیا۔ یہ رات کا سفر تھا۔ رستہ میں بڑے دوستانہ ماحول میں باتیں ہوتی رہیں۔ جیسے ہم عرصہ دراز سے دوست ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیدا کردہ احمدیت کا رشتہ سب رشتوں سے ارفع و اعلیٰ ہے۔ ان سب بزرگوں نے مجھے مبلغ سلسلہ ہونے کے ناطے احترام دیا اور دوران سفر میری ضروریات کا خیال رکھا۔سب بزرگ اپنا اپنا کھانا ساتھ لائے ہوئے تھے۔ سب نے اپنے اپنے ٹِفنز کھولے اور مجھے بھی باصرار اس دعوت میں شرکت کی دعوت دی۔آ ج بھی جب اس واقعہ پر غور کرتا تو حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اخلاق عالیہ کا یہ حسین پہلو نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خد انے دی
میرے ایک عزیز دوست مکرم حمید ظفر صاحب گھانا میں مربی سلسلہ خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ انہی ایام میں حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی گھانا میں جماعتی خدمات پر مامور تھے۔ ایک دن مکرم حمید احمد ظفر صاحب کے ساتھ گھانا کے بارے میں باتیں ہورہی تھیں۔ اسی دوران مکرم حمید احمد ظفر صاحب نے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اخلاق حسنہ اور عاجزی وانکساری اور ہمدردی کے بارے میں ایسے کلمات کے ساتھ خراج تحسین پیش کیاجو کسی عام آدمی کے بارے میں بہت ہی کم بیان کیا جاسکتاہے۔
مؤمن کی جان نماز میں ہوتی ہے
میرے ایک دوست نے ایک دفعہ بتایاکہ خلافت سے قبل حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خدام الاحمدیہ کے دفتر میں کوئی خدمت بجا لایا کرتے تھے۔ ایک روز سب خدام دفاتر میں اپنے اپنے کاموں میں بہت مصروف تھے۔ نماز کا وقت ہوگیا۔ حضور اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ باقی احباب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ حضور کافی دیر کھڑے رہے۔ اس دوران ایک نوجوان نے کہاکہ آؤ! نماز پہلے نماز ادا کرلیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ میاں صاحب اس وقت تک گھر نہیں جائیں گے جب تک نماز ادا نہیں کرلیتے۔
آقا کی غلاموں کی دلجوئی
جامعہ احمدیہ انگلستان میں سالانہ کھیلوں کا آخری دن تھا۔ ہماری خوش نصیبی تھی کہ اس پروگرام میں ہمارے پیارے آقا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنفس نفیس شریک تھے۔ اس روز اساتذہ جامعہ اور دیگر کارکنان جامعہ کے ما بین رسہ کشی کا ایک میچ رکھا گیا تھا۔ سب اساتذہ کو اس میچ میں شامل ہونے کی ہدایت تھی۔
مجھے دل کا عارضہ ہےجس کی وجہ سے اس روز اتفاق سے میری طبیعت قدرے بوجھل سی ہو رہی تھی۔لیکن تعمیل ارشاد میں انکار بھی نہ کرسکتا تھا۔ لیکن دل میں خواہش تھی کہ ناسازیٔ طبع کے پیش نظر میں اس رسہ کشی کےمقابلہ میں حصہ نہ لوں۔ اب میچ کے آغاز کا وقت آگیا۔ دونوں ٹیمیں آمنے سامنے آگئیں۔اس دوران حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میری طرف لپکے اور مجھے ارشاد فرمایا کہ خورشید صاحب! آپ باہر آجائیں۔ میں تو پہلے ہی اس انتظار میں تھا۔ فوری طور پر رسہ چھوڑ کر باہر آگیا۔ خیر مقابلہ ہوا جس میں کارکنان جامعہ کی ٹیم فاتح قرار پائی۔ اس کے بعد پھر مجھے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسکراتے ہوئےفرمایا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ ٹیم میں شامل ہوتے تو آپ جیت جاتے۔
اور میں بے ہوش ہو گیا
کئی سال قبل کی بات ہے۔ ایک شب میں اپنے کمرہ میں سویا ہوا تھا۔ اچانک طبیعت خراب ہوگئی۔ میرے ادویات نچلے کمرہ میں تھیں۔ میں اٹھا اور نچلے کمرہ میں چلا گیا۔ اس دوران غالباً بلڈ پریشر کے کم ہونے کے باعث میں بے ہوش ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ تھوڑی دیر کے بعد میرے اوسان بحال ہوگئے۔ اگلے روز میں نے اپنی بیماری سے صحت یابی کے لئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں دعائیہ خط تحریر کیا۔
اس واقعہ کے کافی عرصہ بعد میں حضور انور کی خدمت میں فیملی ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ جیسے ہی ہم لوگ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے آفس میں داخل ہوئے تو حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنی سدا بہار مسکراہٹ کے ساتھ استقبال فرمایا۔ پھر ساتھ ہی فرمایاکہ رات کو طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔ دوائی کے لئے نیچے آتے ہیں اور پھر بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ دوائی رات کو اپنے قریب کیوں نہیں رکھ لیتے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہ باتیں سن کر میں حیران وپریشان ہوگیا کہ کس طرح ممکن ہے کہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نہ صرف میری درخواست دعا والی تحریر کو ازخود پڑھا ہے بلکہ اس کے مضمون کو اب تک مِن وعن اپنے دل ودماغ میں مستحضر رکھا ہوا ہے۔ سبحان اللہ
روحانی بادشاہ کی غلاموں سے محبت
ایک دن میرا بیٹا عزیزم محمد احمد خورشید مربی سلسلہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ عزیز نے شیروانی پہن رکھی تھی۔ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ شیروانی کہاں سے لی ہے؟ اس نے بتایا کہ یہ میرے والد صاحب کی ہے۔ چند ماہ کے بعد میری بھی حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات تھی۔ میں نے بھی شیروانی پہن رکھی تھی۔فرمایا کہ پچھلے دنوں محمد احمد نے بھی آپ کی شیروانی پہن رکھی تھی۔ میں نے عرض کی کہ حضور! یہ سب شیروانیاں آپ کی طرف سے مختلف عیدوں پر تحفہ ملی ہیں۔ فرمایا کہ یہ شیروانیاں میری نہیں ہوتیں۔ مجھے ملتی ہیں اور میں آپ لوگوں کو دے دیتا ہوں۔ پھر فرمایا کہ میں آپ کو اپنی شیروانی دوں گا۔
تھوڑی دیر باتیں ہوئیں ۔اس کے بعد حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز یکدم اپنی کرسی سے اٹھے اور تشریف لے گئے۔ میرے ساتھ میری اہلیہ بھی تھیں۔ کافی دیر ہوگئی آپ واپس تشریف نہیں لائے۔ ہم پریشان ہوگئے کہ کیا ہوگا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کہاں تشریف لے گئے ہیں۔ کیا ہم چلے جائیں یا بیٹھے رہیں۔ عجیب گومگو کی کیفیت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس تشریف لے آئے۔ آپ کے دست مبارک میں ایک شیروانی تھی۔ فرمایا کہ مولوی صاحب! اسے پہنیں۔ میں نے عرض کی کہ جی حضور۔ فرمایا کہ ابھی پہنیں ۔اب میں نے پہلے بھی شیروانی پہن رکھی تھی۔ اس کے بٹن کھولنا ایک کارِدارد تھا۔ اب تصور کریں۔ میرے سامنے بادشاہ کھڑے ہیں ۔ان کے دستِ مبارک میں شیروانی ہے۔ میں نے عرض کی کہ حضور! آپ تشریف رکھیں۔ میں پہن لیتا ہوں لیکن میرے آقا حضور بدستور کھڑے رہے جس کی وجہ سے میرے لئے اپنی شیروانی کے بٹن کھولنا دو بھر ہوگئے۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آرام سے بٹن کھولیں۔ خیر! میں نے بٹن کھولے، شیروانی اتاری۔ پھر حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دوسری شیروانی لے کر پہن لی۔ فرمایا کہ یہ شیروانی میری اپنی ہے۔ سبحان اللہ! اپنے غلاموں سے کیسی ذرہ نوازی ہے۔ ایسی محبتوں کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔
کیاحضور ہمارے خط پڑھتے ہیں؟
میرے بزرگوار چچا مکرم منظور احمد شاد صاحب بتایا کرتے تھےکہ خلافت ثالثہ کے دور کی بات ہے ۔اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک بیٹی سے نوازا۔میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکی خدمت میں نومولودہ کے لئے دعا اور نام تجویز کرنے کی درخواست کی۔حضورؒ نے عزیزہ کانام طاہرہ نصرت تجویز فرما دیا۔ کراچی میں ہمارے ایک دوست مکرم فیضان رسول صاحب رہتے تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے عزیزہ کی پیدائش اور نام کے بارے میں انہیں بتایا۔ کہنے لگے کہ یہ تو ممکن ہے کہ حضور نے دعا فرمائی ہو۔ لیکن حضور کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس قدر مصروف زندگی میں آپ کے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ آپ ہر خط کو پڑھ کر اس کا جواب دے سکیں۔ اتفاق سے چند روز بعد مجھے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میں مکرم ظہور احمد باجوہ صاحب جو ان دنوں بطور پرائیویٹ سیکرٹری خدمت کی توفیق پا رہے تھے، کی خدمت میں بچی والے خط کو دیکھنے کی درخواست کی۔ انہوں نے ازراہ شفقت وہ خط مجھے دکھا دیاجس پر حضور انورؒ نے اپنے دست مبارک سے لکھا تھا۔ مبارک ہو۔ طاہرہ نصرت۔بعد میں میں نے جب مکرم فیضان صاحب کو یہ سارا واقعہ سنایا تو وہ بہت زیادہ حیران وششدر رہ گئے۔
حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شفقت اور نگاہ کرم
سال 2016ء کی بات ہے۔ عید سعید کا دن تھا۔ ان دنوں میری رہائش مچم میں تھی۔میں اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنی گاڑی میں نماز عید کے لئے مسجد بیت الفتوح کے لئے روانہ ہوا۔ ہم نے گاڑی مسجد کے سامنے مارٹن پارک میں حسب انتظام پارک کرنی تھی۔ جب میں پارک کے عقبی گیٹ کی طرف جارہا تھا تو اچانک میں نے دیکھا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کار مخالف سمت سے آرہی ہے۔ کچھ ہی دیر بعد آپ کی کار میری گاڑی کے مخالف سمت سے گزر کر آگے نکل گئی۔ اس طرح اچانک زیارت سے عید کی خوشی دوبالا ہوئی۔
عید کے کافی دنوں کے بعد میرےبیٹے عزیزم محمد احمد خورشید کی حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ملاقات تھی۔ دوران ملاقات آپ نے میرے بیٹے سے فرمایا آپ کے ابو کے ڈیالیسز ہوتے ہیں؟۔ بیٹے نے اثبات میں جواب دیا۔ اس پر فرمایا کہ عید کے روز تو وہ ڈرائیو کررہے تھے۔یہ بات بظاہر بہت معمولی ہے۔مگر اس میں سوچنے والے کے لئےبڑا ہی گہرا سبق ہےکہ کس طرح ہمارے پیارے آقا ہم خادموں کی ادنیٰ ادنیٰ باتوں کا بھی خیال رکھتے ہیں۔نہ صرف حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس غلام کو پہچان لیا بلکہ آپ کو میری بیماری کا بھی علم تھا۔ پھر بیماری کی حالت میں میرے اس طرح ڈرائیو کرنے پر فکر مندی کا اظہار فرمایا۔
دلجوئی اور چہرہ شناسائی
حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یادداشت اور چہرہ شناسائی کی صفت ناقابل یقین حد تک غیر معمولی ہے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلا کا حافظہ عنایت فرمارکھا ہے۔انگلستان میں میرے کافی عزیز رہتے ہیں۔ان میں سے جب بھی کوئی عزیز یا عزیزہ ملاقات کے لئے حاضر ہوتے ہیں تو ہمیشہ ہی حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز انہیں دیکھ کر فرماتے ہیں کہ آپ خورشید صاحب کے کیا لگتے ہیں؟ ان عزیزان میں میرے بہن بھائیوں، میرے بچوں کے علاوہ میرے نواسے، بھانجیاں بھانجے، بھتیجے اور کزن بھی شامل ہیں۔ مجھے پیارے آقا کے اس حوالہ سے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے کمال کے حافظہ اور یادداشت پر حیرانگی کے علاوہ اس بات پر بہت زیادہ روحانی مسرت ہوتی ہے کہ کس طرح ایک آقااپنے غلام کو یاد فرمالیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے امام ہمام کو ہمیشہ ہی اپنی حفظ وامان میں رکھے اور ہمیں بھی خلافت کے مقدس دامن سے ہمیشہ ہی وابستہ اور پیوستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اللہ تعالیٰ نے دریا کو کوزہ میں بند فرمادیا ہے
سال 2019ء میں مجھے مرکزی ارشاد پر سپین جاکر کچھ عرصہ خدمت دین کی توفیق ملی۔ الحمدللہ اس مشن کے سلسلہ میں چندایک بار پیارے آقا سے سپین کے حوالہ سے ملاقات کی سعادت ملی جس میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سپین ملک اور جماعت کے حوالہ سے کچھ اس رنگ میں تجزیہ فرمایا کہ میں تو ورطۂ حیرت میں ڈوب گیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کو سپین کے جماعتی معاملات، مشکلات، ماحول، یہاں تک کہ احباب جماعت کے انفرادی مسائل سے بھی بخوبی آگاہی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے آپ دنیا بھر سے دوسو سے زائد ممالک میں احمدیت کی تبلیغ، تعلیم وتربیت کے علاوہ ہر شعبۂ حیات میں جو خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ کسی بھی عام انسان کے ممکن ہے؟ یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ قوتوں کا ہی ثمر ہے۔ یہ سب کچھ اپنی ذات میں ایک معجزہ ہے۔ یہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔
(منور احمد خورشید مربی سلسلہ انگلستان)