• 11 مئی, 2025

پوری قوم نے جمع ہو کر آپؐ کے صادق القول ہونے پر گواہی دی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر آپؐ کی سچائی کی گواہی صرف اتنی نہیں کہ ایک آدھ مثالیں مختلف طبقات میں سے مل جاتی ہیں بلکہ پوری قوم نے جمع ہو کر آپؐ کے صادق القول ہونے پر گواہی دی ہے۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ (الشعراء: 215) یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہوشیار اور بیدار کر کے احکام اترے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوہ صفا پر چڑھ گئے اور بلند آواز سے پکار کر اور ہر قبیلہ کا نام لے لے کر قریش کو بلایا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپؐ نے فرمایا اے قریش! اگر مَیں تم کو یہ خبر دوں، (یہ بتاؤں) کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا لشکر ہے جو تم پہ حملہ کرنے کو تیار ہے۔ تو کیا تم میری بات کو مانو گے۔ (اور پہاڑی اتنی اونچی نہیں تھی اور) بظاہر یہ ایک بالکل ناقابل قبول بات تھی (لیکن کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بولتا، کبھی کوئی غلط بات نہیں کہہ سکتا) مگر سب نے (یک زبان ہو کر) کہا کہ ہاں ہم ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے تمہیں ہمیشہ صادق القول پایا ہے۔ (ہمیشہ سچی بات کہنے والا پایا ہے) آپؐ نے فرمایا تو پھر سنو، مَیں تم کو خبر دیتا ہوں کہ اللہ کے عذاب کا لشکر تمہارے قریب پہنچ چکا ہے۔ خدا پر ایمان لاؤ تا اس عذاب سے بچ جاؤ۔

(سیرت خاتم النبیین مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 128)

بہرحال یہ باتیں سن کے قریش وہاں سے چلے گئے اور ہنسی مذاق اور ٹھٹھا کرنے لگے، تعلیم کا مذاق اڑایا۔ لیکن اس کے باوجود یہ نہیں کہہ سکے کہ آپؐ جھوٹے ہیں۔ آپ ؐ کو بہت بُرا بھلا کہا اور بھی سخت الفاظ استعمال کئے تھے لیکن یہ نہ کہہ سکے کہ آپؐ ہمیشہ کی طرح جھوٹ بول رہے ہیں۔ اگر منہ سے الفاظ نکلے تو یہی کہ ہمیشہ آپ نے سچ بولا ہے اور یقینا آپؐ سچ بول رہے ہیں۔ آپؐ کی سچائی کا معیار اتنا بلند، واضح اور روشن تھا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا کہ آپؐ پر کوئی جھوٹ بولنے کا الزام لگا سکے، اشارہ بھی کر سکے۔

پھر آپ کے چچا کی ایک گواہی ہے۔ جب محصوری کے زمانے میں، جب شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے تھے۔ تیسرا سال جب ہونے کو آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر ابو طالب کو اطلاع دی کہ بنو ہاشم سے بائیکاٹ کا جو معاہدہ خانہ کعبہ میں لٹکایا ہوا تھا۔ ساروں نے بائیکاٹ کیا تھا اس کا معاہدہ تھا، خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا۔ اس میں سوائے اللہ کے لفظ کے باقی سارا جو معاہدہ ہے اس کو دیمک کھا گئی ہے۔ اور ابو طالب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر اتنا یقین تھا کہ انہوں نے جا کے پہلے اپنے بھائیوں سے کہا کہ خدا کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آج تک کبھی کوئی غلط بات نہیں کی۔ اور یہ اس نے مجھے بتایا ہے اور لازماً یہ بھی سچی بات ہے۔ پھر وہ دوسرے قریش کے سردار وں کے پاس گئے ان کو بھی وہی بات بتائی کہ تمہارے معاہدے کو دیمک کھا گئی ہے۔ اور تم بھی جانتے ہو اور مَیں بھی جانتا ہوں کہ اس نے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ تو جا کر دیکھ لیتے ہیں۔ اگر تو میرا بھتیجا سچا نکلا تو تمہیں بائیکاٹ کا فیصلہ بدلنا ہو گا اور اگر وہ جھوٹا ہوا تو مَیں اسے تمہارے حوالے کر دوں گا۔ جو مرضی سلوک کرنا، قتل کرو یا جو چاہے کرو۔ اور پھر جب وہ وہاں گئے تو دیکھا تو سب کفار نے اس پر رضا مندی کا اظہار کیا کہ واقعی وہاں سوائے اللہ کے لفظ کے باقی سارے معاہدے کو دیمک کھا گئی تھی۔ چنانچہ وہ ختم سمجھا گیا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد ذکر حصر قریش رسول اللہﷺ وبنی ھاشم فی الشعب)

اب بظاہر تو آپؐ کے سچا ہونے کی بات ابو طالب نے کی ہے۔ لیکن تمام سرداران قریش کا خاموش ہو جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کو بھی یقین تھا کہ آپؐ سچ کہنے والے ہیں، بلکہ یہ بھی یقین تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا بھی سچا ہے جس نے یہ خبر دی ہے۔ لیکن خدا کو نہ ماننا، اس کے لئے تو تکبر اور ڈھٹائی تھی جو آڑے آتی تھی۔ کیونکہ اگر یہ یقین نہ ہوتا کہ واقعی کاغذ کو دیمک کھا گئی ہے یا ایسی کوئی بات ہے، خدا نے خبر دی ہے تو ہنسی مذاق میں ٹال سکتے تھے۔ لیکن بڑے سنجیدہ ہو کر سارے وہاں گئے۔

پھر ایک اور مخالف اور اس کی بیوی کی گواہی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ عمرہ کے لئے گئے تو امیہ بن خلف ابو صفوان کے پاس ٹھہرے اور امیہ بن خلف شام جاتے ہوئے سعد کے ہاں مدینہ میں ٹھہرا کرتا تھا۔ بہرحال کہتے ہیں امیہ نے سعد کو کہا آپ انتظار کریں اور جب دوپہر ہو اور لوگ غافل ہو جائیں تو اس وقت عمرہ کر لینا۔ اس وقت کفار کے سامنے کھلے بندوں کر نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ اس دوران کہ جب سعد طواف کر رہے تھے ابو جہل آ گیا اور اس نے کہاکعبہ کا طواف کرنے والا کون شخص ہے۔ انہوں نے کہا مَیں سعد ہوں۔ اس پر ابو جہل نے کہا تم کعبہ کا امن کے ساتھ طواف کر رہے ہو حالانکہ تم نے محمد اور ان کے ساتھیوں کو پناہ دے ر کھی ہے۔ سعد نے کہا ہاں ہم نے ایسا کیا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ ایک دوسرے سے اونچی آواز میں باتیں کرنے لگے۔ اس پر امیہ نے سعد سے کہا ابو الحکم پر آواز ے بلند نہ کرو یہ اس وادی کا سردار ہے۔ سعد نے کہا اللہ کی قسم اگر تم نے مجھے طواف کرنے سے روکا تو مَیں تیری شام کے ساتھ جو تجارت ہے اس میں روک بن جاؤں گا۔ شام کے ساتھ تجارت اس کے رستے سے ہوتی تھی۔ اس پر امیہ، سعد سے کہنے لگا اپنی آواز بلند نہ کرو اور وہ ان کو پکڑ کر روک رہا تھا۔ اس پر سعد ناراض ہو گئے اور کہا مجھے چھوڑ دو۔ مَیں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا ہے کہ تم ان کے ہاتھوں قتل ہونے والے ہو۔ اس پر امیہ نے کہا: کیا مَیں؟ سعد نے کہاہاں ! اس پر امیہ نے کہا اللہ کی قسم محمدؐ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ نہیں بولتا۔ پھر وہ اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ میرے یثربی بھائی نے مجھے کیا کہا ہے۔ اس نے کہا۔ کیا کہا ہے۔ امیہ نے کہا اس نے کہا ہے کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا خیال ہے کہ وہ مجھے قتل کرنے والے ہیں۔ اس پر امیہ کی بیوی نے کہا۔ اللہ کی قسم! محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) جھوٹ نہیں بولتے۔ پھر جب کفار مکہ کی فوج بدر کی طرف جانے لگی تو امیہ کی بیوی نے اس سے کہا کہ تجھے یاد نہیں، تیرے یثربی بھائی نے کیا کہا تھا۔ امیہ نے کہا میں آگے نہیں جاؤں گا۔ لیکن ابو جہل نے امیہ سے کہا کہ تم وادی کے معزز سرداروں میں سے ہو، زبردستی اس کو آگے لے گیا، اور ایک دو دن تک تو ساتھ رہو پھر واپس آ جانا۔ چنانچہ وہ ساتھ ہو لیا اور آخر وہیں بدر میں مارا گیا۔

(بخاری، کتاب المناقب۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام)

تو یہ دیکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر وہ دونوں میاں بیوی نہ صرف خوفزدہ ہو گئے تھے بلکہ یقین تھا کہ ایسا ہی ہو گا۔ اور لاکھ بچنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر اسے بدر کے میدان میں لے گئی۔

(خطبہ جمعہ 11؍ فروری 2005ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جنوری 2021