• 15 مئی, 2024

کینیڈا میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد بیت الاسلام کی تاریخ اور تعارف

کینیڈا میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد
بیت الاسلام کی تاریخ اور تعارف

سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ ’’جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہئے پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ119 ایڈیشن 1984ء)

ٹورانٹو میں واقع مسجد بیت الاسلام جو کہ جماعت احمدیہ کینیڈا کی پہلی اور مرکزی مسجد ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشادِ مبارک کی صداقت کی دلیل ہے۔ یہ مسجد ایک ایسے بے آب و گیاہ جگہ میں تعمیر کی گئی جہاں کوئی آبادی نہ تھی۔ لیکن آج اس خانہ خدا کی برکت سے نہ صرف احمدی مسلمانوں کی پُر رونق آبادی اس کے گرد آباد ہے بلکہ ایک بستا ہوا شہر اس کے گرد و نواح میں آباد ہے۔

پس منظر

کینیڈا کا پہلا نماز سینٹر مانٹریال میں 1963ء میں قائم ہوا۔ بعد ازاں ٹورانٹو اور پھر کیلگری اور ایڈمنٹن وغیرہ میں بھی نماز سینٹرز قائم ہوئے لیکن بڑھتی ہوئی جماعت کی ضروریات کے پیش نظر ایک باقاعدہ مسجد کی ضرورت تھی۔

اگست 1976ء میں جب سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ پہلی بار کینیڈا تشریف لائے تو آپ نے جماعت کے صدران سے ملاقات کے دوران فرمایا کہ اس وقت احمدیوں کو مغربی ماحول کے برے اثرات سے بچانے اور نوجوانوں کی خالص اسلامی ماحول میں تربیت کرنے کے لئے ’’بہتر یہ ہے کہ فوری طور پر آپ شہر سے تیس چالیس میل باہر بیس تیس ایکڑ زمین حاصل کریں۔‘‘

(تاریخ جماعت احمدیہ کینیڈا 1899ء تا 2008ء صفحہ45)

چنانچہ اپنے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے نومبر 1976ء میں جماعت نے ٹورانٹو کے سکاربرو (Scarborough) ڈسٹرکٹ میں مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے ساڑھے چھ ایکڑ کا ایک قطعہ زمین خریدا۔ لیکن یہاں پر عملی طور پر مسجد یا مشن ہاؤس قائم کرنے میں بعض رکاوٹیں حائل ہو گئیں اور بالآخر کسی اور زمین کی تلاش شروع ہو گئی۔

(تاریخ جماعت احمدیہ کینیڈا صفحہ63)

1977ء میں 36 Thorncliffe Park Drive کا اپارٹمنٹ نمبر 505 کرائے پر لیا گیا جہاں جماعت کا پہلامرکزی مشن ہاؤس قائم ہوا اور پھر بعد میں 1981ء میں ایک گھر (1306 Wilson Avenue) جماعت کے پہلے مستقل مرکزی مشن ہاؤس کے طور پرایک لاکھ 33 ہزار ڈالرز کی لاگت پر خرید لیا گیا۔اس مشن ہاؤس کا نام حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’بیت العافیت‘‘ رکھا۔ کچھ وقت تک اس مشن ہاؤس کے ذریعے جماعتی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔

(تاریخ جماعت احمدیہ کینیڈا صفحہ64-65 رسالہ النداءاپریل تا ستمبر 1992ء صفحہ3)

مسجد کی تعمیر کے لئے مالی تحریک

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ علیہ نے 1983ء میں کینیڈا میں نئے مشنز اور مساجد بنانے کے منصوبے کا اعلان فرمایا اور احباب جماعت کو تلقین کی کہ ’’جماعت کینیڈا کو چاہئے کہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اور ایک نئے جوش اور ولولہ کے ساتھ مشن ہاؤسز و مساجد فنڈ کے لئے اپنی توفیق کے مطابق قربانیاں پیش کریں… موجودہ حالات کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ تین سال کے اندر اندر اس فنڈ کے لئے جماعتہائے احمدیہ کینیڈا چھ لاکھ ڈالرز جمع کرے۔‘‘

(تاریخ جماعت احمدیہ کینیڈا صفحہ132)

پھر فرمایا: ’’عزیز احمدیو! اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے گھر برکتوں سے بھر جائیں تو خدا کے نام پر اس کے گھر تعمیر کیجئے کہ مسجد بنانے والوں سے خدا کا وعدہ ہے: مَنْ بَنٰی لِلّٰہِ مَسْجِدًا بَنَی اللّٰہُ لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ کہ جو خدا کے لئے مسجد تعمیر کرے گا۔ اللہ جنت میں اس کا گھر تعمیر کرے گا۔ جنت یعنی خدا کی رضا آپ کو نصیب ہو گی۔‘‘

(تاریخ جماعت احمدیہ کینیڈا صفحہ129-130)

چنانچہ اس تحریک پر کینیڈا کے طول و عرض سے مخلصین جماعت نے جوش و خروش سے حصہ لیا۔

مشن ہاؤس اور مسجد کی زمین کی خرید

پھر 1985ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کینیڈا کو مسجد کی تعمیر کے لئے ایک وسیع اور بڑی جگہ خریدنے کی ہدایت دی۔ اس مقصد کے لئے پانچ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی جس نے لائحہ عمل تجویز کیا۔ اس لائحہ عمل کے مطابق جائیداد کی خرید و فروخت کے ایجنٹس،متعلقہ اخبارات و رسائل وغیرہ کے ذریعے اور ذاتی طور پر بھی مختلف جائیدادوں کی تلاش کی گئی۔آخر اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور انور رحمہ اللہ کی دعاؤں سے ایک پچیس ایکڑ قطعہ زمین جو کہ ٹورانٹوکے شمال میں واقع وان (Vaughan) شہر کے میپل (Maple) علاقہ میں Jane Street اور Highway 400 کے درمیان تھی مل گئی۔ اس زمین پر پہلے سے22 کمروں پر مشتمل ایک وسیع عمارت موجود تھی۔چنانچہ نیشنل مجلس عاملہ کے اتفاق سے اس زمین کے حصول کی تجویز سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بغرضِ منظوری پیش کی۔ جسے حضور نے از راہِ شفقت منظور فرمایا اور یہ قطعہ زمین 5لاکھ25 ہزار ڈالرز کی قیمت پر خرید لیا گیا اور 13،دسمبر 1985ء کو اس زمین کا قبضہ بھی مل گیا۔اس کا نام حضورؒ نے ’’بیت الاسلام‘‘ تجویز فرمایا۔

(تاریخ جماعت احمدیہ کینیڈا صفحہ159-160
احمدیہ گزٹ کینیڈا اکتوبر 1992ء صفحہ35 انگریزی حصہ)

سنگِ بنیاد کی تقریب

مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ پہلی بار ستمبر 1986ء میں کینیڈا کے دورے پر تشریف لائے۔ اسی مبارک دورے کے دوران مؤرخہ 20؍ستمبر 1986ء کو حضورؒ نے اپنے دستِ مبارک سے مسجد بیت الاسلام کا سنگِ بنیاد رکھا۔حضورؒاور حضرت آپا آصفہ بیگم صاحبہؒ کے بعد کُل 36 بزرگان اور نمائندگان جماعت کو اینٹیں نصب کرنے کی سعادت ملی۔

اس موقع پر حضورؒ نے پُر معارف خطاب ارشاد فرمایا جس میں آپ نے سورة آل عمران کی آیت 97 یعنی ’’یقیناً پہلا گھر جو بنی نوع انسان (کے فائدے) کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو بَکَّہ میں ہے۔ (وہ) مبارک اور باعثِ ہدایت بنایا گیا تمام جہانوں کے لئے‘‘ کے حوالے سے فرمایا کہ مکہ مکرمہ میں بیت اللہ بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے تعمیر کی گئی اور وہ سب کے لئے راہنمائی کا مرکز تھا۔ چنانچہ کینیڈا میں اس پہلی مسجد کی تعمیر کے بھی یہی مقاصد ہیں۔ نیز ہم امن پسند جماعت ہیں اور جہاں بھی ہم مساجد تعمیر کرتے ہیں وہ انہی مقاصد کے مطابق بناتے ہیں نہ کہ نفرت، تشدّد اور دہشت پھیلانے کے لئے۔

(تاریخ جماعت احمدیہ کینیڈا صفحہ172-173)

نقشہ جات کی تیاری

مسجد کی سنگ بنیاد رکھے جانے کے بعد 1987ء میں ایک نئی مسجد کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے مسجد کے plan کا حتمی لائحہ عمل تیار کیا اور ایک نامور اور ماہر آرکیٹیکٹ پروفیسر گلزار حیدر صاحب، جو اس وقت آٹوا کی Carleton یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے، کو یہ کام سپرد کیا گیا۔

پروفیسر صاحب نے جب مسجد کا بنیادی خاکہ مسجد کمیٹی کی راہنمائی سے تیار کر دیا تو اسے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ حضورؒ نے اس کی اصولی منظوری تو عنایت فرما دی تاہم بعض حصوں میں تبدیلیوں کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ حضورؒ کی ہدایت کے پیش نظر دوبارہ نقشہ جات تیار کر کے نیز اخراجات کا اندازہ اور دیگر تفصیلات کو مولانا نسیم مہدی صاحب (امیر و مبلغ انچارج کینیڈا) نے جلسہ سالانہ برطانیہ 1988ء کے موقع پر حضور انورؒ کی خدمت میں پیش کیں جنہیں حضورؒ نے از راہ شفقت منظور فرمایا۔

اوائل اکتوبر1988ء میں تفصیلی architectural نقشہ جات کی تیاری مکمل ہو گئی۔ اس سلسلہ میں آسام ہندوستان سے تعلق رکھنے والے آرکیٹیکٹ ڈسمنڈ رائے چوہدری صاحب نے تمام drawings تیار کیں اور پروفیسر گلزار حیدر صاحب کے ایک شاگرد اسماعیل صاحب، جن کا تعلق ملائشیا سے تھا، نے بھی قابل قدر کام کیا۔

(رسالہ النداءاپریل تا ستمبر 1992ء صفحہ9)

تعمیراتی کام کا آغاز

مسجد کے نقشہ جات کو شہر کی میونسپل کمیٹی سے اور پھر ذیلی محکمہ جات سے منظور کروانا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ یہ سلسلہ اپریل 1988ء سے لے کر مارچ 1989ء تک جاری رہاجب تعمیر کی اصولی منظوری مل گئی۔ لیکن اس کے بعد بھی بعض تکنیکی مشکلات کے پیش نظر سٹی ہال سے فوری منظوری حاصل نہ ہو سکی۔

(رسالہ النداءاپریل تا ستمبر 1992ء صفحہ10)

بالآخر مسجد کی تعمیر کا permit مؤرخہ 14؍جولائی 1989ء کو ملا اور اس کے کچھ عرصہ بعد مؤرخہ 7،ستمبر 1989ء کو اجتماعی دعا کے بعد مسجد کی تعمیر کے کام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ مسجد کی تعمیر پر کُل 4 ملین ڈالرز خرچ ہوئے۔

(تاریخ جماعت احمدیہ کینیڈا صفحہ160)

تعمیر کے طریق کار کے متعلق حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی کہ مسجد کی تعمیر کا کام کسی ٹھیکیدار کے سپرد نہ کیا جائے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ تعمیر کے کام کی نگرانی کرنے کے لئے جماعت میں سے ہی ایک پراجیکٹ مینجر مقرر کیا جائے۔ اس سے دیگر فوائد کے علاوہ ایک بڑا فائدہ یہ نظر آرہا تھا کہ کینیڈا میں آئندہ مساجد تعمیر کرنے کے لئے احمدی احباب کو تجربہ حاصل ہو جائے گا۔ چنانچہ اس کام کے لئے مکرم ڈاکٹر نعیم احمد صاحب تعمیر کے مینجر مقرر ہوئے جبکہ مکرم چوہدری نصیر احمد صاحب کے ذمّے کمپنیوں سے معاملات طے کرنے اور materials فراہم کرنے کا کام سپرد ہوا۔ مکرم ڈاکٹر صاحب موصوف نے قریباً ایک سال اس خدمت کو سرانجام دیا جس دوران کھودائی ، بنیادیں اور دیواریں تعمیر ہوئیں۔پھر اگست 1990ء میں مکرم چوہدری نصیر احمد صاحب کو بطور پراجیکٹ مینجر مقرر کر دیا گیا۔

(رسالہ النداء اپریل تا ستمبر 1992ء صفحہ11)

مسجد کا ڈیزائن

ابتدائی ڈیزائن کے مطابق مسجد کے لئے سفید اینٹوں کی عدم فراہمی کے باعث مجبوراً زرد رنگ کی اینٹیں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن یہ بات تسلی بخش نہ تھی۔ کیونکہ مسجد کے لئے سفید رنگ نہ صرف جاذب نظر ہوتا بلکہ مسجد کی زمین سے ملحق شاہراہ سے نہایت خوبصورت لگتا اور سورج کے غروب ہونے کے بعد بھی دیر تک مسجد دکھائی دیتی۔ چنانچہ مسجد کے پراجیکٹ مینیجر مکرم چوہدری نصیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہی پریشانی لاحق تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کینیڈا میں تشریف آوری پر حضورؒ کے اعزاز میں ٹورانٹو میں ایک عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر مکرم چوہدری صاحب کی گفتگو ان کے سامنے بیٹھے ہوئے مہمان سے شروع ہوئی۔ باتوں باتوں میں بریمٹن شہر میں خوبصورت نئے چرچ کا ذکر ہوا جو مکمل طور پر سفید تھا۔ اس پر مہمان نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ وہ CanMar کمپنی کا مالک تھا اور اس چرچ میں precast concrete کا ٹھیکہ اسی کے فرم کے پاس تھا۔ چوہدری صاحب بیان کرتے ہیں ’’میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میں نے اسے بتایا کہ ہم اپنی مسجد کے لئے سفید precast کی تلاش میں ہیں۔ وہ کہنے لگا کہ میں آپ کے لیڈر (یعنی حضرت امام جماعت احمدیہ) اور آپ کی جماعت کے نظم و ضبط سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں آپ کو بہت ہی اچھی قیمت دے سکتا ہوں۔‘‘ چنانچہ اس کمپنی سے معاہدہ ہوا اور اینٹوں کی نسبت بہت کم قیمت پر نہایت خوبصورت precast سے مسجد کی تعمیر کی گئی اور لطف کی بات یہ تھی کہ جہاں اس کمپنی نے چرچ کی تعمیر کے لئے 35 ڈالر فی مکعّب فٹ وصول کیا، وہاں مسجد کے لئے 21 ڈالر کے حساب سے دیا۔

(رسالہ النداء اپریل تا ستمبر 1992ء صفحہ10)

مسجد کی گنبدوں کی تعمیر کے پیچھے ایک طویل اور دلچسپ داستان ہے۔ آرکیٹیکٹ کے نقشہ جات کے مطابق گنبدوں کو fiberglass سے بنانا مقصود تھا تاہم جب عملاً اس material کے متعلق معلومات لی گئیں تو معلوم ہوا کہ موجودہ وسائل و صورتحال کے پیش نظر یہ ناممکن تھا۔ چنانچہ مختلف تعمیری سامانوں پر غور کیا گیا۔ ایسا material درکار تھا جس کی دیکھ بھال بہت ہی کم کرنی پڑے اور جسے رنگ وغیرہ نہ کرنا پڑے۔ چنانچہ دافع زنگ فولاد (stainless steel) کی طرف توجہ مبذول ہوئی اور اسی material سے گنبد تیار کئے گئے جبکہ اس سے قبل کبھی بھی اتنے بڑے گنبد نہ بنائے گئے تھے۔ دافع زنگ فولاد میں nickel کی دھات استعمال ہوتی ہے اور حسن اتفاق سے nickel کی مصنوعات بنانے والوں کی ایسوسی ایشن کا مرکز کینیڈا میں ہے جو ایک رسالہ Nickel Magazine شائع کرتے ہیں۔ انہوں نے فخر سے مسجد کے گنبدوں کی رنگین تصاویر اپنے رسالے کے سر ورق پر نصب کیں اور ان کے نزدیک یہ پہلا موقع تھا جبکہ دافع زنگ فولاد کا اتنا بڑا گنبدکسی بھی عمارت پر سجایا گیا۔

(رسالہ النداء اپریل تا ستمبر 1992ء صفحہ10)

آج مسجد بیت الاسلام کو دیکھنے والے تمام احباب برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ مسجد کا سفید رنگ اور چاندی رنگ کے دونوں گنبد خوبصورتی اور سادگی کا ایک حسین اور شاندار امتزاج پیش کرتے ہیں اور دور دورسے بھی یہ مسجد جاذب نظر اور دلکش دکھائی دیتی ہے۔مسجد کا ڈیزائن کچھ اس طرح ہے کہ جس زاویے سے بھی اسے دیکھا جائے اس کی خوبصورتی ایک اَور رنگ میں ابھر کر آتی ہے۔

تعمیر کے دوران نصرت الٰہی کے نظارے

اللہ تعالیٰ کی راہ میں کام کرنے والوں کو الٰہی نصرت کے نظارے دکھائے جاتے ہیں۔ چنانچہ مسجد بیت الاسلام کی تعمیر کے دوران متعدد ایمان افروز واقعات رونما ہوئے۔ مکرم چوہدری نصیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ’’اس پراجیکٹ پر کام کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے جماعت پر بے پایاں فضل اور احسانات کے جلووں کو بارش کی طرح برستے پایا۔ تعمیر کے دوران بعض امور اور نقشہ جات وغیرہ کی منظوری کے سلسلہ میں بعض ایسی رکاوٹیں حائل ہو جاتی رہیں کہ بظاہر لگتا تھا ان کا ہٹنا ناممکن ہے اور نتیجةً جماعت کو یا تو بہت زیادہ خرچ کرنا پڑتا جس کے لئے مسجد کے مخصوص فنڈز ناکافی تھے یا بصورت دیگر کام روک دینا پڑتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ غیب سے ایسے سامان پیدا فرماتا رہا کہ زائد خرچ کئے بغیر وہ رکاوٹیں ہٹتی چلی گئیں۔‘‘

(رسالہ النداء اپریل تا ستمبر 1992ء صفحہ11)

مولانا نسیم مہدی صاحب مرحوم (سابق امیر و مشنری انچارج کینیڈا) بیان کرتے ہیں کہ ’’تعمیر مسجد کے دوران بعض ایسے دن بھی آئے کہ جس دن اکاؤنٹ میں کچھ رقم بھی نہ تھی اور بڑے بڑے bill ادا کرنے کی تواریخ بھی قریب آ رہی تھیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے ایسے ہی ایک موقع پر کچھ رقم کی اشد ضرورت تھی اور فوری ضرورت آن پڑی جس سے دل میں بہت ہی درد پیدا ہوا اور ڈھیروں دعائیں کیں کہ اے خدا یہ تیرا گھر بنانے کے لئے ہم تگ و دو کر رہے ہیں۔ ہم تھکے نہیں ہیں اور نہ ہی ہمت ہاریں گے لیکن اس فوری ضرورت کے لئے اپنے حضور سے کچھ بندوبست فرما۔ اسی شام کو ایک شادی کے موقع پر ایک دوست نے بڑی رقم کا چیک میرے ہاتھ میں تھمایا اور کہا کہ مسجد فنڈ میں اپنا وعدہ پورا کر چکا ہوں اور مجھے علم ہوا ہے کچھ مالی تنگی در پیش ہےاس لئے یہ رقم میری طرف سے بطور قرض مسجد کی تعمیر میں استعمال کریں اور جب مجھے ضرورت ہو گی تو میں واپس لے لوں گا۔ جتنی رقم کی ہمیں اشد ضرورت تھی یہ قرض اس رقم کا قریباً نصف تھی۔ فوراً دل میں خیال آیا کہ خدا تعالیٰ نے دعا کو شرف قبولیت بخشا ہے اور باقی رقم کا بھی خدا تعالیٰ کچھ نہ کچھ بندوبست فرما دے گا۔ اگلے روز پھر سے ایک بار اسی رحمان اور رحیم کے دروازے پر دستک دی۔ نماز کے بعد دل میں ایک دوست کا نام آیا، کیوں نہ میں ان کو فون پر حالات سے آگاہ کروں۔ چنانچہ میں نے ان کو فون کیا۔ کہ کس طرح ہمیں مالی دقت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ سن کر وہ کہنے لگے کہ آج ہی جتنی بھی رقم میرے پاس موجود ہے وہ بذریعہ چیک آپ کو بھجوا دیتا ہوں۔ اگلے روز جب ان کا چیک مجھے موصول ہوا تو وہ اور اس سے پہلے دوست کی دی ہوئی رقم مل کر اتنی ہو گئی جتنی ضرورت تھی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس میں کسی بندے کا دخل ہو سکتا ہے۔ یہ محض خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی مدد تھی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ۔‘‘

(احمدیہ گزٹ کینیڈا اکتوبر 1992ء صفحہ38 اردو حصہ)

تعمیر میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والے مخلصین

مسجد کی تعمیر کے مراحل میں کئی مخلصین کو خدمات سر انجام دینے کی توفیق ملی۔ ان کی خدمات کی تفصیل یہاں بیان کرنا موجب تطویل ہو گا تاہم بعض کے اسمائے گرامی بغرض دعا ذیل میں دیئے جاتے ہیں۔ مولانا نسیم مہدی صاحب (امیر و مبلغ انچارج کینیڈا)، چوہدری نصیر احمد صاحب (پراجیکٹ مینجر)، ڈاکٹر نعیم احمد صاحب، ناصر احمد چیمہ صاحب، محمد اشرف ناظر صاحب، محمد حزقیل خان صاحب، صالح محمد منگلا صاحب، خالد احمد مرزا صاحب، شکیل سعید صاحب، مولانا چوہدری منیر احمد صاحب، سعید احمد قمر صاحب، سفیر احمد قریشی صاحب، ملک خالق داد صاحب، نصیر احمد صاحب، امتیاز احمد صاحب، اعجاز احمد صاحب، سید مبارک احمد صاحب، طاہر احمد صاحب، داؤد صوبی صاحب۔

(احمدیہ گزٹ کینیڈا اکتوبر 1992ء صفحہ53 – 57 اردو حصہ)

مسجد کا افتتاح

آخر مسجد خدا تعالیٰ کے فضل سے تعمیر کے مراحل سے گزرتے ہوئے پائیہ تکمیل کو پہنچی۔ یہ نہایت دیدہ زیب اور شاندار مسجد اُس وقت برّ اعظم امریکہ کی سب سے بڑی مسجد تھی۔

مسجد کے افتتاح کے لئے سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بنفس نفیس کینیڈا تشریف لائے اور مؤرخہ 16؍اکتوبر 1992ء بروز جمعۃ المبارک حضور نے خطبہ جمعہ کے ساتھ مسجد کا افتتاح فرمایا۔ یہیں سے پہلی مرتبہ satellite کے ذریعہ حضورؒ کا خطبہ جمعہ پوری دنیا میں نشر کیا گیا اور اس طرح دنیا کے ایک کنارے سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس خلیفہ کی آواز اور تصویر کُل عالم میں پہنچائی گئی اور ایک لطیف رنگ میں الہام ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ پورا ہوا۔ حضور انور رحمہ اللہ نے فرمایا ’’یہ بہت بڑا اور عظیم مبارک دن ہے جو در حقیقت آئندہ دور کے آغاز کی ایک منزل ہے۔ آگے بہت کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہونے والا ہے۔‘‘

(خطباتِ طاہر جلد11 صفحہ723)

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒکا بصیرت افروز پیغام

حضورؒ نے اپنے روح پرور خطبہ میں خصوصیت سے مساجد کی اصل زینت پر روشنی ڈالی جو اس کے نمازیوں اوران کی عبادتوں سے ہے۔ خطبہ میں حضورؒ نے جماعت احمدیہ کینیڈا کے احباب کو خصوصاً مندرجہ ذیل بصیرت افروز پیغام دیا۔ آپؒ نے فرمایا:
’’اس مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ حقیقت میں جماعت احمدیہ کی ترقی کا راز مساجد میں ہے اور اُن مساجد میں ہے جن کو خدا تعالیٰ کی قائم کردہ شرطوں کے ساتھ آباد کیا جائے …پس جماعت احمدیہ کینیڈا پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ آپ نے یہ جو مسجد بنائی ہے اسے سجانا ابھی باقی ہے۔ اس کی ظاہری ٹیپ ٹاپ اور رنگ و صورت اور شکل جو بنا دی گئی ہے بہت دیدہ زیب ہے اس میں شک نہیں لیکن قرآن کہتا ہے کہ ابھی تمہیں اپنی زینتیں لے کر اس مسجد میں حاضر ہونا ہو گا تبھی یہ مسجد خوبصورت بنے گی۔ پس جماعت احمدیہ کینیڈا کو عبادات کی طرف توجہ کرنی ضروری ہے۔‘‘

(خطباتِ طاہر جلد11 صفحہ731-732)

مسجد کی تعمیر کے 30 سال مکمل ہوئے

بیت الاسلام کی تعمیرکی داستان طویل اور نہایت ایمان افروز ہے۔ یہ تذکرے نہ صرف جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بلکہ تاریخِ عالم میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے اورامید ہے کہ آئندہ آنے والی نسلیں اپنے اسلاف کی قربانیوں اور ان کے نمونوں کو دیکھ کر جہاں ان کے نقوشِ پا پر چلنے کی کوشش کریں گی وہاں اُن کے لئے دعائیں بھی کرنے والی ہوں گی جنہوں نے خالصتاً للہ یہ مسجد تعمیر کی۔ ان شاء اللّٰہ

خدا تعالیٰ کے فضل سے مسجد کی تعمیر کے 30سال مکمل ہو گئے ہیں فَالْحَمْدُ لِلّٰہ۔ کینیڈا کی اس پہلی مسجد کی تعمیر کے بعد جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ’’جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی‘‘ اور اب جماعت ترقیات کی منازل طے کرتی چلی جا رہی ہے۔ اس مسجد کے گرد پیس ویلج کی پُر رونق احمدی آبادی، ایوانِ طاہر اور جامعہ احمدیہ کینیڈا قائم ہیں۔ بریمٹن، سیسکاٹون، ریجائنا، کیلگری اور وینکوور میں باقاعدہ شاندار مساجد بنانے کی توفیق ملی اورملک بھر کے دیگر شہروں میں مساجد قائم ہوئیں اورآئندہ بھی تعمیرِ مساجد کا یہ مبارک سلسلہ جاری رہے گا۔ وَ بِاللّٰہِ التَّوْفِیْق

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کینیڈا کو مساجد کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(فرحان احمد حمزہ قریشی۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

بیت الا حد مارشل آئی لینڈز

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 دسمبر 2022