• 3 مئی, 2024

آسٹریلیا خدام کے ساتھ ورچوئیل ملاقات میں مغربی دنیا میں رہنے والے نوجوانوں کو نصائح

سوال:کچھ لوگ کم محنت کے ساتھ بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں۔جبکہ کچھ لوگ بہت زیادہ محنت کرتے ہیں لیکن پھر بھی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ہمیں کس طرح پتہ چل سکتا ہے کہ آیا قسمت ہے یا محنت میں کمی کا باعث ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:’’آپ کو کس طرح پتہ کہ انہوں نے صحیح معنوں میں محنت کی یا نہیں۔آپ کو صرف اپنے بارے میں ہی پتہ ہے۔بعض اوقات لوگ کہتے ہیں کہ میں نے فلاں مضمون کو سیکھنے کے لیے 2 گھنٹے لگائےاور میں نے یہ کام بھی آسانی سے کر لیا اور کم محنت سے کر لیا۔کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کو خداداد صلاحیتیں عطا ہوتی ہیں اور وہ مشکلات کا حل جلدی نکال لیتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ ہر کام میں بہت اچھے ہوں۔کبھی کچھ لوگ ریاضی میں اچھے ہوتے ہیں کچھ جغرافیہ میں کچھ فزکس میں اور کچھ دوسرے مضامین میں کچھ بہت آسانی سے ہندسوں کو یاد کر لیتے ہیں اور کچھ ہوتے ہیں جن کو اعداد وشمار میں تو دِقت ہوتی ہے لیکن وہ تاریخ کو بہت اچھی طرح یاد رکھتے ہیں۔چنانچہ دنیا میں لوگ مختلف صلاحیتوں اور قابلیتوں کے پائے جاتے ہیں۔ لیکن عام طور پر لوگوں کا معیار درمیانی سطح کا ہوتا ہے۔اور ان کو کچھ سیکھنے اور کام مکمل کرنے میں وقت لگتا ہے۔تو با نسبت اس کے اس کو دیکھا جائے کہ دوسرے نے کیا کوشش کی ہے یا محنت کی ہے آپ کوہر کام کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق کرنا چاہیے۔تو ہر کامیابی کے لیے آپ کو محنت کرنی ہو گی۔اگر آپ محنت کرتے ہیں تو اپنے مقصود کو پا لیں گے اور اللہ تعالیٰ بھی آپ کی مدد کرے گا۔اور اس کےساتھ ساتھ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اور احمدی ہونے کے ناطے خدا تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیےکہ اللہ تعالیٰ آپ کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے آپ کی مدد کرے اور اس کو آپ کے لئے آسان کر دے۔تو اس طرح سے اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا اور آپ کم وقت میں یا کم محنت کے ساتھ یا بہتر رنگ میں اپنے ٹارگٹ کو پا لیں گے۔‘‘

سوال:پیارے حضور یہاں پر زیادہ تر خدام ایسے ہیں جو یہاں پیدا ہوئے یا پھر بر صغیر سے یہاں آئے ہیں۔ ان دونوں میں ایک کلچر کا فرق ہو جاتا ہے۔تو خدام الاحمدیہ کو اس فرق کو دور کرنے کے لئے کیا کرنا چاہیے تا کہ کام ہم آہنگی کے ساتھ ہو سکے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:’’ جو یہاں پیدا ہوئے ہیں ان کی ذہنیت مختلف ہے۔ جس ماحول میں وہ پلے بڑھے ہوئے ہیں وہ مختلف ہے۔لیکن ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جنہوں نے پاکستان اور دوسرے ممالک سے ہجرت کی کچھ فجی سے آئے ہیں ان کا تو ماحول ایک ہی ہے۔ فرق صرف ان کے مابین ہے جوپاکستان سے آئے ہیں۔اور جو غیر پاکستانی ہیں جو آسٹریلیا میں یا کسی اور مغربی ملک میں پلے بڑھے ہیں۔اس لیے میں ہمیشہ کہتا آیا ہوں کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی بچپن سے ہی تربیت کریں۔ان کو بتائیں کہ و ہ کون ہیں مذہب کی اہمیت کیا ہے وہ احمدی مسلمان کیوں ہیں اور ان کو کیوں دن میں پانچ نمازیں ادا کرنی چاہیے اور ان کو قرآن کریم کی تلاوت کیوں کرنی چاہیےاور اوامر و نواہی سیکھنے چاہیے اور ان پر ہمیں کیوں عمل کرنا چاہیے اس طریق سے بچوں کو علم ہو گا کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں اور ہم کون ہیں۔پھر اگر وہ مغربی ماحول میں بھی بڑے ہوئے ہیں۔تو ان میں اچھے اور برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی۔انہیں پتہ ہو گاکہ یہ وہ بد اخلاقیاں ہیں جن کا مغربی کلچر تو اجازت دیتا ہے لیکن اسلام منع کرتا ہے۔مثلاً اسلام مَردوں کو کہتا ہے کہ ہمیشہ غضِ بصر سے کام لیا کرواور کھلے طور پر عورتوں کو نہ دیکھا کرو۔اور ایسی چیز کا مزہ نہ لو جو کہ اخلاقی طور پر بری ہے۔اسی طرح سے اسلام عورتوں کو بھی کہتا ہے کہ ان کو بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھنی چاہیےاور پردہ کرنا چاہیے تا کہ ان کی خوبصورتی مردوں کو آزادانہ طور پر دکھائی نہ دے۔آج کل مختلف قسم کی ترجیحات ہیں۔تو یہ سب کچھ اسلام میں بد اخلاقی مانی جاتی ہے۔پس ہمیں ان کی بچپن سے ہی تربیت کرنا ہو گی۔یہ والدین کی ذمہ داری ہے اور یہ خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ انہیں بتائیں کہ یہ اچھی باتیں ہیں اور یہ بری باتیں ہیں۔یہ وہ باتیں ہیں جو خداتعالیٰ کو پسند نہیں ہیں۔ان باتوں کے متعلق ہماری یہ تعلیم ہے کہ ہم ان سے بچ کر رہیں۔پس اس کام میں محنت کرنا ہو گی۔صرف خدام الاحمدیہ ہی نہیں بلکہ والدین کو بھی اس میں شامل ہو نا ہو گا۔اور ان کو انصار اللہ خدام الاحمدیہ اور لجنہ کے تحت تعلیم دینا ہو گی کہ وہ اپنے بچوں کی گھروں میں کیسے تربیت کر سکتے ہیں۔یہ ایک مشکل کام ہے مگر آپ کو اس چیلنج کا سامنا کرنا ہو گا۔آپ کو سخت محنت کرنا ہو گی۔اور اگر والدین بھی مدد کر رہے ہوں گے اور اپنے بچوں کی گھروں میں تربیت کررہے ہوں گےاور اطفال الاحمدیہ کی تنظیم بھی اس بات میں محنت کر رہی ہو گی کہ وہ بچوں کو اس بات سے آگاہ کریں کہ جو کچھ وہ سکولوں میں سیکھتے ہیں ان میں سے کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے۔کیونکہ انہیں سکولوں میں آجکل مختلف تربیت ملتی ہے۔آزادی اظہار اور پسند ناپسند کی آزادی کے نام پر کچھ غیر اخلاقی باتیں بچوں کے ذہن میں آرہی ہیں۔اور وہ سوچتے نہیں ہیں بلکہ بالکل خیال نہیں رکھتے وہ اچھے اور برے کے درمیان فرق نہیں کر سکتے۔پس ہمیں ان کو بتانا ہو گا کہ کیا برا ہےاور کیا اچھا ہےاور ان چیزوں کا ان کے مستقبل کی زندگی پر کیا اثرات ہوں گے؟اور اگر آپ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ سے کس طرح کا سلوک کرے گا اگر آپ اس پر عمل نہیں کریں گے۔توبچپن سے ہی ہمیں بچوں کے ذہنوں میں اس بات کو ڈالنا ہو گا کہ ہمیں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیےاور ہمیں ان اخلاق کو اپنانے کی ضرورت ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ اور اسلامی تعلیمات نے سکھائے ہیں۔‘‘

(موٴرخہ 26 جون 2022ء)

(روزنامہ الفضل آن لائن کی 30 ستمبر 2022ء)

پچھلا پڑھیں

سگریٹ نوشی صحت کے لئے مضر ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اکتوبر 2022