• 27 اپریل, 2024

کتاب، تعلیم کی تیاری (قسط 4)

کتاب ،تعلیم کی تیاری
قسط 4

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جارہے ہیں۔ یہ اس کی چوتھی قسط ہے۔

1۔اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
2۔ نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
3۔ بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض ؟

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’پس یاد رکھو کہ وہ چیز جو انسان کی قدرو قیمت کو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بڑھاتی ہے وہ اس کا اخلاص اور وفا داری ہے جو وہ خدا تعالیٰ سے رکھتا ہے ورنہ مجاہدات خشک سے کیا ہوتا ہے؟ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں دیکھا گیا ہے کہ ایسے ایسے لوگ بھی مجاہدات کرتے تھے جو چھت سے رسہ باندھ کر (اپنے) آپ کو ساری رات جاگنے کے لیے لٹکا رکھتے تھے لیکن کیا وہ ان مجاہدات سے آنحضرت ﷺ سے زیادہ ہو گئے تھے؟ ہرگز نہیں۔

نامرد ، بزدل ، بے وفا جو خدا تعالیٰ سے اخلاص اور وفاداری کا تعلق نہیں رکھتا بلکہ دغا دینے والا ہے وہ کس کام کا ہے اس کی کچھ قدروقیمت نہیں ہے۔ ساری قیمت اور شرف وفا سے ہوتا ہے۔ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو شرف اور درجہ ملا وہ کس بناء پر ملا؟ قرآن شریف نے فیصلہ کر دیا ہے ۔ اِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی (النجم: 38) ابراہیم وہ جس نے ہمارے سا تھ وفا داری کی۔ آگ میں ڈالے گئے مگر انہوں نے اس کو منظور نہ کیا کہ وہ ان کافروں کو کہہ دیتے کہ تمہارے ٹھاکروں کی پو جا کرتا ہوں۔ خدا تعالیٰ کے لئے ہر تکلیف اور مصیبت کو برداشت کرنے پر آمادہ ہو گئے ۔ خدا تعالیٰ نے کہا کہ اپنی بیوی کو بے آب ودانہ جنگل میں چھوڑآ ۔انہوں نے فی الفور اس کو قبول کر لیا ۔ ہر ایک ابتلا کو اُنہوں نے اس طرح پر قبول کر لیا کہ گویا عا شق اﷲ تھا ۔ درمیان میں کوئی نفسانی غرض نہ تھی۔ اسی طرح پر آنحضرت ﷺ کو ابتلا پیش آئے ۔ خو یش واقارب نے مل کر ہر قسم کی تر غیب دی کہ اگر آپ مال ودولت چاہتے ہیں تو ہم دینے کو تیار ہیں اور اگر آپ با دشاہت چاہتے ہیں تو اپنا با دشاہ بنا لینے کو تیار ہیں۔ اگر بیویوں کی ضرورت ہے تو خوبصورت بیویاں دینے کو موجود ہیں ۔ مگر آپ کا جواب یہی تھا کہ مجھے اﷲ تعالیٰ نے تمہارے شرک کے دور کرنے کے واسطے مامور کیا ہے جو مصیبت اور تکلیف تم دینی چاہتے ہو دے لو میں اس سے رک نہیں سکتا کیونکہ یہ کام جب خدا نے میرے سپر د کیا ہے پھر دنیا کی کوئی ترغیب اور خوف مجھ کو اس سے ہٹا نہیں سکتا ۔آپؐ جب طائف کے لوگوں کو تبلیغ کرنے گئے تو اُن خبیثوں نے آپ کے پتھر مارے جس سے آپ دوڑتے دوڑتے گر جاتے تھے ۔ لیکن ایسی مصیبتوں اور تکلیفوں نے آپ کو اپنے کام سے نہیں روکا ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صادقوں کے لئے کیسی مشکلات اور مصائب کا سامنا ہوتا ہے اور کیسی مشکل گھڑیاں اُن پر آتی ہیں مگر باو جود مشکلات کے اُن کی قدر شناسی کا بھی ایک دن مقرر ہوتا ہے اس وقت اُن کا صدق روزِ روشن کی طرح کھل جاتا ہے اور ایک دنیا ان کی طرف دوڑتی ہے۔

عبداللطیف کے لئے وہ دن جو اس کی سنگساری کا دن تھا کیسا مشکل تھا۔وہ ایک میدان میں سنگساری کے لئے لایا گیا اور ایک خلقت اس تما شا کو دیکھ رہی تھی۔ مگر وہ دن اپنی جگہ کس قدر، قدر وقیمت رکھتا ہے ۔اگر اس کی باقی ساری زندگی ایک طرف ہو اور وہ دن ایک طرف، تو وہ دن قدر و قیمت میں بڑھ جاتا ہے۔ زندگی کے یہ دن بہر حال گزرہی جا تے ہیں اور اکثر بہائم کی زندگی کی طرح گزرتے ہیں۔ لیکن مبارک وہی دن ہے جو خدا تعالیٰ کی محبت ووفا میں گزرے۔ فرض کرو کہ ایک شخص کے پاس لطیف اور عمدہ غذائیں کھانے کے لئے اور خوبصورت بیویاں اور عمدہ عمدہ سواریاں سوار ہونے کو رکھتا ہے بہت سے نوکر چاکر ہر وقت خدمت کے لئے حا ضر رہتے ہیں ۔مگر ان سب باتوں کا انجام کیا ہے ؟ کیا یہ لذتیں اور آرام ہمیشہ کے لئے ہیں؟ ہرگز نہیں ان کا انجام آخر فنا ہے۔ مردانہ زندگی یہی ہے کہ اس زندگی پر فرشتے بھی تعجب کریں۔ وہ ایسے مقام پر کھڑا ہو کہ اس کی استقامت، اخلاص اور وفاداری تعجب خیز ہو۔ خدا تعالیٰ نامرد کو نہیں چاہتا۔ اگر زمین و آسمان بھی ظاہری اعمال سے بھر دیں لیکن ان اعمال میں وفا نہ ہو تو اُن کی کچھ بھی قیمت نہیں۔ کتاب اﷲ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جب تک انسان صادق اور وفا دار نہیں ہوتا اس وقت تک اس کی نمازیں بھی جہنم ہی کو لے جانے والی ہوتی ہیں۔ جب تک پورا وفادار اور مخلص نہ ہو ریا کاری کی جڑ اندر سے نہیں جاتی۔ لیکن جب پورا وفا دار ہو جاتا ہے اس وقت اخلاص اور صدق آتا ہے اور وہ زہر یلا مادہ نفاق اور بزدلی کا جو پہلے پا یا جاتا ہے دور ہو جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات۔ ایڈیشن 2018ء۔ جلد5 صفحہ383تا385)

آپؑ پھر فرماتے ہیں:
’’جس قدر جرائم معاصی اور غفلت وغیرہ ہوتی ہے ان سب کی جڑ خدا شناسی میں نقص ہے ۔اسی نقص کی وجہ سے گناہ میں دلیری ہوتی ہے۔ بدی کی طرف رجوع ہوتا ہے اورآخر کار بدچلنی کی وجہ سے آتشک کی نوبت آتی ہے پھر اس سے جذام ہوتا ہے جس سے نوبت موت تک پہنچتی ہے۔ حالانکہ اگربدکار آدمی بدکاری میں لذت حاصل نہ کرے تو خدا اسے لذت اور طریق سے دے دے گا یا اس کے جائز وسائل بہم پہنچادے گا۔ مثلاً اگر چور چوری کرنا ترک کردے تو خدا اسے مقدّر رزق ایسے طریق سے دے دے گا کہ حلال ہو اورحرامکار حرامکاری نہ کرے تو خدا نے اس پر حلال عورتوں کا دروازہ بند نہیں کردیا۔ اسی لئے بدنظری اور بدکاری سے بچنے کے لئے ہم نے اپنی جماعت کو کثرتِ ازدواجی کی بھی نصیحت کی ہے کہ تقویٰ کے لحاظ سے اگر وہ ایک سے زیادہ بیویاں کرنا چاہیں تو کرلیں مگر خدا کی معصیت کے مرتکب نہ ہوں۔ پھر گناہ کرکے جو شخص ایمان کا دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا ہے۔‘‘

(ملفوظات۔ ایڈیشن 2018ء۔ جلد5 صفحہ358)

پھر فرمایا:
’’اسلام کا دعویٰ کرنا اور میرے ہاتھ پر بیعت تو بہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کیونکہ جب تک ایمان کے سا تھ عمل نہ ہو کچھ نہیں۔ منہ سے دعویٰ کرنا اور عمل سے اس کا ثبوت نہ دینا خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانا ہے اور اس آیت کا مصداق ہو جانا ہے۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ۔ کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ۔ (الصّف: 3-4) یعنی اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے ہو یہ امر کہ تم وہ با تیں کہو جن پر تم عمل نہیں کرتے خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑے غضب کا موجب ہے۔

پس وہ انسان جس کو اسلام کا دعویٰ ہے یا جو میرے ہا تھ پر توبہ کرتا ہے اگر وہ اپنے آپ کو اس دعویٰ کے موافق نہیں بناتا اور اس کے اندر کھوٹ رہتا ہے تو وہ اﷲ تعالیٰ کے بڑے غضب کے نیچے آجاتا ہے اس سے بچنا لا زم ہے۔‘‘

(ملفوظات۔ ایڈیشن 2018ء۔ جلد5 صفحہ182)

نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟

’’بہت لوگ ایسے ہیں کہ جن کو اس با ت کا علم نہیں ہے کہ چندہ بھی جمع ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو سمجھانا چاہئے کہ اگر تم سچا تعلق رکھتے ہو تو خدا تعالیٰ سے پکا عہد کر لو کہ اِس قدر چندہ ضرور دیا کروں گا اور ناواقف لوگوں کو یہ بھی سمجھایا جا وے کہ وہ پوری تابعداری کریں۔ اگر وہ اتنا عہد بھی نہیں کر سکتے تو پھر جماعت میں شامل ہونے کا کیا فائدہ؟ نہایت درجہ کا بخیل اگر ایک کوڑی بھی روزانہ اپنے مال میں سے چندے کے لئے الگ کرے تو وہ بھی بہت کچھ دے سکتا ہے ایک ایک قطرہ سے دریا بن جاتا ہے۔ اگر کوئی چا ر روٹی کھاتا ہے تو اسے چاہئے کہ ایک روٹی کی مقدار اُس میں سے اِس سلسلہ کے لئے بھی الگ کر رکھے اور نفس کو عادت ڈالے کہ ایسے کاموں کے لئے اِسی طرح سے نکالا کرے۔‘‘

(ملفوظات۔ ایڈیشن 2018ء۔ جلد5 صفحہ193)

’’اس پر ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ کیا ایسی موت کے آنے کے بعد انسان عبادت نہ کرے۔ اور بیشک بد یوں میں مبتلا رہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس موت کے بعد یعنی جیساکہ انسان نفس ِامّارہ سے جنگ کرکے اس پر غالب آجاتا ہے اور فتح پالیتا ہے تو پھر عبادت اور نیک اعمال کا بجا لانا اس کے لئے ایک طبعی امر ہوتا ہے جیسے انسان بلاتکلف میٹھی میٹھی مزہ دار چیزیں کھا تا رہتا ہے اور اُسے لذت آتی رہتی ہے ۔ایسے ہی بلاتکلف نیک اعمال اس سے سرزد ہو تے رہتے ہیں اور اس کی تمام لذت اور خوشی خدا تعالیٰ کی عبادت میں ہوتی ہے اور جب تک وہ نفس سے جنگ کرتا رہتا ہے تبھی تک اُسے ثواب بھی ملتا ہے لیکن جب اس نے موت حا صل کرلی اور نفس پر فتح پا لی تو پھر تو جنت میں داخل ہو گیا۔ اب ثواب کاہے کا؟ یہی وہ جنت ہے جو انسان کو دنیا میں حا صل ہوتی ہے۔ اور قرآن شریف میں دو جنتوں کا بیان ہے جیسے کہ لکھا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ (الرحمٰن: 47) یعنی جو کوئی اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس کے لئے دو جنتیں ہیں ایک دنیا میں اور ایک آخرت میں۔ دنیا والی جنت وہ ہے جو کہ اس درجہ کے بعد انسان کو حا صل ہو جاتی ہے اور اس مقام پر پہنچ کر انسان کی اپنی کوئی مشیت نہیں رہتی بلکہ خدا تعالیٰ کی مشیت اس کی اپنی مشیت ہو تی ہے۔ اور جیسے ایک انسان کو خصی کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ زناکاری وغیرہ حرکات کا مرتکب ہی نہیں ہو سکتا ویسے ہی یہ شخص خصی کر دیا جاتا ہے اور اس سے کوئی بدی نہیں ہو سکتی۔‘‘

(ملفوظات۔ ایڈیشن 2018ء۔ جلد5 صفحہ240تا241 حاشیہ)

**’’تزکیہ نفس ایک ایسی شے ہے کہ وہ خود بخود نہیں ہو سکتا اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی (النجم:33) کہ تم یہ خیال نہ کرو کہ ہم اپنے نفس یا عقل کے ذریعہ سے خود بخود مزکی بن جاویں گے۔ یہ بات غلط ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کون متقی ہے۔ جہالت ایک ایسی زہر ہے کہ جیسے انسان چنگا بھلا پھرتا ہوا فوراً ہیضہ وغیرہ سے ہلاک ہو جاتا ہے اور اس سے پیشتر گمان بھی نہیں ہوتا کہ میں مر جاؤں گا، ایسے ہی جہالت ہلاک کر دیتی ہے اس کا علاج بلا انبیاء کے نہیں ہو سکتا۔ اُن کی صحبت میں رہنے سے انسان کے اندر وہ قوت پیدا ہوتی ہے کہ جس سے اُسے اپنے مرض کا پتہ لگتا ہے۔ ورنہ خشک لفاظی اور چرب زبانی سے انسان کو یہ بات حاصل نہیں ہو سکتی۔ صرف یہ کہنا کہ ہم نے زنا نہیں کیا، چوری نہیں کی اس سے تزکیہ نفس نہیں پایا جاتا اور نہ اس کا نام سچی پاکیزگی ہے۔ یہ ایک ایسی شے ہے کہ اس پر عمل کرنا تو درکنار سمجھنا ہی مشکل ہے۔ جسے خدا چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ یہ تو ایک قسم کی موت ہے جو انسان کو اپنے نفس پر وارد کرنی پڑتی ہے۔‘‘

(ملفوظات۔ ایڈیشن 2018ء۔ جلد5 صفحہ276)

بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

’’انسان جو ایک عاجز مخلوق ہے اپنے تئیں شامتِ اعمال سے بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے۔ کبر اور رعونت اس میں آجاتی ہے۔ ﷲ کی راہ میں جب تک انسان اپنے آپ کو سب سے چھوٹا نہ سمجھے چھٹکارا نہیں پاسکتا۔ کبیر نے سچ کہا ہے:

؎ بھلا ہوا ہم نیچ بھلے ہر کو کیا سلام
جے ہوتے گھر اُونچ کے ملتا کہاں بھگوان

یعنی اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم چھوٹے گھر میں پیدا ہو ئے ۔اگر عالی خاندان میں پیدا ہوتے تو خدانہ ملتا۔جب لوگ اپنی اعلیٰ ذات پر فخر کرتے تو کبیر اپنی ذات با فندہ پر نظر کر کے شکر کرتا۔ پس انسان کو چاہیئے کہ ہر دم اپنے آپ کو دیکھے کہ میں کیسا ہیچ ہوں۔ میری کیا ہستی ہے۔ ہر ایک انسان خواہ کتنا ہی عالی نسب ہو مگر جب وہ اپنے آپ کو دیکھے گا بہر نہج وہ کسی نہ کسی پہلو میں بشرطیکہ آنکھیں رکھتا ہو تمام کا ئنات سے اپنے آپ کوضرور با لضرور ناقابل وہیچ جان لے گا انسان جب تک ایک غریب وبیکس بڑھیا کے ساتھ وہ اخلاق نہ برتے جوایک اعلیٰ نسب عالی جاہ انسان کے ساتھ برتتا ہے یا بر تنے چاہئے اور ہر ایک طرح کے غرور، رعونت وکبر سے اپنے آپ کو نہ بچاوے وہ ہرگز ہرگز خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔‘‘

(ملفوظات۔ ایڈیشن 2018ء۔ جلد5 صفحہ138)

**بعض مخالفین کے طاعون سے ہلا ک ہو نے کی خبر آئی۔ اس پرحضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:
’’دشمن کی موت سے خوش نہیں ہو نا چاہئے۔ بلکہ عبرت حاصل کرنی چاہئے۔ ہر ایک شخص کا خدا تعالیٰ سے الگ الگ حساب ہے۔ سو ہر ایک کو اپنے اعمال کی اصلا ح اور جانچ پڑتال کرنی چاہئے۔ دوسروں کی موت تمہارے واسطے عبرت اور ٹھوکر سے بچنے کا باعث ہو نی چاہئے نہ یہ کہ تم ہنسی ٹھٹھے میں بسر کر کے اَور بھی خدا سے غافل ہو جاؤ۔ میں نے ایک جگہ توریت میں دیکھا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ایک جگہ اس میں فرما تا ہے کہ ایک وقت ہوتا ہے کہ جب میں ایک قوم کو اپنی قوم بنانی چاہتا ہوں تو اس کے دشمنوں کو ہلاک کرکے اُسے خوش کرتا ہوں۔ مگر اُسی قوم کی بے اعتنائیوں سے ایک وقت پھر ایسا آجاتا ہے کہ اس کو تباہ کر کے اس کے دشمنوں کو خوش کرتا ہوں۔‘‘

(ملفوظات۔ ایڈیشن 2018ء۔ جلد5 صفحہ20)

**’’ایک غیر مومن کی بیمار پُرسی اور ماتم پُرسی تو حسن اخلاق کا نتیجہ ہے لیکن اس کے واسطے کسی شعائر اسلام کو بجالانا گناہ ہے۔ مومن کا حق کافر کو دینا نہیں چاہئے اور نہ منافقانہ ڈھنگ اختیار کرنا چاہئے۔

خدا تعالیٰ کی ذات گو مخفی ہے مگر اس کے انوار ظاہر ہیں جن سے ثابت ہو تا ہے کہ وہ مخفی نہیں۔‘‘

(ملفوظات۔ ایڈیشن 2018ء۔ جلد5 صفحہ197)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو مندرجہ بالا ارشادات میں بیان تعلیم پر کماحقہٗ عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جولائی 2021