آنکھوں میں وہ ہماری رہے ابتدا یہ ہے
ہم اس کے دل میں بسنے لگیں انتہا یہ ہے
روزہ نماز میں کبھی کٹتی تھی زندگی
اب تم خدا کو بھول گئے، انتہا یہ ہے
لاکھوں خطائیں کرکے جو جھکتا ہوں اُس طرف
پھیلا کے ہاتھ ملتے ہیں مجھ سے وفا یہ ہے
راتوں کو آکے دیتا ہے مجھ کو تسلیاں
مردہ خدا کو کیا کروں میرا خدا یہ ہے
کیا حرج ہے جو ہم کو پہنچ جائے کوئی شر
پہنچے کسی کو ہم سے اگر شر برا یہ ہے
اس کی وفا و مہر میں کوئی کمی نہیں
تم اس کو چھوڑ بیٹھے ہو ظلم وجفا یہ ہے
مارے جلائے کچھ بھی کرےمجھ کو اس سے کیا
مجلس میں اس کے پاس رہوں مدعا یہ ہے
بوئے چمن اڑائے پھرے جو، وہ کیا صبا
لائی ہے بوئے دوست اڑا کر صبا یہ ہے
(کلام محمود صفحہ201)