• 27 اپریل, 2024

آج ہم دیکھتے ہیں تو سب سے زیادہ فساد کی حالت مسلمان ممالک میں ہے

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک حوالہ پڑھا تھا جس میں آپ نے مسلمانوں کی عمومی حالت کے بارے میں فرمایا تھا کہ اگر ان کی یہ حالت نہ ہو گئی ہوتی اور وہ حقیقتِ اسلام سے بکلّی دُور نہ جا پڑے ہوتے تو پھر میرے آنے کی ضرورت کیا تھی۔ ان لوگوں کی ایمانی حالتیں بہت کمزور ہو گئی ہیں اور وہ اسلام کے مفہوم اور مقصد سے محض ناواقف ہیں۔ پھر آگے آپ نے یہ بھی فرمایا تھا (اس کا پہلے ذکر نہیں ہوا تھا) کہ
’’یہ لوگ سمجھتے نہیں کہ ہم میں کون سی بات اسلام کے خلاف ہے۔ ہم لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کہتے ہیں۔‘‘ یعنی مسلمان عمومی طور پر سمجھتے ہیں کہ ہم لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کہتے ہیں ’’اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور روزے کے دنوں میں روزے بھی رکھتے ہیں اور زکوۃ بھی دیتے ہیں۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’مگر مَیں کہتا ہوں کہ ان کے تمام اعمال اعمالِ صالحہ کے رنگ میں نہیں ہیں ورنہ اگر یہ اعمال صالحہ ہیں تو پھر ان کے پاک نتائج کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ اعمال صالحہ تو تب ہو سکتے ہیں کہ وہ ہر قسم کے فساد اور ملاوٹ سے پاک ہوں لیکن ان میں یہ باتیں کہاں ہیں؟‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ 343۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آج ہم دیکھتے ہیں تو سب سے زیادہ فساد کی حالت مسلمان ممالک میں ہے۔ مسلمان گروہوں میں ہے۔ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے پر سرگرم ہیں۔ ہر ایک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ تو پڑھتا ہےاور دوسرے لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ پڑھنے والے کا خون کرتا ہے۔ اس کا حق مارتا ہے۔ کسی بھی ذریعہ سے اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، کیا یہی قرآن کریم کی تعلیم ہے جس پر یہ لوگ عمل کر رہے ہیں؟ کیا یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ہے جس کی یہ لوگ پیروی کر رہے ہیں؟ آجکل تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جگہ دنیاداری غالب ہے۔ اگر مذہب کا نام بھی لیتے ہیں تو سیاست چمکانے کے لئے اور اپنے زُعم میں اپنی حکومتیں قائم کرنے کے لئے یا بچانے کے لئے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے بارے میں تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ سنہری حروف میں لکھا جانے والا بیان ہے کہ ’’کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰن‘‘ (مسند امام احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 305 حدیث 25816 مسند عائشۃؓ مطبوعہ عالم الکتب العلمیۃ بیروت 1998ء) کہ آپ کی سیرت اور آپ کے معمولات کا پتہ کرنا ہے تو قرآن کریم آپ کی سیرت کی تفصیل ہے اسے پڑھو۔ اور یہ نمونے آپ نے اس لئے قائم فرمائے کہ آپ کو ماننے والے مومن اس پر عمل کریں۔ صرف نعرے لگانے کے لئے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ میرے سے حقیقی تعلق صرف لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کہنے سے قائم نہیں ہو گا بلکہ میری محبت کو حاصل کرنا ہے تو پھر میرے محبوب رسول کی پیروی کرو۔ اس کے اُسوہ کو اپناؤ تو میرے پیارے بن جاؤ گے۔ تمہیں وہ مقام مل جائے گا جو اللہ تعالیٰ کی قربت کا مقام ہے ورنہ تمہارے نعرے کھوکھلے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (آل عمران:32) کہ تُو کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

کیا اللہ تعالیٰ جس سے محبت کرے اس کا یہی حال ہوتا ہے جو آجکل کے مسلمانوں کا ہے۔ علماء جن کو عامّۃ المسلمین عام طور پر اللہ تعالیٰ کا پیارا سمجھتے ہیں، اس کے قریب سمجھتے ہیں، وہ سب سے زیادہ دنیا میں فساد پیدا کر رہے ہیں۔ اب تو خود پاکستان میں بعض تجزیہ نگار اور کالم نویس اخباروں میں بھی لکھنے لگ گئے ہیں، دوسرے میڈیا پر بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ حالت ان نام نہاد علماء نے ایسی کر دی ہے۔ پس اس وقت مسلمان علماء کی عمومی حالت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ کوئی قرآن اور سنت کی حقیقت بتانے والا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق بھیج دیا ہے۔ لیکن علماء نہ خود اس کی بات سننا چاہتے ہیں، نہ عوام کو سننے دیتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کے خلاف کفر کے فتوے دے کر ایک عمومی خوف و ہراس اور فتنہ و فساد کی صورت پیدا کر دی ہے۔

یہ الزام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ہر روز لگتا ہے کہ آپ نے نعوذ باللہ دنیاوی خواہشات کی تکمیل اور اپنی بڑائی کے لئے جماعت کا قیام کیا ہے۔

بہرحال ہم جانتے ہیں کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی تجدید و تکمیل اشاعت کے لئے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا تھا۔ قرآن کریم کے علوم و معارف کا فہم وادراک آپ کے ذریعہ سے ہی ہمیں حاصل ہوا۔ آپ نے ہر موقع پر قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائی۔ چنانچہ اس آیت قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ کو مختلف مواقع پر مختلف زاویوں اور معانی کے ساتھ آپ نے پیش فرمایا اور یہی وہ باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلاکر، اس کا پیارا بنا کر فتنہ و فساد کی حالت سے نکالنے والی بن سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے لئے اپنی بقا کو قائم رکھنے کے لئے، اپنے ملکوں میں امن قائم رکھنے کے لئے، اسلام کی شان و شوکت کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے کوئی اور راستہ نہیں۔ نیک نتائج اس وقت قائم ہوں گے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پیروی ہو گی ورنہ لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کا نعرہ بھی کھو کھلا ہے اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا نعرہ بھی کھوکھلا ہے۔

(خطبہ جمعہ 20؍ اکتوبر 2017ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اگست 2020