• 18 مئی, 2024

قرآنی انبیاء (قسط 25)

قرآنی انبیاء
حضرت ہارونؑ
قسط 25

حضرت ہارون علیہ السلام پر خدا کا احسان ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر سلام بھیجا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو امتیازی نشان اور روشنی بخشی تھی

حضرت ہارون علیہ السلام کا ذکر قرآن کریم میں نام لے کر 20 دفعہ آیا ہے۔ اور عمومی طور پر حضرت موسیٰ کے ساتھ ہی ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہر ابتلاء سے حفاظت اور خدائی نصرت کا اظہار بھی اکٹھا آیا ہےاسی طرح انعامات کے عطا ہونے اور بعد میں آنے والوں میں ذکر خیر کا بھی اکٹھا بتایا گیا ہے جیسے فرمایا:

وَلَقَدۡ مَنَنَّا عَلٰی مُوۡسٰی وَہٰرُوۡنَ ﴿۱۱۵﴾ۚ وَنَجَّیۡنٰہُمَا وَقَوۡمَہُمَا مِنَ الۡکَرۡبِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۱۱۶﴾ۚ وَنَصَرۡنٰہُمۡ فَکَانُوۡا ہُمُ الۡغٰلِبِیۡنَ ﴿۱۱۷﴾ۚ وَاٰتَیۡنٰہُمَا الۡکِتٰبَ الۡمُسۡتَبِیۡنَ ﴿۱۱۸﴾ۚ وَہَدَیۡنٰہُمَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ﴿۱۱۹﴾ۚ وَتَرَکۡنَا عَلَیۡہِمَا فِی الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿۱۲۰﴾ۙ سَلٰمٌ عَلٰی مُوۡسٰی وَہٰرُوۡنَ ﴿۱۲۱﴾ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۲۲﴾ اِنَّہُمَا مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۲۳﴾

(الصافات:115-123)

اور ہم نے موسیٰ اور ہارون پر بھی احسان کیا۔اور ہم نے ان دونوں کو اور ان کی قوم کو ایک بڑے غم اور بوجھ سے نجات دی تھی۔اور ہم نے ان سب کی مدد کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ غالب ہو گئے۔ اور ہم نے ان کو ایک کامل کتاب دی جو تمام احکام کو کھول کھول کر بیان کرتی تھی۔ اور ہم نے ان دونوں کو سیدھا راستہ دکھایا تھا۔ اور آنے والی قوموں میں ان کے لئے ذکر خیر چھوڑا تھا۔موسیٰ اور ہارون پر ہمیشہ سلامتی ہوتی رہے۔ ہم اسی طرح محسنوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔وہ دونوں ہمارے مومن بندے تھے۔

اسی طرح فرمایا:

ثُمَّ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی وَاَخَاہُ ہٰرُوۡنَ ۬ۙ بِاٰیٰتِنَا وَسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۴۶﴾ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَمَلَا۠ئِہٖ فَاسۡتَکۡبَرُوۡا وَکَانُوۡا قَوۡمًا عَالِیۡنَ ﴿ۚ۴۷﴾ فَقَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ لِبَشَرَیۡنِ مِثۡلِنَا وَقَوۡمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوۡنَ ﴿ۚ۴۸﴾ فَکَذَّبُوۡہُمَا فَکَانُوۡا مِنَ الۡمُہۡلَکِیۡنَ ﴿۴۹﴾

(المومنون:46-49)

اس کے بعد ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو اپنے نشان اور کھلا کھلا غلبہ دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا۔ پس انہوں نے تکبر کیا۔ اور وہ سرکش لوگوں میں سے بن گئے۔پھر انہوں نے کہا‘ کیا ہم اپنے جیسے دو انسانوں پر ایمان لے آئیں؟ حالانکہ ان دونوں کی قوم ہماری غلامی کر رہی ہے۔پس انہوں نے ان دونوں (یعنی موسیٰ اور ہارون) کو جھٹلا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی ہلاک ہونے والے لوگوں میں سے بن گئے۔

اسی طرح فرمایا:

وَلَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسٰی وَہٰرُوۡنَ الۡفُرۡقَانَ وَضِیَآءً وَّذِکۡرًا لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿ۙ۴۹﴾ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَیۡبِ وَہُمۡ مِّنَ السَّاعَۃِ مُشۡفِقُوۡنَ﴿۵۰﴾


(الانبیاء:49-50)

اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو امتیازی نشان بخشا تھا اور روشنی بخشی تھی اور متقیوں کے لئے ایک یاددہانی کی تعلیم بخشی تھی۔ وہ (متقی) جو اپنے رب سے غیب میں (بھی) ڈرتے ہیں اور جو جزا سزا کے وقت مقرر سے بھی ڈرتے رہتے ہیں۔

اسی طرح جب فرعون کے مقرر کردہ جادوگر اپنے جادوئی حرکتوں میں کامیاب نہ ہو سکے تو موسی اور ہارون کے رب کے سامنے ہی سجدہ کرتے ہوئے کہا: قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۴۸﴾ رَبِّ مُوۡسٰی وَہٰرُوۡنَ ﴿۴۹﴾ (الشعراء:48-49)۔ (اور) انہوں نے کہا ’ہم رب العالمین پر جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے ایمان لاتے ہیں۔ ایک اور جگہ پر فرمایا:فَاُلۡقِیَ السَّحَرَۃُ سُجَّدًا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ ہٰرُوۡنَ وَمُوۡسٰی ﴿۷۱﴾ (طہ:71)۔ پس (جب موسیٰ کے سونٹا ڈالنے کے بعد فرعون کے لائے ہوئے) چالباز (اپنی کمزوری سمجھ گئے تو وہ اپنی ضمیر کی آواز سے) سجدہ میں گرائے گئے اور کہنے لگے ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔

حضرت ہارون علیہ السلام کو ہدایت ملنا

وَوَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَیَعۡقُوۡبَ ؕ کُلًّا ہَدَیۡنَا ۚ وَنُوۡحًا ہَدَیۡنَا مِنۡ قَبۡلُ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَیۡمٰنَ وَاَیُّوۡبَ وَیُوۡسُفَ وَمُوۡسٰی وَہٰرُوۡنَ ؕ وَکَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿ۙ۸۵﴾

(الانعام:85)

اور ہم نے اس (یعنی ابراہیم کو) اسحاق اور یعقوب دئے تھے ’ہم نے (ان) سب کو ہدایت دی تھی اور (اس سے) پہلے ہم نے نوح کو ہدایت دی تھی اور اس (یعنی ابراہیم) کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو (بھی) اور اسی طرح ہم اچھی طرح کام کرنے والوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔

حضرت ہارونؑ کو وحی ہونا اور مبعوث کیا جانا

اِنَّاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ کَمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی نُوۡحٍ وَّالنَّبِیّٖنَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ ۚ وَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ وَاِسۡمٰعِیۡلَ وَاِسۡحٰقَ وَیَعۡقُوۡبَ وَالۡاَسۡبَاطِ وَعِیۡسٰی وَاَیُّوۡبَ وَیُوۡنُسَ وَہٰرُوۡنَ وَسُلَیۡمٰنَ ۚ وَاٰتَیۡنَا دَاوٗدَ زَبُوۡرًا ﴿۱۶۴﴾ۚ

(النساء:164)

جس طرح ہم نے نوح اور اس کے بعد (دوسرے) تمام انبیاء پر وحی (نازل) کی تھی ’یقیناً تجھ پر (بھی) ہم نے وحی (نازل) کی ہے اور ہم نے ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ اور (اس کی) اولاد اور عیسیٰؑ اور ایوبؑ اور یونسؑ اور ہارونؑ اور سلیمانؑ پر (بھی) وحی (نازل) کی تھی اور ہم نے داوٴد کو (بھی) ایک کتاب دی تھی۔

ایک اور جگہ پر فرمایا: ثُمَّ بَعَثۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ مُّوۡسٰی وَہٰرُوۡنَ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَمَلَا۠ئِہٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسۡتَکۡبَرُوۡا وَکَانُوۡا قَوۡمًا مُّجۡرِمِیۡنَ ﴿۷۶﴾ (یونس:76)۔ پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو اپنے نشان دیکر فرعون اور اس کی قوم کے بڑے لوگوں کی طرف بھیجا‘ تو انہوں نے تکبر اختیار کیا اور وہ (پہلے ہی سے) ایک مجرم قوم تھے۔

حضرت موسیٰؑ کو نبوت عطا ہونے پر
حضرت ہارونؑ کو نبی بنانے کی درخواست

قرآن کریم میں حضرت موسیٰؑ کو نبوت ملنے کا تفصیلی ذکر ملتا ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ جب حضرت موسیؑ اپنے گھر والوں کو لے کے چلے تو انہوں نے طور کی طرف سے ایک آگ دیکھی اور اپنے گھر والوں سے کہا تم یہاں ٹھہرو ’میں نے ایک آگ دیکھی ہے ’شاید میں وہاں سے تمہارے لئے کوئی ضروری خبر لاسکوں یا کوئی آگ کا انگارہ لاؤں تاکہ تم اس سے گرمی حاصل کرسکو۔پھر جب وہ اس (آگ) کے پاس پہنچے ’تو مبارک مقام کے ایک مبارک حصہ کی طرف سے ایک درخت کے پاس سے انہیں پکارا گیا کہ اے موسیٰ میں اللہ سب جہانوں کا رب ہوں اور یہ کہ تو اپنا عصا پھینک دے۔ پس جب انہوں نے اُس عصا کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا گویا کہ وہ ایک چھوٹا سانپ ہے ’تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا تب انہیں کہا گیا اے موسیٰ! آگے بڑھ اور ڈر نہیں تو سلامتی پانے والے لوگوں میں سے ہے۔اور اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں ڈال ’وہ بغیر کسی بیماری کے سفید نکلے گا اور اپنے بازو کو خوف کی وجہ سے زور سے کھینچ کر اپنے جسم سے ملالے یہ دو دلیلیں علاوہ دوسری دلیلوں کے ہیں جو فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف تیرے رب کی طرف سے بھیجی گئی ہیں کیونکہ وہ اطاعت سے نکلنے والے لوگ ہیں۔جب یہ ساری بات حضرت موسیؑ سے کہی گئی تو انہوں نے عرض کی:

قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ قَتَلۡتُ مِنۡہُمۡ نَفۡسًا فَاَخَافُ اَنۡ یَّقۡتُلُوۡنِ﴿۳۴﴾ وَاَخِیۡ ہٰرُوۡنُ ہُوَ اَفۡصَحُ مِنِّیۡ لِسَانًا فَاَرۡسِلۡہُ مَعِیَ رِدۡاً یُّصَدِّقُنِیۡۤ ۫ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یُّکَذِّبُوۡنِ ﴿۳۵﴾ قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِیۡکَ وَنَجۡعَلُ لَکُمَا سُلۡطٰنًا فَلَا یَصِلُوۡنَ اِلَیۡکُمَا ۚۛ بِاٰیٰتِنَاۤ ۚۛ اَنۡتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَکُمَا الۡغٰلِبُوۡنَ ﴿۳۶﴾

(القصص:34-36)

(موسیٰ نے) کہا ’اے میرے رب! میں نے فرعون کی قوم میں سے ایک شخص کو قتل کیا تھا۔ پس میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل نہ کر دیں (اور تیرا پیغام نہ پہنچ سکے)۔ اور میرا بھائی ہارون بات کرنے میں مجھ سے زیادہ فصیح ہے۔ پس اس کو میرے ساتھ مددگار کے طور پر بھیج۔ تا کہ وہ میری تصدیق کرے۔ میں ڈرتا ہوں کہ وہ میری تکذیب نہ کریں۔ فرمایا ’ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرے بازو کو مضبوط کریں گے اور تم دونوں کے لئے غلبہ کے سامان پیدا کریں گے۔ پس وہ تم تک نہیں پہنچ سکیں گے تم دونوں اور جو تم دونوں کے متبع ہوں گے ہماری آیات کے ذریعہ سے غالب ہونگے۔

ان آیات میں حضرت ہارون علیہ السلام کے بارے میں حضرت موسی علیہ السلام نے تین صفات بیان کی ہیں (۱) کہ میرا بھائی ہارون بات کرنے میں مجھ سے زیادہ فصیح ہے۔ (2) حضرت ہارون علیہ السلام کو بطور مددگار بھیجنے کی درخواست کی ہے۔ (3) اور تا کہ حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کی تصدیق کریں۔

ایسے لگتا ہے کہ اسی واقعہ کو اختصار سے اور بعض دیگر پہلو اجاگر کرتے ہوئے ایک اور جگہ کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ:

وَاِذۡ نَادٰی رَبُّکَ مُوۡسٰۤی اَنِ ائۡتِ الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ قَوۡمَ فِرۡعَوۡنَ ؕ اَلَا یَتَّقُوۡنَ ﴿۱۲﴾ قَالَ رَبِّ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یُّکَذِّبُوۡنِ ﴿ؕ۱۳﴾ وَیَضِیۡقُ صَدۡرِیۡ وَلَا یَنۡطَلِقُ لِسَانِیۡ فَاَرۡسِلۡ اِلٰی ہٰرُوۡنَ﴿۱۴﴾ وَلَہُمۡ عَلَیَّ ذَنۡۢبٌ فَاَخَافُ اَنۡ یَّقۡتُلُوۡنِ ﴿ۚ۱۵﴾ قَالَ کَلَّاۚ فَاذۡہَبَا بِاٰیٰتِنَاۤ اِنَّا مَعَکُمۡ مُّسۡتَمِعُوۡنَ ﴿۱۶﴾ فَاۡتِیَا فِرۡعَوۡنَ فَقُوۡلَاۤ اِنَّا رَسُوۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۷﴾

(الشعراء: 11-17)

اور (یاد کر) جب کہ تیرے رب نے موسیٰ کو پکارا تھا ’(اور کہا تھا) کہ ظالم قوم یعنی فرعون کی قوم کے پاس جا (اور ان سے کہہ کہ) کیا وہ تقویٰ نہیں کرتے؟اس نے (جواب میں) کہا ’اے میرے رب! میں ڈرتا ہوں کہ وہ میری تکذیب نہ کریں۔ اور میرا سینہ تنگی محسوس کرتا ہے اور میری زبان (اچھی طرح) چلتی نہیں ’پس (میرے ساتھ) ہارونؑ کو بھی مبعوث کر۔ اور (یہ بات بھی ہے کہ) ان (لوگوں) کا میرے خلاف ایک الزام بھی ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل نہ کر دیں۔فرمایا ’ہرگز نہیں۔ پس (ہمارا حکم سن کر) تم دونوں ہماری آیتیں لے کر (چلے) جاؤ ہم تمہارے (اور تمہارے ساتھیوں کے) ساتھ ہوں گے۔ اور (تمہاری دعاؤں کو) سنتے رہیں گے۔ پس فرعون کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ ہم رب العالمین (خدا) کے بھیجے ہوئے ہیں۔

ان آیات میں حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ کے حضور حضرت ہارون علیہ السلام کو مبعوث کرنے کی حکمت میں اپنی ذاتی صفات میں کمی محسوس کرتے ہوئے اپنے بھائی کی سفارش کی ہے جیسا کہ کہا: میں ڈرتا ہوں کہ وہ میری تکذیب نہ کریں۔ کیونکہ (۱) میرا سینہ تنگی محسوس کرتا ہے اور میری زبان اچھی طرح چلتی نہیں۔ (2) اوردوسری بات یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کا میرے خلاف ایک الزام بھی ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل نہ کر دیں۔ پس (میرے ساتھ) ہارونؑ کو بھی مبعوث کر۔ یعنی حضرت ہارون علیہ السلام کوزیادہ بہتر بات کرنے والا اور کسی بھی الزام کے بغیر ہونے والا بتایا ہے۔

ان پانچوں باتوں سے یعنی دو جو ذاتی باتیں انہوں نے اپنے لئے محسوس کیں (زبان کا نہ چلنا اور الزام ہونے کا خوف) ان سے محفوظ رہنے کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی اسی طرح حضرت ہارونؑ کا نام لیکر اپنا نائب بنانے کی بھی دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبولیت بھی عطا فرمائی۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے:

قَالَ رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ ﴿ۙ۲۶﴾ وَیَسِّرۡ لِیۡۤ اَمۡرِیۡ ﴿ۙ۲۷﴾ وَاحۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ ﴿ۙ۲۸﴾ یَفۡقَہُوۡا قَوۡلِیۡ ﴿۪۲۹﴾ وَاجۡعَلۡ لِّیۡ وَزِیۡرًا مِّنۡ اَہۡلِیۡ ﴿ۙ۳۰﴾ ہٰرُوۡنَ اَخِی ﴿ۙ۳۱﴾ اشۡدُدۡ بِہٖۤ اَزۡرِیۡ ﴿ۙ۳۲﴾ وَاَشۡرِکۡہُ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ ﴿ۙ۳۳﴾ کَیۡ نُسَبِّحَکَ کَثِیۡرًا ﴿ۙ۳۴﴾ وَّنَذۡکُرَکَ کَثِیۡرًا ﴿ؕ۳۵﴾ اِنَّکَ کُنۡتَ بِنَا بَصِیۡرًا ﴿۳۶﴾ قَالَ قَدۡ اُوۡتِیۡتَ سُؤۡلَکَ یٰمُوۡسٰی ﴿۳۷﴾

(طہٰ:26-37)

(اس پر موسیٰ نے) کہا ’اے میرے رب! میرا سینہ کھول دے۔اور جو فرض مجھ پر ڈالا گیا ہے اس کو پورا کرنا میرے لئے آسان کر دے۔اور اگر میری زبان میں کوئی گرہ ہو تو اسے بھی کھول دے۔(حتیٰ کہ) لوگ میری بات آسانی سے سمجھنے لگیں۔اور میرے اہل میں سے میرا ایک نائب تجویز کر۔(یعنی) ہارونؑ کو جو میرا بھائی ہے۔اس کے ذریعہ سے میری طاقت کو مضبوط کر۔اور اس کو میرے کام میں شریک کر۔تا کہ ہم (دونوں) کثرت سے تیری تسبیح کریں۔اور کثرت سے تیرا ذکر کریں۔تو ہمیں خوب دیکھ رہا ہے۔(اللہ نے) فرمایا ’اے موسیٰ! جو تو نے مانگا ’تجھے دیا گیا۔

حضرت ہارونؑ حضرت موسیؑ کے ماتحت نبی تھے

قرآن کریم فرماتا ہے کہ موسیٰ کا بھی ذکر کر ’وہ ہمارا منتخب بندہ تھا۔ اور رسول اور نبی تھا۔اور ہم نے موسیٰ کو طور کی دائیں طرف سے پکارا اور اس کو اپنے اسرار بتاتے ہوئے اپنے قریب کر لیا۔ پھر فرماتا ہے: وَوَهَبْنَا لَهُ مِنْ رَحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا (مریم: 54)۔ اور ہم نے اس (موسیٰ) کو اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون نبی بنا کر (مددگار کے طور پر) دیا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قرآن کریم میں دوسری جگہ سورہ طٰہٰ میں آتاہے کہ حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعاکی تھی کہ وَاجۡعَلۡ لِّیۡ وَزِیۡرًا مِّنۡ اَہۡلِیۡ ﴿ۙ۳۰﴾ (طہ: 30) میرے اہل میں سے مجھے ایک مدد گار عطا فرمایا جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وہ دعاسنی اور حضرت ہارون کو بھی نبوت کے مقام پر فائز کردیا۔ اس جگہ وَ وَهَبْنَا لَهُ مِنْ رَحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا (مریم: 54)۔ میں اس طرف اشارہ کیاگیا ہے کہ اور انبیاء کا مقام نبوت ایک الگ رنگ رکھتا ہے اور ہارون کا مقام نبوت اور رنگ رکھتاہے ہارون ہم نے موسیٰ کو اپنی رحمت سے عطا کیا تھا گویا وہ نبی تو تھا مگر موسیٰ کا ایک خادم اورآپ کے ماتحت کے طور پر تھا۔

(تفسیر کبیر جلد 05 صفحہ293 294-)

اسی طرح سورہ فرقان میں حضرت ہارون علیہ السلام کو بطور نائب مبعوث کرنے کا ذکر ہے جیسا کہ فرمایا:

وَلَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَجَعَلۡنَا مَعَہٗۤ اَخَاہُ ہٰرُوۡنَ وَزِیۡرًا ﴿ۚۖ۳۶﴾ فَقُلۡنَا اذۡہَبَاۤ اِلَی الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ؕ فَدَمَّرۡنٰہُمۡ تَدۡمِیۡرًا ﴿ؕ۳۷﴾

(الفرقان: 36-37)

اور ہم نے موسیٰ کو ایک (معلوم) کتاب دی تھی اور ہم نے اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو بھی نائب بنا کر بھیج دیا تھا۔اور ہم نے ان سے کہا تھا کہ تم دونوں اس قوم کی طرف جاؤ جنہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کر دیا ہے پھر (جب وہ تبلیغ کر چکے) ہم نے ان جھٹلانے والوں کو بالکل تباہ کردیا۔

آل موسیؑ اور آل ہارونؑ کے بقیہ سے مراد

وَقَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ اِنَّ اٰیَۃَ مُلۡکِہٖۤ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ التَّابُوۡتُ فِیۡہِ سَکِیۡنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوۡسٰی وَاٰلُ ہٰرُوۡنَ تَحۡمِلُہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۲۴۹﴾٪

(البقرہ: 249)

اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اس کی حکومت کی دلیل یہ (بھی) ہے کہ تمہیں (ایک ایسا) تابوت ملے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تسکین (ہوگی) اور اس چیز کا بقیہ ہوگا جو موسیٰ کے متعلقین اور ہارون کے متعلقین نے (اپنے پیچھے) چھوڑا۔ فرشتے اسے اٹھائے ہوئے ہوں گے اگر تم مومن ہو تو اس (بات) میں تمہارے لئے یقیناً ایک (بڑا) نشان ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بَقِيَّةٌ یہ لفظ ایسی چیز پر بولا جاتا ہے جو اعلٰی درجہ کی ہو۔قرآن کریم میں بھی یہ لفظ اِن معنوں میں استعمال ہوا ہے چنا نچہ فرماتا ہے: وَالۡبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیۡرٌ عِنۡدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّخَیۡرٌ مَّرَدًّا ﴿۷۷﴾ (مریم:77) یعنی اچھے اور نیک اعمال خدا تعالیٰ کے حضور ثواب حاصل کر نے کے لحاظ سے بھی اور انجام کے لحاظ سے بھی سب سے بہتر شے ہیں۔۔ ۔قرآن کریم میں یہ لفظ عقل پر بھی بولا گیا ہے چونکہ عقل خیر ہی کے معنے رکھتی ہے اور انسان کے لئے مفید ہوتی ہے اور وہ اس کےذریعہ سے با قی رہتا ہے۔ اس لئے اُسے بھی بقیہ کہتے ہیں۔ تر کہ سے مراد عام طور پر ورثہ ہو تا ہے لیکن تر کہ سے مراد دوسروں کی اعلٰی صفا ت کا حا مل ہو نا بھی ہو تا ہے۔۔ ۔ اس لحاظ سے اس آیت کے معنے یہ ہو نگے کہ جو نیک دستور پہلے لو گ چھوڑ گئے ہیں اُن کا وارث ہو۔۔ اس انتخاب کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ تمہیں ایک ایسا تا بوت ملے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سکینت ہو گی اور اس چیز کا بقیہ ہوگا جسے موسیٰؑ اور ہارونؑ کی آ ل نے اپنے پیچھے چھوڑا۔ اور فر شتے اُسے اُٹھائے ہوئے ہو نگے۔ مفسرین نے تابوت سے مراد بنی اسرائیل کا وہ خاص صندوق لیا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے اندر تورات کا اصل نسخہ اور موسیٰؑ اور ہارونؑ کے تبّرکات محفوظ تھے۔ اور بنی اسرائیل سفر و حضر میں اُسے اپنے سا تھ رکھتے تھے۔ کیونکہ وہ اُسے بڑا متبرک سمجھتے تھے۔

قرآن کریم کہتا ہے کہ اس تا بوت کو فر شتے اٹھا ئے ہوئے ہو نگے مگر بائبل بتا تی ہے کہ ایک دفعہ دشمن نے ایسا حملہ کے کیا کہ وہ یہ تابوت بھی اٹھا کر لے گئے۔ چنانچہ لکھا ہے:۔۔ ۔ اور وہاں نہا یت بڑی خونر یزی ہوئی کہ تیس ہزار اسرائیلی پیا دے مارے پڑے۔ اور خدا کا صندوق لُوٹا گیا۔‘‘ (01سموایل باب 4آیت 3 تا 11)۔ جب ہم لغت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ تا بوت کے عام معنے تو صندوق کے اور کشتی کے ہو تے ہیں(اقرب)۔ لیکن استعارۃً اُسے دل کے معنے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کی تائید اس امر سے ہو تی ہے کہ عربی زبان میں انسانی قلب کو بَیْتُ الْحِکْمَةِ اور وِعَاءُ الْحِکْمَةِ اور صَنْدُوْقُ الْحِکْمَةِ کہنے کے علا وہ تَابُوْتُ الْحِکْمَةِ بھی کہتے ہیں (مفردات راغب)۔۔۔ تاج العروس میں لکھا ہے۔ اَلتَّابُوْتُ اَلْاَضْلَاعُ وَمَا تَحْوِيْهِ کَالْقَلْبِ وَالْکَبِدِ وَغَيْرِهِمَا تَشْبِيْهًا بِالصَّنْدُوْقِ الَّذِیْ يُحْرَزُ فِيْهِ الْمَتَاعُ۔ یعنی تا بوت کے معنے پسلیوں والے حصہ جسم کے ہیں جس میں دل اور جگر وغیرہ اعضاء ہیں۔ اور اس حصہ جسم کو تا بوت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی صندوق کی طرح ہو تا ہے جس میں سا مان محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اور کسی علمی یا ایما نی یا راز کی بات کو تابوت میں رکھنے کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ گو یا وہ سینہ میں لکھی گئی ہے۔ اور ایسی محفوظ ہو گئی ہے جیسے کوئی چیز صندوق میں رکھ دی جائے۔۔۔ کبھی لفظ تا بوت کو استعارۃً دل کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ الفاظ قرآنیہ صاف دلا لت کر رہے ہیں کہ اس جگہ تابوت سے مراد دل ہے۔ کیو نکہ فرماتا ہے اس تا بوت میں تمہارے رب کی طرف سے سکینت ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ سکینت دل میں ہوتی ہے نہ کہ صندوق مرا دلیا جا ئے تو یہ قرآنی تعلیم کے خلاف ہو گا۔۔۔ اس لئے تا بوت سے مراد اس جگہ دل ہی ہیں جنہیں فرشتے اٹھا تے تھے اور ہمت بڑھاتے تھے۔

ضمنی طور پر اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ سے فیوض حا صل کرنے کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قا ئم کر دہ خلفاء سے مخلصانہ تعلق قائم رکھا جائے اور ان کی اطاعت کی جائے۔ چنانچہ اس جگہ طا لوت کے انتخاب میں خدائی ہا تھ کا ثبوت یہی پیش کیا گیا ہےکہ تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نئے دل ملیں گے جن میں سکینت کا نزول ہو گا۔ خدا تعالیٰ کے ملا ئکہ ان دلوں کو اٹھائے ہوئے ہو نگے۔ گو یا طالوت کے سا تھ تعلق پیدا کر نے کے نتیجہ میں اطاعت کے درجہ بلند ہو جا ئیں گے۔ تمہارے ایمان اور یقین میں اضافہ ہو جائیگا۔ ملائکہ تمہاری تائید کے لئے کھڑے ہو جائیں گے اور تمہارے دلوں میں استقامت اور قر با نی کی روح پھو نکتے رہیں گے۔ پس سچے خلفاء سے تعلق رکھنا ملا ئکہ سے تعلق پیدا کر دیتا اور انسا ن کو انوار الہیہ کا مہبط بنا دیتا ہے۔

وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوۡسٰی وَاٰلُ ہٰرُوۡنَ سے مراد وہ اخلا ق فا ضلہ ہیں جو حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کے متبعین اور آپ کے مقربین سے ظاہر ہو تے تھے۔ اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارے دل ان خو بیوں کے وارث ہو نگے جو آلِ موسیٰؑ اور آل ہارونؑ نے چھوڑی ہیں۔۔۔ غرض وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوۡسٰی وَاٰلُ ہٰرُوۡنَ سے یہ مراد ہے کہ طالوت کے ساتھیوں میں وہی اخلاق فا ضلہ اللہ تعا لیٰ پیدا کر دے گا جو آل موسیٰؑ اور آل ہا رون میں تھے۔

آل موسٰی و آل ہا رون سے یہ مراد نہیں کہ ان دونوں کہ الگ الگ اُمتیں تھیں۔۔۔ اس کا مطلب اہل یعنی اقارب سے ہے اور مراد یہ ہے کہ ان دونوں نبیوں کی اولادوں میں جو خو بیاں تھیں وہ ان میں بھی آ جائیں گی۔ اگر کہو کہ اہل میں خو بی ہونا ضروری نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ’بَقِیَّۃ‘ کے لفظ نے بتا دیا ہے کہ اس جگہ خو بیاں مراد ہیں۔ دوسرے بائبل کی کتا ب خروج باب 40 آیت 12 تا 15 سے معلوم ہو تا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو حکم دیا تھا کہ ہارون کو مقدس لباس پہنا یا جائے اور نہ صرف اس کی عزت افزائی کی جائے بلکہ اس کی تمام اولاد کی عزت کر نا بھی بنی اسرائیل پر فرض قرار دیا جائے۔ اور عبادت گا ہوں کا انتظام ان کے سپرد کیا جا ئے۔

پس بے شک ہر اہل میں خو بیوں کا مو جود ہونا ضروری نہیں مگر موسیٰؑ اور ہارونؑ کے متعلقین اور ان کے خا ص متبعین میں اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ درجہ کے اخلاق یقینی طور پرو دیعت کر دئیے تھے۔ اور طالوت کے خدائی انتخاب کا یہ ثبوت بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے روحا نیت آل موسیٰؑ اور آل ہارونؑ میں رکھی تھی اور جب بلند اخلا ق اور کر دار کا انہوں نے مظاہرہ کیا تھا وہی تقویٰ اور وہی روحانیت اور وہی بلند اخلا قی طالوت کے ساتھیوں میں بھی پیدا کر دی جا ئےگی اور یہ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ جس شخص کی انہوں نے متابعت اختیار کی ہے وہ خدا تعالیٰ کا فر ستادہ ہے۔

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 558-563 اختصارًا)

حضرت ہارونؑ کا حضرت موسیؑ کی غیر موجودگی میں قوم کی نگرانی کرنا

وَوٰعَدۡنَا مُوۡسٰی ثَلٰثِیۡنَ لَیۡلَۃً وَّاَتۡمَمۡنٰہَا بِعَشۡرٍ فَتَمَّ مِیۡقَاتُ رَبِّہٖۤ اَرۡبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً ۚ وَقَالَ مُوۡسٰی لِاَخِیۡہِ ہٰرُوۡنَ اخۡلُفۡنِیۡ فِیۡ قَوۡمِیۡ وَاَصۡلِحۡ وَلَا تَتَّبِعۡ سَبِیۡلَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ (الاعراف:143)۔ اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا۔ پھر ان (تیس راتوں) کو دس اور ملا کر مکمل کر دیا۔ اس طرح اس کے رب کا مقررہ وعدہ چالیس راتوں کی صورت میں پورا ہو گیا اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا (میرے بعد) میری قوم میں میری نمائندگی کر اور ان کی اصلاح کو مدنظر رکھ اور فساد کرنے والوں کا راستہ اختیار نہ کر۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’نبی کے وہ جانشین بھی خلیفہ کہلاتے ہیں جو اس کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں یعنی اس کی شریعت پر قوم کو چلانے والے ہوں اور ان میں اتحاد قائم رکھنے والے ہوں خواہ نبی ہوں یا غیر نبی۔ جیسے کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام موعودراتوں کے لئے طور پر گئے تو اپنے بعد انتظام کی غرض سے انہوں نے حضرت ہارون سے کہا کہ اخۡلُفۡنِیۡ فِیۡ قَوۡمِیۡ وَاَصۡلِحۡ وَلَا تَتَّبِعۡ سَبِیۡلَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿۱۴۳﴾ (الاعراف:143)۔ یعنی میرے بعد میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ان کی اصلاح کو مدنظر رکھنا اور مفسد لوگوں کی بات نہ ماننا۔ حضرت ہارون خود نبی تھے اور اس وقت سے پہلے نبی ہو چکے تھے پس یہ خلافت جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں دی تھی وہ خلافت نبوت نہ ہو سکتی تھی۔ اس کے معنے صرف یہ تھے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری میں ان کی قوم کا انتظام کریں اور قوم کو اتحاد پر قائم رکھیں اور فساد سے بچائیں۔ جہاں تک اس خلافت کا تعلق ہے یہ خلافت نبوت نہ تھی بلکہ خلافت انتظامی تھی۔ مگر جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہو ں اس قسم کی شخصی خلافت علاوہ خلافت انتظامی کے خلافت نبوت بھی ہوتی ہے یعنی ایک سابق نبی کی امت کی درستی اور اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ ایک اور نبی کو مبعوث فرماتا ہے جو پہلے نبی کی شریعت کو ہی جاری کرتا ہے کوئی نئی شریعت جاری نہیں کرتا۔ پس جہاں تک کہ شریعت کا تعلق ہوتا ہے وہ پہلے نبی کے کام کو قائم رکھنے والا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے پہلے نبی کا خلیفہ ہوتا ہے لیکن عہدہ کے لحاظ سے وہ پہلے نبی کا مقرر کردہ نہیں ہوتا نہ اس کی امت کا مقرر کردہ بلکہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے مقرر کیا جاتا ہے۔ اس قسم کے خلفاء بنی اسرائیل میں بہت سے گذرے ہیں بلکہ جس قدر انبیاء بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل میں آئے ہیں سب اسی قسم کے خلفاء تھے۔ یعنی وہ نبی تو تھے مگر کسی جدید شریعت کے ساتھ نہ آئے تھے بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو ہی دنیا میں جاری کرنے کے لئے آئے تھے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ (المائدہ:45) یعنی ہم نے تورات اُتاری تھی جس میں ہدایت اور نور تھے۔ تورات کے ذریعہ سے بہت سے نبی جو (موسیٰؑ کے) فرمانبردار تھے اور اسی طرح ربانی اور احبار بوجہ اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کی حفاظت کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا یہود کے درمیان فیصلے کرتے تھے اور یہ انبیاء اور ربانی اور احبار تورات پر بطور نگران مقرر تھے۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کچھ انبیاء ایسے آئے تھے جن کا کام موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کا قیام تھا اور وہ گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے۔

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ305)

بنی اسرائیل کا بچھڑا بنانے پر
حضرت موسیؑ کا حضرت ہارونؑ سے سختی کرنا
اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کرنا

وَاتَّخَذَ قَوۡمُ مُوۡسٰی مِنۡۢ بَعۡدِہٖ مِنۡ حُلِیِّہِمۡ عِجۡلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ۔۔۔۔ وَلَمَّا رَجَعَ مُوۡسٰۤی اِلٰی قَوۡمِہٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا ۙ قَالَ بِئۡسَمَا خَلَفۡتُمُوۡنِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ۚ اَعَجِلۡتُمۡ اَمۡرَ رَبِّکُمۡ ۚ وَاَلۡقَی الۡاَلۡوَاحَ وَاَخَذَ بِرَاۡسِ اَخِیۡہِ یَجُرُّہٗۤ اِلَیۡہِ ؕ قَالَ ابۡنَ اُمَّ اِنَّ الۡقَوۡمَ اسۡتَضۡعَفُوۡنِیۡ وَکَادُوۡا یَقۡتُلُوۡنَنِیۡ ۫ۖ فَلَا تُشۡمِتۡ بِیَ الۡاَعۡدَآءَ وَلَا تَجۡعَلۡنِیۡ مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۵۱﴾ قَالَ رَبِّ اغۡفِرۡ لِیۡ وَلِاَخِیۡ وَاَدۡخِلۡنَا فِیۡ رَحۡمَتِکَ ۫ۖ وَاَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿۱۵۲﴾٪

(الاعراف: 149، 151-152)

اور موسیٰ کی قوم نے اس کے (سفر پر جانے کے) بعد اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا لیا۔ وہ محض ایک بے روح جسم تھا جس میں سے فقط ایک بے معنی آواز نکلتی تھی۔۔۔ اور جب موسیٰ اپنی قوم کی طرف غصہ اور افسوس سے بھرا ہوا لوٹا تو اس نے کہا کہ میرے بعد جو تم نے میری نمائندگی کی وہ بہت بری تھی۔ کیا تم نے اپنے رب کے حکم کے معاملہ میں جلدی کی (اور گھبرا گئے کہ موسیٰ اب تک کیوں نہیں آئے) اس وقت موسیٰ نے وحی کی تختیاں زمین پر رکھ دیں اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اسے اپنی طرف گھسیٹنا شروع کیا (اس پر) اس نے کہا، اے میری ماں کے بیٹے! قوم نے مجھے کمزور جانا اور قریب تھا کہ وہ مجھے قتل کر دیتے۔ پس دشمنوں کو مجھ پر ہنسی کا موقعہ نہ دے اور مجھے ظالم لوگوں میں شمار نہ کر۔ (یہ سن کر موسیٰ نے) کہا۔ اے میرے رب! مجھ کو اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہم دونوں کو اپنی رحمت میں داخل کردے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بڑا ہے۔

حضرت ہارونؑ کی وفات

ہارون کے بارے میں تورات میں ہے کہ ’’اور اس پہاڑ پر جس پر تو جاتا ہے مرجا۔ اور اپنے لوگوں میں شامل ہو جیسے تیرا بھائی ہارون حور کے پہاڑ پر مر گیا اور اپنے لوگوں میں جا ملا۔‘‘

(استثناء باب 32 آیت 50)

ضرت ہارونؑ پر بائبل میں شرک کا الزام
اور قرآن کریم کا جواب

وَلَقَدۡ قَالَ لَہُمۡ ہٰرُوۡنُ مِنۡ قَبۡلُ یٰقَوۡمِ اِنَّمَا فُتِنۡتُمۡ بِہٖ ۚ وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحۡمٰنُ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ وَاَطِیۡعُوۡۤا اَمۡرِیۡ ﴿۹۱﴾ قَالُوۡا لَنۡ نَّبۡرَحَ عَلَیۡہِ عٰکِفِیۡنَ حَتّٰی یَرۡجِعَ اِلَیۡنَا مُوۡسٰی ﴿۹۲﴾ قَالَ یٰہٰرُوۡنُ مَا مَنَعَکَ اِذۡ رَاَیۡتَہُمۡ ضَلُّوۡۤا ﴿ۙ۹۳﴾ اَلَّا تَتَّبِعَنِ ؕ اَفَعَصَیۡتَ اَمۡرِیۡ ﴿۹۴﴾ قَالَ یَبۡنَؤُمَّ لَا تَاۡخُذۡ بِلِحۡیَتِیۡ وَلَا بِرَاۡسِیۡۚ اِنِّیۡ خَشِیۡتُ اَنۡ تَقُوۡلَ فَرَّقۡتَ بَیۡنَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ وَلَمۡ تَرۡقُبۡ قَوۡلِیۡ ﴿۹۵﴾

(طہ: 91-95)

اور ہارون نے (موسیٰ کے واپس آنے سے بھی) پہلے ان سے کہہ دیا تھا کہ اے میری قوم! تم کو اس (بچھڑے) کے ذریعہ آزمائش میں ڈالا گیا ہے اور تمہارا رب تو رحمن (خدا) ہے پس میری اتباع کرو اور میرے حکم کو مانو (اور شرک نہ کرو)۔ (مگر اس ضدی قوم نے) کہا، جب تک موسیٰ ہماری طرف واپس نہ آئے ہم برابر اس کی عبادت میں مشغول رہیں گے۔ (جب موسیٰ واپس آئے تو انہوں نے ہارون سے) کہا اے ہارون! جب تو نے اپنی قوم کو گمراہ ہوتے دیکھا تھا تو تجھے کس نے منع کیا تھا؟ کہ تو میرے نقش قدم پر نہ چلے؟ کیا تو نے میرے حکم کی نافرمانی کی؟ (ہارون نے) کہا، اے میری ماں کے بیٹے! نہ میری داڑھی (کے بال) پکڑ اور نہ میرے سر کے بال (پکڑ) میں تو اس بات سے ڈر گیا تھا کہ تو یہ نہ کہے کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ پیدا کر دیا ہے اور میری بات کا خیال نہیں رکھا (کہ قوم کی تنظیم قائم رہے)َ۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تورات میں کہا گیا تھا کہ ہارون نے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ بنی اسرائیل کو بچھڑا بنا کر دیا اور شرک کی راہ پر چلایا لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ وَلَقَدۡ قَالَ لَہُمۡ ہٰرُوۡنُ مِنۡ قَبۡلُ یٰقَوۡمِ اِنَّمَا فُتِنۡتُمۡ بِہٖ ۚ وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحۡمٰنُ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ وَاَطِیۡعُوۡۤا اَمۡرِیۡ (طہ:91) یعنی موسیٰ کے پہاڑ سے واپس آنے سے پہلے حضرت ہارونؑ بھی اپنی قوم کو شرک سے روکت رہے تھے اور اُن سے کہتے تھے کہ اے قوم اس بچھڑے کے ذریعہ سے تمہارا ایمان خراب کیا گیا ہے اور تمہارا رب تو رحمن ہے یہ بے حقیقت بچھڑا رب کس طرح ہو سکتا ہے پس تم میری فرمانبرداری کرو اور میرے حکم پر چلو۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون شرک کرانے والوں میں سے نہ تھے بلکہ شرک سے روکنے والوں میں سے تھے۔

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ83)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارونؑ شرک میں شامل نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنی قوم کوشرک سے سختی کے ساتھ روکا تھا لیکن بائبل کہتی ہے کہ وہ شرک میں شامل تھے (خروج باب 32 آیت1-6)۔ ایک ادنیٰ سی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتاہے کہ جس سے خدا بولا کرتا تھا وہ ایک بچھڑے کو خدا کس طرح قرار دے سکتاہے۔۔ ۔بلکہ اگر بائبل کو غور سے دیکھا جائے تو اس کی اندرونی شہادت بھی اس واقعہ کو غلط قرار دیتی ہے۔ چنانچہ بائبل بتاتی ہے کہ جب حضرت موسیٰ کو معلوم ہوا کہ لوگوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی ہے تو وہ سخت غیظ و غضب کی حالت میں پہاڑ سے واپس تشریف لائے اور بچھڑے کو آگ میں جلاکر اسے خاکستر کیا اور اس کی خاک پانی پر چھڑک کربنی اسرائیل کو پلوائی۔ (خروج باب 32 آیت 20)۔ پھر موسیٰ نے اس کی سزا میں حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قریبی کو قتل کرے اور اس طرح تین ہزار آدمی مارے گئے۔ (خروج باب 32 آیت 27-28)۔ پھرموسیٰ نے خدا سے درخوست کی کہ۔ ’’ان لوگوں نے بڑا گناہ کیا کہ اپنے لئے سونے کادیوتابنایا اور اب اگر تو ان کا گناہ معاف کردے تو خیر ورنہ میرا نام اس کتاب میں سے جو تونے لکھی ہے مٹادے۔‘‘ (خروج باب 32 آیت 32) مگر ’’خداوند نے موسیٰ سے کہاکہ جس نے میرا گناہ کیاہے میں اسی کے نام کو اپنی کتاب میں سے مٹاؤں گا۔‘‘ (خروج باب 32 آیت 33)۔ اس فتنہ کو فرو کرنے کے بعد وہ پھر پہاڑ پرگئے تو خداتعالیٰ نے ان کوحکم دیاکہ ’’ہارون کو مقدس لباس پہنانا اور اسے مسح اور مقدس کرنا۔ تاکہ وہ میرے لئے کاہن کی خدمت کو انجام دے اور اس کے بیٹوں کو لاکر ان کو کرتے پہنانا اور جیسے ان کے باپ کو مسح کرے ویسے ہی ان کو بھی مسح کرنا تاکہ وہ میرے لئے کاہن کی خدمت کو انجام دیں۔ اور ان کا مسح ہونا ان کے لئے نسل درنسل ابدی کہانت کا نشان ہوگا۔ اور موسیٰ نے سب کچھ جیسا خداوند نے اس کو حکم کیا تھا اس کے مطابق کیا‘‘ (خروج باب 40 آیت 132 تا 16)۔ اسی طرح گنتی باب 3 میں بھی ذکر آتاہے کہ ہارون اور اس کے بیٹوں کو بنی لاوی کی کہانت سپرد کرکے ان کانام ہمیشہ کے لئے قائم کردیاگیا۔

بائبل کے ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ جہاں اور لوگوں پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا گیا اور مجرموں کو قتل کی سزائیں دی گئیں وہاں حضرت ہارونؑ پر بجائے کسی ناراضگی کا اظہار کرنے کے اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ ہارون کو مقدس لباس پہنایاجائے اور نہ صرف اس کی عزت افزائی کی جائے بلکہ اس کی تمام اولاد کو بھی قابل اعزاز سمجھا جائے اور عبادت گاہوں کی نگرانی کاکام ان کے سپرد کیاجائے۔ اب کیاایک مشرکانہ فعل کا یہی نتیجہ ہوا کرتاہے اور کیا ہارونؑ اگر اسی فعل کے مرتکب ہوتے جس کابائبل انہیں مرتکب قرار دیتی ہے تو خداتعالیٰ کی طرف سے ان سے یہی سلوک کیاجاتا۔ جب اس شرارت کے تمام سرغنے قتل کردیئے گئے تھے تو حضرت ہارونؑ کو کیوں قتل نہ کیا گیا۔اور جب ’’خداوند نے موسیٰ سے کہاکہ جس نے میرا گناہ کیاہے میں اسی کے نام کو اپنی کتاب میں سے مٹاؤں گا۔‘‘ (خروج باب 32 آیت 33)۔ تو اگر حضرت ہارون قصور وار تھے تو ان کانام کیوں نہ مٹایاگیا۔ بلکہ بائبل تو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خداتعالیٰ نے ہارون پر اظہارر ناراضگی کرنیکی بجائے اپنی خوشنودی کا اظہار کیا۔ اور حکم دیا کہ آئندہ تمام عبادت گاہوں کا انتظام ہارون اور اس کے بیٹوں کے سپرد کردیا جائے۔

اللہ تعالیٰ کا یہ انعام اور اس کی طرف سے خوشنودی کا اظہا ر بتارہا ہے کہ بچھڑا بنانا تو الگ رہا حضرت ہارون اس کے پجاریوں میں سے بھی نہیں تھے بلکہ جیساکہ قرآن کریم بتاتاہے انہوں نے بنی اسرائیل کو شرک سے روکا اور انہیں توحید پر قائم رکھناچاہا مگر انہوں نے ہارونؑ کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ یہ حقیقت اتنی واضح ہے کہ انسائکلوپیڈیا برٹینیکا والا بھی ہاورنؑ کے شرک کرنے کے واقعہ کو غلط قرار دیتاہے اور اس سے یہ استدلال کرتاہے کہ بائبل میں کئی واقعات بعد میں بڑھا دیئے گئے ہیں۔

(انسائکلوپیڈیا برٹینیکا جلد 4 زیر لفظ CALF THE GOLDEN وجلد 15 زیر لفظ موسیٰ)

حضرت ہارونؑ نے اس موقعہ پر جو یہ کہا کہ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ یعنی اے میری قوم تمہیں اس بچھڑے کے ذریعے ایک آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ تمہاری اصل آزمائش کاوقت اب آیا ہے گویا فرعون کے عذاب اس آزمائش کے مقابل پر بالکل ہیچ تھے کیونکہ و ہ آزمائش دشمن کی طرف سے تھی جس میں قدرتاً سب لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں لیکن جب اندرسے فتنہ کھڑاہو تو کئی کمز ور طبائع ڈانواں ڈول ہوجاتی ہیں۔ پس حضرت ہارونؑ اپنی قوم کو توجہ دلاتے ہیں کہ بے شک پہلے بھی تمہارے سامنے مختلف آزمائشیں آتی رہی ہیں مگر إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ تمہاری آزمائش کا اصل وقت اب آیا ہے اور اب دنیا پر ظاہر ہو جائیگا کہ تم میں سے کون سچے دل سے ایمان لایا تھا اور کون اپنے دعویٰ ایمان میں جھوٹا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اندرونی فتنوں کوکبھی حقیر نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ پوری تندہی سے ان کامقابلہ کرنا چاہئے۔ کیونکہ خطرے والا فتنہ وہی ہوتاہے۔ خواہ قوم کتنی بھی تھوڑی ہو اگر اندرونی فتنہ اس میں نہ ہو تو دشمن اسے مٹانہیں سکتالیکن اگر اندرونی فتنہ پیدا ہو تو پھرتباہی کا خطرہ پیدا ہوجاتاہے

(تفسیر کبیر جلد 05 صفحہ456-459)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ زیر آیت: قَالَ یَبۡنَؤُمَّ لَا تَاۡخُذۡ بِلِحۡیَتِیۡ وَلَا بِرَاۡسِیۡ ۚ اِنِّیۡ خَشِیۡتُ اَنۡ تَقُوۡلَ فَرَّقۡتَ بَیۡنَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ وَلَمۡ تَرۡقُبۡ قَوۡلِیۡ ﴿۹۵﴾ (طه:95) فرماتے ہیں: اس جگہ حضرت ہارونؑ نے حقیقی عذرپیش کیاہے اور بتایا ہے کہ میں نے ان لوگوں کوروکا تو تھا۔ لیکن زیادہ سختی اس لئے نہیں کی کہ کہیں یہ مقابل پر کھڑے نہ ہوجائیں اور تویہ الزام نہ دے کہ قوم میں بغاوت پیدا کردی اور میرے حکم کا انتظار نہ کیا۔ یا تو نے میرے اس حکم کاکہ ’’امن رہے‘‘ خیال نہیں رکھا۔ رَقَبَ کے دونوں معنے ہوتے ہیں رَقَبَ کے معنے اِنْتَظَرَ کے بھی ہوتے ہیں اور رَقَبَ کے معنے حَرَسَ کے بھی ہوتے ہیں۔۔۔ پس حضرت ہارونؑ کہتے ہیں کہ میں نے صرف اس خیال سے ان پرزیادہ سختی نہیں کی کہ مبادا آپ یہ کہہ دیں کہ تونے قوم میں تفرقہ پیدا کردیا اور میرے حکم کاانتظار نہیں کیا۔ یا تو نے میرے اس حکم کاکہ امن رکھاجائے خیال نہیں رکھا۔بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ نبی کسی دوسرے نبی کامطیع نہیں ہو سکتاوہ صرف مطاع ہوتاہے۔ حالانکہ یہ تو درست ہے کہ نبی مطاع ہوتاہے مگر ان لوگوں کا جن کی طرف وہ مبعوث کیاجاتاہے۔ یہ نہیں کہ وہ اور کسی کامطیع نہیں ہوتا۔ اس طرح تو کہناپڑیگاکہ نعوذباللہ نبی خداتعالیٰ کا بھی مطیع نہیں ہو سکتا حالانکہ یہ بات بالبداہت باطل ہے انہی آیات کودیکھ لو۔ حضرت ہارونؑ اپنی قوم کو کہتے ہیں کہ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ وَاَطِیۡعُوۡۤا اَمۡرِیۡ (طہ:91)۔ تم میری اطاعت اختیار کرو اور میرے حکم کی نافرمانی مت کرو۔ گویا انہوں نے اپنے آپ کو قوم کا مطاع قرار دیا۔ مگر دوسری طرف جب حضرت موسیٰؑ پہاڑ سے واپس تشریف لائے تو انہوں نے حضرت ہارون سے کہا کہ ’’أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي‘‘ (طہ:94)۔کیاتو نے میرے حکم کی نافرمانی کی ہے۔ اس سے صاف معلوم کہ حضرت ہارون اپنی قوم کے تو مطاع تھے لیکن حضرت موسیٰ کے مطیع تھے اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ میں نے صرف اس خیال سے ان لوگوں پرزیادہ سختی نہیں کی کہیں آپ مجھے یہ الزام نہ دیں کہ میں نے آپ کے حکم کاانتظار نہ کیا۔ او ربنی اسرائیل میں تفرقہ پیدا کردیا۔ گویا وہ ہر اہم بات میں انکے حکم کے منتظر رہتے تھے اور اس بات کاخیا ل رکھتے تھے کہ کہیں موسیٰ کی اطاعت میں کوئی فرق نہ آجائے۔

(تفسیر کبیر جلد 05 صفحہ460-461)

قرآن کریم نےحضرت مریم علیہا السلام کو ہارون کی بہن کیوں کہا؟

یٰۤاُخۡتَ ہٰرُوۡنَ مَا کَانَ اَبُوۡکِ امۡرَاَ سَوۡءٍ وَّمَا کَانَتۡ اُمُّکِ بَغِیًّا ﴿ۖۚ۲۹﴾ (مریم: 29) اے ہارون کی بہن! تیرا باپ تو برا آدمی نہیں تھا، اور تیری ماں بھی بدکار نہیں تھی۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اے ہارون کی بہن تیرا باپ تو برا آدمی نہیں تھا اور تیری ما ں بھی بدکار نہیں تھی پھر یہ کیا اندھیر ہوگیا ہے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت مریم کی دوسری والدہ سے ایک اور بھا ئی تھا جس کا نام ہارون تھا لیکن یہودی تاریخ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اِس لئے ایسی بے دلیل بات پیش نہیں کی جا سکتی۔

بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مریم کو ہارون کی بہن اس لئے کہا کہ وہ انکی نسل میں سے تھیں۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ الزبتھ جو حضرت زکریا کی بیوی تھیں بائبل سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہارون کے خاندان میں سے تھیں اور چونکہ یہ اُن کی رشتہ دار تھیں اس لئے قرآن نے اُن کو اُن کے قبیلہ کی زبان میں اُختِ ہارون کہہ دیا (دیکھو القرآن از جارج سیل زیر آیت یا اُختَ ہارون)۔ یہ اُن عیسائیوں نے تشریح کی ہے جو منصف مزاج ہیں اور تعصب کا مادہ اپنے اندر نہیں رکھتے۔ بعض عیسائیوں نے تو اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم تاریخ سے ایسے ناواقف تھے کہ اُنہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ہارون حضرت مسیح سے چودہ سو سال پہلے گذرے ہیں۔ لیکن بعض دوسرے عیسائیوں نے خود اعتراض کو ردّ کیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ یہ بات غلط ہے۔محمد رسول اللہ ﷺ کو موسیٰ اور ہارون کے زمانہ کا خوب علم تھا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہی کئی جگہ ذکر آتا ہے کہ موسیٰ اور ہارون کے بعد فلاں نبی آئے پس یہ اعتراض صحیح نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ چونکہ حضرت زکریا کی بیوی الزبتھ ہارون کے خاندان میں سے تھیں اور مریم اُن کی رشتہ دار تھیں اِس لئے انہوں نے حضرت مریم کو بھی ہارون کی بہن کہہ دیا۔

حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی ایک دفعہ یہ اعتراض پیش ہوا۔تو آپ نے فرمایا کہ یہود انبیاء وصلحاء کے نام پر اپنے خاندان کے مردوں عورتوں کے نام رکھ لیا کرتے تھے۔

(تفسیر فتح البیان جلد 6وتفسیر ابن جریر جلد 16)

لیکن میرے نزدیک اس کے ایک اور معنی بھی ہیں۔ جس سے معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے حضرت مریم کو ہارون کی بہن طنز کے طور پر کہا ہے۔ بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کی ایک سوتیلی بہن تھی جو ہارون کی سگی بہن تھی۔ یا بعض مورخوں کے نزدیک وہ حضرت موسیٰ کی سوتیلی بہن نہیں بلکہ سالی تھی اور اس کا نام بھی مریم تھا۔ گنتی باب12 سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مریم نے جو ہارون کی سگی بہن اور حضرت موسیٰؑ کی سوتیلی بہن تھی اور بعض کے نزدیک حضرت موسیٰ کی سالی تھی۔ بہر حال ہارون سے اُس کا زیادہ رشتہ تھا اور موسیٰؑ سے کم۔ ہارون کے ساتھ مل کر ایک کوشی عورت سے شادی کرنے کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اعتراض کئے تھے۔ قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ یہ اعتراض اس حد تک تھا گویا ناجائز تعلق قائم کیا گیا ہے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اٰذَوۡا مُوۡسٰی فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوۡاؕ وَکَان عِنۡدَ اللّٰہِ وَجِیۡہً﴿ؕ۷۰﴾ (احزاب:70)۔یعنی اے ایمان والوں تم اُن لوگوں کی طرح مت بنو جنہوں نے موسیٰؑ کو اذیت دی اور پھر خدا نے اُس کی بریت کی۔

معلوم ہوتا ہے یا تو اُن کا یہ اعتراض تھا کہ ایک بدکار عورت سے موسیٰ نے شادی کرلی ہے۔ بہرحال پتہ لگتاہے کہ اُن پر ناجائز رشتہ کا الزام لگایا گیا تھا۔ بائبل میں لکھا ہے کہ اس جرم کی سزا میں مریم کو کوڑھی کردیا گیا۔ مگرچونکہ بائبل ایک طرف یہ بتاتی ہے کہ ہارون اور مریم دونوں نے اعتراض کیا اور دوسری طرف بائبل سے ہی معلوم ہوتاہے کہ صرف مریم کو سزا ملی ہارون کو سزا نہیں ملی۔ اِس لئے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون کانام بائبل میں حسب معمول انبیاء پر اعتراض کرنے کے شوق میں درج کیا گیا ہے ورنہ ایک جرم میں دونوں کو سزا کیوں نہ ملتی اس سے ثابت ہوتاہے کہ ہارون نے اعتراض نہیں کیا صرف مریم نے اعتراض کیا تھا۔ آخر ہارون کی سفارش پر حضرت موسیٰؑ نے خداتعالیٰ سے دعا کی اور مریم کا قصور معاف کیاگیا اور صرف سات دن کوڑھی بن کر رہنا پڑا۔ لیکن اس جرم سے پہلے جس شان اور عظمت کے ساتھ اُس کا ذکر کیا جاتا ہے تھا اس شان اور عظمت سے بعد میں اُس کا ذکر کیا نہیں کیا گیا۔بلکہ بعض تو اس کی طرف اور بھی عیوب منسوب کرتے ہیں۔ پس میرے نزدیک ’’يَا أُخْتَ هَارُونَ‘‘ کہ کر انہوں نے طعنہ دیا ہے کہ اے ہارون کی بہن! یعنی جس طرح اس مریم نے قہر مارا اور وہ کوڑھی ہوگئی تھی اسی طرح تونے بھی کوڑھیوں والا کام کیاہے۔ پس ان الفاظ میں اُن کی طعنہ زنی تھی کہ اُس مریم نے بھی طوفان اٹھایا تھا تُونے بھی طوفان اُٹھایا ہے۔ اس نے موسیٰ پر بدکاری کا الزام لگایا تھا اور تُو نے آپ بدکاری کی ہے حالانکہ تیرا باپ بُرا نہیں تھا اور تیری ماں بھی بُری نہیں تھی پس تُو نے یہ کیا گند اُچھالا ہے۔

(تفسیر کبیر جلد 05 صفحہ192-193)

پچھلا پڑھیں

ایک سبق آموزبات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 ستمبر 2022