استاذی المحترم حضرت سید میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوه سے متعلق سنہری یادیں
(قسط 4، آخری)
- ایك دفعہ خاکسار کو گھڑی پہننےكا شوق پیدا ہوا۔ كسی سے مانگ كر پہنی تھی۔ كہنے لگے كس سے لی ہے؟ میں نے كہا برادرم جلال شمس كی ہے۔ فرمایاکہ اچھا لائلپور جاؤاوروہاں سے سیٹیزن كی گھڑی پسند کرکے لے لو۔ 100 روپیہ دیا۔ 90 روپے كی سنہری ڈائل والی گھڑی خریدی اور پہنی اور شوق پورا ہوا۔ حضرت میر صاحب كا یہ گرانقدر تحفہ سالوں سال میرے پاس رہا۔ نماز كے وقت وضو كیلئے اتارتا تو میر صاحب یاد آتے اور دل سے ان كیلئے دعا نكلتی۔ ان كی دعاؤں سے ہی تو ہم بڑے ہوئے۔
- دوبار ہائیكنگ پر بھجوایا اور خرچ بھی دیا۔ ہم تو سرگودھا بھی نہیں جاسكتے تھے۔ یہ ان كا احسان تھا كہ ہم نے باہر كی دنیا بھی دیكھی تاکہ ہم قدرتی مناظر دیكھ كر مالكِ قدرت كی حسین وادیوں، سبزه زاروں اور برف پوش چوٹیوں اور بہتے پانی كے چشموں اور مچھلیوں سے بھری جھیلوں كے نظارے كریں اور تدبر كریں ۔ الحمد لله
میر صاحب كی وجہ سے مری، بوربن، ٹھنڈیانی، موسیٰ كا مصلیٰ، جھیل سیف الملوك، گلگت، شڑاںاورایبٹ آباد وغیره كی سیر كی۔اور دنیا كے خوبصورت جنگلات دیكھے اور دل ودماغ حمد باری تعالیٰ سے جھوم اٹھے۔ كمال ہے قدرت كا۔ اس نے ہمارے لئےكیاكیا پیدا كیا ہے ۔ اوریہ خوبصورت علاقےبن مانگے دیے ہیں ۔
- نئے مربیان كی ڈیوٹی مختلف محلوں میں درس دینے پر لگی۔ میرے حصہ میں دا رالنصر میں پہاڑی كے قریب والی مسجد آئی جس كے صدر مكرم ابراہیم بھامڑی صاحب ٹیچر ٹی آئی ہائی سكول تھے۔اس علاقہ میں مکرم پروفیسر خان نصیر خان صاحب كی كوٹھی بھی تھی۔ وه بڑے پایہ كے ادیب اور صاحبِ علم انسان تھے۔ درس دینا شروع كیا۔ دن گزرتے گئے۔ الله الله كركے مہینہ مكمل ہوا۔ ایك دن میر صاحب میری قیام گاه محلہ دارالبركات تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ میں نے آپ كی ساری كلاس كا مختلف محلوں میں جا كر درس سنا ہے اور درس كا جائزه لیا ہے۔ الحمد لله مجھے خوشی ہے كہ تم لوگوں نے تیاری كر كے درس دیا ہے۔ بہت اچھا ہے۔ میدانِ عمل میں یہی تفسیر صغیر تفسیری نوٹس والی اپنے پاس ركھنا۔ فرمانے لگے کہ ایك دن تمہارا درس بھی سنا تھا۔ الحمد لله اچھی رائے دی اور حوصلہ افزائی فرمائی۔ درس كے بعد روزانہ صدر محلہ مكرم بھامڑی صاحب پكڑ لیتے تھے اور اپنا درس دینے لگتے تھے۔ وه بھی صاحبِ علم استاد تھے۔ حوصلہ افزائی بھی كرتے۔ بڑا دوستانہ مزاج تھا، رونقی انسان تھے۔ اپنے تجارب اور لطائف بھی بیان كرتے۔ لمبی عمر پائی۔ حضرت میر صاحب كی خوبی تھی كہ سلسلہ كے دیرینہ علماء كا بہت احترام كرتے تھے اور ان كی نمایاں خوبیوں كا ذكر كركے ذہن نشین كرادیتے تھے۔ چند مثالیں لكھتا ہوں۔
1۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب كے متعلق بتایا كہ ان كی اردو تحریر زبردست ہے اور جماعتی تاریخ اور لٹریچر اس بات كا گواه ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام كی تحریرات كا رنگ لیے ہوئے ہے۔ یہ بزرگ ہستی صاحبِ كشوف ہےاسی لئے قمر الانبیاء كا نام پایا۔ یہ سن كر مجھے بھی ان سے محبت ہوگئی۔ الحمد لله
2۔ مکرم مہاشہ عمر صاحب فضلِ عمر ہسپتال میں صاحبِ فراش تھے۔ میر صاحب کو ان كی تیمارداری كرنی تھی تومجھے بھی ساتھ لے گئے۔ مریض تو بولنے سے بھی قاصر تھا، بمشكل چند باتیں كیں۔ حضرت میر صاحب نے بتایا كہ یہ ہماری جماعت میں ہندو مت كے عالم ہیں۔ انہوں نے جوانی میں اس محاذ پر بہت خدمات سرانجام دی ہیں۔ اس دن سے مجھے ان كی اولاد سے بھی ایك تعلق ہے۔ كرائیڈن جماعت میں مکرم محمد احمد مہاشہ صاحب اور مکرم نصیر احمد مہاشہ صاحب اور محترم غازی صاحب كی بیگم بنت مہاشہ عمر صاحب قابلِ احترام ہیں۔
3۔ جلسہ سالانہ كے ایام میں فرمایا كہ محترم شیخ مبارك احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ كی تقریر ہے۔ ضرور سنیں، بہت عمده تقریر كرتے ہیں۔ شیخ صاحب كے ماتحت كام كرنے كی توفیق بھی ملی۔ بہت اعلیٰ تقریر كرتے اور اچھی تقریر كی داد بھی دیتے۔ اپنے زمانہ میں وه ہمیشہ مبلغین كو تقریر كا موقعہ دیتے تھے۔ جلسہ سالانہ یوكے میں مبلغین كی تقاریر ہوتیں۔
4۔ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب كی وفات سرگودھا میں ہارٹ اٹیك سے ہوئی۔ جنازه ربوه لایا گیا۔ تدفین ہوئی۔ ان كی اولاد سےآپ نے شفقت كی اورتعزیت كركے حوصلہ دیانیزمہمانوں كو سنبھالا۔ مجھے یاد ہے كہ مکرم منیر الدین شمس صاحب جو اس وقت جامعہ كے طالبعلم تھے، کو آپ نے باربار گلے لگا كردلاسا دیا۔
فرماتے تھے كہ مكرم شمس صاحب مرحوم یونہی خالدِ احمدیت نہیں بن گئے۔ ایك لمبا تجربہ اور وسیع مطالعہ كے بعد بے بدل مناظربنے اور حضرت مصلح موعودؓكے سلطانِ نصیر بنے۔
5۔ اسی طرح حضرت مولانا ابو العطاء صاحب كی عزت كرتے ۔ ان كے رسالہ ’’الفرقان‘‘ كی مدد كرتے اور ٹی آئی كالج میں ان كو لیكچر كیلئے بلاتے۔ جامعہ كے علمی مقابلوں میں بھی مہمانِ خصوصی كے طور پر دعوت دیتے۔ یہ بھی خالدِا حمدیت تھے۔ تقریر اور عربی زبان كے ماہر، خلافت كے شیدائی اور میر صاحب كے گرویده تھے۔
- میر صاحب كو تصویر كا بھی بہت شوق تھا۔ گھڑ میں بیٹھے بیٹھے معلوم نہیں كیا یاد آیا كہ اپنے ساتھ میری بھی تصویر كھنچوائی۔ میں نے عرض کی کہ ٹوپی پہن لوں۔ فرمایا کہ رہنے دو میں بھی ٹوپی كے بغیر ہوں ۔ احباب یہ تصویر كتاب سیرت داؤد كے صفحہ 235 پر ملاحظہ فرما سكتے ہیں۔
- حضرت میر صاحب كو اپنے بھائی بہنوں سے بھی بےحد پیار تھا۔ ایك دن بہت افسرده اور غم میں ڈوبے ہوئے تھے۔ پتہ چلا كہ مکرم میر مسعود صاحب كے ہاں جو بیٹا پیدا ہوا ہے وه الله تعالیٰ كو پیارا ہو گیا ہے۔ مکرم میر مسعود صاحب اس وقت ناروے اور سویڈن میں مبلغ تھے۔ تعزیت كیلئے حاضر ہوا تو جذبات پر قابو پاتے ہوئے فرمانے لگے۔مبلغین كو ایسے حالات سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ صبر كا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ اس بچہ كی وفات كے بعد الله تعالیٰ نے حضرت میر مسعود احمد صاحب كو اور بچوں سے نوازا۔ عزیزم ڈاكٹر میر مشہود صاحب انہی كے صاحبزادے ہیں جو فضل عمر ہسپتال میں خدمتِ انسانیت میں مصروف ہیں۔
- ایك دن مکرم سید جلید احمد صاحب ابن مکرم سید میجر سید سعید احمد صاحب كسی كام كی غرض سے ملنے آئے۔ میں بھی موجود تھا۔ ان كےجانے كے بعد فرمایا کہ دعا كرنا اس كی ایك بہن كا قد چھوٹا ہے۔ بچیوں كیلئے چھوٹا قد فكر والی بات ہوتی ہے۔ مکرم سید جلید صاحب حضرت میر صاحب كے بھانجے ہیں۔ مذاق میں ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس كتنی نكریں ہیں۔ ان كی عمر 10سال ہو گی۔ اس نے پتہ نہیں كتنے بتائے۔ بڑے پیار سے كہنے لگےكہ ببّی كے پاس تو گویا ڈھیروں ڈھیر ہیں۔ یہ بہن کے بچوں سے پیار تھا۔ مکرم سید جلید صاحب بعد میں اعلیٰ تعلیم كے بعد سیرالیون میں احمدیہ سكول كے پرنسپل بنے۔ آجكل نصرت جہاں اكیڈمی ربوه كے پرنسپل ہیں۔ ان كے چھوٹے بھائی مکرم سید حسین احمد صاحب جو حضرت مولانا عبد المالك خان صاحب كے داماد ہیں، ماریشس کے مبلغ بنے۔
- حضرت میر صاحب ایك علمی شخصیت تھے۔ لكھائی پڑھائی ان كی سرشت میں تھی۔ ایك دن میں نے دیكھا كہ بہت سے نوٹس اور كاغذات ایك میز پر بكھرے پڑے ہیں اور آپ كی ذاتی گھریلو لائبریری بڑے قرینہ سے سجائی ہوئی ہے۔ دریافت كرنے پر بتایا گیا كہ وه ایك كتاب حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اپنی تحریروں كی رو سے كی تصنیف میں كوشاں ہیں۔فرمانے لگے کہ گرمیوں كی تعطیلات میں مكمل كرنے كا اراده ہے۔ مكرم بشیر احمد اختر صاحب جو ان دنوں درجہ شاہد كے طالبعلم تھے اور بہت خوبصورت ہینڈ رائٹنگ كے مالك تھے وه آپ كے معاون ہیں۔ حضرت میر صاحب حقیقت میں ان كی مالی معاونت بھی كرنا چاہتے تھے۔ مکرم بشیر اختر صاحب گوجرانوالہ كے بہت ہی لائق طالبعلم تھے۔ میں بھی ان كے گروپ صداقت میں تھا۔ یہ ہمارے صدر تھے۔ ہوسٹل فیلو بھی تھے۔ انہوں نے اس علمی كام كے حوالے نكالنے اور ترتیب دینے میں مدد دی اور تعطیلات كے دورانِ حسب پروگرام یہ كام پایۂ تكمیل كو پہنچا اور میر صاحب نے انہیں انعام واكرام سے نوازا۔
مکرم میر صاحب كا یہ علمی كارنامہ تا قیامت میر صاحب کی طرف سے صدقہ جاریہ كے طور پر رہے گا۔ ہر مبلغ كی لائبریری میں یہ كتاب ہونی ضروری ہے۔ عشقِ الہٰی، عشقِ رسولؐ،عشقِ قرآن سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام كی تحریرات اس میں یكجا كر دی گئی ہیں۔
- حضرت میر صاحب كو اپنے والدین حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ اور حضرت صالحہ بیگم صاحبہ سے بےحد پیار تھا۔ حضرت والده صاحبہ سے اس لئے كہ وه حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ آف لدھیانہ كے بیٹے حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ كی صاحبزادی تھیں۔ حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ كے طویلہ میں ہی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چلہ كیا تھا ۔ حضرت صوفی صاحبؓ ایك بزرگ اور ولی الله انسان تھے۔انہوں نے ہی یہ مشہور زمانہ شعر كہا تھا:
ہم مریضوں كی ہے تمہی پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا كے لیے
حضرت میر داؤد احمد صاحب نے ایك دن بتایا كہ بی بی ایك دن چِك كمره میں لگانے كیلئے لائیں۔ میں نے كہا كہ اگر امی كے كمره میں بھی لگانے كیلئے ہے تو پھر اپنے كمره میں لگا لیںورنہ رہنے دیں۔ آپ حضرت والده صاحب كی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں كا بھی خیال ركھتے۔ ایك قرآن جو وه تلاوت كرتی تھیں اس پر كچھ نوٹس بھی تھے، بڑا سنبھال كر ركھا ہوا تھا۔ فرماتے تھے كہ یہ امی كی نشانی ہے۔ اسی طرح حضرت میر اسحاق صاحب كے نوٹس والا قرآن كریم بھی گھر میں تھا۔ بےحد محبت اور احترام سے ان كانام لیتے۔ ایك دن یاد كرتے ہوئے آواز بھرا گئی۔ كسی بات پر وه زخم یاد آگئے۔ فرمانے لگے كہ میرے پاس تو وه دل ہی نہیں ہے ورنہ اس پرتم كو داغوں كی بہار دكھاتا۔
٭ ایك دفعہ حضرت خلیفہ ثالث رحمہ الله كے دورهٔ افریقہ1970ء كے معاً بعد تین مربیان مرزا برادران (مرزا عبد اللطیف، مرزا سلیم، مرزا شفیق) كے اخراج كا مسجد مبارك ربوه میں اعلان ہوا۔ اور فوری طور پر نظارت اصلاح وارشاد اور نظارت امور عامہ كو ہدایت ہوئی كہ ان كو ربوه سے باہر جانے كا آرڈر پہنچایا جائے۔ ان كے اچانك اخراج سے سامعین كو حیرت ہوئی اور تجسس ہوا كیونكہ یہ تینوں بھائی لائق فائق تھے۔ مرزا لطیف تجربہ كار سینئر مربی تھا۔ مرزاسلیم بھی بڑا اچھا مقرر سمجھا جاتا تھا اور مرزا شفیق تو ابھی ایك دو سال قبل جامعہ سے فارغ ہوا تھا۔ اس كی علمی قابلیت وغیره كا سب طلبہ كو علم تھا۔ كسی كو كچھ سمجھ نہیں آرہی تھی كہ كیا ہوا ہے۔ گومگو كی كیفیت تھی۔
خاکسار حضرت میر صاحب كے گھر گیا اور حضرت میر صاحب سے پوچھا كہ یہ كیا واقعہ ہوا ہے؟ حقیقت كیا ہے؟ حضرت میر صاحب نے ایك خط كی كاپی دكھائی جس میں بڑی خطرناك تحریر تھی كہ مرزا شفیق دعا كرتا ہے كہ معاذاللہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب كا مغربی افریقہ كے دوره پر جہاز كریش ہوجائے۔ یہ خلیفۂ وقت اور جماعت سے اپنے شدید بغض اور عناد كا اظہار تھا۔ جب یہ خط حضورؓ نے ملاحظہ فرمایا تو پھر ایسے لوگوں كو جماعت میں رہنے كا كوئی حق نہیں ہے۔ یہ خط جسے لکھا گیا تھا وه مرزا سلیم تھا۔ مرزالطیف كو ان كے كینہ اور بغض كا علم تھا اس لیے انكوائری ہوئی تو تینوں ملوث پائے گئے۔
حضرت میر صاحب فرمانے لگے اچھا ہوا ہے کہ اخراج ہو گیا ہے اور خود ہی نكل گئے ہیں۔ ورنہ میں سوچ رہا تھا كہ ان میں سے کسی ایك كو بیرون ملك بھجوانے كی سفارش كرتا ہوں۔ یہ لوگ فتح پورضلع گجرات كے رہائشی تھے۔ ان كے والد معلم سلسلہ تھے۔ ان تینوں كا اخراج ہوا۔ ان كے گاؤں سے ہی مکرم مرزا اقبال صاحب، مکرم عبدالرزاق گجراتی صاحب اور مکرم منور خورشید صاحب مبلغ بنے اور خدمت بجا لانے كی سعادت پائی۔
جو جماعت اور خلافت كا وفادار ہوتا ہے وہی منزل مقصود تك پہنچتا ہے۔ یہ تینوں مر چكے ہیں اور ان كا معاملہ خدا كے ہاتھ میں ہے۔مرزا شفیق تو چند ماه قبل لاہور كی شاہراه پر سكوٹر كی ٹكر سے ہلاک ہوا۔ حامد میر اور ہارون الرشید وغیره نے كالم بھی لكھے تھے كیونكہ وه خودبھی اخبار جنگ میں ملازم تھا۔
حضرت میر داؤد احمد صاحب قرآن وحدیث كے عالم اور عاشق تھے۔ جامعہ كے طلبہ كے متعلق آپ كو گمان ہونے لگا كہ ان كے تفسیر القرآن كے پرچوں كے جواب بہت طویل ہوتے ہیں اور تفسیر كھل كر بیان كرتے ہیں۔ فرمایا کہ اصل میں تو ان كو قرآن كا ترجمہ آنا چاہیے۔ میر صاحب كے والد حضرت میر محمد اسحاق صاحب كا ترجمہ ٔقرآن جماعت میں بڑا مقبول تھا۔ استاذی المحترم میر محمود احمد صاحب كو بھی ترجمہ میں بڑی مہارت تھی۔حضرت میر صاحب نے ہماری آخری كلاس یعنی درجہ شاہد كا ترجمہ قرآن كا ٹیسٹ لینا شروع كر دیا اور پاسنگ ماركس 90 فیصد مقرر كیے۔ ان ٹیسٹوں كا طلبہ كو بہت فائده ہوا۔ چند ایك طلبہ پاس ہو جاتےجبکہ دوسروں كو محنت كرنی پڑتی اور فائنل امتحان تك پہنچتے پہنچتے، ترجمۃ القرآن میں مہارت پیدا ہو گئی۔الحمدلله۔ اس طرح میر صاحب نے ہماری كمزوری اور كمی پوری فرما كر ہم پر احسان عظیم فرمایا ورنہ ہم نے تفسیر پر ہی زور دینا تھا۔ اصل یہ ہے كہ صحیح معنوں میں ترجمہ آنا چاہیے اور پھر تفسیر۔ میدانِ عمل میں بھی صحیح تلفظ كے ساتھ خوبصورت قرأت بہت فائده دیتی ہے۔ جماعتوں كی یہ بنیادی ضرورت ہے۔ تعلیم وتربیت میں دونوں چیزیں كام آتی ہیں۔ تفسیری نوٹس تو اس زمانہ میں علمائے سلسلہ كے درس القرآن سے ہی بنده سیكھ سكتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے كیا خوب فرمایا:
؎دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں كے گرد گھوموں كعبہ مرا یہی ہے
- رمضان المبارك میں حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ كا مسجد مبارك ربوه میں درس القرآن تھا۔ تلاوت كیلئے قاری محمد عاشق صاحب كو لگا دیا۔خاكسار حضرت میر صاحب كے پاس تھا آپ نے جلدی جلدی ایك رقعہ لكھا اور فرمایا كہ یہ مولانا شمس صاحب كو دو اور جواب لے آؤ۔ لكھا تھا كہ ہم آپ كا درس سننے كیلئے مسجد مبارك میں بیٹھے ہیں اور آپ كی ہی تلاوت سنیں گے۔ براه كرم یہ نئی رسم نہ ڈالیں۔ آپ نے رقعہ لكھا اور اس كا جواب كہ ’’ٹھیك ہے‘‘ وصول پا كر تسلی كا سانس لیا۔ قاری صاحب نئے نئے بیعت كے بعد ربوه آئے تھے۔ اور نماز تراویح مسجد ناصر دار الرحمت غربی میں پڑھاتے تھے۔بہت عمده تلاوت اور قرأت تھی۔ہم بھی جامعہ كےبعض طلبہ بعض اوقات بڑے شوق سے ان كے پیچھے تراویح پڑھنے جاتے تھے۔
حضرت میر صاحب كی نگاه بڑی دور بین تھی۔نئے احمدی كو اتنی جلدی اتنی اہم جگہ پر تلاوت كیلئےیا كسی دوسری ڈیوٹی پر لگا دینا خلاف حكمت سمجھتے تھے۔ خواه جماعت كا كوئی كتنا بڑا عالم ہویا افسر ہو اُسے فوراً روك دیتے تھے اور خود سے غلطی ہو جائے تو فوراً معافی بھی مانگ لیتے تھے۔
فرمانے لگے کہ ایك میٹنگ میں مكرم نسیم سیفی صاحب كی كسی بات پر میں ہنس پڑا۔ مکرم سیفی صاحب نے مائنڈ كیااور مجھے مخاطب ہو كركہاكہ میر صاحب! میں بھی میٹنگ كا ایك ممبر ہوں۔ مجھے بھی بولنے كا حق ہے جیسے آپ كو لیكن آپ كو میری بات پر ہنسنے كا كوئی حق نہیں ہے۔ بات مکرم سیفی صاحب كی درست تھی اس لئے میں نے فوراً معافی مانگ لی۔ میٹنگ ایجنڈے كے مطابق چلتی رہی اور اختتام پذیر ہوئی۔
- ایك سال دو نَو احمدی طلبہ جامعہ میں داخل ہوئے۔یہ دوسرے مدرسوں سےآئے تھے۔تقریر اچھی كر لیتے تھے لیكن جامعہ كے بعض مضامین میں بہت كمزور تھے۔ ویسے بھی وه ایڈجسٹ نہیں ہو رہے تھے۔ كبھی وقف جدید كے دفتر میں جاکر حضرت مرزا طاہر احمد صاحب سے یا كبھی پرائیویٹ سیكرٹری كے دفتر میں جاكر پیسے كا مطالبہ كرنا۔ ایك آدھ دفعہ تو چلو ہوا لیكن عادت ہی بنا لینا۔ حضرت میرصاحب كو ان كی عادت بہت بری لگی۔ اگر كوئی وظیفہ پر قناعت نہیں كرسكتا تو كل كو میدانِ عمل میں كیا كرے گا۔ سال ڈیڑھ سال بعد ہی میر صاحب نے ا نہیں فارغ كر دیا۔ ایك تو خود ہی چلا گیا۔ اس نے ڈرامہ رچایا تھا كہ منظور چنیوٹی كے طلبہ مجھے مار گئے ہیں اور رسیوں سے باندھ كر ریلوے لائن پر چھوڑ گئے ہیں۔ ہمیں اطلاع ملی تو مکرم داؤد حنیف صاحب اورمکرم آغا سیف الله صاحب وغیره صبح صبح چنیوٹی كے گھر پہنچ گئے۔ چنیوٹی نے پہلی دفعہ سچ بتا دیا كہ غلام رسول خطیب تو ہے ہی ایسا ڈرامے باز، وه پیسے مانگتا ہوگا۔ خیر میر صاحب كو رپورٹ دی گئی تو آپ نے شكركیا كہ خس كم جہاں پاك۔ آئنده كیلئے اصول بنا دیا كہ مدرسوں سے آئے ہوئے نَواحمدی طلبہ كوآئنده سے جامعہ میں داخلہ نہیں دینا كیونكہ وه اپنی پرانی عادتوں كی وجہ سے جامعہ كے ماحول میں ایڈجسٹ نہیں ہو سكتے بلكہ دوسرے طلبہ كو بھی ڈسٹرب كرتے ہیں۔ وقفِ جدید كو بھی خط كی ایك كاپی بھجوادی گئی۔
پہلے بھی میں نے عرض كیا تھا كہ حضرت میر صاحب كو حقیقی ضرورتمندوں كی ضرورتوں كو پورا كرنے میں بڑی راحت محسوس ہوتی تھی۔ اور ان كی خوشی میں شامل ہوتے۔ مكرم ڈاكٹر عبد الغفار صاحب پی ایچ ڈی تركی زبان كی شادی پربارات سرگودھا كے كسی چك جانی تھی۔میر صاحب نے ایك دن پہلے بلا كر ہدایت دی اور رقم دی كہ بارات ریل گاڑی كے ذریعہ وہاں جائے گی اور تمہاری ذمہ داری ہے كہ غفار كی بارات اور مہمانوں كا دوران سفر ریل گاڑی میں ان كو بوتلیں پانی وغیره كا پوچھنے جانا۔ ان کے عزیز بہاولنگر سے آئے ہوئے تھے۔ الحمد لله خیال ركھنے كی توفیق ملی۔ حضرت میر صاحب كی شفقت بھری نگاه كا یہ كمال تھا۔ خاكسار اور برادرم ناصر شمس صاحب حضرت میر صاحب كے ساتھ ساتھ تھے۔
دیہات كے لوگوں نے بڑا اچھا استقبال كیااور ہمارے بچھائی گئی درختوں كے سائے تلے چارپائیاں بچھائی گئی تھیں۔ اس گھر میں اس دن دو باراتیں آئیں تھیں۔رخصتی كے وقت ہم نے دیكھا كہ برادرم غفار صاحب كے سسر بیٹی كی جدائی سے جذبات پر قابو نہ ركھ سكے اور روپڑے۔ حضرت میر صاحب كی آنكھیں بھی ڈبڈبا گئیں۔ فرمانے لگےکہ محبت دو گے تو محبت لو گے۔ دوسرے دن دعوتِ ولیمہ تھی۔ اس كے انچارج مكرم منور صدیق صاحب تھے اور حضرت میر صاحب كی ہدایت پر عمده طریق پر دعوتِ ولیمہ ہوئی۔ مکرم عبد الغفار صاحب بھی میر صاحب كے بڑے پسندیده شاگرد تھے۔
- ایك دفعہ ایوان محمود ہال میں مجلس انصار اللہ كے تحت حضورؒ كی دعوت تھی۔ حضورؒ والے ٹیبل پر بھی جامعہ كے طلبہ ہی كھانا پیش كر رہے تھے۔ حضورؒ كے تشریف لے جانے كے بعد خدام تبرك كھانے لگے۔ ایك خادم جس كا تعلق جامعہ سے تھا وه پلیٹ اٹھا كر مع تبرك اپنے ہاں جہاں وه رہتا تھا، لے گیا۔ حضرت میر صاحب كو كسی نے شكایت كر دی كہ وہ پلیٹ لے گیا تھا۔ حضرت میر صاحب نے اس طریق كو ناپسند فرمایا۔ اسے بلایا اور پلیٹ بھی واپس منگوائی اور سب خدام كے سامنے فرمایا كہ اس طرح تبرك نہیں رہتا۔تبرك وه ہے جو پلیٹ میں تھا اور جس كو ٹیبل كا انچارج حصہ رسدی كے مطابق تقسیم كر رہا تھا۔ یہ چوری كے زمره میں آتا ہےپس اس طرح تبرك نہیں رہتا۔ہم سب كو میر صاحب زندگی بھر كیلئے سبق سكھا گئے۔
ایك دفعہ خدام الاحمدیہ كے اجتماع کے موقع پر جامعہ احمدیہ كی گراؤنڈ میں لمبی چھلانگ كا مقابلہ تھا۔ میری باری آئی تو قدم نہ اٹھا اور جمپ تقریباً ساڑھے 16 فٹ لگا۔ كوالیفائی تو كر گیا۔حضرت میر صاحب بھی دیكھ رہے تھے۔ كہنے لگےكیا ہوا لگتا ہے بوڑھے ہو گئے ہو۔ اس مقابلہ كے جج محترم فضل الہٰی بشیر صاحب مبلغ سلسلہ تھے۔ محترم فضل الہٰی صاحب فرمانے لگے کہ ان كا جمپ 18 فٹ ہوتا تھا۔ خیر! دوسری دفعہ خدا كے فضل سے میرا قدم غیر معمولی اٹھ گیااور جمپ 21.7 فٹ تك سب سے آگے چلا گیا۔ حضرت میر صاحب اور میرے دوستوں مكرم صدیق منور صاحب اور مكرم الله بخش صادق صاحب كو بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے میری حوصلہ افزائی كیلئے تھاپی دی۔ مجھے یہ تھا كہ میرے سرپرست حضرت میر صاحب دیكھ رہے ہیں اور اوپر سے جج صاحب بھی اپنی چھلانگ كا بتا رہے ہیں۔ الحمد لله کہ الله تعالیٰ نے عزت ركھ لی اور میں اول قرار پایا۔ اسی طرح كئی اور ایوارڈزبھی لیے۔ 100 میٹر دوڑ میں جب 10سیکنڈکاریکارڈخاکسارنےبتایاتوحضرت میرصاحب نےبہت داددی۔الحمداللہ۔حضرت میر صاحب ہر قسم كے مقابلوں میں جامعہ کے طلبہ كی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ ہم طلبہ تحدیثِ نعمت كے طور پر ہر چیز كو بیان كرتے تھے۔ ورنہ مَیں اور تكبر تو سب سے بری چیز ہے۔ اس لعنت سے حضرت میر صاحب كو نفرت تھی اور طلبہ میں بھی نہیں دیكھنا چاہتے تھے۔ الحمد لله اس متكبرانہ قسم كی سوچ اور گفتگو سے ہمیشہ دور رہنے كی كوشش كی ہے۔ ورنہ یہ كیڑا ہر شخص میں ہے۔
تكبر عزازیل را خوارکر
عاجزانہ راہوں پر ڈالنے والے حضرت میر صاحب تھے۔
- سنہ 1971 میں ہم مجاہد فورس میں دریائے چناب كے پل پر ڈیوٹی دے رہے تھےکہ ایك دردناك حادثہ ہوا۔ ہمارے مجاہد بھائی مكرم مبارك احمد بھٹی صاحب دریائےچناب كے پاس ریلوے كراسنگ سے گزر رہے تھے كہ ٹرین آگئی اوران سے ٹكرا گئے جس کےنتیجہ میںوہ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔انا لله وانا الیہ راجعون۔ ہم سب جو ان كی بٹالین میں تھے غمزده ہو گئے۔ حضرت میر صاحب نے بھی سب سے زیاده غم لیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ كو اطلاع ہوئی تو آپؒ نے ان کاجنازه پڑھایا۔ فوج كے افسران بھی وہاں تھے۔ انہوں نے اپنے فوجی اعزاز سے نوازا۔ مرحوم بہت اعلیٰ اخلاق كے مالك تھے۔ الله تعالیٰ ان كے درجات بلند فرمائے۔ آمین
ایك دن بھوك اور كھانے كے ذائقہ پر بات چل نكلی تو فرمانے لگے کہ جب بھوك لگےتو اس وقت جو بھی چیز كھانے كیلئے مل جائے وہی لذیذ لگتی ہے۔ جوچیز بھوك مٹانے كیلئے عین وقت پر میسرا ٓجائے وه پسندیده ہوتی ہے۔ آپ نے مثال سے واضح كیا۔ فرمانے لگے ایك دفعہ میاں رفیع احمد صاحب اور میں سندھ جماعتی دوره پر گئے۔ ہماری سواری ایك جگہ ركی تو میرے دل میں خیال آیا كہ منزل ابھی دور ہے۔ پتہ نہیں راستے میں كچھ کھانےکوملے یانہ۔بہتر ہے میں یہیں كسی دكان سے كوئی كھانے كی چیز خریدلوں۔ جب دیكھا تو دكان پر كچھ بھی نہیں تھاصرف ایك چھابڑی پر چاولوں كی پھلیوں سے بنا ہوا مرونڈا تھا اور وه بھی گردوغبا ر میں اٹا ہوا۔ میں نے وهی خرید لیا كہ کچھ نہ ہونے سے تو بہتر ہے۔ میاں رفیع احمد صاحب كہنے لگے چھوڑو كیا خریدنے لگے ہو۔ لیكن میں نے ان كے منع كرنے كے باوجود خرید لیا اور بیگ میں سنبھال لیا۔ راستہ دشوار تھا اور جانا بھی دور تھا۔ پھر سندھ كی سڑكیں گوٹھوں میں تو پگڈنڈیاں ہوتی ہیں۔ ہم ٹانگہ میں سوار تھے۔ كوچوان كا گھوڑا بھی كمزور تھا۔ ابھی سفر كافی باقی تھا كہ بھوك ستانے لگی۔ میاں رفیع احمد صاحب كو زیاده بھوک لگ گئی۔ وه جو مجھے روك رہے تھے كہ یہ مرونڈا نہ خریدو، وہی كہنے لگے داؤد! نكالو وه كہاں ركھا ہے؟ كھائیں۔ چنانچہ ہم نے وہی گردوغبار والا مرونڈا بھوك كی شدت میں جھاڑ پھونك كر كھا لیا۔پھر نہ پوچھو كہ وه مرونڈا كتنا مزیدار تھا۔ فرمانے لگے كہ كوچوان بھی كہنے لگا مولوی صاحب پہلے تو آپ منع كر رہے تھے۔
یہ دلچسپ واقعہ حضرت میر صاحب نے ایسے خوبصورت اندار میں بیان كیا كہ بھوك اور خوراك كے لذیذ ہونے كی تعریف سمجھ آگئی۔ اور یہ مثال ساری زندگی یادگار كے طور پر میرے ساتھ رہی ہے۔ افریقہ میں سفر كے دوران ہم اسی نصیحت پر عمل كرتے۔ چھلیاں مونگ پھلی وغیرہ اپنے بیگ میں ركھتے جو کہ زادِ راه ہوتا اور بھوك مٹانے كے كام آتا۔
اسی طرح ایك دفعہ میر صاحب نے فرمایا كہ جسم میں جو درد ہوتی ہے یہ بھی خدا تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو انسان كو پتہ ہی نہ لگے كہ كیا بیماری ہے اور كہاں ہے۔ درد سے بیماری كی نشاندہی ہوجاتی ہے۔ اور اس كے مطابق دوا لیں تو درد غائب ہو جاتی ہے ۔ پھر فرماتے كہ جسم عالمِ صغیر ہے اسی لئے مبلغین كو آخری كلاس میں طب پڑھائی جاتی ہے تا میدانِ عمل میں كام آئے اور خدمتِ خلق میں بھی مفید ثابت ہو۔ دینی علم كے ساتھ طب كا علم بھی حاصل ہو جائے تو باعثِ رحمت ہے۔ افریقہ میں حضرت میر صاحب كے یہ ٹوٹكے بہت كام آئے۔ دوائیاں بیگ میں ركھنی پڑتی تھیں جو سر درد اور پیٹ درد وغیره كے كام آتیں۔حضرت میر صاحب اپنے شاگردوں كو میدانِ عمل میں آنے والی مصیبتوں اور مشكلات سے آگاه فرماتے۔ ان كی باتیں پلے باندھ لی تھیں جو میدانِ عمل میں كام آئیں۔ كس كس نصیحت كو لكھوں۔
فرماتے جماعتوں میں كسی كی بھی سائیڈ نہیں لینی۔ پارٹی بازی سے اجتناب كرنا اور نیوٹرل رہناہے۔ خلیفۂ وقت كا نمائنده ہونے کی حیثیت سےوقار کو قائم رکھناہے۔ مالی امور میں كبھی involveنہیں ہونا۔ سوائے اس كے كہ مركزیہ ذمہ داری ڈالے۔ اس صورت میںجماعت كا امین بننااورپائی پائی كا حساب ركھنا۔ ورنہ مالی داغ كو دھونا بہت مشكل ہوجاتا ہے۔ آپ فرماتےدعاؤں كا خزانہ ہی اصل سرمایہ ہے۔ میدانِ عمل میں حضرت میر صاحب كی ہدایات نے رستے آسان كر دیے۔ جماعتوں میں محبت ملی اورعزت پائی۔ الحمد لله
یہ سب كچھ صرف خدا كا فضل تھا۔ خلیفۂ وقت كی دعائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام كی غیر معمولی بركات جن كی وجہ سے الله تعالیٰ كی تائید ونصرت ساتھ رہی۔ الحمد لله
27 اپریل 1973كو خاكسار الارو مشن ہاؤس سے لیگوس مش ہاؤس نائیجیریا میں جماعتی كام كے سلسلہ میں آیا ہوا تھا كہ ربوه سے محترم اجمل شاہد صاحب امیر جماعت كو حضرت میر داؤد صاحب كی وفات كی افسوس ناك خبر موصول ہوئی انا لله وانا الیہ راجعون۔ انہوں نے ہمیں اطلاع دی۔ سب ہی گہرے غم میں كھو گئے۔ محترم نواب منصور خان صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ آپ كو خاندان كا فرد ہونے كی حیثیت سے دُہرا غم تھا۔ خاكسار كو بھی بہت غم تھاكہ ایك غمگسار محسن اس دارِ فانی سے کوچ کرکےدارِ جاودانی میں چلا گیا ہے۔ ہم سب كا یہ سانجھا غم تھا۔ اس لئے تعزیت اور اظہارِ ہمدردی كی كیفیت بھی ایسی تھی جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سكتی۔ تقدیر پر كسی كو بھی كوئی شكوه نہیں تھا۔ سبھی راضی برضا اور دعا گو تھے كہ الله تعالیٰ حضرت خلیفۂ ثالث ؒكو ان كا نعم البدل عطا فرمائے اور جماعت كو ایسے جانثار ملتے رہیں۔
؎بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا كر
راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو
مجھے چند روز پہلے ہی حضرت میر صاحب كا خط ملا تھا جس میں آپ نے اپنی صحت كے حوالہ سے لكھا تھا جس میں صحت کے غیر تسلی بخش ہونے کا اشارہ تھا بلكہ فكرمندی والی بات تھی اور دعا كی تحریك کی تھی۔
محترم میر صاحب كی وفات كے چند روز بعد برادرم ناصر شمس صاحب كا تفصیلی خط مع تصاویر ملا جس میں میر صاحب كی بیماری كی شدت، علاج معالجہ اور بعد وفات تجہیز وتكفین كی تفصیل بیان کی گئی تھی، كیونكہ ناصر شمس صاحب اور منیر بسمل صاحب كو میر صاحب كا قرب حاصل تھا اور انہیں غسل دینے كی سعادت بھی ملی تھی۔ انہوں نے آنكھوں دیكھا حال لكھا تھا جس سے صبر ملا اور دل سے دعائیں نكلیں۔ یقیناً میر صاحب كی روح اپنے بزرگوں كے پاس پہنچ كر زیاده مطمئن ہو گی۔ یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً * فَادْخُلِي فِي عِبَادِي * وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر: 28-30)
(مرسلہ: مجید احمد سیالکوٹی دفتر پی ایس اِسلام آباد یوکے)