• 1 اگست, 2025

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ چند یادیں

گھانا میں تربیت کا ایک واقعہ

میں گھانا میں خدمت بجا لارہا تھا ایک دفعہ اکرا سے واپسی پر کوفوریڈوا جانا تھا تو میں نے اکرا سے سویڈروکی بس لی۔ وہاں پر احمدیہ ہسپتال تھا جس کے انچارج ڈاکٹر طارق احمد صاحب تھے جو آجکل قادیان میں احمدیہ ہسپتال میں خدمت بجا لارہے ہیں۔ سویڈرو کے ساتھ ہی وہ جگہ تھی جہاں پر اس وقت سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایک سیکنڈری سکول میں خدمات بجا لارہے تھے۔ میں سویڈرو سے سیدنا مسرور احمد صاحب کو ملنے کے لئے چلا گیا۔ ہم باہر مکان کے صحن میں بیٹھے تھے کہ اچانک صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب (جو اس وقت شاید سال ڈیڑھ سال کے ہوں گے) ہماری طرف چل کر آنے لگے لیکن راستہ ہی میں کنکریوں کی وجہ سے گر گئے۔ میں اپنی کرسی سے اٹھا ہی تھا کہ انہیں اٹھاؤں آپ نے مجھے فوراً بٹھا دیا کہ اسے خود اٹھنے دو۔ میں نے کہا: میاں صاحب وہ بچہ ہے گر گیا ہے۔ آپ نے فرمایا اسی طرح گر کر خود اٹھنے سے ہمت پیدا ہوتی ہے۔ زندگی میں تو انسان کو کئی دفعہ اس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسان کو گر کر خود سنبھلنا چاہئے۔ دوسروں کا انتظار نہیں کرنا چاہئے اور یہی سبق اسے (مرزا وقاص احمد صاحب) دینا ہے کہ اگر کبھی گر جاؤ تو خود سنبھلو۔ الفاظ تو میرے ہیں لیکن مفہوم بعینہٖ وہی ہے جو آپ نے ارشاد فرمایا تھا۔

ہر شخص اس بات سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس نصیحت میں کتنا بڑا وزن ہے اور کتنا بڑا وژن ہے۔ زندگی مشکلات سے بھری پڑی ہے لیکن اگر انسان خدا پر توکل کر کے خود ہی اس سے نکلے تو اس کا مزا کچھ اور ہے اور اس طرح دوسروں سے شکوہ بھی کبھی پیدا نہ ہو گا کہ فلاں وقت میری مشکل میں کوئی کام نہ آیا۔

اللہ تعالیٰ حضور انور کو ہمیشہ ہر قسم کی مشکلات اور پریشانیوں سے محفوظ رکھے۔

اب بات چل پڑی ہے ڈائری سے اور پھر حضور انو رکے ساتھ بیتے ہوئے کچھ لمحات کی یاد کو تازہ کرنے کی۔

خاکسار ابھی گھانا میں آیا ہی تھا تو کچھ ماہ اکرا میں رہ کر کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد جب میری تقرری محترم امیر عبدالوہاب بن آدم صاحب مرحوم نے کوفوریڈوا میں کی تو جلد ہی وہاں پر ریجنل جلسہ کرنا تھا۔ خاکسار نے مکرم امیر صاحب گھانا کی خدمت میں لکھا کہ وہ اس ریجنل جلسہ کی صدارت کے لئے تشریف لائیں جو آپ نے منظور کر لیا۔ ساتھ ہی خاکسار نے چند اور دوستوں کو بھی دعوت دی اور سیدنا مرزا مسرور احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کو بھی دعوت دی۔ آپ نے بھی ارشاد فرمایا کہ ٹھیک ہے میں آؤں گا۔

اس زمانے میں گھانا کے معاشی حالات بڑے خراب تھے۔ چیزوں کا ملنا بہت ہی مشکل تھا خصوصاً خورد و نوش کی اشیاء۔ حتی کہ صابن، ٹوتھ پیسٹ، دودھ وغیرہ کا حصول بھی بہت مشکل ہوتا تھا۔ اور مہنگائی بھی بہت زیادہ تھی۔ جب سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد صاحب تشریف لائے تو دو باتیں اس وقت کی بہت اچھی طرح یاد ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب ہمارا ریجنل جلسہ ختم ہوا تو آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ گھانا کیسا لگا؟ اور دوسرے کام میں کچھ مشکلات تو نہیں؟

خاکسار نے عرض کی کہ کام تو بہت ٹھیک جارہا ہے خداتعالیٰ کے فضل سے اس میں کوئی مشکلات نہیں۔ البتہ کھانے سے متعلق ایک دقّت ہے۔ آپ نے پوچھا وہ کیا؟ عرض کی یہاں ایک تو مہنگائی بہت ہے دوسرے گوشت بہت مہنگا اور تیسرے یہاں پر گوشت کھال سمیت ملتا ہے اور جب گوشت سے کھال اتار کر پھینک دو تو گوشت کی مقدار نصف سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ آپ نے فوراً فرمایا کہ کھال سمیت پکایا کرو اور کھا لیا کرو۔ میں نے کہا لاحول ولا قوۃ۔ اس پر آپ نے فوراً میری راہنمائی فرمائی کہ یہ کھال گھٹنہ سے اوپر حرام کیسے ہے جبکہ گھٹنہ سے نیچے حلال ہو جاتی ہے۔ یعنی جب پائے پکائے جاتے ہیں کھال سمیت پکاتے ہیں اور وہ لذیر بنتے ہیں۔

میں نے تو اپنی ناسمجھی میں اس وقت لاحول ولا قوۃ کہہ دیا۔ لیکن اس کے بعد سے گوشت کو کھال سمیت پکایا اور اس کا مزہ دوبالا ہو گیا اور پھر افریقہ میں بقیہ سال کھال سمیت ہی گوشت کو پکا کر کھاتے رہے اور لذت اٹھاتے رہے۔

یہ واقعہ نئے مربیان کے لئے بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے جو افریقہ میں جاتے ہیں کیونکہ شروع شروع میں جب وہ ان چیزوں کو دیکھتے ہیں تو دل میں کچھ تنگی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات بہت ہی فائدہ مند ثابت ہوئی اور آپ نے مسئلہ کا حل فوراً نکال دیا۔ افریقن ممالک میں اکثر جگہ گوشت (خواہ بکرے، بھیڑ یا گائے کا ہو) کھال سمیت پکاتے ہیں اور مارکیٹ میں بھی کھال سمیت ہی فروخت ہوتا ہے۔

کینیڈا میں دلنشیں یادیں

تین چار سال پہلے حضور انور جب کینیڈا تشریف لے گئے تھے تو امریکہ سے بھی عشاق خلافت وہاں پہنچے۔ ہمیں بھی اجازت اور سعادت ملی کہ ہم وہاں چلے جائیں اور حضور کی معیت سے برکات اور استفادہ کریں۔

کینیڈا میں بھی ملاقتیں ہو رہی تھیں۔ مکرم پرائیویٹ سیکرٹری منیر احمد جاوید صاحب سے ہم ملے کہ ہم نے بھی ملاقات کرنی ہے۔ وہ کہنے لگے کہ کینیڈا کے لوگوں کی ہی ملاقات ہو گی۔ ہم بھی دو تین دن اپنی عرضی پیش کرتے رہے اور ہمیں مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کی طرف سے یہی جواب ملتا کہ کینیڈا کے لوگوں کو ترجیح ہے۔ ہم جواب سن کر خاموش ہوجاتے۔ ملاقاتوں کا آخری دن تھا مکرم ظہیر احمد باجوہ صاحب اور خاکسار نے مل کر درخواست دی کہ ہمیں سب سے آخر میں بس زیارت کروا دیں۔ عین نوازش ہو گی۔

چنانچہ اس آخری دن کی ملاقاتوں میں سب سے آخر پر ہمارا دونوں کا نام اس طرح درج تھا۔

سید شمشاد احمد مبلغ امریکہ مع ظہیر احمد باجوہ صاحب۔

جب ہماری باری آئی تو حضور انور سے ملاقات کے کمرے میں داخل ہوئے حضور نے شفقت سے کھڑے ہو کر ہمارا استقبال کیا اور پھر کرسیوں پر بیٹھتے ہی از راہ مذاق فرمایا کہ باجوہ صاحب آپ شمشاد صاحب کے ’’مع‘‘ کب سے بنے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے اپنی اپنی باتیں کیں۔ اس دوران حضور انور نے خاکسار سے پوچھا کہ آپ کہاں ٹھہرے ہوئے ہو۔ میں نے عرض کی کہ یہاں نزدیک ہی گیسٹ ہاؤس ہے، اس میں۔ آپ نے فرمایا وہاں ’’شیشہ‘‘ نہیں لگا ہو ا کہیں پر۔ میں نے فوراً اپنے منہ اور داڑھی پر ہاتھ پھیرا کہ شاید میں نے کوئی چیز کھائی ہے جو منہ پر یا داڑھی پر لگی رہ گئی ہے۔ حضور نے جب دیکھا کہ میں اپنی داڑھی اور منہ پر جلدی سے ہاتھ مار رہا ہوں تو فرمانے لگے نہیں۔ تم نے خط نہیں بنایا ہوا۔ میں نے عرض کی جی حضور ہفتہ میں دو بار بناتا ہوں کل بنانا تھا۔

یہ بظاہر بہت معمولی بات ہو گی لیکن حضورانور نے اس میں مجھے پیغام دیا کہ مربی کا چہرہ، لباس، اٹھنا بیٹھنا ہر وقت خوبصورت ہونا چاہئے۔ اس کے بعد سے خاکسار نے اب ہفتہ میں 3 بار خط بنانا شروع کر دیا ہے تا حضور کی بات پر عمل ہوتا رہے۔

اسی دوران آپ نے باجوہ صاحب کو فرمایا کہ شمشاد صاحب جب گھانا میں تھے تو ان کو گوشت کھانے کی عادت تھی اور گوشت ملتا نہیں تھا۔ تو شمشاد تھوڑا سا گوشت لے کر اس میں کبھی دال اور کبھی کوئی سبزی ڈال لیتے تھے اور جب وہ ختم ہونے لگتا اور پانی ڈال لیتے تھے۔ حضور نے اتنا ہی فرمایا تھا کہ باجوہ صاحب کہنے لگے کہ حضور ’’اسی وجہ سے میں شاہ صاحب کا مرید ہوں۔‘‘ اس پر حضور نے فرمایا کہ ’’نہیں ۔مرید تم نے ایک ہی کا رہنا ہے شاہ صاحب سے تم کام کرنا سیکھو کہ کس طرح کام کیا جاتا ہے۔ مرید تم نے ایک ہی کا رہنا ہے۔‘‘

اسی طرح حضور نے فرمایا کہ شمشاد صاحب گھانا میں ڈبل روٹی بھی نہیں کھاتے تھے۔ مَیں نے عرض کی حضور! ڈبل روٹی تو میں اب بھی نہیں کھاتا۔ حضور نے فرمایا: کبھی کبھی کھا لینی چاہئے۔ میٹنگ کے اختتام پر خاکسار گیسٹ ہاؤس گیا اور جاتے ہی سب سے پہلے ڈبل روٹی کھائی تا حضور کی بات پر عمل ہو جائے۔ اور اب اس کے بعد کبھی کبھی روٹی کی موجودگی میں بھی ڈبل روٹی ہی کھا لیتا ہوں تا نصیحت پر عمل ہو جائے اور ثواب ہو۔

امریکہ میں تربیت کا ایک واقعہ

اب میں ایک ایسا واقعہ لکھنے لگا ہوں جس میں حضور انور کی ناراضگی اور میرے لئے سزا کا پہلو ہے۔ لیکن اس بات کے لکھنے کا مقصد صرف اور صرف تربیت کا پہلو مدنظر ہے۔ خلیفہ وقت ہر معاملہ میں نظام جماعت کی برتری چاہتے ہیں۔ جس میں کسی چھوٹے بڑے کا سوال نہیں ہے۔ نظام جماعت اور تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے اولیت رکھتے ہیں، شخصیت نہیں۔ ہوا یوں کہ خاکسار 2005 ء میں لاس اینجلس میں متعین تھا۔ ہمارے ایک مربی صاحب کے بیٹے کی شادی تھی۔ مجھے مربی صاحب کی طرف سے بھی ولیمہ میں شامل ہونے کی دعوت تھی۔ اور دوسری طرف میرے دوست تھے جن کی بیٹی کی ان مربی صاحب کے بیٹے کے ساتھ شادی تھی اور خاکسار رخصتی اور ولیمہ دونوں میں شامل ہوا۔ ایک اور مربی صاحب بھی اس میں شامل تھے جو یہاں بطور مربی متعین تھے۔

جس دن ولیمہ تھا جو کہ ایک ریستوران میں ہوا تھا۔ وہاں پر بیک گراؤنڈ میں میوزک چل رہا تھا میں نے اس کی طرف بالکل دھیان نہیں دیا اور دوستوں کو ملنے اور ملاقات میں مصروف رہا۔ کیونکہ خاکسار یہاں پر 4 سال سے زائد مربی سلسلہ کی خدمات بجا لا چکا تھا سب سے واقفیت تھی اور وہی ایک موقعہ تھا جس سے سب دوستوں سے ملاقات ہو رہی تھی۔ خیر ولیمہ کی دعوت ختم ہوئی سب چلے گئے۔

کسی دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اطلاع دی کہ مربی صاحب کے بیٹے کا ولیمہ تھا اور دیگر مربیان بھی تھے اور ولیمہ کے موقع پر میوزک چل رہا تھا۔ جس پر حضور انور نے ہم سے استفسار فرمایا کہ کیا ہوا ہے؟ ہم نے اپنی اپنی وضاحت لکھ کر بھیج دی جس پر مکرم عبدالماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن کی طرف سے 8 اگست 2005 ء کا لکھا ہوا خط مکرم امیر صاحب امریکہ کے نام آیا اس وقت امیر مکرم ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب تھے۔ اس میں حضور کی طرف سے ہدایت تھی کہ ………… کو واپس پاکستان بھجوا دیں۔ حضور نے فرمایا ہے ’’دف بجانے کی اجازت سے میوزک اور فلمی گانوں کا جائز ہونا کہاں سےنکال لیا ہے۔ یہ لوگ تاویلیں نہ گھڑا کریں۔ دف تو صرف اس لئے بجائی جاتی تھی کہ نکاح کا اعلان ہو، نہ کہ فخریہ اظہار کے لئے۔ دف بجانے کے تعلق میں حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایاہ ے:
’’فقہاء نے اعلان بالدف کو نکاح کے وقت جائز رکھا ہے اوریہ اس لئے کہ پیچھے جو مقدمات ہوتے ہیں تو اس سے گویا ایک قسم کی شہادت ہو جاتی ہے۔ ہم کو مقصود بالذ ات لینا چاہئے۔ اعلان کے لئے یہ کام کیا جاتا ہے یا اپنی کوئی شیخی اور تعلّی کا اظہار مقصود ہے۔

فرمایا : باجا بجانا اس صورت میں جائز ہے جبکہ یہ غرض ہو کہ اس نکاح کا عام اعلان ہو جائے اور نسبت محفوظ رہے ۔…… البتہ ریاکاری فسق و فجور کے لئے یا صلاح و تقویٰ کے خلاف کوئی منشاء ہو تو منع ہے۔‘‘

حضور انور نے فرمایا ہے دونوں مبلغین مکرم سید شمشاد احمد ناصر صاحب اور جو اس تقریب میں شامل ہوئے ہیں وہ جلسہ سالانہ یو ایس اے کے موقع پر کھڑے ہو کر اعلان کریں کہ اس ولیمہ کی تقریب میں جو میوزک اور فلمی گانوں کا پروگرا م ہوا ہے یہ انتہائی غلط ہوا ہے اور ہم جو اس میں شامل ہوئے تھے ہم سے غلطی ہوئی تھی۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا ہم جماعت کو بتانا چاہتے ہیں جو ہوا ہے وہ غلط ہوا ہے اور اس کو ہرگز روایت نہیں بنانا چاہئے۔‘‘

حضورانورنے فرمایا ہے ۔دونوں مربیان ایک لاکھ مرتبہ استغفار کریں۔

مکرم امیر صاحب کی طرف سے جب یہ خط ملا تو استغفار شروع کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ صدقہ بھی دیتا رہا۔ اب جلسہ سالانہ پر اعلان کرنا تھا چنانچہ جلسہ کا پہلا دن تھا اور اجلاس کی صدارت امیر صاحب امریکہ ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب فرما رہے تھے۔ جلسہ کے سیشن کے اختتام پر آپ نے ہم دونوں مبلغین کو سٹیج پر بلایا جہاں سے سب لوگ ہمیں بھی دیکھ سکتے تھے۔ پوڈیم سے تھوڑا الگ ہو کر ہم دونوں مبلغین سب کے سامنے کھڑے تھے۔محترم امیر صاحب نے چند ابتدائی کلمات کہے کہ ہمیں کیوں سٹیج پر بلایا گیا ہے اور حضور کی ہدایت سنائی۔ مجھ سے پہلے دوسرے مبلغ بھائی نے اسی طرح الفاظ پڑھ دیئے جس طرح کہ خط میں ہدایت تھی اس کے بعد امیر صاحب نے خاکسار کو بلایا۔ خاکسار نے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم اور اہدنا الصراط لمستقیم۔ صراط الذین انعمت علیہم غیرالمغضوب علیہم ولا الضالین پڑھا۔ اور پھر یہ کہا کہ:
اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر خاص فضل اور احسان کیا ہوا ہے کہ ہمیں خلافت کی نعمت سے نوازا ہے۔ ہم میں سے جب بھی کسی بڑے یا چھوٹے یا کسی سے بھی کوئی غلطی ہوتی ہے تو حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمیں نصیحت فرماتے اور ہدایت فرماتے ہیں تا وہ غلطی درست ہو جائے اور تقویٰ پر ہم چل پڑیں اور خداتعالیٰ کا قرب حاصل کریں۔

خلافت کی راہنمائی میں جو ہدایات ہم (احمدی) لیتے ہیں وہ کسی اور کو نہیں ملتیں۔ ہم اس نعمت پر خداتعالیٰ کے شکرگزار ہیں۔ اس لئے ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ حضرت خلیفۃ المسیح کی ہدایات کی پوری طرح اور خوشدلی کے ساتھ مکمل اطاعت کریں۔

آج اس وقت میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں اور حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے ساتھ کہ یہ اعلان کروں کہ وہ شادی جس میں مَیں اور میرے دوسرے مربی بھائی شامل ہوئے تھے، میں بھی اس میں شامل تھا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر کھڑے ہو کر ہم یہ اعلان کریں کہ اس ولیمہ کی تقریب میں جو میوزک اور فلمی گانوں کا پروگرام ہوا ہے یہ انتہائی غلط ہوا ہے مجھے اس میں قطعاً شرکت نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اس لئے میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں اور آئندہ میں اس قسم کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوں گا۔ میرے شامل ہونے سے جماعت یہ نہ سمجھے کہ چونکہ اس قسم کی مجلس میں مربی شامل تھا اس لئے ہم بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

میں دلی طور پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور اس بات سے مجھے شرم محسوس ہوئی ہے کہ میں کیوں اس میں شامل ہوا۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اور میں پیارے حضور سے بھی معافی کا خواستگار ہوں کہ آئندہ کوشش کروں گا کہ حضور کی توقعات کے مطابق کام کروں ۔ ان شاء اللہ

رب انی ظلمت نفسی واعترفت بذنبی فاغفرلی ذنوبی فانہ لا یغفر الذنوب الا انت۔ اس دعا کا ترجمہ انگریزی پڑھنے کے بعد خاکسار نے تین دفعہ خلافت احمدیہ زندہ باد کے نعرے لگائے۔

حضور انور کے ارشاد پر جلسہ کے اس سیشن پر ہم نے یہ اعلان کر دیا۔ اعلان کرنے کے بعد جوں ہی سٹیج سے میں نیچے اترا جلسہ میں شامل ہونے والوں کا ایک جم غفیر خاکسار کی طرف بڑھا۔ سب سے پہلے مجھے یاد ہے کہ مکرم شیخ فضل احمد صاحب مرحوم آف لاہور (برادر اصغر مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم) خاکسار کی طرف تیزی سے بڑھے۔ انہوں نے مجھے اپنے سینے کے ساتھ چمٹا لیا اور بہت پیار کیا اور ساتھ ہی کہنے لگے کہ آج حضرت مصلح موعودؓ کا زمانہ یاد آگیا ہے۔ کہنے لگے کہ ایک موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت مولانا درد صاحب کو بھی اسی قسم کا جلسہ پر اعلان کرنے کے لئے ارشاد فرمایا تھا۔

ان کے بعد باری باری لوگ مجھے اپنی بانہوں میں لے رہے تھے اور اکثر دوستوں نے اس وقت یہ کہا کہ ہمیں آپ پر رشک آرہا ہے آپ نے حضرت امیر المومنین کی ہدایت کی پوری پوری اطاعت کی ہے۔ آج کے بعد آپ کی عزت ہماری نظروں میں پہلے سے بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ کئی لوگ دعا بھی دے رہے تھے، کئی لوگوں نے میرے گردن پر، کسی نے میرے ماتھے پر بوسہ دیا کہ آپ نے طاعتِ امام کا زندہ ثبوت فراہم کیا۔ کئی ہمارے لئے دعائیں کر رہے تھے اس موقعہ پر میری جو کیفیت اور حالت تھی وہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور میں دل ہی دل میں بس۔ الحمد للہ ۔ الحمد للہ۔ الحمد للہ پڑھتا جا رہا تھا۔ اور استغفار کا سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رکھا۔

1۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور انور کی ہدایت پر عمل کرنے سے خاکسار کو مزید عزت ملی اور نہ صرف عزت بلکہ لوگوں نے جس محبت اور اخلاص کا مظاہرہ کیا اس کا میں ذکر کر چکا ہوں۔ اس پر میں اللہ تعالیٰ کا بےحد شکرگزار ہوں۔

2۔ بادی النظر میں ہزاروں کے مجمع کے سامنے یہ کہنا کہ میں نے بھی غلط کام کیا ہے بڑا مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے پیچھے بھی ایک طاقت جس نے یہ سارا کام آسان کر دیا اور وہ طاقت بھی حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاتھی۔ مجھے 100 فی صد کامل یقین ہے کہ جب پیارے حضور نے ہمارے لئے یہ ہدایات بھیجیں تو ہمارے لئے دعائیں بھی کیں۔ بس ان دعاؤں سے یہ سارا کام آسان ہوا۔

3۔ پھر میرے ذہن میں حضرت مصلح موعودؓ کی دو باتیں تھیں ایک یہ جس میں آپؓ نے فرمایا:
’’خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ وقت کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔ جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطابات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں۔‘‘

دوسری چیز جو خاکسار کے مدنظر تھی وہ یہ کہ آپؓ نے فرمایا تھا:
’’مبلغین اور واعظین کے ذریعہ بار بار جماعتوں کے کانوں میں یہ آواز پڑتی رہے کہ پانچ روپے کیا، پانچ ہزار روپیہ کیا، پانچ لاکھ روپیہ کیا، پانچ ارب روپیہ کیا، اگر ساری دنیا کی جانیں بھی خلیفہ کے ایک حکم کے آگے قربان کر دی جاتی ہیں تو وہ بے حقیقت اور ناقابل ذکر چیز ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 جولائی 1936ء خطبات محمود جلد17 صفحہ457)

4۔ چوتھے خاکسار نے یہ واقعہ اس لئے بھی لکھا ہے کہ تاہم میں سے ہر ایک احمدی مرد و عورت بچہ اس واقعہ کو پڑھ کر نصیحت حاصل کرے کہ اسلام کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے ہی اس جماعت کا قیام عمل میں آیا ہے۔ دوسرے خلیفۃ المسیح کی ہر حال میں اطاعت و فرمانبرداری کرنی ہے، تیسرے یہ کبھی نہیں سوچنا کہ اس میں ہماری بے عزتی ہے۔ عزتیں تو ساری اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں لوگوں کے پاس نہیں اور جو خدا کی خاطر احکامات پر عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ خود اس کی عزت کے سامان پیدا کر دیتا ہے۔

اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول والی بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ ہمارا جسم خلیفہ کے ہاتھ میں میت کی طرح ہونا چاہئے جب یہ کیفیت ہو گی تو پھر انسان عزت یا بے عزتی کا تصور نہیں کر سکتا۔

لاس اینجلس میں حضور انور کی دلداری

یہ 2013ء کا واقعہ ہے جب حضور انور کیلیفورنیا تشریف لائے۔ غالباً 13 -14 دن کا دورہ تھا۔ مسجد بیت الحمید میں آپ کا قیام تھا۔ ہر دن بہت مصروف گزر رہا تھا، جماعت نے ایک دن پروگرام بنایا کہ حضورانور کو مسجد بیت الحمید سے غالباً 30-35 میل دور ایک جگہ Big Bear Lake جھیل تھی وہاں لے جائیں۔ چنانچہ آپ کے ساتھ ہمیں بھی جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ نے ایک درخت کےنیچے سب خدام کے ساتھ بیٹھ کر چند لمحات گزارے۔ جب واپس آرہے تھے تو بڑی بوٹ (Boat) تھی اس میں سب خدام ہی تھے، حضور انورکی خدمت میں خاکسار نے عرض کی کہ حضور! آپ کو جھیل اور جگہ پسند آئی۔ حضورانور نے فرمایا ۔میں نے تو اس سے بھی بہت عمدہ عمدہ، خوبصورت اور بڑی جھیلیں دیکھی ہیں۔ میں تو آپ کی دلداری کی خاطر آگیا ہوں۔

یہ بات واقعی درست تھی۔ حضورانور نے تو ضرور عمدہ، خوبصورت اور بڑی جھیلیں دیکھی تھیں۔ لیکن آپ کی وجہ سے ہمیں بھی یہاں سیر کرنے اور اس علاقہ اور جھیل کو دیکھنے کا موقع مل گیا۔ میں یہاں مسجد بیت الحمید میں دس سال رہا ہوں اور یہ جگہ مسجد سے کوئی 35 میل دور ہو گی لیکن اس سے قبل وہاں کبھی جانے کا موقع نہ نکالا تھا۔ یہ حضورانور کی شفقت اور دلداری تھی کہ آپ کی برکت سے ہم وہاں گئے اور آپ کے ساتھ چند یادگار لمحات گزارنے کی سعادت مل گئی۔ جس کی لذت اب تک محسوس ہوتی ہے۔ الحمد للہ علیٰ ذلک

یہاں پر جب ظہر و عصر کی نمازیں پڑھیں تو نماز کے بعد خاکسار اپنے جوتے پہننے لگا۔ مکرم منیر احمد جاوید صاحب بیٹھ کر اپنے جوتے پہن رہے تھے۔ میں نے اپنے جوتے پہننے کے لئے مکرم منیر جاوید صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ لیا تا سہارا مل جائے۔ حضورانور نے دیکھ کر فرمایا کہ شمشاد یہ کیا؟ آپ کی کتنی عمر ہے۔ منیر جاوید صاحب بولے حضور! یہ مجھ سے جامعہ میں سینئر تھے۔ حضورانور نے فرمایا: عمر کیا ہے؟ میں نے اپنی عمر بتائی۔ آپ نے فرمایا یہ تو کوئی ایسی عمر نہیں کہ سہارا لے کر جوتا پہنو۔ حضور انور نے چند سیکنڈوں ہی میں خاکسار کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ خود ہمت کرنی چاہئے سہارا نہیں لینا چاہئے اور یوں مجھے جوان بنا دیا۔

ایک مضمون پر تبصرہ

ایک دفعہ خاکسار نے ’’سیرت داؤد‘‘ کے متعلق اپنا ایک مضمون لکھا۔ مضمون میں حضرت سید میر داؤدؒ کے ساتھ گزرے ہوئے واقعات، لمحات، آپ کی شفقتوں اور تعلیم و تربیت کا طریق کار بیان کیا تھا۔

خاکسار نے مضمون اس لئے لکھا کہ الفضل میں شائع کراؤ ں گا لیکن ساتھ یہ خیال بھی آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ سے کسی یادداشت میں غلطی ہو گئی ہو یا کوئی واقعہ نامناسب ہو اور بعد میں اس کی تصحیح ہو۔ بہتر اور بابرکت ہو گا کہ پہلے حضور انور کی خدمت میں پیش کر دوں۔ اس میں بھی ڈر تھا کہ شاید حضور انورکی خدمت میں بھی پیش کرنے کے لائق بھی ہے کہ نہیں۔ میں نے مضمون پر ایک نوٹ مکرم منیر احمد جاوید صاحب کی خدمت میں لکھا کہ یہ مضمون ارسال ہے پہلے آپ پڑھ لیں اگر مناسب ہو تو حضور انور کی خدمت میں پیش کریں ورنہ نہیں۔ مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے ابتدائی چند صفحات پڑھے تھے اور حضور کی خدمت میں پیش کر دیا۔ خاکسار نے اس کے چند دن بعد ہی حضور انور کے ارشاد پر سیرالیون جلسہ سالانہ پر نمائندہ کے طور پر جانا تھا اس لئے ملاقات بھی ہونی تھی۔ خاکسار کے ذہن میں اس مضمون کے بارے میں کوئی خیال نہ تھا۔ سیرالیون جانے اور ہدایات لینے کے بارے میں ذہن میں سوالات تھے جن کے بارے میں حضورانور سے راہنمائی لینی تھی۔

خاکسار جب ملاقات کے لئے اندر داخل ہوا تو حضورانور نے کھڑے ہو کر عاجز کو مصافحہ کا شرف عنایت فرمایا۔ اور فرمایا کہ تمہارا مضمون سیرت داؤد والا پڑھا۔ تمہارا پتہ لگ گیا ہے کہ تم کتنے لائق ہو؟

خاکسا رنے عرض کی حضور! میں تو پہلے بھی نالائق تھا۔ اب بھی نالائق ہوں۔ یہ تو حضور انور کی شفقت اور مہربانی ہے کہ پردہ پوشی فرما رہے ہیں اور اللہ کا احسان ہے کہ خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ پھر حضورانور نے فرمایا میں نے اس پر نوٹ لکھ دیا ہے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے لے لیں۔

جب خاکسار ملاقات کے بعد پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے ملا تو انہوں نے فرمایا کہ مسودہ مضمون کا دکھایا جس پر حضور نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا تھا :
’’اس مضمون کو شائع کروائیں۔ یہ صرف آپ سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ آج جامعہ کے اساتذہ، طلباء، مربیان، واقفین زندگی سب کے لئے لائحہ عمل ہے اللہ تعالیٰ میر صاحب کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ آمین۔‘‘

بعد میں یہ مضمون الفضل انٹرنیشنل، روزنامہ الفضل ربوہ، انصار الدین یوکے اور احمدیہ گزٹ امریکہ میں بھی شائع ہوا۔

خاکسار نے مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے درخواست کی کہ اس مسودہ پر جو حضورانور نے اپنے دست مبارک سے لکھا ہے تبرک کے طور پر اس کی کاپی مجھے دے دیں۔ جو میرے پاس محفوظ ہے۔ الحمدللہ

بنگلہ دیش سے واپسی پر ملاقات

خاکسار کو بنگلہ دیش میں بھی ان کے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لئے بطور نمائندہ جانے کی سعادت ملی۔ خاکسار نے درخواست کی کہ بنگلہ دیش سے واپسی پر حضور انور کی ملاقات کے لئے بھی آنا چاہتا ہوں۔ حضور انور نے از راہ نوازش یہ درخواست منظور فرمائی۔

جلسہ کے بعد بنگلہ دیش سے واپسی پر خاکسار کی طبیعت خراب ہو گئی اور جب لندن پہنچا بخار اور کھانسی بہت زیادہ تھی۔ حضورانور سے ملاقات میں عرض کی حضور! شدید کھانسی ہے۔ آپ نے فرمایا ہاتھ کرو۔ میں نے دایاں ہاتھ آگے بڑھایا آپ نے دعا کے ساتھ اپنے دراز سے ایک شیشی نکالی اور ہومیو پیتھی کی ایک خوراک عنایت فرمائی اور خاکسار نے لے لی۔ لندن میں 3 -4 دن کا قیام رکھوایا تھا تاکہ حضورانور کے پیچھے نمازیں پڑھنے کی سعادت بھی مل جائے۔ آخری دن واپسی کے لئے اجازت بھی لینی تھی اور دفتری ملاقات کی درخواست کی جو حضور انورنے از راہ شفقت منظور فرمائی۔

خاکسار ایک لسٹ بنا کر لے گیا تھا کہ یہ یہ باتیں حضورانور کے ساتھ کرنے والی ہیں اورہدایات لینی ہیں اور شاید 20-25 منٹ لگیں گے۔

حضور انور نے پہلا سوال کیا کہ کھانسی کا کیا حال ہے؟ میں نےعرض کی بہت معمولی افاقہ ہے۔ آپ نے فرمایا میں نے کون سی دوا دی تھی۔ عرض کی حضور !میں نے تو پوچھا ہی نہیں تھا کہ یہ کون سی دوا ہے۔ آپ نے پھر ایک اور شیشی نکالی اور دوائی دی۔ ساتھ ہی فرمایا کہ آپ ’’چاکلیٹ کھایا کریں‘‘ اس سے بھی اس قسم کی کھانسی میں فرق پڑتا ہے۔

پھر آپ نے پوچھا کہ کیا پروگرام ہے؟ خاکسار نے بتایا کہ کل روانگی ہے امریکہ کے لئے۔ فرمایا تو اور کیا ہے تمہارے پاس ۔ میں نے ایک ایک سوال کر کے سب کچھ بتایا۔ آپ خطوط پر دستخط بھی فرما رہے تھے اور اگلے 3-4 منٹ میں سب سوالوں کے جواب اور راہنمائی عطا فرما دی، جوکہ زیادہ تر بنگلہ دیش کے حالات کے بارے میں تھے۔

ساری باتیں سن کر حضور انور نے فرمایا کہ یہ سب کچھ لکھ کر تبشیر کے دفتر میں دے دیں۔ جو کہ خاکسار نے دے دیا۔ جب 3-4 منٹ میں سب کچھ ہو گیا تو آپ نے فرمایا ’’اور‘‘ جب کچھ نہ تھا تو عرض کی ایک دو باتیں ویسے ہی عرض کر دوں۔ آپ نے فرمایا کرو۔ خاکسار نے عرض کی کہ جماعت میں خداتعالیٰ کے فضل سے الیکشن ہوتے ہیں لیکن ایک بات جس پر عمل کرنا ضروری ہے اس میں کمی ہے آپ نے فرمایا وہ کون سی؟ خاکسار نے عرض کی کہ حضور ! الیکشن کے باوجود جس شخص کے ووٹ زیادہ ہوں اسے کبھی وہ عہدہ نہ بھی دیا جائے تاکہ پتہ چلے کہ جماعت میں یہ قانون بھی ہے کہ ضروری نہیں جس کے ووٹ زیادہ ہوں اسے ہی عہدہ دیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں یہ بات ٹھیک ہے اور میں نے اس سال کئی جگہ پر ایسا کیا ہے۔

اگلے دن خاکسار کی فلائٹ تھی اور طبیعت ابھی بھی بہت خراب تھی۔ بخار، کھانسی کے علاوہ شدید متلی تھی۔ خاکسار جب ایئرپورٹ پرپہنچا تو حضور کی ہدایت یاد آئی کہ چاکلیٹ کھاؤں۔ خاکسار نے ایئر پورٹ سے ہی چاکلیٹ خریدی اور استعمال کی۔ الحمدللہ۔ اب جب بھی کھانسی شدت اختیار کرے تو خاکسار حضورانور کے دو نسخے استعمال کرتا ہے اور فائدہ ہوتا ہے۔ گلے اور کھانسی کے لئے آپ نے خاکسار کو فرمایا تھا کہ ایکونائٹ کی ایک ہزار میں خوراک شروع میں لے لیا کروں جب بیماری کی علامات ظاہر ہونے لگیں۔دوسرے چاکلیٹ کا استعمال کرتا ہوں۔ الحمدللہ

حضور انور کی ایک ہدایت

خاکسار کا تبادلہ ایک جماعت میں ہوا تو وہاں پر جلسہ سالانہ یوکے کے موقعہ پر عالمی بیعت میں شرکت ہونی تھی۔ خاکسار نے ساری جماعت کو آگاہ کیا کہ وہ اس وقت مسجد میں پہنچیں اور عالمی بیعت میں شامل ہوں۔

جب سب دوست آگئے اور عالمی بیعت ہونے لگی تو میں نے محسوس کیا کہ لوگ آگے آگے سرکتے جارہے ہیں جہاں ٹی وی رکھا ہوا ہے تاکہ بیعت کے وقت وہ ٹی وی پر ہاتھ رکھیں۔ میں نےا حباب سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اتنے میں لوگوں نے ایک دوسرے کے کندھوں پر بھی ہاتھ رکھ لئے اور ٹی وی کے نزدیک والے ٹی وی پر ہاتھ رکھنے لگے۔ خاکسار نے بتایا کہ یہ طریق غلط ہے۔ لوگ کہنے لگے کہ ہم تو ایسا ہی کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ نہیں ایسا ٹھیک اور مناسب نہیں ہے۔ نہ ہی ٹی وی پر اور نہ ہی کندھوں پر ہاتھ رکھنے ہیں۔ صرف حضور کے ساتھ بیعت کے الفاظ دہرائیں اور دعا میں شامل ہوں۔ کچھ لوگوں کو یہ بات اچھی نہ لگی۔

خاکسار نے حضور انور کی خدمت میں خط لکھ کر ہدایت لینا چاہی اور خط میں دو باتیں لکھ دیں ایک یہ کہ عالمی بیعت کےو قت ٹی وی پر اور ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھا جائے یا نہ رکھا جائے۔ دوسرے حضور کی خدمت میں یہ بھی عرض کر دی کہ حضور جب خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہیں اور بعض حوالہ جات حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب سے پڑھتے ہیں تو ساتھ ہی حوالہ بھی بتادیا کریں تاکہ ہم جب خطبہ دیں تو وہ حوالہ تلاش کر کے تو خطبہ جمعہ میں سنا دیا کریں۔اس پر حضور انور نے جو ہدایت بھجوائی وہ یہ تھی۔

’’آپ کا خط ملا۔ عالمی بیعت کی تقریب میں جو لوگ ٹیلیویژن کے ذریعہ شامل ہوتے ہیں انہیں بتائیں کہ کندھوں پر یا ٹیلیویژن پر ہاتھ رکھنا غلط طریق ہے۔ کندھوں پر ہاتھ صرف اس وقت رکھے جاتے ہیں جب خلیفۂ وقت بیعت لینے کے وقت خود موجود ہوں۔ باقی جہاں تک خطبہ میں پڑھے جانے والے اقتباسات وغیرہ کے حوالوں کے بیان کرنے کا تعلق ہے اس سلسلہ میں آپ خود کوشش کر کے حوالے تلاش کر لیا کریں۔ اللہ آپ کو اپنی جناب سے ہر خیر کا وارث بنائے اور دین و دنیا کی سعادتیں عطا فرمائے۔ آمین‘‘

یہ دونوں ہدایات حضور انور کی ہم سب مبلغین کرام کے لئے خصوصی توجہ کے لائق ہیں۔ یہ کہ مطالعہ کی عادت اور خود حوالہ جات کی تلاش کرنی چاہئے۔

قریبی رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کی نصیحت

یوکے جلسہ 2019ء میں خاکسار مع اہلیہ گیا۔ یہ میری اہلیہ کا پہلا موقعہ تھا لندن کے جلسہ میں شمولیت کا۔ ہم دو تین دن پہلے چلے گئے تھے اور ملاقات کے لئے نام لکھوا دیا تھا جلسہ سے دو دن پہلے بدھ کے دن ہماری ملاقات تھی۔ حضور انور نے جاتے ہی پہلے مجھ سے پوچھا کہ کہاں ٹھہرے ہو؟ میں نے بتایا کہ میرے ماموں کی بیٹی میری کزن ہیں (حسن طاہر بخاری مربی سلسلہ) کی بہن ان کے گھر۔ آپ نے فرمایا فضل الرحمٰن کے گھر کیوں نہیں ٹھہرے یہ میری اہلیہ کے بھائی ہیں۔ میری اہلیہ نے جواب دیا حضور وہ تو جلسہ کی ڈیوٹی کی وجہ سے مصروف تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ان کی بیگم تو تھیں۔ میری اہلیہ نے جواب دیا کہ حضور وہ بھی جلسہ کی ڈیوٹی کی وجہ سے مصروف تھیں۔ آپ نے فرمایا:
شمشاد کو سنبھالنا کوئی آسان کام تو نہیں ہے۔ پھر اہلیہ نے شہد کی بوتل دی تبرک کرنے کے لئے جو انہوں نے اپنے والد صاحب کے لئے ربوہ بھجوانا تھا۔ وہ ان دنوں بیمار تھے۔ حضورانور نے شہد کو تبرک کیا اور پھر ہم نے بچوں کے لئے دعا کی درخواست کی۔ حضورانور نے ملاقات میں نزدیکی اور قریبی رشتہ داروں (بہن بھائیوں) کے ساتھ تعلق بڑھانے کی طرف توجہ دلائی۔ خاکسار نے جلسہ کے بعد فضل الرحمن صاحب جو جامعہ میں استاد ہیں کے گھر جا کر بقیہ ایام گزارے تا حضورانور کی ہدایت پر عمل ہو۔

میرے بیٹے کے ساتھ

ایک دفعہ جب سیرالیون کے جلسہ سے واپس آیا تو میں نے اپنے بڑے بیٹے ممتاز کو کہا جو امریکہ میں تھے کہ میں فلاں دن لندن پہنچوں گا آپ بھی ٹکٹ کرواؤ اور لندن پہنچو تا حضورانور کے ساتھ ہم دونوں ملاقات کریں۔ چنانچہ پسرم ممتاز احمد نے اپنی جہاز کی ٹکٹ بک کرائی اور لندن پہنچ گیا۔

حضورانور نے خاکسار کے بیٹے کے ساتھ بڑے بے تکلفی اور دوستانہ ماحول میں اس کی شادی اور دیگر امور کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی۔ جس سے خاکسار کو اندازہ ہوا کہ اپنی اولاد کے ساتھ بھی کس طرح مسائل سے نپٹنا چاہئے وہ میرے لئے بھی ایک سبق تھا۔

میری بیٹی کا نکاح

اکتوبر 2009ء میں حضور انور نے میری بیٹی عزیزہ سیدہ صبیحہ بشریٰ کے نکاح کا اعلان مسجد فضل لندن میں فرمایا۔ خاکسار نے حضور انورکی خدمت میں اجازت کے لئے لکھا کہ حضور نکاح پڑھادیں اور اس کے لئے چھٹی کی درخواست کی۔ جب حضورانور میری سے ملاقات ہوئی تو حضورانور نے فرمایا کہ بس نکاح پڑھوانے کے لئے اب آئے ہو۔ عرض کی کہ جی حضور۔ آپ نے فرمایا کہ جلسہ پر کیوں نہیں بتایا میں جلسہ پر نکاح پڑھ دیتا۔ (نکاح 31 اکتوبر 2009ء میں ہوا تھا اور خاکسار اسی سال کچھ عرصہ قبل جلسہ میں بھی شامل ہوا تھا)

خطبہ نکاح میں حضور انور نے فرمایا: ’’دوسرا نکاح مکرمہ سیدہ صبیحہ بشریٰ صاحبہ بنت مکرم سید شمشاد احمد ناصر صاحب (مبلغ سلسلہ کیلیفورنیا۔ امریکہ) کا مکرم عطاء المومن بھٹی صاحب ابن مکرم نوید احمد بھٹی صاحب (ہیرس برگ، امریکہ) کے ساتھ مبلغ دس ہزار ڈالر حق مہر پر طے پایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مکر مہ سیدہ صبیحہ بشریٰ صاحبہ کے متعلق بتایا کہ ان کے والد سید شمشاد احمد ناصر اللہ تعالیٰ کے فضل سے مبلغ سلسلہ ہیں۔ گھانا میں بھی رہے ہیں اور جب میں گھانا میں تھا اس وقت بطور مبلغ رہے اور اچھے مبلغین میں سے تھے اور اب بھی اللہ تعالیٰ کےفضل سے اچھا کام کر رہے ہیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ ان کے خاندان میں احمدیت 1932ء میں ان کے دادا سید امیر احمد شاہ صاحب کے ذریعہ سے آئی تھی۔ ان کی شرقپور رجولی ضلع انبالہ میں کوئی گدی تھی۔ احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے ان کے دادا کو وہاں سے نکلنا پڑا اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ احمدیت کی برکت ہے کہ آگے ان کی نسلیں پڑھی لکھی بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں …… حضورانور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بعد یہ گدیاں تو ختم ہو چکی ہیں۔ کوئی پیری مریدی نہیں رہی۔ بلکہ حضرت مسیح موعودؑ نے تو آکر اپنے ماننے والوں کو یہ کہا ہے کہ
’’تم ولی بنو ولی پرست نہ بنو اور پیر بنو پیر پرست نہ بنو۔‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’ہر احمدی کو ان روایتی پیروں کے پیچھے چلنے کی بجائے خود اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق جوڑنا چاہئے جو ایک خاص تعلق ہو اور جو تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کی طرف لے جانے والا ہو۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 11 تا 17 دسمبر 2009ء صفحہ8)

حضور انور کے ساتھ سیر

ایک دفعہ خاکسار لندن آیا موقعہ تو یاد نہیں رہا سردیوں کا موسم تھا۔ مجھے پتہ چلا کہ حضور انور صبح نماز فجر کے بعد سیر کرنے تشریف لے جاتے ہیں۔ خاکسار نے میجر محمود صاحب سے کہا کہ وہ میرے لئے حضورانور سے ایک دن کے لئے اجازت لے لیں میں بھی سیر میں ساتھ جانا چاہتا ہوں۔ حضور انور نے ازراہ شفقت اجازت مرحمت فرمائی۔ اگلے دن نماز فجر کے بعد میں بھی تیار ہو کر ساتھ گیا۔ 15، 20 منٹ کی واک کے بعد اچانک حضورانور واپس تشریف لے آئے۔ہم جب مسجد فضل واپس آئے تو گاڑی سے نکل کر میں پھر اسی علاقہ میں واک کرنے کے لئے نکل گیا۔ شام کو حضورانور سے ملاقات تھی اور اگلے دن میری واپسی تھی۔ شام کو جب ملاقات ہوئی تو حضور نے ’’واک‘‘ کے متعلق پوچھا کہ ٹھیک ہو گئی میں نے عرض کی کہ حضور اتنی چھوٹی واک سے میرا تو کچھ نہیں بنا۔ میں تو پھر دوبارہ واک کرنے چلا گیا تھا۔ حضور صرف مسکرائے اور کچھ نہیں فرمایا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد پھر لندن جانا ہوا اور خاکسار نے پھر درخواست کی سیر کے لئے ساتھ جانے کی۔ چنانچہ اجازت مل گئی۔ اس دفعہ حضورانور نے 45 منٹ سے ایک گھنٹہ کے درمیان واک کی۔ تو بعد میں حضورانور نے ازراہِ مذاق فرمایا کیوں اس دفعہ تمہاری واک ٹھیک ہو گئی ہے۔ عرض کی جی حضور۔ حضورانور کو وہ بات یاد تھی کہ میں نے کہا تھا کہ 15-،20 منٹ کی واک سے میرا تو کچھ نہیں بنا میں تو دوبارہ واک کرنے گیا تھا۔

ان ساری باتوں کے لکھنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہمیں چاہیئے ہم خلیفہ وقت کی بات کو سنیں اور اس پر عمل کریں۔ جس طرف خلیفہ وقت لے کر جائیں اسی طرف چل پڑیں، اپنی طرف سے کوئی کام نہ کریں یا اگر کوئی ذہن میں بات آبھی جائے تو جیسا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ جرمنی میں فرمایا تھا کہ پھر خلیفہ وقت موجود ہے اس سے پوچھ لیں اور راہنمائی لے لیں یہ ایک ایسا نسخہ ہے جو ساری بیماریوں، کوتاہیوں اور غفلتوں کا علاج ہے۔

خلیفہ وقت سے پوچھ لینا زیادہ بہتر ہے بجائے اس کے کہ آدمی اپنی عقل لڑائے اور غلط کام کر بیٹھے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو احسن رنگ میں خلیفہ وقت کا جاں نثار اور سلطان نصیر بنائے اور بہتر رنگ میں خدمت سلسلہ کی توفیق دے۔

(سید شمشاد احمد ناصر ۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مئی 2021