• 15 مئی, 2024

ساؤتومے و پرنسپ میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد، بیت الرحیم

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ پوری دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اسی طرح جب کسی ملک میں جماعت کا پودا لگتا ہے تو مساجد بنانے کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ ساؤتومے و پرنسپ میں جماعت احمدیہ کا پودا 1999ء میں مکرم حافظ احسان سکندر صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ بینن کے ذریعہ لگا۔ 2018ء میں اللہ تعالیٰ نے ساؤتومے ملک کے ایک گاؤں فرناؤندیاش (Fernao Dias) میں جماعت کو پہلی مسجد بنانے کی توفیق عطاء فرمائی۔ یہ گاؤں ساؤتومے شہر سے 15 کلومیٹر شمال میں بحراوقیانوس کے ساحل پر واقع ہے۔ اس گاؤں کی ایک عورت محترمہ لیزابیل صاحبہ دسمبر 2015ء میں مکرم عبد الرؤف طارق صاحب سابق مبلغ انچارج و نیشنل صدر جماعت ساؤتومے کی تبلیغی کوششوں سے گاؤں کے 23 افراد کے ساتھ جماعت احمدیہ میں شامل ہوئی۔

سنگ بنیاد و افتتاح

21؍فروری 2018ء کو اللہ تعالیٰ کےخاص فضل سے ساؤتومے میں جماعت کی پہلی مسجدبیت الرحیم کا سنگ بنیاد خاکسار انصر عباس مبلغ انچارج و صدر جماعت احمدیہ ساؤتومے نے رکھا۔ 13؍مئی 2018ء کو اس خوبصورت مسجد کا بابرکت افتتاح مکرم ڈاکٹر محمد اطہر زبیر صاحب چیئرمین ہیومینٹی فرسٹ جرمنی نے کیا۔ مسجد کا ہال 6 میٹر چوڑا اور 7 میٹر لمبا ہے اس میں 60 نمازیوں کی گنجائش ہے۔ مسجد کی بنیادیں پکی ہیں اور دیواریں لکڑی سے تیار کی گئی ہیں، چاردیواری بھی بنائی گئی ہے۔ اس مسجدکی تعمیر کا خرچ مکرم ڈاکٹر محمد اطہر زبیر صاحب آف جرمنی، ان کی فیملی اور ان کے دوستوں نے مل کر کیا۔ان کے دوستوں میں مکرم داؤد احمد چیمہ صاحب آف جرمنی نے اپنا نام ظاہر کیا تھا لیکن دوسروں نے نام ظاہر نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اس کا اجر عظیم عطا فرمائےاور اس مسجد کو ہمیشہ آباد رکھے اور اس مسجد کی برکت سے ملک کی تمام سعید روحوں کو مسجد نصیب کرے۔آمین

ساؤتومے کی پہلی مسجد بیت الرحیم فرنندیاس

اس مسجد کے سنگ بنیاد اور افتتاح کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ2018ء یوکے کے دوسرے دن 4؍اگست 2018ء کے خطاب میں فرمایا:
’’مساجد کے تعلق میں جو واقعات ہیں ان میں ساؤتومےمیں اس سال جماعت کی پہلی مسجد کا قیام عمل میں آیا۔یہاں کے مبلغ لکھتے ہیں کہ اس مسجد کی تعمیرساؤتومےکے دارالحکومت سے 15 کلومیٹر دور ایک علاقے فرنندیاس میں ہوئی اور اسی سال 13 مئی کو اس کا افتتاح ہوا۔ جماعت کا وفد مسجد کی تعمیر کے لیے جب لوکل گورنمنٹ سے اجازت لینے کے لیے گیا تو میئر نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم اپنے ملک میں دہشت گردی نہیں چاہتے۔ یہ عیسائیوں کا ملک ہے اور اس میں مسجد بنانے کی کوئی گنجائش نہیں۔اس کے بعد دوسری مرتبہ دوبارہ میئر سے ملاقات کی گئی اور جماعت کا تفصیلی تعارف کروایا تو میئر نے اجازت دے دی اور مسجدکے سنگ بنیاد میں بھی شرکت کی۔میئر نے کہا کہ ہمیں جماعت کی تعلیمات کا کچھ علم نہیں تھا۔بس میڈیا سے سنا تھا کہ اسلام جنگ و قتال کا مذہب ہے۔لیکن اب جماعت احمدیہ کی بدولت پتا چلا کہ اسلام ایک نہایت پرامن اور پیار اور محبت کا مذہب ہے۔ہم جماعت کو پہلی مسجد بنانے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ہماری نیک تمنائیں اس مسجد کے ساتھ ہیں۔ مسجد کی تعمیر کے دوران ایک عیسائی عورت جو بہت زیادہ مخالفت کرتی تھی۔ مسجد میں کام کرنے والے مستریوں، مزدوروں اور احمدی بچوں اورخدام سے کہتی تھی کہ جب تم نے مسجد مکمل کر لی تو مسلمانوں نے تمہیں قتل کر دینا ہے۔اس لیے مسجد میں کام نہ کریں۔یہ دہشت گردی کا مذہب ہے۔کچھ دنوں کے بعد وہ بیمار ہو گئی ان دنوں ہمارےمیڈیکل کیمپ ہو رہے تھے۔ چنانچہ وہ ہمارے میڈیکل کیمپ میں آئی اور اللہ تعالیٰ نے اسے شفاءدی، اس کے بعد سے اس عورت نے مخالفت ترک کر دی۔‘‘

(انصر عباس۔ مبلغ انچارج ساوٴتومے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 دسمبر 2022

اگلا پڑھیں

فقہی کارنر