حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت اویس قرنی کا واقعہ بیان ہوا ہے اس کے بارہ میں تھوڑی سی وضاحت کردوں۔ کہ بعض لوگ اس واقعہ کو غلط رنگ میں اپنی اپنی دلیل دینے لگ جاتے ہیں کہ اگر کہو کہ فلاں دینی کام ہے یا جماعتی ضرورت ہے کچھ وقت دے دو تو والدین کی خدمت کا بہانہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ اپنے دنیاوی کام اسی طرح کر رہے ہوتے ہیں۔ کئی کئی دن والدین کی خبر بھی نہیں لے رہے ہوتے۔ اور جب اپنی دنیاوی ضروریات سے فارغ ہو کر کچھ وقت مل جاتا ہے تو پھر والدہ کے پاس بیٹھ کر اپنے خیال میں خدمت انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ تو یہاں تو یہ ذکر ہے کہ اویس قرنی تو ہر وقت اپنی والدہ کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔ ہر وقت اسی خدمت پر کمر بستہ ہوتے تھے۔ ان کو تو دنیاوی کاموں کی ہوش ہی نہیں تھا کیونکہ ان کے تو اونٹ وغیرہ چرانے اور دوسرے جانور جو تھے ان کا کام بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیا ہوا تھا۔ جیساکہ بیان ہوا ہے کہ میرے کام تو فرشتے کرتے ہیں۔ تو یہ نہیں کہ دنیاوی کاموں کے لئے تو ہمارے پاس وقت ہو اور جب دین کے کام کے لئے ضرورت ہو تو اویس قرنی کی مثالیں دینا شروع کر دیں۔ پھر ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو ماں کی محبت اور خدمت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن جب اپنا مفاد ہو تو ماں باپ سے سخت کلامی سے پیش آتے ہیں۔ اور ماؤں سے غصے کااظہار بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کو بعض دفعہ برا بھلا بھی کہہ رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ ماں باپ کے آگے تو اونچی آواز میں بولنا بھی منع ہے۔ تو بعض دفعہ دینی خدمت نہ کرنے یا بیوی بچوں کے حقوق ادا نہ کرنے کے لئے ماں کی یا باپ کی خدمت کا بہانہ بنایا جاتاہے۔ اس لئے ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہ ماں باپ کی خدمت کے نام پر کہیں نفس دھوکہ تو نہیں دے رہا اور دینی خدمت سے آدمی محروم نہ ہو رہا ہو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شخص کو فرمایا کہ :
’’والدہ کا حق بہت بڑا ہے اور اس کی اطاعت فرض۔ مگر پہلے یہ دریافت کرنا چاہئے کہ آیا اس ناراضگی کی تہہ میں کوئی اور بات تو نہیں ہے۔ جو خدا کے حکم کے بموجب والدہ کی ایسی اطاعت سے بری الذمہ کرتی ہو۔ مثلا اگر والدہ اس سے کسی دینی وجہ سے ناراض ہو یا نماز روزہ کی پابندی کی وجہ سے ایسا کرتی ہو۔ تو اس کا حکم ماننے اور اطاعت کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر کوئی ایسا مشروع امر ممنوع نہیں ہے جب، (بیوی کے بارہ میں پوچھا تھا کہ والدہ یہ کہتی ہے) تو وہ خود (یعنی بیوی) واجب الطلاق ہو جاتی ہے۔
سب سے زیادہ خواہشمند بیٹے کے گھر کی آبادی کی والدہ ہوتی ہے اور اس معاملہ میں ماں کو خاص دلچسپی ہوتی ہے۔ بڑے شوق سے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے خدا خدا کر کے بیٹے کی شادی کرتی ہے تو بھلا اس سے ایسی امید وہم میں بھی آسکتی ہے کہ وہ بے جا طور سے اپنے بیٹے کی بیوی سے لڑے جھگڑے اور خانہ بربادی چاہے۔ …… ایسے بیٹے کی بھی نادانی اور حماقت ہے کہ وہ کہتا ہے کہ والدہ تو ناراض ہے مگر میں ناراض نہیں ہوں۔ …… والدہ اور بیوی کے معاملہ میں اگر کوئی دینی وجہ نہیں تو پھر کیوں یہ ایسی بے ادبی کرتا ہے۔ اگر کوئی وجہ اور باعث اور ہے تو فوراً اسے دور کرنا چاہئے۔ …… بعض عورتیں اوپر سے نرم معلوم ہوتی ہیں مگر اندر ہی اندر وہ بڑی بڑی نیش زنیاں کرتی ہیں۔ پس سبب کو دور کرنا چاہئیے اور جو وجہ ناراضگی ہے اس کو ہٹا دینا چاہئے اور والدہ کو خوش کرنا چاہئیے۔ دیکھو شیر اور بھیڑئیے اور درندے بھی تو ہلائے سے ہل جاتے ہیں اور بے ضرر ہو جاتے ہیں۔ دشمن سے بھی دوستی ہو جاتی ہے اگر صلح کی جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ والدہ کو ناراض رکھا جاوے۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم۔ صفحہ نمبر۴۹۷، ۴۹۸الحکم ۲۶؍ مارچ ۱۹۰۸ء)
مرد تو چونکہ مضبوط اعصاب کا ہوتاہے، قوام ہے اس لئے اگر گھر میں کسی اختلاف کی وجہ بن بھی جائے تو پیار سے محبت سے سمجھاکر حالات کو سنبھالیں۔ اسی طرح جوان بچیاں اور بہوئیں بھی ان کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ بوڑھوں کے اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں اور ان سے اگر کوئی سخت بات بھی ہو تو برداشت کر لیں اور اس وجہ سے برداشت کرلیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنی ہے توپھر خدا طاقت اور ہمت بھی دیتا ہے اور حالات میں سدھار پیدا ہوتا ہے اور ان شاء اللہ ہوتاچلا جائے گا۔
(خطبہ جمعہ 16؍ جنوری 2004ء)