• 26 اپریل, 2024

اللہ تعالیٰ نے والدین سے حسن سلوک کے بارہ میں بڑی تاکید فرمائی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
اللہ تعالیٰ نے والدین سے حسن سلوک کے بارہ میں بڑی تاکید فرمائی ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے روکیں۔ یا شرک کی تعلیم دیں۔ اس کے علاوہ ہربات میں ان کی اطاعت کا حکم ہے۔ اور یہ حکم اس لئے ہے کہ جو خدمت انہوں نے بچپن میں ہماری کی ہے اس کا بدلہ تو ہم نہیں اتار سکتے۔ اس لئے یہ حکم ہے کہ ان کی خدمت کے ساتھ ساتھ ان کے لئے دعا بھی کرو کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور بڑھاپے کی اس عمر میں بھی ان کو ہماری طرف سے کسی قسم کا کبھی کوئی دکھ نہ پہنچے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خدمت اور دعا کے باوجود یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم نے ان کی بہت خدمت کر لی اور ان کاحق ادا ہو گیا۔ اس کے باوجود بچے جو ہیں اس قابل نہیں کہ والدین کا وہ احسان اتار سکیں جو انہوں نے بچپن میں ان پر کیا۔

اس ضمن میں جو دو آیات مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :اور تیرے ربّ نے فیصلہ صادر کردیا ہے کہ تم اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کا سلوک کرو۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی، تو اُنہیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر۔ اور ان دونوں کے لئے رحم سے عجز کا پَرجُھکا اور کہہ کہ اے میرے ربّ! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی۔

اس آیت میں سب سے پہلے یہ بات بیان فرمائی کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور وہ خدا جس نے تمہیں اس دنیا میں بھیجا اور تمہیں بھیجنے سے پہلے قسما قسم کی تمہاری ضروریات کا خیال رکھااور اس کا انتظام بھی کردیا۔ اور پھر یہ کہ اس کی عبادت کرکے اور اس کا شکر اداکرکے تم اس کے فضلوں کے وارث ٹھہروگے اور سب سے بڑا فضل جو اس نے ہم پر کیاوہ یہ ہے کہ تمہیں ماں باپ دئے جنہوں نے تمہاری پرورش کی، بچپن میں تمہاری بے انتہاء خدمت کی، راتوں کو جاگ جاگ کر تمہیں اپنے سینے سے لگایا۔ تمہاری بیماری اور بے چینی میں تمہاری ماں نے بے چینی اور کرب کی راتیں گزاریں، اپنی نیندوں کو قربان کیا، تمہاری گندگیوں کو صاف کیا۔ غرض کہ کون سی خدمت اور قربانی ہے جو تمہاری ماں نے تمہارے لئے نہیں کی۔ اس لئے آج جب ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تم منہ پرے کر کے گزر نہ جاؤ، اپنی دنیا الگ نہ بساؤاور یہ نہ ہو کہ تم ان کی فکر تک نہ کرو۔ اور اگر وہ اپنی ضرورت کے لئے تمہیں کہیں تو تم انہیں جھڑکنے لگ جاؤ۔ فرمایا: نہیں، بلکہ وہ وقت یاد کرو جب تمہاری ماں نے تکالیف اٹھاکر تمہاری پیدائش کے تمام مراحل طے کئے۔ پھر جب تم کسی قسم کی کوئی طاقت نہ رکھتے تھے، تمہیں پالا پوسا، تمہاری جائزوناجائز ضرورت کو پورا کیا۔ اور آج اگر وہ ایسی عمر کو پہنچ گئے ہیں جہاں انہیں تمہاری مدد کی ضرورت ہے جو ایک لحاظ سے ان کی اب بچپن کی عمر ہے، کیونکہ بڑھاپے کی عمر بھی بچپن سے مشابہ ہی ہے۔ ان کو تمہارے سہارے کی ضرورت ہے۔ تو تم یہ کہہ دو کہ نہیں، ہم تو اپنے بیوی بچوں میں مگن ہیں ہم خدمت نہیں کرسکتے۔ اگر وہ بڑھاپے کی وجہ سے کچھ ایسے الفاظ کہہ دیں جو تمہیں ناپسند ہوں تو تم انہیں ڈانٹنے لگ جاؤ، یا مارنے تک سے گریز نہ کرو۔ بعض لوگ اپنے ماں باپ پر ہاتھ بھی اٹھا لیتے ہیں۔ مَیں نے خود ایسے لوگوں کودیکھاہے، بہت ہی بھیانک نظارہ ہوتاہے۔ اُف نہ کرنے کا مطلب یہی ہے کہ تمہاری مرضی کی بات نہ ہوبلکہ تمہارے مخالف بات ہوتب بھی تم نے اُف نہیں کرنا۔ اگر ماں باپ ہر وقت پیار کرتے رہیں، ہربات مانیں، ہروقت تمہاری بلائیں لیتے رہیں، لاڈ پیار کرتے رہیں پھرتو ظاہر ہے کوئی اُف نہیں کرتا۔ فرمایا کہ تمہاری مرضی کے خلاف باتیں ہوں تب بھی نرمی سے، عزت سے، احترام سے پیش آنا ہے۔ اور نہ صرف نرمی اور عزت واحترام سے پیش آنا ہے بلکہ ان کی خدمت بھی کرنی ہے۔ اور اتنی پیار، محبت اور عاجزی سے ان کی خدمت کرنی ہے جیسی کہ کوئی خدمت کرنے والا کرسکتاہو۔ اور سب سے زیادہ خدمت کی مثال اگر دنیا میں موجود ہے تو وہ ماں کی بچے کے لئے خدمت ہی ہے۔ اب یہاں رہنے والے، مغرب کی سوچ رکھنے والے، بلکہ ہمارے ملکوں میں بھی، برصغیر میں بھی، بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ماں باپ کی خدمت نہیں کرسکتے، ایک بوجھ سمجھتے ہیں اور یہ لکھتے ہیں کہ جماعت ایسے بوڑھوں کے مراکز کھولے جہاں یہ بوڑھے داخل کروا دئے جائیں کیونکہ ہم تو کام کرتے ہیں، بیوی بھی کام کرتی ہے، بچے اسکول چلے جاتے ہیں اور جب گھر آتے ہیں تو بوڑھے والدین کی وجہ سے ڈسٹرب (Disturb) ہوتے ہیں، اس لئے سنبھالنا مشکل ہے۔ کچھ خوف خدا کرنا چاہئے۔ قرآن توکہتاہے کہ ان کی عزت کرو، ان کا احترام کرو اور اس عمر میں اُن پررحم کے پرجھکا دو۔ جس طرح بچپن میں انہوں نے ہرمصیبت جھیل کر تمہیں اپنے پروں میں لپیٹے رکھا۔ تمہیں اگر کسی نے کوئی تکلیف پہنچانے کی کوشش کی تو مائیں شیرنی کی طرح جھپٹ پڑتی تھیں۔ اب ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے توکہتے ہو کہ ان کو جماعت سنبھالے۔ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے سنبھالتی ہے لیکن ایسے بوڑھوں کو جن کی اولاد نہ ہویاجن کے کوئی اور عزیز رشتے دار نہ ہوں۔ لیکن جن کے اپنے بچے سنبھالنے والے موجود ہوں تو بچوں کا فرض ہے کہ والدین کو سنبھالیں۔ تو ایسی سوچ رکھنے والوں کو اپنی طبیعتوں کو، اپنی سوچوں کو تبدیل کرنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ جب تک والدین سے فائدہ اٹھاتے رہے، اٹھا لیا، مکان اور جائیدادیں اپنے نام کروالیں، اب ان کو پرے پھینک دو۔ کسی احمدی کی یہ سوچ نہیں ہونی چاہئے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تو اسلام کی بھلائی ہوئی تعلیم کودوبارہ دنیا میں رائج کرنے کے لئے تشریف لائے تھے، اس کے حُسن کی چمک دنیا کو دکھانے کے لئے مبعوث ہوئے تھے نہ کہ اس کے خلاف عمل کروانے کے لئے۔

(خطبہ جمعہ 16؍ جنوری 2004ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

متوفی والدین کو اولاد کی کسی نیکی کا ثواب پہنچتا ہے

اگلا پڑھیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفر سیالکوٹ کے دوران پُر معارف و پُر تاثیر ’’لیکچر سیالکوٹ‘‘