اصل بات یہ ہے کہ اندرونی طور پر ساری جماعت ایک درجہ پرنہیں ہوتی۔ کیا ساری گندم تخم ریزی سے ایک ہی طرح نکل آتی ہے۔ بہت سے دانے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ضائع ہوجاتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو چڑیاں کھا جاتی ہیں۔ بعض کسی اور طرح قا بل ثمر نہیں رہتے۔ غرض ان میں سے جو ہونہار ہوتے ہیں ان کوکوئی ضائع نہیں کر سکتا۔ خدا تعالی کے لیے جو جماعت تیار ہوتی ہے وہ بھی کَزَرْعٍ ہوتی ہے۔ اسی لیے اس اصول پر اس کی ترقی ضروری ہے۔ پس یہ دستور ہونا چاہیے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے۔ یہ کس قدرنا مناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں ؛ ایک تیرنا جانتا ہے اور دوسرا نہیں۔ تو کیا پہلے کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اس کو ڈوبنے دے۔ اس کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے۔ اسی لیے قرآن شریف میں آیا ہے۔ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی (المائدة : 3) کمزور بھائیوں کا بار اٹھاؤ۔ عملی، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جاؤ۔ بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو۔ کوئی جماعت جماعت نہیں ہوسکتی جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے اور اس کی یہی صورت ہے کہ ان کی پردہ پوشی کی جاوے۔ صحابہ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چڑو کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے۔ اسی طرح یہ ضروری ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت ملائمت کے ساتھ برتاؤ کرے۔ دیکھو وہ جماعت جماعت نہیں ہوسکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چارمل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور ان کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔ ایسا ہرگز نہیں چاہے۔ بلکہ اجماع میں چاہیے کہ قوت آجاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ ذرا ذرا سی بات پر اختلاف پیدا ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مخالف لوگ جو ہماری ذرا ذرا سی بات پر نظر رکھتے ہیں۔ معمولی باتوں کو اخباروں میں بہت بڑی بنا کر پیش کر دیتے ہیں اور خلق کو گمراہ کرتے ہیں لیکن اگر اندرونی کمزوریاں نہ ہوں تو کیوں کسی کو جرأت ہو کہ اس قسم کے مضامین شائع کرےاور ایسی خبروں کی اشاعت سے لوگوں کو دھوکا دے۔ کیوں نہیں کیا جا تا کہ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے۔ اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی، محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے اور تمام عادتوں پر رحم ہمدردی اورپردہ پوشی کو مقدم کرلیا جاوے۔ ذرا ذرا سی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئیں جو دل شکنی اور رنج کا موجب ہوتی ہیں۔
(ملفوظات2016ء جلد2 صفحہ263-264 ایڈیشن1988ء)