• 5 اگست, 2025

وسعتِ حوصلہ، ایک خوبصورت خُلق

خلق کی تعریف
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی زبانی

’’خلق اُس حالت کا نام ہے جبکہ طبعی تقاضے قوتِ فکر کے ساتھ ملا دیے جائیں اور اُن سے کام لینے والی ہستی مقتدر ہو۔ یعنی وہ اخلاق جو شریعت اور عقل کے ماتحت کیے جائیں‘‘

(منہاج الطالبین صفحہ178)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا کہ ’’اخلاق کا لفظی معنی عرفِ عام میں انسان کی میل جول کی اس صلاحیت کو کہتے ہیں جس سے وہ دشمن کم اور دوست زیادہ بناتا ہے‘‘

(کتاب نمبر 3 خطبات برائے واقفینِ نو)

اقسامِ خلق

اسلامی نقطہ نظر سے 2 اقسام ہیں اخلاق حسنہ اور اخلاقِ سئیہ یعنی نیک خو اور بد خوانسان ’’جسکی نیکیاں زیادہ ہونگی وہ اچھے اخلاق کا مالک، اور زیادہ بدیوں کا مالک بد خلق کہلاتا ہے‘‘

(بمطابق سورۃ القارعہ آیت 7 تا 10 از منہاج الطالبین صفحہ 36)

اسی طرح ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔

رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ

(الاعراف: 157)

ترجمہ: میری رحمت وہ ہے کہ ہر ایک کے لئے وسیع ہے۔

مندرجہ بالا آیات سے ظاہر ہے کہ خواہ کتنی ہی سختیاں اور تلخیاں آئیں صبر اور وسعت حوصلہ سے کام لیا جائے۔ غصّہ پر قابو پایا جائے۔ ہمارے پیارے نبی پاکؐ نے حوصلہ بلند رکھتے اور غصّہ پر قابو پانے کے لیے دُعا سکھائی ہے کہ ’’اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ‘‘ پڑھ لیا جائے۔

(حدیقۃالصالحین صفحہ798)

غصّہ میں انسان کا دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتا۔ اسکے بر عکس فراخدلی اور بشاشت سے وسعت حوصلہ سے کام لینے سے کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ خداتعالیٰ کی صفت الواسع کو دیکھتے ہیں جو انتہائی وسعتوں کا مالک ہے وسیع کائنات زمین و آسمان اور وسیع پہاڑوں اور سمندروں کا مالک۔ یہ سب باتیں ہمیں وسعت حوصلہ کا سبق دیتی ہیں اگر اللہ تعالیٰ بھی ہمارے گناہوں کو نہ بخشے تو ہمارا کیا حال ہو اس لئے وسعت حوصلہ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ سمندر کی طرح وسیع القلب بنو جو موتیوں کے ساتھ ساتھ کنکریوں کو بھی سمیٹے رکھتا ہے۔ انسان جو اشرف المخلوقات ہے وہ دوسروں کی لغزشوں کو کیوں وسعتِ حوصلہ سے برداشت نہیں کر سکتا۔

حدیث مبارکہ بابت وسعتِ حوصلہ

حدیث: اَلْغِنَى غِنَى النَّفْسِ

(مسلم)

ترجمہ: اصل دولت تو انسان کے نفس کی دولت ہے۔

اسکی تشریح کرتے ہوئے حضرت سیّد میر محمود احمد صاحب فرماتے ہیں ’’بعض لوگ ارب پتی ہیں شاندار کوٹھیوں زرق برق لباس اور موٹروں کے مالک لیکن حقیقی خوشی سے محروم۔ کشادہ دل اور وسعتِ حوصلہ سے خالی ہاتھ لیکن اسکے برعکس سادہ زندگی بسر کرنیوالے شاہانہ دل کے مالک اخلاقی وسعت اُنکے اندر سمندر کی طرح پائی جاتی ہے‘‘ یہ ہے اصل میں دل کی دولت۔

(تشحیذ الاذہان صفحہ 7 جولائی 2010)

فضیلت وسعتِ حوصلہ از روئے حدیث

اَفْضَلُ الْفَضَا ئِلِ اَنْ تَصِلَ مَنْ قَطَعَکَ وَ تُعْطِیَ مَنْ مَنَعَکَ وَ تَصْفَحُ عَمَّنْ شَتَمَکَ

(مسند احمد صفحہ 438 از حدیقۃالصالحین صفحہ 776)

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ تو قطع تعلق رکھنے والے کے ساتھ تعلق قائم رکھے اور جو تجھے نہیں دیتا اُسے بھی دے اور جو تجھے بُرا بھلا کہتا ہے اس سے بھی درگزر کرے۔‘‘

وسعت حوصلہ کی کتنی عمدہ فضیلت ہمیں بتائی گئی ہے کہ دُشمن کے ساتھ بھی قطع تعلقی کرنے والوں کے ساتھ مصائب اور تکالیف کے وقت بُرائی کے مقابلہ میں بھی نیکی کریں اور وسعتِ حوصلہ کر کے بلند کردار کا مظاہرہ کریں۔ یہ ایک ایسا خلق ہے جس کے قرآن و حدیث کے بعد ہمارے پیارے نبیؐ کے غلام حضرت مسیح موعود نے بھی اپنے عملاً نمونہ سے اور قول سے یہ بات ثابت کر دی۔

  • فرمان نبی ابوذر سے ہے مروی
  • ہر ایک سے ہنستے ہوئے چہرہ سے ملو
  • ادنیٰ کسی نیکی کو نہ سمجھو میرے پیارو
  • الفت ہے نبی سے تو یوں اخلاق سنوارو

(چوہدری بشیر احمد)

(از تشحیذ الاذہان صفحہ 16، جنوری 2010)

حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ کی طرف سفر کرنا بھی ایک نہایت دقیق در دقیق راہ ہے اُسکے ساتھ طرح طرح کے مصائب اور دُکھ لگے ہیں لیکن اُنکی وسعتِ حوصلہ ہی ہے جو کمر ہمّت بندھاتی ہے اور کامیابیوں سے ہمکنار کرتی ہے۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودجلد دوم صفحہ27)

*اسی طرح فرمایا ’’صفتِ لوّامہ ہی ہے جو انسان کشمکش میں بھی اصلاح کر لیتا ہے۔ اگر کوئی جاہل گالی دے یا شرارت کرے جسقدر اُس سے اعراض کرو گے عزت بچا لو گے اور جسقدر اس سے مڈھ بھیڑ ہو گی تباہی اور ذلّت ہو گی۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ102)

ہمیں تسلی دیتے ہوئے مزید فرمایا ’’میں تمہیں کہتا ہوں کہ جب ایسی گالیاں اور اعتراضات سنو تو غمگین اور دلگیر مت ہو کہ تم سے اور مجھ سے پہلے خدا کے نبیوں کی نسبت یہی لفظ بولے گئے تو ضرور تھا کہ خدا کی وہ سنتیں اور عادتیں ہم میں پوری ہوں۔‘‘

گالیاں سُن کے دُعا دو
پا کے دُکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو
تم دکھاؤ انکسار

(براہین احمدیہ حصّہ پنجم، روحانی خزائن جلد2 صفحہ144)

حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے تربیت اولاد کے لئے ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ بچہ کو شروع سے ہی عمدہ اخلاق سکھائے جائیں ضبط نفس کی عادت ڈالیں، وقت پر خوراک وغیرہ دیں تاکہ تکلیف سہنے کا حوصلہ ہو، ضد کی عادت پیدا نہ ہونے دیں۔ تکبر اور ترش روی کا خیال رکھیں بچہ کی تعریف کی جائے۔

آپ فرماتے ہیں لوگوں کا یہ کام ہے کہ تمہارے اعمال کو دیکھیں لیکن تمہارا کام ہے ہمیشہ اپنے دل کا مطالعہ کرو۔

واقفین بچوں کے لئے
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ارشادات

تیسری چیز ہے وسعت حوصلہ بچپن سے ہی سکھائیں کہ اگر تمہارا نقصان ہو گیا ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں اپنا حوصلہ بلند رکھو اور حوصلے کی یہ تعلیم زبان سے نہیں اپنے عمل سے دیں… بعض دفعہ معمولی نقصان پر ماں باپ بچوں یا نوکروں پر برس پڑتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں اور چپیڑیں مارتے ہیں ایسے ماں باپ بچوں میں حوصلے پیدا نہیں کر سکتے… وسیع حوصلگی جماعت کے لئے آئندہ بہت ہی کام آنے والی چیز ہے۔

(خطبہ جمعہ 24 نومبر 1989ء، مصباح جولائی 2005ء صفحہ 14)

واقفین نو بچوں میں وسعتِ حوصلہ کی اہمیّت

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں جہانتک اخلاق حسنہ کا تعلق ہے واقفین بچوں میں بدرجہ اولیٰ نظر آنی چاہئیں… بچوں کے مزاج میں شگفتگی پیدا کرنی ضروری ہے ترش روئی اور وقف پہلو بہ پہلو نہیں چل سکتے۔ مخالفانہ بات سننا اور تحمّل سے جواب دینا ان بچوں کے لئے بہت ضروری ہے۔

(خطبات برائے واقفینِ نو کتاب نمبر 2 فرمودہ 10 جنوری 2010ء صفحہ39-44)

وسعتِ حوصلہ سے تعریف کرنا ایک پوشیدہ گُر

ترقی کے اُکسانے کے لئے حوصلہ افزائی عمدہ گُر ہے۔ جسکو امیر خسرو نے کچھ اسطرح بیان کیاہے کہ ’’تم لوگوں کے دلوں میں ہمت کے دیپ جلا کر اُنکی زندگی میں روشنی پیدا کر سکتے ہو۔‘‘

(تشحیذالاذہان جولائی 2010ء صفحہ 1-2)

ارشاد خلیفۃ المسیح الخامس

اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس نے سابقہ جلسوں کی طرح امسال بھی جلسہ سالانہ جرمنی خطبہ جمعہ 2012ء میں عہدیداران اور جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ ’’اپنے ماتحتوں سے تنگ نظری کی بجائے وسعتِ حوصلہ سے کام لیں اُنکی سچی صلاحیتوں کی تعریف کرکے اُن سے عمدہ کام لئے جا سکتے ہیں۔‘‘

آپ مزید فرماتے ہیں ’’احباب وسعتِ حوصلہ اور صبر و تحمّل سے ڈیوٹی والوں کے ساتھ درگذر کریں اگر کوئی کمی رہ جائے تو حوصلہ سے برداشت کریں اسی طرح وسعتِ حوصلہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکمل چیکنگ کروائیں تاکہ شکایات کم ہوں تاہم حضور کی خواہش کے مطابق باہم اخوّت اور محبت کی مثال بن جائیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 30 جولائی 2010ء)

(احمدیہ گزٹ ستمبر 2010ء صفحہ 6)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا یہ فقرہ ’’محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں‘‘ وسعتِ حوصلہ کی زبردست مثال ہے۔

ابراہم لنکن سابق صدر امریکہ کے بارہ میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’اُسکا دل اس دُنیا سے بھی بڑا تھا مگر اُس کے اندر کسی کی خطا یاد رکھنے کا کوئی خانہ تھا۔‘‘

(گلدستہ خیال از بشیر احمد آرچڈ صفحہ 23)

ولیم جیمز لکھتا ہے کہ ’’ہم سب کے دل و دماغ میں لامحدود صلاحیتیں سوئی پڑی ہیں جنکو حوصلہ افزائی کا ایک لفظ جگا دیتا ہے۔‘‘

(از خالد نومبر 2008ء صفحہ 12)

عمدہ مثالیں و سعتِ حوصلہ

1۔ سب سے اعلےٰ اور پیاری مثال ہمارے سامنے حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے خدائی حکم سے آپ کو جنگل میں تنہا چھوڑ دیا وہ بھی اگر وسعتِ حوصلہ کا مظاہرہ نہ کرتیں واویلا مچاتیں کہ یہ کیا ہو گیا ہے ہمیں جنگل میں ڈال کر خود چلے گئے ہیں۔ لیکن اُنکا وسعتِ حوصلہ دیکھیے، فرمایا ’’اگر یہ خدا کا حکم ہے تو ہمیں خدا ضائع نہ کریگا‘‘ چنانچہ اسی صبر اور حوصلہ کے نتیجہ میں وہاں خدا نے ایک آبادی آباد کی۔

2۔ پھر اُنکی نسل سے ہی آگے ہمارے نبی کریمؐ نے جن سے بڑھ کر کوئی فراخدل اور بلند حوصلہ کا مالک نہ تھا۔ فتح مکہ کے موقعہ پر دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکّہ میں داخل ہونے کا وسعتِ حوصلہ کا بہترین نظارہ جب آپ نے اپنے سامنے سرجھکائے ہوئے منکرینِ اسلام جنہوں نے آپؐ اور آپؐ کے صحابہ پر بے انتہا مظالم ڈھائے تھے صرف لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُم کہہ کر سب کو معاف کر دیا۔ سبحان اللہ۔ کیا خوب وسعتِ حوصلہ تھا۔

اور آپؐ سورۃ النور آیت 23 کے ترجمہ ’’اور چاہئے کہ وہ عفو سے کام لیں اور درگذر کریں‘‘ کے پہلے مصداق بنے۔

3۔ حضرت مسیح موعودؑ مرزا غلام احمد کی بے شمار عمدہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں دشمنوں کے سامنے کیا گھریلو سطح پر، کیا بچوں کے ساتھ الغرض ہر موقعہ پر انتہائی وسعت حوصلہ کا مظاہرہ کیا۔ ایک مرتبہ آپکا ایک قیمتی مسودہ آگ لگ جانے کے باعث ضائع ہوگیا توآپ نے کسی قسم کی خفگی کی بجائے فرمایا خدا اسکے بدلہ اور مضمون سمجھا دیگا۔ اسی طرح دشمنوں کی گالیوں کے جواب میں وسعت حوصلہ کی عمدہ مثالیں ہیں۔

4۔ وسعتِ قلبی کی عمدہ مثالیں دونوں خلفاء کی ہمارے سامنے ہیں خاص طور پر جب خلیفہ الرابعؒ نے ہجرت کی اور خلیفہ الخامس بھی اپنی پُرانی یادیں گھر بار اہل و عیال سب کچھ خدا کی خاطر چھوڑ کر دیارِ غیر میں آبسے اور اپنے پیاروں کی جُدائی برداشت کی۔

5۔ ہر لمحہ امیگریشن لینے والے افراد جماعت کے بلند حوصلوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ خاکسار بھی اُنہی ماؤں میں سے ایک ہے جنکی دلی کیفیت کا حال تو خدا ہی جانتا ہے تمام نعمتوں اور ہر قسم کی آسائشوں کے باوجود اولاد کی جُدائی میں یہ وقت کاٹنا انتہائی وسعتِ حوصلہ کا کام ہے۔

6۔آخر میں شہدائے لاہور اور ماسٹر عبد القدوس کی قربانیوں اور وسعتِ حوصلہ کی داد دیتی ہوں جنہوں نے شدید تشدد سہہ کر بھی جماعت پر کوئی حرف نہ آنے دیا۔ حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہِ العزیز نے 6؍اپریل 2012ء کو خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا ’’اے عبد القدوس ہم تجھے سلام کرتے ہیں‘‘۔ اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں۔ 1901ء سے اب تک سلسلہ احمدیہ میں تاریخ گواہ ہے کہ جماعت نے بھی ان موقعوں پر کوئی مار دھاڑ یا شور بپا نہ کیا بلکہ وسعتِ حوصلہ کا بلند ترین معیار قائم کیا۔ ان شہداء کی داد تو دُشمن بھی دے رہا ہے۔

؎ زخموں سے چور چور تھا لب پر گلہ نہ تھا
کیا حوصلہ تھا ماسٹر عبد القدوس کا
اُس نے تو صدق و صبر کی اعلےٰ مثال سے
سفّاک قاتلوں کو بھی حیران کردیا

(عبدالکریم قدسی از انصار اللہ مئی 2012ء صفحہ5)

7۔ اسی طرح عورتوں میں حضرت اماّں جان اور محترمہ چھوٹی آپا جان مریم صدیقہ صاحبہ کی بے شمار مثالیں وسعتِ قلبی کی ہمارے سامنے ہیں جنہوں نے ہمیشہ وسعتِ حوصلہ سے دل کی گہرائیوں سے خواتین کو تربیت دینے میں مدد کی۔ سارے کام بڑے پیار سے سمجھائے۔

حرفِ آخر

الغرض خدا کرے ہم جو پیارے نبی کریم ﷺ کے غلام حضرت مسیحِ موعودؑ کی پیروی میں اپنی جانیں تک نچھاور کرنے کو سعادت خیال کرتے ہیں۔ اللہ تعالےٰ ہمیں وسعتِ حوصلہ کی اعلیٰ ترین بلندیاں عطا فرمائے تاکہ اللہ اور اُسکے رسولﷺ کی خوشنودی کا باعث ہوں۔ امن و سلامتی کا باعث ہوں اللہ تعالےٰ ہمیں توفیق دے۔ آمین

(منزہ ولی سنوری۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ