• 3 مئی, 2024

مباحثات ومناظرات ضلع چکوال

(قسط اوّل)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے کے بعد اس پیغامِ حق کو ضلع چکوال کے رفقاءِ حضرت مسیح موعود ؑ نے ضلع کے قریہ قریہ تک پہنچانے کو اپنا مشن بنایا اور دعوتِ الیٰ اللہ کو اپنا شعار بناتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کی آواز کو چکوال کے گوشہ گوشہ میں پہنچانے کی حتی الامکان کوشش کی۔ مباحثے تو روزانہ کا معمول تھا۔ ہر آنے جانے والے، ہرملنے والے کو، ہر مسافر کو، ہر جاننے نہ جاننے والے کو امام مہدی کے ظہور اور اُس کی تعلیمات سے آگاہ کرتے رہے۔ اور اُن کی دعوتِ الیٰ اللہ سے کئی سعید روحوں نے احمدیت کو قبول کیا اورامامِ وقت کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ضلع چکوال کے مندرجہ ذیل مباحثات و مناظرات مشہور ہیں اورجن کاذکر تاریخ احمدیت کی کتب اور اخبارات اور مجلّات میں محفوظ ہے۔

  1. مباحثہ چکوال۔27جنوری 1914ء
  2. مباحثہ چک نورنگ29جنوری 1914ء
  3. مباحثہ چوہان 30جنوری 1914ء
  4. مناظرہ ڈنڈوت 9 ؍اگست1929ء
  5. مباحثہ چھمبی 12؍اگست1929ء
  6. مناظرہ چکوال(عیسائیوں سے) 15تا18 جون1932ء
  7. مباحثہ ڈلوال2،3دسمبر1944ء
  8. مناظرہ چکوال(بہائیوں سے) 15جولائی1957ء

1۔مباحثہ چکوال 27جنوری1914ء
جلسہ چکوال میں شمولیت کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓ24جنوری 1914ء کو مفتی فضل الرحمٰن کے ہمراہ قادیان سے روانہ ہوئے۔لاہورپہنچ کرآپ نے25جنوری کی شام کو جماعت لاہور کی درخواست پر میاں چراغ دین کے مکان پر ایک پُر معارف لیکچردیا۔جس میں آیت اُدْعُوْانِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے زمانہ حال کے مسلمانوں کا صحابہ کی قربانیوں سے مقابلہ کیا اور آخر میں جماعت کو تبلیغِ حق کی ضرورت و اہمیت بتائی اور اُن کے فرائض کی طرف توجہ دلائی۔تقریر کے بعد آپ 10بجے شب لاہور سے روانہ ہو کر 3بجے جہلم پہنچے۔26جنوری کونماز ظہر کے بعد آپ نے ایک تقریر فرمائی جو سورۃ فاتحہ پرتھی۔نمازمغرب کے بعدحضرت حافظ روشن علی کاوعظ سورۃ العصرپر ہوا۔27جنوری کو آپ 6بجے صبح جہلم سے بذریعہ ریل مندرہ اسٹیشن پر اُترے اور ۹بجے ٹانگہ پر سوار ہو کر شام کو 6بجے چکوال رونق افروز ہوئے۔راستہ میں چک نورنگ کے احمدی علاقہ دار بابو غلام حیدراور سید رکن شاہ علاقہ دار اور سید اللہ دتہ نمبر دار چوہان استقبال کے لئے موجود تھے۔

(تاریخ ِاحمدیت جلد 4صفحہ529)

حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے دعوت الی الخیر کے اس سفر چکوال میں چکوال کے مقام پر کرم دین بھیں والے نے مباحثہ چاہا۔اس مباحثہ کی تفصیل الفضل قادیان 11فروری1914ء کے صفحہ12پر ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔

چکوال میں کرم دین بھیں والے نے مباحثہ چاہا جن کے جواب میں اسے مولوی نور محمد ساکن چکوال اور چوہدری غلام حیدر علاقہ دار چک نورنگ صاحب نے کہا یاتو بھِیں میں چل کر مباحثہ کر لو۔یا چوہان میں جہاں حفظ امن ہمارے ذمہ ہے اور یہاں تم ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی اجازت لاؤ۔لیکن وہ اپنی حیثیت خوب جانتا تھا۔ خاموش رہ گیا۔

مباحثہ چک نورنگ 29جنوری 1914ء

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے سفرِ چکوال میں چک نورنگ کے مقام پر29تاریخ کو صبح 10بجے ماسٹر صاحب نے ایک گھنٹہ بھر کچھ بیان کیا۔ اس کے بعد حافظ روشن علی ختمِ نبوت پر دوگھنٹہ تقریر فرماتے رہے۔ اس کے بعد ایک گھنٹہ شیخ غلام احمد نے وعظ کیا۔ اور قریباً 15منٹ صاحبزادہ صاحب نے گورنمنٹ کا شکریہ ادا کیا۔ اور 2بجے جلسہ برخاست ہوا اور 3بجے ظہر و عصر کھانا کھا کر جمع کی۔مولوی خان ملک کھیولہ (کھیوال) سے ڈولی میں صاحبزادہ صاحب سے ملنے کو تشریف لائے۔سو برس سے اوپر عمر بتلائی جاتی ہے۔بہت ضعیف ہیں۔بعد نماز 4بجے ٹانگوں پر سوار ہو کر شام کو 6میل پر چک نو رنگ میں رونق افروز ہوئے اور صبح چک نورنگ سے گھوڑوں پر سوار ہو کریہ خداتعالیٰ کافرستادہ چک نورنگ میں نازل ہوا۔یہاں شیعہ لوگوں نے ایک مولوی مباحثہ کے لئے بلایا ہوا تھا۔29تاریخ شام کوصاحبزادہ صاحب نے احمدی احباب کوبعدمغرب وعظ فرمایا۔اورعشاء کے بعد حافظ صاحب نے عورتوں میں وعظ کیا۔

مباحثہ چوہان30جنوری 1914ء

30جنوری1914ء،11بجےصاحبزادہ صاحب کی سواری چوہان میں پہنچی۔جمعہ مسجد میں پڑھا اور مختصرساخطبہ صاحبزادہ صاحب نے پڑھا۔بعد نماز ایک بجے سے 4بجے تک صاحبزادہ صاحب نے تقریر فرمائی جس میں تقریباً 500مرد اور 200عورتیں تھیں۔عورتوں کے لئے الگ انتظام تھا۔ اڑھائی گھنٹے کے قریب یہ تقریرجاری رہی اورحاضرین پراس کابہت اثرتھا۔صاحبزادہ صاحب نے اپنی تقریر میں حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کو کھلے لفظوں میں براہین و دلائل کے ساتھ پیش کیا۔عصر کے بعد ایک مولوی فضل احمد علاقہ گجرات سے آئے ہوئے تھے،ان سے مباحثہ تھا۔حافظ روشن علی صاحب نے اس پر سوال کیاکہ حیاتِ مسیح کے آپ کے پاس کیا دلائل ہیں؟اس کا جواب وہ نہ دے سکا۔اور تھوڑی سی ردّو کد کے بعد عربی میں مباحثہ قرار پایا۔حافظ صاحب نے عربی میں اپنا سوال پیش کیا۔مولوی صاحب نے اس کے جواب میں اوٹ پٹانگ ہانک دیا۔اور پھر جواب ملنے پر دم بخود رہ گیا۔اُدھر لوگوں نے کہا کہ ایسی زبان میں گفتگو ہو کہ ہم بھی سمجھ سکیں۔پھرتحریری مباحثہ قرار پایا۔اورطرفین میں تبادلہ تحریرات ہوتا رہا۔جس میں اس کے لغو اعتراضات (جن کا اصل بحث سے کچھ تعلق نہ تھا )کے جواب کے علاوہ11دلیلیں وفاتِ مسیح کی بھی پیش کی گئیں۔آخر مولوی ایک آیت کی ترکیبِ نحوی پر اڑا جس کے جواب میں اُسے کہا گیا کہ ہم ترکیب لکھوا دیتے ہیں۔آپ بھی ایک آیت کی ترکیب کردیں۔اور یہ دونوں ترکیبیں کسی نحوی منصف کے پاس بھیجی جائیں۔اس وقت رات کے 12بج چکے تھے۔مولوی موقعہ پاکرکمرہ میں چلا گیا۔اور پھر برآمد نہ ہوااور یوں خداکے فضل سے احمدیوں نے فتح پائی۔افسوس کہ مولوی نے اتنا وقت ضائع کیا کیونکہ اس کا مقصد طلبِ حق نہ تھا۔

(الفضل قادیان11فروری1914ءصفحہ12کالم3)

ڈنڈوت میں کامیاب مناظرہ

ڈنڈوت تحصیل پنڈ دادنخان میں 9۔اگست1929ء کو جماعتِ احمدیہ اور اہلِ سنت والجماعت کے درمیان حضرت مرزا صاحب کے عنوان پر 6بجے صبح سے لیکر11بجے تک مباحثہ قرارپایا۔

اہلِ سنت والجماعت کے مناظر مولوی محمد احسن نے بلاوجہ اس بات پر اصرار کیا کہ صداقتِ مسیح موعود علیہ السلام کے مسئلہ پر وہ خود مدعی ہوں گے حالانکہ جماعتِ احمدیہ کے مناظر ملک عبدالرحمٰن خادم گجراتی نے رشیدیہ کا حوالہ پیش کیا کہ مدعی من حیثُ انہ اثباً ہوتا ہے۔لہذامسئلہ صداقتِ مسیح موعودؑ پر جماعتِ احمدیہ مدعی ہے۔مگر مولوی محمد احسن صاحب نے اپنی بات پر اصرار کیا۔ملک عبدالرحمٰن خادم نے مولوی صاحب کے اصرار پر ان کے اس مطالبہ کو بھی منظور کرلیا۔اہلِ سنت کے مناظر مولوی محمد احسن صاحب نے دس منٹ تقریر کی جس میں قرآن کریم سے کوئی دلیل جناب مرزا صاحب کے دعوے کے خلاف پیش نہ کی۔صرف حدیث ’’یُدْفَنُ مَعِی فِی قَبْرِی‘‘ پیش کرکے بیٹھ گئے۔ملک عبدالرحمٰن خادم نے ان کی اس دلیل کا نہایت مدلل جواب دیا اور کہا کہ وہ کون سا مسلمان ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو اُکھیڑے گا۔نیزحضرت عیسیٰؑ کا رسولِ کریمﷺ کی قبر میں مدفون ہونا اس لئے بھی باطل ہے کہ حضرت عائشہؓ نے جو رویا دیکھی تھی۔اس میں رَئَیْتُ ثَلَاثَۃَ اَقْمَارٍسٰقِطِیْنَ فِی حُجْرَتِی لکھا ہےکہ میں نے تین چاند اپنے حجرہ میں گرتے دیکھے۔اورتینوں چاندآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اس حجرہ میں گر چکے ہیں۔اب اگر حضرت مسیحؑ بھی اس میں مدفون ہوں۔ تو پھر حضرت عائشؓہ کا خواب غلط ہوجاتا ہے۔پھر جس جگہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث زیرِ بحث میں حضرت مسیحؑ کی قبر کی تعین فرمائی ہے۔وہ ’’بَیْنَ اَبِی بَکْرٍ وَ عُمَرٍ فِی قَبْرٍ وَّاحِدٍ‘‘ ہے۔حالانکہ ثابت ہے کہ حضرت ابو بکرؓ و عمؓر کی قبر کے درمیان کوئی جگہ خالی نہیں۔ لہٰذا آپ کا اعتراض باطل ہے۔ حدیث مذکور کے مدلل اور اکمل جواب دینے کے بعد ملک عبدالرحمٰن خادم نے قرآنِ کریم سے حضرت مرزا صاحب کی صداقت کے لئے آیات پیش کیں ’’یُدْفَنُ مَعِی فِی قَبْرِی‘‘ مولوی صاحب سے کوئی جواب بن نہ آیا۔تو نہایت مضطرب ہو کر فرمانے لگے ’’قَبْرًا‘‘ بمعنی مقبرہ ہے۔اس پر ملک صاحب نے مولوی صاحب کو چیلنج دیااور20روپیہ انعام بھی مقرر کیاکہ مولوی صاحب کسی لغات میں سے قبر کے معنی مقبرہ دکھائیں۔ مگر مولوی صاحب قطعاً جواب نہ دے سکے۔اس مسکت جواب پر مولوی صاحب نے ’’یُدْفَنُ مَعِی فِی قَبْرِی‘‘ کی حدیث چھوڑ کر ایک اور حدیث پیش کی کہ ’’نبی جہاں مرتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے‘‘ لیکن مرزا صاحب اپنے مقامِ وفات لاہور میں مدفون نہ ہوئے۔ ملک صاحب نے فرمایاکہ اس حدیث کا ایک راوی الحسن بن عبداللہ ہے جس کے متعلق لکھا ہے ’’قَالَ البُخَارِی اَنَّہُ کَانَ یتھم بالزندقہ‘‘ حاشیہ علامہ سندھی بر حاشیہ ابنِ ماجہ صفحہ256۔امام بخاری نے کہا ہے کہ وہ زندیق اور متروک ہے۔ پھر حضرت یعقوب ؑو یوسف ؑ کا بعد از وفات دوسری جگہ لےجا کر مدفون ہونا کتب اہلِ سنت سے دکھایا۔ مولوی محمد احسن نے اپنے عالم ہونے کا دعویٰ کیا۔مگر ملک صاحب نے ان کی عربی غلطیاں،اورصرفی نحوی کمزوریاں واضح کرکے ان کو لاجواب کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مولوی سخت گھبرا گئے اور ان کے منہ سے درست الفاظ بھی نہ نکلتے تھے حتیٰ کہ ’’یَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ کو ‘‘تَقُتُل الْخِنْزِیْرَ‘‘ پڑھنے لگے جس سے ان کی عربی دانی کی حقیقت طشت از بام ہوگئی حتیٰ کہ مولوی صاحب دورانِ تقریر مفرور ہوگئے۔

راجہ محمد اسلم خان۔راجہ محمد مختار خان صاحبان نے انتظامِ جلسہ میں غیر معمولی دلچسپی سے حصہ لیا۔ خاکسار شیر بہادر خان صوبیدار زحمتی۔

(اخبار الفضل قادیان دارالامان مورخہ 20؍اگست1929ء)
(تاریخِ احمدیت جلد5جدید ایڈیشن صفحہ165)

چھمبی میں کامیاب مباحثہ

تحصیل پنڈدادنخان میں 12؍اگست جماعتِ احمدیہ و اہلِ سنت مسلمانوں کے درمیان ’’صداقتِ مسیح موعود‘‘ اور ’’وفاتِ مسیح ناصری‘‘ پر مناظرہ قرار پایا۔ جماعتِ احمدیہ کی طرف سے ملک عبدالرحمٰن خادم گجراتی مناظر تھے اور اہلِ سنت کی طرف سے سید لال شاہ۔پہلا مناظرہ ’’صداقتِ مسیح موعود علیہ السلام‘‘ کے مسئلہ پر 2بجے دن سے لے کر 5بجے تک ہوا۔ملک عبدالرحمٰن نے اپنی پہلی نصف گھنٹہ کی تقریر میں قرآن کریم کی سات آیات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت کی اور متعدد کتب حدیث سے دکھایا کہ مسیح موعودؑ کے ظہور کا وقت گزر چکاہے۔اگر حضرت مرزا صاحب مسیح موعود نہیں جیسا کہ مخالف مولویوں کا خیال ہے تو اس سے نعوذ باللہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام آتا ہے۔پس حضرت مسیح موعودؑ صادق ہیں۔آپ نے حضرت مسیح موعود کی صداقت کو قرآن شریف اور احادیث سے روزِ روشن کی طرح واضح کردیا۔

سید لال شاہ نے اپنی تقریر میں ملک صاحب کی ایک دلیل کو توڑنا تو کجا ہاتھ تک نہیں لگایا۔اور ایک رسالہ مصنفہ منشی پیر بخش لاہوری کو ہی پڑھتے رہے۔اور پھر احمدی مناظر کی مضبوطی دیکھ کر آپ نے ’’صداقتِ مسیح موعود‘‘ کے مسئلہ میں ختمِ نبوت کا مسئلہ چھیڑ دیا۔مگر ختمِ نبوت کے مسئلہ پر بھی ان کو ایسی زبردست شکست ہوئی کہ غیر احمدی پبلک کو بھی اس شکست کا اعتراف کرنا پڑا۔ آپ نے دعویٰ کیا کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے ’’مجھے وحی ہوئی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر موجود ہیں۔‘‘ اس پر ملک صاحب نے ایک سو روپیہ انعام مقرر کیاکہ مولوی صاحب حضرت صاحب کی کسی کتاب سے ایسی وحی دکھا دیں مگر سید صاحب آخر دم تک کوئی ایسی وحی نہ دکھا سکے۔ اور بھی متعدد غلط اور بے بنیاد حوالہ جات دیئے۔جن کا مطالبہ کرنے پر کوئی پتہ نہ دے سکے۔

صداقتِ مسیح موعود ؑ کے مسئلہ پر ملک صاحب کے دلائل بالکل مسکت ہیں جن کا آخر تک کوئی جواب نہ دیا گیا۔بلکہ جواب دینے کی کوشش بھی نہ کی تھی۔ غیر احمدی پبلک بھی اپنے مناظر کی اس کمزوری کو محسوس کرتی تھی۔مباحثہ خدا کے فضل سے بہت کامیاب رہا۔

اس کے بعد 6بجے بعدعصر سے لے کر 9بجے رات تک حیات و وفاتِ مسیحؑ پر مناظرہ ہوا۔غیر احمدی مناظر نے اپنی نصف گھنٹہ کی پہلی تقریر میں صرف ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ‘‘ اور ’’یَنْزلُ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ‘‘ کی حدیث پیش کی۔ اور تمام تقریر نصف گھنٹہ تک ’’ظفر الرحمانی فی کشف القادیانی‘‘ مصنفہ منشی غلام مرتضی سکنہ میانی پڑھتے رہے۔ احمدی مناظر نے اپنی نصف گھنٹہ کی تقریر میں رفع کے معانی قرآن شریف احادیث اور لغتِ عرب سے دکھا کر پچاس روپیہ کے نوٹ مولوی صاحب کی خدمت میں پیش کئےکہ وہ قرآن،حدیث اور لغتِ عرب سے جب ’’فاعل اور کوئی انسان مفعول ہو اور لفظ بہ رفع‘‘ مستقل ہو تو اس کے آسمان پر اُٹھائے جانے کے دکھادیں اور پچاس روپے لے لیں مگر سیدصاحب کوئی جواب نہ دے سکے۔

بہت اچھا اثر ہوا۔اسی طرح ’’تَوَفِّی‘‘ کے لفظ پر انعام مقرر کیا گیا اور ’’نُزول‘‘ کے لفظ پر بھی انعام مقرر کیا گیامگر غیر احمدی مناظر کسی چیلنج کو قبول نہ کر سکا۔احمدی مناظر نےقرآن شریف،احادیث اور اقوالِ آئمہ سے بیسیوں حوالہ جات پیش کرکے وفاتِ مسیح کو ثابت کیا۔اور کردیاکہ حضرت عیسیٰؑ وفات پا چکے ہیں۔

(باقی آئندہ)

(ریاض محمود باجوہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اگست 2020