• 19 اپریل, 2024

دل دعا اور دکھ دیا نہ ہؤا

دل دعا اور دکھ دیا نہ ہؤا
آدمی کیا ہے پھر ہوا نہ ہؤا
دیکھتے رہئے ٹوٹتے رہئے
کیا یہاں ہو رہا ہے کیا نہ ہؤا
لوگ ایسے کبھی دُکھے نہ ہوئے
شہر ایسا کبھی بجھا نہ ہؤا
ہائے اس آدمی کی تنہائی
جس کا اس دنیا میں اک خدا نہ ہؤا
ہائے وہ دل شکستہ تر وہ دل
ٹوٹ کر بھی جو آئینہ نہ ہؤا
جو بھی تھا عشق اپنے حال سے تھا
ایک کا اجر دوسرا نہ ہؤا
اس کو بھی خواب کی طرح دیکھا
جو ہمارے خیال کا نہ ہؤا
جب سمجھنے لگے محبت کو
پھر کسی سے کوئی گلہ نہ ہؤا
دل بہ دل گفتگو ہوئی پھر بھی
کوئی مفہوم تھا ادا نہ ہؤا
کربلا کیا ہے کیا خبر اس کو
جس کے گھر میں یہ واقعہ نہ ہؤا
اور کیا رشتہء وفا ہو گا
یہ اگر رشتہ وفا نہ ہؤا
دیکھ کر حسن اس قیامت کا
جو فنا ہو گیا فنا نہ ہؤا
کوئی تو ایسی بات تھی ہم میں
یونہی یہ عہد مبتلا نہ ہؤا
ایسے لوگوں سے کیا سخن کی داد
حرف ہی جن کا مسئلہ نہ ہؤا
اب غزل ہم کسے سنانے جائیں
آج غالب غزل سرا نہ ہؤا

(1988)
(عبید اللہ علیم ؔ)
(یہ زندگی ہے ہماری۔ نگارِ صبح کی اُمید میں صفحہ29۔31)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جنوری 2021