علامہ الشیخ الطنطاوی آیت استخلاف کے تابع کچھ اس طرح رقمطراز ہیں کہ:
اس آیت کو ہم نے اس کتاب میں دوبارہ ذکر کیا ہے اور اتحاد بین المسلمین کا طریق بیان کرنے کے بعدپھر اس آیت کو دہرایا ہے کیونکہ اس راہ کا علم ہمیں کتاب عزیز سے ہوتا ہے اور اسکے بغیر مسلمانوں کی کامیابی کا اور کوئی راستہ نہیں، نہ ہی انہیں زمین میں خوشحالی اور طاقت حاصل ہو سکتی ہے اورنہ ہی تمکنت اور نہ ہی انکا خوف امن سے تبدیل ہو سکتا ہے مگر صرف اور صرف اس (خلافت) کے ذریعہ۔
(القرآن والعلوم العصریہ صفحہ21)
یہ وہ سچائی ہے جسے آج ہر صاحب فہم و بصیرت ماننے پر مجبور ہے کہ یہی وہ قیادت و سعادت کا بابرکات آسمانی نظام ہے جو ہمارے مالک و پیدا کنندہ نے ہماری سیادت و راہنمائی کے لیے ہمیں عطا فرمایا ہے تاکہ ہم اخلاقی و روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ ظاہری فتوحات کے میدان بھی طے کرسکیں۔ اس عظیم خدائی انعام کا وعدہ ہماری پیاری کتاب قرآن مجید کی سورۃ نور کی آیت استخلاف میں دیا گیا ہے جو ایمان اور عمل صالح کی بنیادی شرائط سے مشروط ہے۔ یہ وہ حبل اللہ ہے جو ایک طرف توان مومنین کے ایمان کی تصدیق کرتی ہے جو اسے مضبوطی سے تھامے رہیں گے تو دوسری طرف انکے امن و امان اور ترقیات کی ضمانت عطا کرتی ہے۔ یہ وہ آفاقی و سماوی شجرہ طیبہ ہے جو نہ مشرقی ہے نہ مغربی۔ ہر لمحہ و ہر آن اسے بے حساب و بے شمار شیریں اثمار لگتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ایک طرف تو اسکی جڑیں زمین (مومنین کے قلوب) میں پیوست ہیں تو دوسری طرف اسکی شاخیں آسمان کی بلندیوں کو چھورہی ہیں۔یہی وہ نور الہی ہے جو فیض نبوت کو مومنین کےلیے ایک لمبے عرصہ تک ممتد کرکے انکی دینی و دنیاوی ترقیات کے لامتناہی دروازے کھولتا چلا جاتا ہے۔
اس روز روشن کی طرح عیاں سچائی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب فرقان حمید میں یوں بیان فرمایا ہے کہ:
اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ؕ مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ ؕ اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ؕ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوۡکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیۡتُوۡنَۃٍ لَّا شَرۡقِیَّۃٍ وَّلَا غَرۡبِیَّۃٍ ۙ یَّکَادُ زَیۡتُہَا یُضِیۡٓءُ وَلَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡہُ نَارٌ ؕ نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ؕ یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَیَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ ؕ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۳۶﴾
(النور: 36)
ترجمہ: اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال مثل ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہو اور وہ چراغ شیشہ کے شمع دان میں ہو۔ وہ شیشہ ایسا ہو گویاایک چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے۔ وہ (چراغ) زیتون کے ایسے مبارک درخت سے روشن کیا گیا ہو جو نہ مشرقی ہو نہ مغربی۔ اس (درخت) کا تیل ایسا ہے کہ قریب ہے کہ وہ از خود بھڑک کر روشن ہو جائے خواہ اسے آگ کا شعلہ نہ بھی چھوا ہو۔ یہ نور علیٰ نور ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نور کی طرف رہنمائی جسے چاہتا ہےدیتا ہے اور اللہ لوگوں کےلئے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہرچیز کا دائمی علم رکھنے والا ہے۔ (ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)
حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد، خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ النور کی مذکورہ بالا آیت کی نہائت عمدہ، دل موہ لینے والی اور ایک نئی تفسیربیان فرمائی ہے۔ آپ نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ اس آیت کریمہ میں الوہیت، نبوت اور خلافت کا تعلق بیان کیا گیا ہے چنانچہ آپ نے خدائی نور اور اسکے زمانہ و اشاعت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:۔
نبوت میں یہ(الٰہی) نور آکر مکمل تو ہو جاتا ہے لیکن اس کا زمانہ پھر بھی محدور ہو تا ہے کیونکہ نبی ہی موت سے محفوظ نہیں ہوتے۔پس اس روشنی کو دُور تک پہنچانے کیلئے اور زیادہ دیر تک قائم رکھنے کیلئے ضروری تھا کہ کوئی اور تدبیر کی جاتی سو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ایک ری فلیکٹر بتایا۔ جس کا نام خلافت ہے جس طرح طاقچہ تین طرف سے روشنی کو روک کر صرف اس جہت میں ڈالتا ہے جدھر اس کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی طرح خلفاء نبی کی قوتِ قدسیہ کو جو اس کی جماعت میں ظاہر ہو رہی ہوتی ہے ضائع ہونے سے بچا کر ایک خاص پروگرام کے ماتحت استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں جماعت کی طاقتیں پراگندہ نہیں ہوتیں اور تھوڑی سی طاقت سے بہت سے کام نکل آتے ہیں کیونکہ طاقت کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہوتا۔اگر خلافت نہ ہوتی تو بعض کاموں پر تو زیادہ طاقت خرچ ہو جاتی اور بعض کام توجہ کے بغیر رہ جاتے اور تفرقہ اور شقاق کی وجہ سے کسی نظام کے ماتحت جماعت کا روپیہ اور اس کا علم اور اس کا وقت خرچ نہ ہوتا۔غرض خلافت کے ذریعہ سے الٰہی نور کو جو نبوت کے ذریعہ سے مکمل ہوتا ہے ممتد اور لمبا کر دیا جاتا ہے۔چنانچہ دیکھ لو الٰہی نور رسول کریم ﷺ کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہوگیا بلکہ حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کے طاقچہ کے ذریعہ اس کی مدت کو سوا دو سال اور بڑھا دیا گیا۔پھر حضرت ابوبکر ؓ کی وفات کے بعد وہی نور خلافتِ عمر ؓ کے طاق کے اندر رکھ دیا گیا اور ساڑھے دس سال کی مدت کو اور بڑھا دیا گیا۔پھر حضرت عمر ؓ کی وفات کے بعد وہی نور عثمانی طاقچہ میں رکھ دیا گیا اور بارہ سال اس کی مدت کو اور بڑھا دیا گیا۔ پھر حضرت عثمان ؓ کی وفات کے بعد وہی نور علوی طاقچہ میں رکھ دیا گیا اور چار سال نو ماہ اُس نور کو اور لمبا کر دیا گیا۔گویا تیس سال الٰہی نور خلافت کے ذریعہ لمبا ہو گیا۔ پھر ناقص خلافتوں کے ذریعہ سے تو یہی نور چار سو سال تک سپین اور بغداد میں ظاہر ہوتا رہا۔غرض جس طرح ٹارچوں کے اندر ری فلیکٹر ہوتا ہے اور اسکے ذریعہ بلب کی روشنی دُور دُور تک پھیل جاتی ہے یا چھوٹے چھوٹے ری فلیکٹر بعض دفعہ تھوڑا سا خم دیکر بنائے جاتے ہیں جیسے دیوار گیروں کے پیچھے ایک ٹین لگا ہوا ہوتا ہے جو دیوار گیر کا ری فلیکٹر کہلاتا ہے اور گو اس کے ذریعہ روشنی اتنی تیز نہیں ہوتی جتنی ٹارچ کے ری فلیکٹر کے ذریعہ تیز ہوتی ہے مگر پھر بھی دیوار گیر کی روشنی اس ری فلیکٹر کی وجہ سے پہلے سے بہت بڑھ جاتی ہے۔اسی طرح خلافت وہ ری فلیکٹر ہے جو نبوت اور الوہیت کے نور کو لمبا کر دیتا ہے اور اسے دُور تک پھیلا دیتا ہے۔ پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خلافت نبوت اور الوہیت کاذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہمارے نور کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بتی کا شعلہ وہ ایک نور ہے جو دنیا کے ہر ذرہ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ مگر جب تک وہ نبوت کے شیشہ میں نہ آئے لوگ اُس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ آپ مزید فرماتے ہیں کہ:۔
اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے مگر اس کے نور کو مکمل کرنیکا ذریعہ نبوت ہے اور اُس کے بعد اس کو دنیا میں پھیلانے اور اُسے زیادہ سے زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو وہ خلافت ہی ہے۔ گویا نبوت ایک چمنی ہے جو اس کو آندھیوں سے محفوظ رکھتی ہے اور خلافت ایک ری فلیکٹر ہے جو اس کے نور کو دُور تک پھیلاتا ہے۔پس ان منافقوں کی تدبیروں کی وجہ سے ہم اس عظیم الشان ذریعہ کو تباہ نہیں ہونے دیں گے بلکہ اپنے نور کو دیر تک دنیا میں قائم رکھنے کیلئے اس سامان کا مہیا کریں گے۔
(تفسیر کبیر زیر آیت 36 سورہ نور)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے نظام خلافت اور اس کے مختلف پہلووٴں پر نہایت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور ہمیں یہ بشارت بھی عطا فرمائی ہے کہ آپ علیہ السلام کے بعد خلافت کا سلسلہ دائمی ہوگا اور قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ ان شاء اللہ۔
خلیفہ کے معنیٰ
حضرت اقدس مسیح موعد علیہ السلام فرماتے ہیں:
خلیفہ کے معنی جانشین کے ہیں جو تجدید دین کرے۔ نبیوں کے زمانہ کے بعد جو تاریکی پھیل جاتی ہے اس کو دور کرنے کے واسطے جو انکی جگہ آتے ہیں انہیں خلیفہ کہتے ہیں۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ383)
نیز فرماتے ہیں :
خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہو سکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو۔ خلیفہ در حقیقت رسول کا ظل ہوتا ہےاور چونکہ کسی انسان کے لیے دائمی طور پر بقاء نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کے لیے تا قیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔
(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ353)
خلیفہ کا انتخاب اللہ تعالیٰ کرتا ہے
آپ فرماتے ہیں:۔
صوفیاء نے لکھا ہے کہ جو شخص کسی شیخ یا رسول اور نبی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے اس کے دل میں حق ڈالا جاتا ہے۔جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پرایک زلزلہ آجاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ کسی خلیفہ کے ذریعہ اسکو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا از سر نو اس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے۔
آنحضرتﷺ نے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقرر نہ کیا؟ اس میں بھی یہی بھید تھا کہ آپ کو خوب علم تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقرر فرمادے گا کیونکہ یہ خدا کا ہی کام ہے اور خدا کے انتخاب میں نقص نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کام کے واسطے خلیفہ بنایا اور سب سے اول حق انہی کے دل میں ڈالا۔
(ملفوظات جلد10 صفحہ229-230)
خلافت کا پیرایہ انسان کامل کو پہنایا جاتا ہے
امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ’’خطبہٴ الہامیہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
انسانِ کامل کو حضرت احدیت کی طرف سے خلافت کا پیرایہ پہنایا جاتا ہے اور رنگ دیا جاتا ہےالوہیت کی صفات کے ساتھ۔ اور یہ رنگ ظلی طور پر ہوتا ہے تا موام خلافت متحقق ہوجائے اور پھر اسکے بعد خلقت کی طرف اترتا ہے تا ان کو روحانیت کی طرف کھینچے اور زمین کی تاریکیوں سے باہر لاکرآسمانی نورون کی طرف لے جائے۔ اور یہ انسان ان سب کا وارث کیا جاتا ہے جو نبیوں اور صدیقوں اور اہل علم اور درایت میں سے اور قرب اور ولایت کے سورجوں میں سے اس سے پہلے گذرچکے ہیں۔ اور دیا جاتا ہے اس کو علم اولین کا اور معارف گزشتہ اہل بصیرت و حکمائے ملت کے تا اس کے لیے مقام وراثت کا متحقق ہو جائے۔ پھر یہ بندہ زمین پر ایک مدت تک جو اس کے رب کے ارادے میں ہے، توقف کرتا ہے تاکہ مخلوق کو نور ہدایت ک ساتھ منور کرے اور جب خلقت کو اپنے رب کے نور کے ساتھ روشن کرچکا یا امر تبلیغ کوبقدرکفایت پورا کردیا پس اس وقت اس کا نام پورا ہوجاتا ہے اور اس کا رب اسکو بلاتا ہے اور اسکی روح اس کے نفسی نقطہ کی طرف اٹھائی جاتی ہے۔
(ترجمہ از خطبہ الہامیہ صفحہ39۔40)
مقاصد خلافت
خلافت بلاشبہ نبوت کے مشن کی تکمیل کرتی ہے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے۔ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ (المجادلہ: 22) اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجّت زمین پر پوری ہوجائے اور اُس کا مقابلہ کوئی نہ کرسکے اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کردیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی اُنہی کے ہاتھ سے کردیتا ہے۔ لیکن اس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے۔ اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کرچکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدرناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں۔
غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ (1) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے۔ (2) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہوجاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا۔ اور یقین کرلیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہوجائیگی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کرلیتے ہیں تب خداتعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتاہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خداتعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی۔ اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہوگئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کھڑا کرکے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا (النور: 56) یعنی خوف کے بعد پھر ہم اُن کے پَیر جما دینگے۔ ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جبکہ حضرت موسیٰ ؑ مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچادیں فوت ہوگئے اور بنی اسرائیل میں اُن کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا۔ جیساکہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسیٰؑ کی ناگہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے۔ ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہوگئے اور ایک ان میں سے مرتد بھی ہوگیا۔
سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو 2 قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو 2 جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلاوے۔ سو اب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنّت کو ترک کردیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو مَیں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہوجائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سِلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن میں جب جا ؤنگا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دیگا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔‘‘
(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ304-305)
عزم و ہمت،استقلال اور فراست
مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد خلیفہٴ وقت کو ہمت، استقلال اور فراست کی روح عطا کی جاتی ہے۔حضرت سیدنا احمد علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ بباعث چند درچند فتنوں اور بغاوت اعراب اور کھڑے ہونے جھوٹے پیغمبروں کے میرے باپ پر جبکہ وہ خلیفہ رسول اللہ صلعم مقرر کیا گیا وہ مصیبتیں پڑیں اور وہ غم دل پر نازل ہوئے کہ اگر وہ غم کسی پہاڑ پر پڑتے تو وہ بھی گر پڑتا اور پاش پاش ہوجاتا اور زمین سے ہموار ہوجاتا۔ مگر چونکہ خدا کا یہ قانون ِ قدرت ہے کہ جب خدا کے رسول کا کوئی خلیفہ اس کی موت کے بعد مقرر ہوتا ہے تو شجاعت اور ہمت اور استقلال اور فراست اور دل قوی ہونے کی رُوح اس میں پُھونکی جاتی ہے جیساکہ یشوع کی کتاب باب اول آیت چھ میں حضرت یشوع کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مضبوط ہو اور دلاوری کر۔ یعنی موسیٰ تو مرگیا۔ اَب تُو مضبوط ہو جا۔ یہی حکم قضا و قدر کے رنگ میں نہ شرعی رنگ میں حضرت ابوبکر کے دل پر بھی نازل ہوا تھا‘‘۔
(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ185)
خلافت ثانیہ کے مظہر وجودوں کی بابت بشارت
حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں:
میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہونگے جو دوسری قدرت کا مظہر ہونگے۔
(رسالہ الوصیت صفحہ10)
خلفاء آپ کی مطہر اولاد میں سے
بانیٴ جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی پاک اولاد میں سے ان مظاہر قدرت یعنی خلفاء کے ہونے کی بھی وضاحت فرمائی ہے، آپ لکھتے ہیں کہ:۔
دوسراطریق انزال رحمت کا ارسال مرسلین و نبیین و ائمہ و خلفاء ہے تا انکی اقتدا و ہدایت سے لوگ راہ راست پر آجائیں اور انکے نمونہ پر اپنے تئیں بناکر نجات پا جائیں۔ سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس عاجز کی اولاد کے ذریعہ سے یہ دونوں شق ظہور میں آجائیں۔ (سبز اشتہار)
پیارے مولا کریم کے حضور عاجزانہ التجا ہے کہ وہ ہمیں خلافت کے اس دائمی و عظیم الشان انعام کی کما حقہ قدر کرنے، اس سے ہمیشہ وابستہ رہنے، دل وجان سے اسکی وفاداری کرنے اور اسکی سچی اطاعت کرنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے نیز اس مقدس نظام آسمانی کی برکات و تاثیرات اور فیوض و انوار سے مقدور بھر فیض پانے کی سعادت عطا فرمائے۔ نیز، اے ہمارے پیارے رب تو ہمارے امام کی روح القدس سے تائید ونصرت فرما، ہر لمحہ و ہرآن آپ کے ساتھ ہو، آپ کی صحت و عمر میں از حد برکت بخش، اور آپ کے علم، فیض اور نور میں برکت پر برکت عطا فرما۔ آمین اللّٰہم آمین۔
(مولانا کریم الدین شمس۔ مبلغ سلسلہ تنزانیہ)