• 27 جولائی, 2025

تعارف سورۃالجاثیہ (45 ویں سورۃ)

(تعارف سورۃالجاثیہ (45 ویں سورۃ))
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 38 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003)

وقت نزول اور سیاق و سباق

حٰم والے حروف مقطعات کے گروپ میں یہ سورۃ بھی شامل ہے جو مکی دور کی ہے تاہم کوئی معین تاریخ اس سورۃ کے نزول کی وضع نہیں کی جا سکتی۔ اگرچہ نو ڈلکے نے اس سورت کا اکتالیسویں سورت (حم السجدۃ) کے معاً بعد نازل ہونا بتایا ہے۔ اس سورت کا آغاز اس بیان سے ہوا ہے کہ جیسے بارش مردہ زمین کو زندگی بخشتی ہے اسی طرح نبی اس وقت مبعوث ہوتا ہے جب لوگ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ لوگ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکے تھے تو اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے تاکہ انہیں نئی زندگی عطا کرے۔

مضامین کا خلاصہ

گزشتہ پانچ سورتوں کی طرح موجودہ سورت بھی قرآنی وحی اور توحید باری تعالی کے مضمون سے شروع ہوتی ہےجو اس سورت کا مرکزی خیال ہے اور انسان اور جملہ جانوروں کی تخلیق سے اور سبزیوں کی روئیدگی اور شاندار تخلیق کائنات اور اس کی حیرت انگیز ساخت اور ترتیب کو ایک قادر اور بے خطا ذات کی ہستی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اور کفار کو دعوت دیتی ہے کہ ایسی حکیم اور علیم ہستی جس نے انسان کی مادی ضروریات کے لیے زمین پر ایسےشاندار طریق پر سہولیات مہیا کی ہیں وہ ایسی ہی سہولیات ہمیشہ کی زندگی کے لیے مہیا کرنے سے کیوں کر قاصر ہو سکتا ہے؟ انسان کی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وحی کا نزول ہوتا ہے جو رسول پر اترتی ہے تاکہ انسان کے عظیم مقصد پیدائش کے حصول کے لیے موقع مل سکے۔

اس سورت میں آگے چل کر بتایا گیا ہے کہ خدا اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی بھی اخلاقی اور روحانی حیات نو کے نظام میں دخل اندازی کرے اسی لئے وہ کسی جھوٹے مدعی نبوت کو کامیاب نہیں ہونے دیتا اور جلدی یا کچھ مہلت دینےکے بعد جھوٹا مدعی نبوت اپنے بد انجام کو پہنچتا ہے جبکہ آپﷺ کا مشن مستقل ترقی کر رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز جھوٹے نہ ہیں بلکہ اللہ کے سچے رسول ہیں۔

پھر اس سورۃ میں آپ ﷺ کی سچائی اور برحق ہونے کی ایک اور دلیل یوں دی گئی ہے کہ جملہ نظام کائنات آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تائید و نصرت میں لگا ہوا ہے۔ اس لیے یہ سلسلہ لازماً کامیاب و کامران ہوگا۔ بعد ازاں حضرت موسیٰ علیہ سلام کے سلسلے کا مختصر ذکر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ قرآنی وحی کا نزول اس لیے ہوا ہے کہ تورات انسان کی روحانی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ یہ (قرآنی وحی) تورات کی پیشگوئی کو بھی پورا کرتی ہے جو بنی اسرائیل کے بھائیوں میں ایک نبی کے برپا ہونے کے متعلق ہے (استثناء 18/18)۔

پھر اس سورۃ میں کفار کو بتایا گیا ہے کہ خدا نے انسان کو ایک عظیم اور نیک مقصد کے ساتھ پیدا کیا ہے اسی لیے ایک بہتر اور بھرپور زندگی جو ہمیشگی والی ہے اگلے جہان میں انسان کے انتظار میں ہے۔ صرف یہی ایک طریق ہے جس پر انسان کی پیدائش کے مقصد کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس سورت کا اختتام نہایت مختصر مگر مؤثر رنگ میں قیامت کے روز کے بیان پر ہوا ہے۔ مگر اس دن کے آنے سے پہلےکفار کو اس دنیاوی زندگی میں ایک وضاحت دینی ہوگی کہ انہوں نے کیونکر خدا کے نبیوں کی مخالفت کی اور انہیں جھٹلایا۔ انہیں تنبیہہ کی گئی ہے کہ اگر انہوں نے توبہ نہ کی اور اپنے رویے نہ بدلے تو رسوائی اور ذلت والی زندگی ان کا مقدر ہوگی۔

(ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جنوری 2021