• 29 اپریل, 2024

سرزمین روس کے میدانِ عمل میں (چند یاداشتیں)

سرزمین روس کے میدانِ عمل میں
(چند یاداشتیں)

روس اور روسیوں سے ابتدائی تعارف

روس کے لیے بطور مبلغ تقرری کی پہلی غیررسمی نوید مؤرخہ 12دسمبر 1991ء کو لندن میں ملی جبکہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ قادیان کے 1991ء کے تاریخ ساز جلسہ کو رونق بخشنے کے لیے تیاریوں میں مصروف تھے۔ اور اسی روز خاکسار مع اہل و عیال حضور پُرنور سے الوداعی ملاقات کی سعادت حاصل کرچکا تھا۔ قبل ازیں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ ہمیں پاکستان سے ہوتے ہوئے قادیان کے اس مبارک جلسہ سالانہ میں شرکت کی تاکید فرماچکے تھے اور یہ حضورؒکی مشفقانہ توجہ اور دعاؤں کی برکت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی حالات میں محض اپنے فضل سے خاکسار اور میری اہلیہ اور ہمارے پانچ بچوں کو اس تاریخ ساز جلسہ میں شمولیت کی سعادت بخشی اور اپنے خاص فضلوں سے نوازا۔

اس سے قبل خاکسار کے کبھی وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آئی تھی کہ کسی وقت مجھے روس کی سرزمین پر اعلائے کلمۃاللہ کا فرض ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوگی۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ اِسی سال یعنی1991ء کے جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر پہلی بار روس کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا ایک وفد جس میں 19 ارکان شامل تھے لندن آیا۔

ان لوگوں کو جلسہ پر مدعو کرنے کے لیے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے بطورِ خاص مکرم کلیم خاور صاحب جو رشین ڈیسک کے انچارج تھے کو روس کے مختلف علاقوں میں بھیجا تھا۔ حسن اتفاق سے اس وفد کی مہمان نوازی کرنے والوں کی ٹیم میں خاکسار کو بھی شامل کردیا گیا اور یوں روسیوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور روس سے ایک تعارف بھی ہوا۔ تاہم اس وقت بھی خاکسار کے ذہن میں ایسا کوئی خیال پیدا نہ ہوا کہ کسی وقت روس کے میدان عمل میں قدم رکھنے کا موقع حاصل ہوگا۔

اس وفد میں بعض افراد تو اپنے اپنے ہاں کی حکومتوں میں بہت اونچے مناصب پر فائز تھے بلکہ ایک تو اپنے ہاں کی پارلیمنٹ کے رکن اور اپنے ملک کے جانے پہچانے مشہور شاعر بھی تھے ۔ان کی پذیرائی کے لئے لندن میں ماسکو کے سفارتخانہ نے ایک سفارتکار کی ان کے ساتھ مستقل طور پر بطور ترجمان ڈیوٹی بھی لگادی تھی جو اکثر وقت ان کے ساتھ رہتا تھا۔ الغرض اس وفد کی وجہ سے روس کے ساتھ متعارف ہونے کا ایک موقع اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بہم پہنچادیا تھا۔

1. اس جلسہ کے اختتام کے بعد قادیان سے واپس پاکستان کے لئے روانگی سے قبل اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے معجزانہ طور پر ایسے حالات پیدا فرمادئیے کہ میری ایک دیرینہ خواہش کو پورا فرماتے ہوئے ہم سب کو چولہ حضرت بابانانک رحمہ اللہ علیہ کی زیارت کی بھی سعادت بخشی۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ۔

ابتدائی تیاری

قادیان سے جنوری 1992ء میں ہم لوگ پاکستان واپس پہنچے اور کچھ ہی عرصہ بعد باقاعدہ طور پر حضورانور رحمہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد وکالت تبشیر میں موصول ہوا کہ حضور نے خاکسار کو ازبکستان بھجوائے جانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ چنانچہ تیاری کے سلسلہ میں خاکسار کو وکالت تبشیر ربوہ میں چند ماہ گزارنے کا موقع حاصل ہوا۔ اس وقت ہمارے پاس روس سے متعلق کوئی خاص معلومات نہیں تھیں جن سے اس سرزمین کے بارہ میں استفادہ کیا جاسکتا۔ خصوصاً ازبکستان کے بارہ میں تو کوئی فائل نہ تھی نہ ہی وہاں پہلے سے کوئی مشن یا مرکز موجود تھا نہ ہی کوئی جماعت حتّٰی کہ وہاں کوئی ایک احمدی بھی نہ تھا ایک سنگلاخ سرزمین پر کلیۃً نئے سرے سے ایک نئی شجرکاری کا مرحلہ درپیش تھا۔ حضور رحمہ اللہ کی تحریک پر اس وقت تک ایک دو وفد وقف عارضی کے لئے ضرور جاچکے تھے مگر ان کی رپورٹوں میں بےحد محدود باتیں درج تھیں جو صرف تاشقند میں ایک محدود قسم کی کارگزاری پر مشتمل تھیں اور کچھ افراد کے ایڈریسز تھے۔ جن سے ان وفود کے رابطے ہوئے تھے۔ برادرم مکرم نواب منصور احمد خان وکیل التبشیر نے حوصلہ افزائی کی۔ روس سے متعلق مواد کا مطالعہ شروع کیا۔ بالآخر ماہ اکتوبر میں ویزا کے حصول کی کارروائی شروع ہوئی اور اسلام آباد میں واقع روسی سفارتخانہ نے 12نومبر سے 26نومبر تک صرف دو ہفتوں کا ویزا جاری کیا۔ چنانچہ اسی کے مطابق پی آئی اے کے ذریعہ اسلام آباد سے تاشقند کےلیے 12نومبر1992ء کی سیٹ بُک کروائی گئی۔

روانگی برائے تاشقند

11نومبر کو خاکسار مع اہل و عیال ربوہ سے دفتر کی گاڑی پر اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا۔ رات اسلام آباد کے گیسٹ ہاؤس میں قیام کیا۔ اگلے روز صبح ائیرپورٹ کےلیے روانہ ہوئے۔ ائیرپورٹ پر برادرم مکرم میاں محمد رفیع ناصر صاحب (ناصر دواخانہ ربوہ) بھی منتظر تھے جو اسی فلائیٹ پر تاشقند کےلیے اپنا وقف عارضی بھگتانے کے لیے روانہ ہورہے تھے۔ انہوں نے پہلے سے مجھے خبردار کیا ہوا تھا کہ وہ وقف عارضی پر خاکسار کے ہمراہ جائیں گے۔ خاکسار نے بیوی بچوں اور اپنی خوشدامن جو ہمراہ آئی ہوئی تھیں سب کو الوداع کہا اور ان سے رخصت ہوکر مکرم رفیع ناصر صاحب کے ہمراہ ائیرپورٹ میں داخل ہوا۔ جلد ہی تمام مراحل میں سے ہم بخیروعافیت گزر گئے اور جہاز اپنے وقت پر عازمِ تاشقند ہو گیا دن کا وقت تھا اس لیے نیچے کا منظر بہت صاف تھا۔ برفانی چوٹیوں کو پھلانگتے ہوئے ہم لوگ تقریباً تین گھنٹے کی پرواز کے بعد دوپہر کے ڈیڑھ بجے کے قریب بخیر و عافیت تاشقند ائیرپورٹ پر اترے اور یوں سابق سوویت یونین کی سر زمین میں ہم داخل ہو گئے ۔ائیر پورٹ کے مراحل سے گزرتے وقت متعدد مواقع پر سخت ذہنی کوفت کا سامنا ہوا۔ ائیر پورٹ پر کام کرنے والا عملہ مقامی از بک افراد کی بجائے غالباً ماسکو سے آئے ہوئے خالص کمیونسٹ روسی تھے جو بڑی ترش روئی سے ایسے پیش آرہے تھے گویا مسافر لوگ کوئی جرائم پیشہ اور قیدی لوگ ہیں جو ایک جیل سے دوسری جیل میں منتقل کئے جارہے ہیں۔ امیگریشن والا افسر ہر مسافر کو اپنے سامنے بالکل اٹینشن (Attention) کھڑا ہونے کا حکم دیتا تھا اور اس دوران قطعا ًکسی قسم کی حرکت کرنے یا آنکھ جھپکنے کی اجازت نہ تھی۔ امیگریشن آفیسر سامنے کھڑے شخص کی تصویر کی ہر نوک پلک کو اس کے چہرے کے ہر خدو خال کے ساتھ ملانے کے لئے پاگلوں کی طرح اوپر نیچے سر کو حرکت دے رہا تھا ۔میں نے ذرا سی حرکت کی اور ایک سیکنڈ کے لئے ذرا دائیں یا بائیں دیکھا تو اس نے بڑا کرخت قسم کا فوجی کاشن دیا کہ ’’Look Forward‘‘۔ بہر حال ایک مقدس مشن پر ہم لوگ آئے تھے لہٰذا یہ تلخ گھونٹ تو پینا پڑا۔ اس کے بعد ایک نئی جہالت کا سامنا ہو گیا کہ تمہارے پاس جتنی بھی فارن کرنسی ہے وہ سب کی سب باہر نکال کر افسر متعلقہ کے سامنے اپنی جیب سے نکال کر اور اس کو دکھا کر جیب میں واپس ڈالو اور پھر وہ فارم پر دستخط کرے گا اور وہ فارم ہمارے پاس رہے گا اور بوقت خروج وہ کرنسی دوباره چیک ہوگی تا پتہ چلے کہ تم کتنی کرنسی لائے تھے اور کتنی واپس لے کر جارہے ہو اور کہیں ہمارے ہاں سے ڈالر یا پاؤنڈ وغیرہ کما کر تو نہیں جارہے۔ بہرحال نئی نئی جہالتیں در پیش تھیں اس سے جان چھوٹی تو ایک اور مصیبت میں گرفتار ہو گئے۔ ابھی ائیرپورٹ کے اندر ہی تھے کہ کوئی افسر نما شخص آیا اور اس نے ہم سے پاسپورٹ لے لئے ۔ہم اس پر بہت حیران تھے کہ اب کیا ماجرا ہے؟ پتہ چلا کہ یہ دراصل مختلف ایجنٹوں کی آپس میں لاگت بازی تھی ہر ایک کی کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ مسافروں پر اس کا قبضہ ہو اور وہ ٹیکسی کروانے اور ہوٹل کی بکنگ کراکر دینے میں جتنے زیادہ سے زیادہ پیسے بٹور سکے بٹورلے۔ ہمیں اس کا تجربہ نہ تھا دنیا کی کئی ائیرپوٹوں سے گزرتے رہے تھے مگر اس طرح کی خباثتیں دیکھنے میں نہ آئی تھیں۔ حیرت اس بات پر تھی کہ غیرمتعلقہ لوگ ائیرپورٹ کے اندر اتنی دور تک گھس آئے ہوئے تھے۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ سوویت یونین کی باقیات ہیں یا سوویت یونین کے ٹوٹنے کی برکات ہیں۔ بہر حال ہمارے اناڑی پن نے بہت کوفت پہنچائی۔ حیران سرگردان ایر پورٹ سے باہر آکر کھڑے ہو گئے اور خدا خدا کر کے کسی طرح پاسپورٹ واپس حاصل کیے۔

کہاں جائیں اور کس کے پاس

ہمیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ تاشقند میں ہم نے کہاں اور کس کے پاس جانا ہے۔ ازبکستان میں نہ تو کوئی مشن تھا نہ ہی جماعتی مرکز نہ ہی کوئی جماعت نہ ہی کوئی احمدی مقامی نہ غیرمقامی نہ ہی کوئی واقف نہ دوست نہ شناسا۔ یہ ایک ایسا دشت لگ رہا تھا جہاں دور دور تک کسی قسم کے پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ایک ایسی بنجر زمین جہاں خالصتاً نئے سرے سے بالکل نئی شجرکاری کرنی تھی اور یہ خالصتاً خداتعالیٰ کے خاص فضل پر مبنی تھا۔ بہرحال ائیرپورٹ سے کچھ معلومات حاصل کرکے تھوڑی سی کرنسی تبدیل کراکے ہم لوگ ایک ٹیکسی پر سامان لادکر ایک ہوٹل پہنچے جس کا نام ’’لفظک‘‘ ہوٹل تھا ۔اوپر کی منزل پر ایک کمرہ میں ہم نے سامان رکھا اور پھر کھانے کی تلاش میں ہم دونوں نیچے آئے کہ شاید ریستوران میں کھانا مل جائے گا مگر وہاں سوائے پتلے شوربے اور ایک سوکھی ڈبل روٹی کے اور کچھ بھی دستیاب نہ تھا۔

ہم نے اسی کو غنیمت سمجھا۔ بعض مقامی افراد کو ہم نے یہی ماحضر بڑے شوق سے تناول کرتے دیکھا تو ہمیں طریقہ سمجھ میں آگیا اور ہم نے وہ لکڑی کی طرح کا سخت ڈبل روٹی کا ٹکڑا بڑے سے پیالے میں بھرے ہوئے شوربے کے بحرِبےکنار میں ڈبو دیا اور وہ نرم ہو گیا اور ہم دونوں نے بھی اسی شوق کے حصول کی کوشش کرتے ہوئے اسے تناول کرلیا۔ نمازیں ہم نے اپنے کمرہ میں ہی با جماعت ادا کر لیں۔ روانگی سے قبل مکرم سید نادر سیدین صاحب جو ایک وقف عارضی تاشقند میں بھگتا چکے تھے نے ایک اُردو ڈکشنری اسلام آباد سے اپنے ہمراہ تاشقند لے جانے کو کہا تھا جو تاشقند میں ان کے ایک شناسا مکرم راضيو اسماعیل کو پہنچانی تھی۔ ان کا فون نمبر انہوں نے ہمیں دیدیا تھا ڈکشنری پاس تھی۔ ہم نے سوچا کہ ان کو فون کر کے کم از کم اطلاع ضرور کر دیں۔ چنانچہ ہم دونوں پھر نیچے آئے کہ فون تلاش کیا جائے ہوٹل میں یہ سہولت موجود نہ تھی۔ ہوٹل سے باہر نکلے تو ایک مقامی باشندے سے ملاقات ہوئی اس سے ہم نے ٹیلی فون کے بارہ میں اشارہ سے دریافت کیا۔ اس نے ہمیں ایک سمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی ۔بالآخر وہ ہمیں اپنے گھر لے گیا اور وہاں اس نے پہلے تو چائے پیش کی جس میز پر ہم لوگ موجود تھے وہ انواع و اقسام کی نعمتوں سے میزبان نے بھردی تھی ۔ہم حیران ہورہے تھے کہ ان کی مہمان نوازی کیسی بےلوث ہے دونوں فریق ایک دوسرے کے لئے کلیۃً اجنبی تھے۔ اس کا نام رحمت اللہ تھا اور بہت ہی اخلاص سے پیش آرہا تھا بالآخر وہ فون لیکر آیا ہم سے فون نمبر لےکر پہلے تو اسمٰعیل صاحب کے گھر فون کیا پھر ان کی اہلیہ صاحبہ کے بتانے پر کسی اور جگہ ڈائل کیا اور وہاں اسماعیل صاحب مل گئے (اسماعیل صاحب تاشقند یونیورسٹی کے ایک کالج میں تاریخ کے پروفیسر تھے۔)

ہم نے ان سے اپنا تعارف بیان کیا اور سید نادر سیدین صاحب کا حوالہ دیا اور بتایا کہ ان کی ڈکشنری آگئی ہے ۔وہ فرطِ مسرت سے اسی وقت اپنی گاڑی میں وہاں پہنچ گئے اور ہمیں سامان سمیت اٹھاکر زبردستی اپنے گھر لے گئے ۔ہم نے بہت عذر کیے مگر وہ ہماری ایک بھی سننے کو تیار نہ تھے۔ ان کا گھر تاشقند شہر کے ایک کنارے پر تھا اور مرکزی حصہ سے بہت دور تھا۔ تین چار روز اصرار سے انہوں نے اپنے ہاں ہی رکھا۔

حضرت امام بخاریؒ کے مزار مبارک پر حاضری

اس دوران ہم دونوں نے پروگرام بنایا کہ سمرقند اور بخارا کا بھی چکر لگالیا جائے چنانچہ مکرم راضیو اسماعیل صاحب سمیت ہم نے ان کی اہلیہ کے ایک عزیز شوکت نامی ڈرائیور کی ٹیکسی کرایہ پر لی اور ہم لوگ مؤرخہ 14نومبر کو براستہ سمرقند، بخارا کے لیے روانہ ہوئے۔

سمرقند پہلے آتا ہے وہاں اندرون شہر ہم نے چند قدیمی عمارتیں دیکھیں۔ خصوصاً امیرتیمور کے مزار پر گئے جن کو ’’شاہ زندہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور ان کی قبر کو ’’گورِامیر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ وہاں اور بھی بعض قدیم بادشاہوں سرداروں اور شاہی خاندان کے افراد کی قبریں تھیں سب پر دعا کا موقع ملا ۔پھر وہاں سے نکل کر ہم لوگ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر پہنچے جو شہر کے باہر جانب جنوب مغرب ایک الگ قریہ میں واقع ہے۔ وہاں بھی دعا کی توفیق ملی اور عجیب کیفیت سے گزرے۔ ایک طرف تو یہ امام ائمہ احادیث کا مدفن دوسری طرف وہی وہ خاک تھی جس سے نکل کر سیّدناحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے آباؤاجداد ہندوستان پہنچے اور آج پھر انہیں کی جوتیوں کی خاک کے طفیل یہ دو عاجز غلام ایک مقدس مزار پر اسی سرزمین پر سینکڑوں سال بعد پہنچے ہوئے تھے۔ جب ہم نے دعا ختم کی تو پیچھے کھڑے اسماعیل صاحب نے آواز دی (اسماعیل صاحب بہت اچھی اُردو بول لیتے ہیں) ’’مرزا صاحب آپ نے مروا دیا۔ ذرا پیچھے دیکھو‘‘ ہم نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو باراتیوں کا ایک لشکر دولہا دلہن سمیت کھڑا تھا۔ ان کا ہمیں پتہ ہی نہ چلا کہ یہ کب ہمارے پیچھے آ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ پتہ چلا کہ وہ اپنے دستور کے مطابق دولہا دلہن کو لے کر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے مزار پر حاضری دینے آئے تھے ۔یہاں جب پہنچے تو دیکھا کہ ہم لوگ کھڑے دعا میں مصروف ہیں تو وہ بھی بغیر کسی قسم کے شور کے چپکے سے شامل ہوگئے اور تا آنکہ ہم لوگوں نے آمین کہیں وہ بھی شامل رہے۔ بہر حال وہ ہم پاکستانی اجنبیوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اصرار کیا کہ ان کے ساتھ ہم تصویر کھنچوائیں۔ چنانچہ ہم لوگوں نے ان کی فرمائش پوری کی۔ ازاں بعد ہم لوگ وہاں سے روانہ ہوکر تاحد نگاہ پھیلے ہوئے کپاس کے کھیتوں میں سے گزرتے ہوئے شام کے وقت بخارا پہنچے ۔یہاں سے بھی چند افراد جو حکومت کے اونچے مناصب پر فائز تھے اسی سال (1991ء) جلسہ سالانہ یوکے کے میں شامل روسی وفد کا حصہ تھے۔ ان کی تلاش کی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ چنانچہ ہم لوگ مکرم اسماعیل صاحب کے ہمراہ انہی کے ایک دوست کے ہاں شب باشی کے لئے چلے گئے۔ اگلی صبح ہم لوگ بخارا کا شہر دیکھنے کے لئے نکلے اور بعض پرانے مدرسے اور بعض مزارات دیکھے۔ خصوصاً حضرت سید بہاؤالدین نقشبندی رحمہ اللہ کے مزار کی زیارت کا بہت لطف آیا اور وہاں دعا کا موقع بھی ملا۔ بخارا کا پرانا قلعہ بھی دیکھا بعض قدیمی باغات بھی دیکھے اسی روز شام کو ہم واپس تاشقند لوٹ آئے۔

اگلے روز ہم نے اسماعیل صاحب سے کہا کہ شہر یہاں سے بہت دور پڑتا ہے اس لئے خیال یہ ہے کہ شہر میں ہم کوئی جگہ کرایہ پر لے لیں۔ اتفاق سے ان کا ایک فلیٹ شہر میں بھی تھا۔ چنانچہ وہ فلیٹ ہم نے 5 ڈالر یومیہ کرایہ پر لے لیا اور وہاں منتقل ہوگئے اور اس لحاظ سے ہمیں شہر کے اندر نقل و حرکت میں آسانی ہو گئی۔

ماسکو میں ہمارا مرکز اور مکرم خالد چیمہ

اب ہمارا ٹارگٹ مستقل ویزا کا حصول تھا۔ مکرم رفیع ناصر صاحب تو آئے ہی صرف دو ہفتہ کے وقف عارضی کےلئے تھے مگر خاکسار کو تو مستقل ویزا کے حصول کے لئے کچھ کرنا تھا۔ چنانچہ اس کے لئے مختلف کوششیں کیں۔ کئی مشورے ملے۔ بالآخر لندن وکالت تبشير سے ماسکو میں مقیم ہمارے ایک احمدی نوجوان مکرم خالد چیمہ صاحب کا پتہ چلا۔ ان سے فون پر مشورہ کیا تو انہوں نے بلا حیل و حجت فوراً ہی دعوت دے دی اور اصرار کیا کہ آپ ماسکو آجائیں میں یہاں سے ویزا لگوادوں گا۔ چنانچہ ہم دونوں فوراً ماسکو روانہ ہوگئے۔ وہاں جاتے ہی مکرم چیمہ صاحب نے ایک صاحب کی معرفت ایک سال کا ویزا لگوا دیا۔ فالحمدللہ۔ اس کی اطلاع جب خاکسار نے بذریعہ ٹیلی فون لندن بھجوائی تو حضور انور رحمہ اللہ نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔ مکرم رفیع صاحب تو اپنے محدود ویزا کی وجہ سے دو روز مزید رہ کر واپس تاشقند اور پھر وہاں سے واپس پاکستان تشریف لے آئے۔ مگر خاکسار کو وہاں تقریبا تین ہفتے قیام کا موقع ملا اس دوران مکرم خالد چیمہ صاحب نے مہمان نوازی اور ہر کام میں بہترین اور مثالی تعاون کا حق اداکردیا۔ ان کے تعاون کی خبر جب حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ کو ہوئی تو حضور بھی خوش ہوئے کہ ایک لحاظ سے ہمارا ماسکو میں بھی مرکز موجود ہے۔ اس دوران بعض اور بھی جماعتی کاموں کی تو فیق مکرم چیمہ صاحب کو ملی۔ بلکہ بعد میں جب ہمارا پانچ مبلغین کا ایک وفد روس میں تعینات ہوکر ماسکو آیا تو مکرم چیمہ صاحب ہی نے ابتدائی کاموں میں ان کی خدمت کی توفیق پائی۔ اسی طرح ماسکو کی ایک علم دوست خاتون کو بھی جلسہ سالانہ یوکے یا شاید کسی اور موقع پر اپنے ذاتی خرچ پر لندن بھجوانے کی سعادت حاصل کی۔ چیمہ صاحب کا گھر ہمارا نمازوں کا اور علاوه ازیں نماز جمعہ کی ادائیگی کا بھی مرکز بنا۔ خاکسار کو غالباً تین جمعے وہاں ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور اس موقع پر شہر کے مختلف حصوں میں موجود بہت سے احمدی نوجوان جن کی تعداد دو در جن تک پہنچ جاتی تھی جمعہ کی ادائیگی کےلئے آجاتے تھے اور ایک اچھی خاصی جماعت بن جاتی تھی۔ مکرم ڈاکٹر نصیر احمد شریف صاحب حافظ آبادی جو بعد میں زندگی وقف کرکے معلم اصلاح و ارشاد کے طور پر خدمت بجا لاتے رہے بھی ان دنوں ماسکو میں تھے اور ہمارے ہاں روزانہ ہی آجاتے تھے۔ ایک مرتبہ نماز جمعہ کے بعد خاکسار نے سب دوستوں کو تحریک کی کہ یہ ایک اچھا موقع ہے کیوں نہ ہم شہر کے مرکزی حصہ جو Kremlin Square کہلاتا ہے چلیں اور ایک اجتماعی تصویر یعنی گروپ فوٹو بنالیں جو ایک اچھی یادگار رہ جائے گی۔ چنانچہ اکثر دوست شامل ہوگئے۔ ہم لوگ انڈرگراؤنڈ (جسے ماسکو میں METRO کہا جاتا ہے) پر بیٹھ کر کریملین سکوائر (Kremlin Square) پہنچے وہاں اس میدان کے عین وسط میں ہم لوگوں نے گروپ فوٹو بنوائی۔ اس فوٹو کا ایک پرنٹ تو میرے پاس رہ گیا۔ مگر افسوس ہے کہ اس کا نیگیٹو ایک نوجوان نے گم کردیا۔ ماسکو میں قیام کے دوران لندن سے مختلف ہدایات ملتی رہتی تھیں زیادہ تر ان کا تعلق مزید مبلغین کو کسی طور سے وہاں اسپانسر کرنے اور ان کے ویزا کے حصول کے لئے معلومات حاصل کرنے کے بارہ میں تھا۔

ویزا لگ جانے کے بعد خاکسار کا پروگرام بنا کہ دو تین روز تک واپس تاشقند چلا جاؤں ۔ اس کے مطابق 9دسمبر کو واپسی تھی مگر اسی روز لندن سے فون پر پیغام ملا کہ آج کا تاشقند کا پروگرام ملتوی کر دو ابھی ماسکو میں ہی رہو۔ چنانچہ پروگرام ملتوی کردیا اور لندن سے آمده ہدایات کی روشنی میں مزید مبلغین کی آمد ممکن بنانے کےلئے اسپانسرشپ کےلئے کاروائی کرنے کا موقع ملا۔ اسی طرح جماعت کی رجسٹریشن کے سلسلہ میں معلومات نیز کو نسٹیٹیوشن (CONSTITUTION) کے روسی ترجمہ وغیرہ امور کے سلسلہ میں پیش رفت معلوم کی گئی۔ وہاں مقیم تقریباً تمام نوجوانوں سے تعارف بھی حاصل ہوا ۔ان میں سے متعدد کی داستانیں بہت ہی تکلیف دہ ہیں ان میں بعض ایجنٹوں کے ہاتھ لگ کر بہت نقصان اٹھاچکے تھے۔ ان میں سے کئی ایسے تھے جو مکرم خالد چیمہ صاحب کے پاس آئے اور ان سے مدد کے طالب ہوئے اور اس لحاظ سے عملاً چیمہ صاحب کو خد مت خلق کا بھی موقع ملتا رہا۔ خالد چیمہ صاحب کا تعلق تلونڈی موسیٰ خان ضلع گوجرانوالہ سے تھا ان کی اپنی فیملی نیو یارک میں تھی اور وہ اپنے بعض اعزّه کی خدمت کے سلسلہ میں ماسکو آئے اور یہاں کافی عرصہ ان کو مجبوراً رہنا پڑ گیا اور اس طرح انہیں اس دور میں جماعتی خد مت کا بھی موقع مل گیا۔ انہی دنوں میں ہمارے ایک اور احمدی نوجوان تاشقند سے ماسکو پہنچے اور وہ بھی چیمہ صاحب کے ہاں ہی مقیم ہوئے ۔ان سے ایک احمدی طالب علم کا پتہ چلا جو پشاور سے تعلق رکھتے ہیں اور ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کےلئے تاشقند آئے ہوئے تھے۔ اس احمدی نوجوان کا نام میرے ذہن سے اتر گیا ہے (غالباً یاسین تھا) اس نے مجھے بتایا کہ جس جہاز سے وہ اسلام آباد سے تاشقند آرہا تھا اس پر اس احمدی طالب علم جس کا نام منیر احمد ہے کے والد صاحب (مکرم بشیر احمد خان صاحب اورکزئی ایڈووکیٹ اچینی پایان۔ پشاور) بھی آئے ہیں اور ان سے منیر احمد کا پتہ چلا ہے چنانچہ اس نوجوان نے مجھے منیر احمد کا ایڈرس دیا اور تاکید کی کہ جب میں تاشقند جاؤں تو اس احمدی طالب علم سے بھی رابطہ کروں۔ میرے لئے یہ معلومات بہت ہی غنیمت تھیں اور حقیقت یہ ہے کہ تاشقند میں جماعت کے قیام کے سلسلہ میں یہ بات سنگ بنیاد ثابت ہوئی۔ ایک اور نوجوان بھی ان دنوں چیمہ صاحب کے پاس پاکستان سے پہنچے جن کا نام منور احمد صاحب ڈار تھا ان سے پاکستان میں تعارف حاصل ہوا تھا اور وہ اس سے پہلے بھی روس کا ایک چکر لگا چکے تھے۔

تاشقند واپسی

خاکسار 12دسمبر کو واپس تاشقند آگیا اور اس مرتبہ ایک اور ہوٹل یاشلک میں قیام پذیر ہوا۔ روس میں یہ قانون تھا کہ غیرملکی اور ٹورسٹ حضرات ہر صورت کسی ایسے ہوٹل میں قیام کریں جہاں وہ اپنے اخراجات وغیرہ کی ادائیگی فارن کرنسی مثلاً پاؤنڈ سڑلینگ یا ڈالرز میں کریں اس کی عدم پابندی کی صورت میں پولیس کو حق حاصل تھا کہ وہ ایسے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے اور آئے دن اس وجہ سے ہوٹلوں پر چھاپے بھی پڑتے رہتے تھے۔ اور ایسے لوگ جو بعض سستے ہوٹلوں میں قیام پذیر ہوتے یا وہ لوکل کرنسی میں بل وغیرہ ادا کررہے ہوتے تھے تو پولیس اکثر ان لوگوں کو تنگ کرتی رہتی تھی۔ ہوٹل‘‘ ياشلک‘‘ میں خاکسار تقریباً دس بارہ روز مقیم رہا مگر ایسا کوئی اتفاق میرے ساتھ پیش نہ آیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اپنے فضل سے اپنی حفاظت میں رکھا۔ دو تین دن تو سخت پریشانی اور بےبسی کے عالم میں گزرے کیونکہ اب میں یکہ و تنہا تھا کوئی ساتھی کوئی دوست کوئی واقف کار نہ تھا نہ یہاں جماعت تھی نہ ہی کوئی مرکز تھا نہ یہاں ابھی تک ہمارا مشن قائم ہوا تھا نہ ہی زبان سے واقفیت۔ انگریزی بہت ہی کم لوگوں کو آتی تھی اکثریت میرے لئے اور اکثریت کےلئے میں خود گونگا تھا۔ ہوٹل کی جس منزل پر خاکسار کی رہائش تھی اس کا ٹھیکہ افغانیوں نے لیا ہوا تھا ان سے بوقت مجبوری کچھ نہ کچھ بات چیت ہوجاتی تھی مگر اس کے علاوہ میرے چاروں طرف نا واقفیت اور نا شناساؤں کا ایک سمندر تھا اس بیچارگی اور بےبسی کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ اپنے آپ کو ہر طرف سے منقطع پاکر خدائے واحد و یگانہ کے حضور گریہ و زاری اور التجائیں پیش کرنے کا موقع بہت ملا۔ بالآخر یہی سوچا کہ کم از کم احمدی طالب علم منیر احمد کو تو تلاش کیا جائے ایک دن ٹیکسی کرائے پر حاصل کی اور پرانے شہر کے اس حصہ میں جو 1966ء کے زلزلے سے بچ رہا تھا بہت گھومے پھرے اور آخر سارے دن کی محنت کے بعد شام کے وقت نہ صرف منیر احمد سے ملاقات ہوگئی بلکہ اس کے ایک احمدی کزن قاسم خان سے بھی ملاقات ہو گئی یہ دونوں پشاور سے اکٹھے حصول تعلیم کی غرض سے یہاں آئے ہوئے تھے بےحد خوشی ہوئی ان کو بھی اور ان سے زیادہ مجھے ہوئی۔ دونوں ہی بہت تعاون کرنے والے پیارے نوجوان ثابت ہوئے۔

پہلا رابطہ

انہوں نے بتایا کہ دراصل جو ایڈریس مجھے دیا گیا تھا وہ ان کا پوسٹل ایڈریس تھا جو ایک مقامی طالب علم ’’اسحاق جمالوف زین الدینچ‘‘ کا تھا (اس کا اپنا نام اسحاق اور جمال غالباً اس کے والد مرحوم تھے اور زین الدین اس کے دادا مرحوم کا نام تھا۔ روسی تسلط کے بعد سے مسلمانوں کے ناموں میں اسی طرح کی دستبرد ہوتی تھی) اس کی ڈاک اسی کی معرفت آتی تھی۔ اسحاق خود بھی ان کی طرح یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور بی اے کے امتحان کی تیاری میں مصروف تھا۔ ان دونوں عزیزوں نے مجھے اس کا غائبانہ تعارف یوں کرایا کہ یہ لڑکا بہت نیک اور ذہین اور محنتی نوجوان ہے اس کا تعلق بخارا سے ہے ۔ان دونوں نے مجھے اصرار سے کہا کہ اس کو ضرور تبلیغ کریں بلکہ کہنے لگے کہ مربی صاحب اگر آپ نے اس کو احمدی بنا لیا تو آپ سمجھیں کہ آپ نے سارا ازبکستان احمدی کرلیا ہے۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہ بالآخر اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی توجہ اور دعا کی برکت سے اس عزیز نوجوان کے دل میں احمدیت کی صداقت کا نور داخل کردیا اس کی تفصیل ان شاءاللہ آگے آئے گی۔

خاکسار نے ان دنوں معمول یہ بنالیا کہ شام کو کبھی کبھار اپنے ان احمدی طلباء سے ملنے ان کے ہوسٹل چلا جاتا کبھی وہ میرے ہاں آجاتے۔ اس دوران اسحاق جمال میرے بہت قریب آچکا تھا شام کے وقت اکثر ہم دونوں باہر نکل جاتے۔ مجھے ہر جگہ ترجمان کی ضرورت پڑتی تھی اور اسحاق اس ضرورت کو بہت حد تک کامیابی سے پورا کردیتا تھا۔ ہماری گفتگو اور ذریعہ رابطہ انگریزی کے توسط سے ہوتا تھا۔ اسحاق اس وقت بی اے کے امتحان کی تیاری کررہا تھا اور انگریزی خوب اچھی سمجھ لیتا تھا۔ بہت کم اس بات کا اتفاق ہوتا کہ اسے مجھ سے کوئی لفظ پوچھنے کی نوبت آتی۔ روسی اور ازبک زبان دونوں زبانوں پر اسے بہت اچھی دسترس حاصل تھی۔

اسحاق جمال

یہاں اسحاق کا مزید تعارف بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اسحاق کا تعلق بخارا کے ریجن میں واقع گاؤں BOLTAKARA سے تھا۔ اس کے والد مرحوم کا نام جمال الدین تھا۔ والد مرحوم اسحاق کو دو سال کی عمر میں داغ مفارقت دے گئے تھے اور پھر ان سب بہن بھائیوں کو ان کی بیوہ والدہ نے شدید محنت شاقہ سے پالا پوسا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد گریجوایشن کے لئے اسحاق تاشقند آگیا تھا اور یونیورسٹی میں داخل ہوگیا تھا۔ اسحاق باکسنگ کا بھی چیمپئن تھا اور اپنے صوبہ میں سکول کی سطح پر چیمپئن شپ حاصل کرنے کے علاوہ صوبہ فرغنہ میں بھی چیمپئن شپ حاصل کرچکا تھا۔ طبیعت بہت جوشیلی مگر مذاق بہت سلجھا ہوا۔ جتنا عرصہ خاکسار تاشقند میں رہا میں نے کبھی اس نوجوان کے منہ سے کسی قسم کا کوئی بیہودہ لفظ یا کلمہ نہیں سنا۔ کبھی کسی قسم کا لغو مذاق میں نے نہیں پایا۔ کسی قسم کی کوئی لغو عادت اس میں نہ تھی۔ شراب ازبکستان میں عام ہے اور اکثر مسلمان بھی خوب طمطراق سے پیتے ہیں۔ گھروں میں جب بھی کسی کو دعوت پر بلاتے ہیں تو اونچے طبقے کے لوگ شراب کے بغیر اس دعوت کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ اسحاق نہ صرف شراب سے مصئون بلکہ میں نے کبھی اسے سگریٹ نوشی کرتے بھی نہ دیکھا تھا۔ ہرقسم کی لغویات سے یہ نوجوان جس کی عمر صرف بیس برس تھی کلیۃً دور تھا۔ اس کے باوصف نماز میں اس قدر پکا تھا کہ کوئی بھی حالات ہوں ہمیشہ نماز اپنے اوّل وقت پر پڑھتا تھا۔ اس کی نماز اپنے وقت پر پڑھنے کی عادت دیکھ کر اکثر میں خود شرمندہ ہوجاتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا یہ لڑکا کسی احمدی گھرانہ میں پیدا ہوا ہو اور بچپن سے ہی اطفال الاحمدیہ اور پھر خدام الاحمدیہ کے تمام مجلسی کاموں میں برابر حصہ لیتارہا ہو۔ میں نے اسے بہت قریب سے دیکھا اور پرکھا بفضلہ تعالیٰ یہ نوجوان ہرلحاظ سے بہت قابل رشک تھا۔ بےحد ذہین اور زیرک اور صاف سیدھی بات کرنے کا عادی جس میں کوئی فریب نہ تھا۔ الغرض ہمارے ان احمدی طلباء عزیزان منیر احمد اور قاسم خان کی اس بات کی سچائی بہت حد تک ظاہر ہوگئی کہ اگر یہ لڑکا احمدی ہوجائے تو ازبکستان میں احمدیت کےلئے ماشاءاللہ بہت اچھی بنیاد بن سکتا ہے۔ جمعہ کی ادائیگی کے لیے باقاعدگی سے اسحاق میری رہائش گاہ پر آجاتا اور اکثر یہ دونوں عزیز بھی آجاتے اور بعض اوقات کوئی پاکستانی احمدی نوجوان جو اتفاق سے تاشقند آئے ہوئے ہوتے اور ہم سے رابطہ ہوجاتا تو وہ بھی آکر جمعہ میں شامل ہو جاتے اور اس لحاظ سے بفضلہ تعالیٰ ہمارا جمعہ باقاعدگی سے منعقد ہوتارہا۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ اسی دوران مجھے ہوٹل سے اپنی رہائش تاشقند کے علاقہ بازار میں واقع ایک عیسائی فیملی کے ہاں منتقل کرنی پڑی ۔یہ دونوں میاں بیوی بہت ہی شریف النفس انسان تھے۔ ادھیڑ عمر سے گزر کربڑھاپے کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔ میاں کا نام وکٹر اور بیوی کا نام SHORA تھا۔ کمرے کےکرایہ کے علاوہ میں ان کو کھانے کے پیسے بھی ادا کر تا تھا اور رقم معقول تھی اور کھانا بھی صاف ستھراہوتا تھا۔ یہاں جنوری کے آخر تک خاکسار نے قیام کیا اور اس دوران میں ہم لوگ نماز جمعہ وغیرہ ادا کرتے رہے۔

روس کےلئے مزید مبلغین کرام

جنوری کے آخر میں مرکز سے اطلاع ملی کہ یکم فروری کو ہمارے پانچ مبلغین بشمول ایک ڈاکٹرروس کے لئے تعینات ہوکر تاشقند پہنچ رہے ہیں۔ چنانچہ یہ پانچوں احباب یکم فروری کو بفضلہٖ تعالیٰ خیروعافیت سے بذریعہ پی آئی اے تاشقند پہنچ گئے۔ یہ احباب مندرجہ ذیل تھے۔

1) مکرم ڈاکٹر عبدالخالق خالد
2) مکرم حافظ سعید الرحمٰن
3) مکرم رانا خالد احمد
4) مکرم مشہود احمد
5) مکرم حسن طاہر بخاری

ان کا پروگرام دراصل آگے ماسکو جانے کا تھا کیونکہ ان کی تقرری ماسکو، قازان اور بیلاروس، لٹوانیا وغیرہ کے علاقوں کےلئے ہوئی تھی۔ دو دن یہ احباب تاشقند میں رہے اور بعض علاقے دیکھ کر تاشقند کی فضاؤں سے لطف اندوز ہوکر یہ احباب ماسکو روانہ ہوگئے اور 3فروری 1993ء کی رات کو یہ خیروعافیت سے مکرم خالد چیمہ صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ اسحاق نے ان دو دنوں میں ان احباب کی معیت میں بہت خوشی محسوس کی اور ہمارے یہ احباب بھی اسحاق کی خوش خلقی سے بہت متاثر ہوئے۔ ان احباب کے جانے کے بعد خاکسار نے اسحاق کے اصرار پر اپنی رہائش تاشقند کے ایک علاقہ چلن زار میں واقع ایک فلیٹ جو منیر احمد اور اسحاق نے مشترکہ قیمت ادا کر کے خریدا تھا میں منتقل کر لیا۔ اور خود اسحاق بھی وہیں آگیا۔ اب ہماری رہائش اکٹھی تھی۔ ہماری پانچوں نمازیں بھی عموماً گھر میں باجماعت اداہوتی تھیں۔ جمعہ پر اسحاق کے بعض دوست جن کے نام اختیار اور قدیر ارکن اور بحرالدین تھے کے علاوہ منیر احمد اور قاسم بھی آجاتےتھے۔ اس دوران ہم دونوں نے اسحاق کے گاؤں بولتا کره (BOLTA KARA) جانے کا پروگرام بنایا۔ حضور انور رحمہ اللہ کی خدمت میں سفر کی اجازت کے لئے فیکس بھیجی اور اجازت ملنے پر ہم دونوں روانہ ہوئے ۔ہم نے یہ سفر بذریعہ ٹرین طے کیا۔ شام چھ بجے ٹرین تاشقند سے روانہ ہوئی شدید سردی کے دن تھے باہر ٹمپریچر منفی پندرہ سنٹی گریڈ سے بھی نیچے تھا مگر اندر سے ٹرین بےحد آرام دہ تھی۔ ہر مسافر کو پیکنگ میں تکیہ، غلاف اور کمبل دیا گیا اور ہر ایک کےلئے سونے کی جگہ مہیا تھی۔ گو ٹرین نہایت آہستہ اور سست رفتاری سے چل رہی تھی مگر سفر بہرحال آرام دہ تھا۔ بخارا سے تیسں چالیس کلو میٹر پہلے ایک سٹیشن پر ہماری ٹرین صبح فجر کی نماز سے پہلے پہنچی تو اسحاق نے بتایا ہم نے یہاں اترنا ہے۔ وہاں سے ہم ٹیکسی کے ذریعہ اسحاق کے گاؤں بولتا کره (BOLTA KARA) پہنچے۔ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس کی آبادی تمام کی تمام مسلمانوں پر مشتمل ہے ان کا رہن سہن افغان کلچر سے بہت مشابہ ہے پردہ کا اسلامی تصور اشتراکیت کے استبداد کے باوجود بہت حد تک زندہ ہے۔ اسحاق کا گھر دو حصوں پر مشتمل تھا زنان خانہ الگ اور مردانہ حصہ الگ تھا۔ رات کو کمرہ گرم رکھنے کے لئے کوئلوں کی ایک انگیٹھی موجود تھی جس کو افغانستان میں تو ’’بخاری‘‘ کہا جاتا ہے وہاں اس کا مقامی نام مجھے بھول گیا ہے۔ یہاں ہم نے تین دن گزارے اور ان تین دنوں میں اسحاق کے بھائیوں اور دیگر اعزّہ کے علاوہ اس گاؤں کے امام الصلوٰة جن کا نام غالباً یونس تھا کو بہت تبلیغ کا موقع ملا اور یہ ساری تبلیغ إسحاق کی ترجمانی کے واسطے سے ہوئی۔

ازبکستان کا پہلا پھل آغوشِ احمدیت میں

مختلف مسائل بیان کر کر کے اور مختلف سوالات کا جواب دیتے دیتے بالآخر اسحاق کو اس حد تک تجربہ ہو گیا کہ بعض اوقات وہ خود ہی مجھے کہہ دیتا کہ تمہیں جواب دینے کی ضرورت نہیں اس کا مسئلہ میں خود ہی حل کردیتا ہوں۔ اور یوں وہ خود ہی سائل کو اپنی زبان میں سمجھا دیتا تھا۔ ان تینوں دنوں میں اسحاق کے گھرانے نے خدمت اور مہمان نوازی کا خوب حق ادا کیا اور ہر طرح کے آرام کا بہت خیال رکھا۔ بولتا کرہ کے بہت قریب ایک اور گاؤں ’’لبِ رود‘‘ ہے جو ایک چھوٹی سی نہر کے کنارے پر واقع ہے وہاں اسحاق کے بہنوئی خلیل صاحب رہائش پذیر تھے ایک روز انہوں نے بھی ہمیں ایک دعوت پر بلایا اور وہاں بھی تبلیغ کا بہت عمدہ موقع ملا۔ الغرض یہ تین دن ہمارے اس قیام کے دوران دعوت الی اللہ میں گزر گئے اور 24 فروری کو ہم لوگ واپس بذریعہ ٹرین خیر و عافیت سے تاشقند آگئے۔ تاشقند پہنچنے کے بعد اسحاق کی احمدیت میں دلچسپی میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور اس کی وابستگی بھی بڑھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس دوران حضورانور کی خدمت میں بھی دعا کےلئے عرض کرتا رہا تھا ۔بالآخر ایک روز اسحاق نے خود ہی مجھے اپنے فیصلہ سے آگاہ کیا کہ وہ جماعت میں داخل ہونا چاہتا ہے اور پوچھا کہ اس کا کیا طریق ہوتاہے ۔میں نے اسے بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھنا ہوتا ہے اس کے بعد میں دو روز خاموش رہا۔ تیسرے روز اسحاق نے پھر مجھے یاد دلایا۔ کہنے لگا کہ نصیر میں نے آپ کو کہا تھا کہ حضور کی خدمت میں بیعت کا خط لکھنا ہے۔ میں نے کہا کہ ہاں مجھے یاد ہے کہنے لگا پھر دیر کیوں کررہے ہو؟ میں دیکھا کہ یہ واقعی سنجیدہ ہے تو ہم دونوں ٹیلی گراف آفس گئے اور خاکسار نے حضورکی خدمت میں اُسے خط لکھنے کا طریق بتایا اور یوں اس نے حضور کی خدمت میں بیعت کا خط تحریر کردیا فالحمدللہ۔ اس خط پر 27 فروری 1993ء کی تاریخ ثبت ہے اور یہ اسی روز حضور کی خدمت میں فیکس کردیا گیا اس کے ایک دو روز بعد لندن سے برادرم عبدالماجد طاہر صاحب، ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن نے بذریعہ فون بتایا کہ حضورانور نے اس پر بےحد خوشی کا اظہار فرمایاہے۔ یوں اس نئے دور میں ازبکستان کا یہ پہلا پھل تھا جو احمدیت کی آغوش میں گرا۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔ اسحاق کی دوستی کا سلسلہ کافی وسیع تھا شروع میں جب اس سے تعارف ہوا تو اس نے بتایا کہ میرے تقریباً تیسں دوست ہیں جو سب نوجوان ہیں اور ہمیں بہت شوق ہے کہ اسلام کی خدمت کریں اس وقت میں نے اسے سمجھایا کہ اسلام کی خدمت کا بہترین طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے فضل سے جسے اسلام کی خدمت اور اس کی اشاعت اور غلبہ کے لئے اس زمانہ میں امام مہدی کے طور پر مبعوث فرمایا ہے اس کے ساتھ اس کے لشکر میں شامل ہوجائیں۔ چنانچہ بعد کی ملا قاتوں اور گفتگو میں مختلف طریقوں سے بالآخر اسے یہ بات بفضلہٖ تعالیٰ سمجھ آگئی اس دوران اس کے بعض اور دوستوں سے بھی تعارف ہوا جن میں سے بعض نام جو مجھے یاد رہ گئے یہ تھے۔ اختیار۔ بدرالدین اور قدیر ار کن۔ ان میں سے اختیار کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریباً تین ہفتوں بعد بیعت کی توفیق مل گئی اور اس طرح ازبکستان کے اس نئے دور میں احمدیت قبول کرنے والے دو پھل ہوگئے۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

خاکسار کی تاشقند آمد کے بعد سے یہ بھی کوشش تھی کہ جماعت کے لئے کسی مناسب جگہ پر کوئی مکان یا فلیٹ وغیرہ خرید لیا جائے۔ بہت تگ و دو کے بعد تاشقند کے ایک علاقہ GOSPITALNI RENIK میں ایک نیا تعمیر شدہ فلیٹ خرید لیا گیا اور اس طرح ہمیں وہاں ایک مرکز بنانے کے لئے بھی جگہ میسر آگئی۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ اس موقع پر مجھے ایک اہم بات یاد آگئی اور وہ یہ ہے کہ ازبکستان روانگی سے پہلے خاکسار کو لاہور میں محترم حضرت مولوی محمد حسین صاحب رضی اللہ عنہ (سبز پگڑی والے) کی خدمت میں حاضر ہوکر دعا کی درخواست کا موقع ملا تو آپ ؓنے فرمایا کہ میں نے کچھ رقم حضورانور کی خدمت میں بھجوائی تھی کہ اسے حضور جس طرح چاہیں مصرف میں لائیں تو محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کی وساطت سے حضور کا ارشاد موصول ہوا تھا کہ روس میں جب پہلی مسجد تعمیر ہوتو یہ رقم اس میں استعمال کی جائے۔ چنانچہ خاکسار جب ماسکو میں تھا تو مجھے حضرت مولوی صاحب مرحوم کی یہ بات یاد آئی اور خاکسار نے حضورانور رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں مؤرخہ 10دسمبر1992ء کو یہ بات بذریعہ فیکس تحریر کردی اور ساتھ ہی یہ بھی دعا کی درخواست کی کہ ‘‘دعاکریں اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے یہ پہلی مسجد ہمیں تاشقند میں تعمیر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور حضرت مولوی صاحب کی زندگی میں ہی خود حضورانور اپنے دست مبارک سے اس کا افتتاح فرمائیں اور ازبکستان جلدازجلد احمدیت کی آغوش میں آجائے۔’’ مجھے امید ہے حضورانور رحمہ اللہ نے جو بھی دعا کی ہوگی وہ کسی طور پر ان شاءاللہ ضائع نہیں ہوگی اور اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکل آیا کہ ازبکستان کے دو نہایت ہی سعید نوجوان احمدیت کی آغوش میں آگئے۔

اسحاق جمال کی ربوہ آمد

1994ء میں عزیز اسحاق جمال کو پاکستان visit کرنے کی توفیق ملی اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہ عزیز محترم حضرت مولوی محمد حسین صاحب (سبز پگڑی والے) رضی اللہ عنہ کی ملاقات سے مشرف ہوکر تابعین کی صف میں شامل ہوگیا۔ ربوہ میں اس کا متعدد بزرگان سلسلہ سے ملاقات کا موقع ملا۔ مرکز کا نظام، دفاتر صدرانجمن احمدیہ، تحریک جدید، لجنہ اماءاللہ، خدام، انصار اور دیگر مرکزی دفاتر سے بھی متعارف ہوگیا۔ محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب اور ان کی بیگم محترمہ صاحبزادی امۃ القدوس صاحبہ نے تو باقاعدہ ان کو دفتر صدر لجنہ اماءاللہ میں ملاقات کا وقت دے کر تفصیل کے ساتھ جماعتی نظام کے بارہ میں بریفنگ دی۔ ان تمام باتوں کا عزیز کی طبیعت اور تربیت پر نہایت گہرا اثر ہوا۔ ازاں بعد اسے جلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت کی توفیق ملی اور حضورانور رحمہ اللہ نے بڑی شفقت اور محبت سے اسے مزید صیقل فرمادیا۔ امریکہ بھی اسے جانے کا موقع ملا اور وہاں کی جماعتوں سے بھی تعارف ہوا۔ الغرض بہت جلد اس نے احمدیت کا گہرا نقش اپنے قلب و روح میں جذب کرلیا اور بعد میں وہ اپنے اعزّہ و اقارب اور دوستوں وغیرہم کے لئے ہدایت کا ذریعہ بن گیا اور یوں وہ احمدیت کی ابتدائی شجرکاری میں بفضلہ تعالیٰ بہت ہی کامیاب مبلغ ثابت ہوا۔ فالحمدللّٰہ

خاکسار کی علالت اور پاکستان واپسی

جیساکہ خاکسار اوپر عرض کر آیا ہے کہ تاشقند کا سرما نہایت ہی سرد ہوتا ہے اگرچہ ماسکو میں منفی 27 درجے کا ٹمپریچر رہتا تھا۔ برف کبھی پگھلی ہوئی نظر نہیں آتی تھی۔ اس شدید سردی میں پیاس کا احساس غائب ہوچکا تھا۔ کھانا کھانے کے دوران بھی شاذ ہی کبھی پانی پینے کا موقع پیدا ہو البتہ بعض اوقات سبز چائے کے ایک دو گھونٹ پی لینے سے بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پانی کی ضرورت پوری ہوگئی ہے مگر یہ خیال غلط تھا اور چونکہ تجربہ نہ تھا لہٰذا آہستہ آہستہ جسم پر غالب آنے والی Dehyderation گردوں پر بھی اثرانداز ہوئی اور اس کے نتیجہ میں Anxiety کا ایک خطرناک حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں نیند کلیۃً اُڑ گئی۔ چنانچہ پہلی مرتبہ کامل چار دن رات تک نیند نہ آسکی۔ اسحاق نے ایمرجنسی سروس کو بلوایا جنہوں نے نارمل Dose سے چار گنا زیادہ طاقت کے انجیکشن وغیرہ دئیے جس کے نتیجہ میں صرف ایک دو گھنٹے نیند آئی اور پھر دوبارہ وہی کیفیت عود کر آئی دوبارہ پھر تین دن رات تک جاگتا رہا۔ اس کے بعد پھر دوبارہ ایمرجنسی سروس والوں کو عزیز اسحاق نے بلایا۔ انہوں نے اس مرتبہ بھی کافی طاقتور قسم کے انجیکشن دئیے اس سے بھی صرف چند گھنٹے آرام رہا مگر پھر دوبارہ وہی کیفیت نہ ڈاکٹرز کو سمجھ آرہی تھی نہ ہی مجھے اس کا پتہ چل رہا تھا کہ بالآخر ہے کیا مصیبت۔ چندروز اسحاق نے ڈاکٹرز کو گھر پر ہی بلاکر علاج کی کوشش کی مگر محسوس ہورہا تھا کہ اس کے لئے ہسپتال میں داخل ہونا ضروری ہے اس وقت خاکسار نے جو ویزا ماسکو سے حاصل کیا تھا ازبکستان میں نئے قوانین کی روشنی میں اس کی VALIDITY محل نظرہورہی تھی۔ چنانچہ حضورانور نے خاکسار کو ارشاد فرمایا کہ واپس پاکستان جاکر علاج کراؤں۔ چنانچہ خاکسار کی جگہ لینے کےلئے ماسکو سے مکرم حسن طاہر بخاری صاحب کو بھجوادیا گیا اور خاکسار انہیں مشن کا چارج دے کر مؤرخہ 22مارچ 1993ء کو واپس پاکستان آگیا۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تاشقند میں احمدیت کا پودا مکرم بخاری صاحب کے ذریعہ پھلتا پھولتا رہا اب سنا ہے وہاں ماشاءاللہ سو، ڈیڑھ سو سے زائد احباب کی جماعت قائم ہوچکی ہے۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔ خاکسار کی واپسی کے بعد اسی سال جلسہ سالانہ یوکے منعقدہ جولائی1993ء کے موقع پر دوسرے دن کی تقریر میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ازبکستان میں اس نئے مشن اور عزیز اسحاق کی جماعت میں شمولیت کا ذکر بہت پیارے انداز میں فرمایا۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ

(مولانا مرزا نصیر احمد چٹھی مسیح ۔ استاد جامعہ احمدیہ یوکے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ