• 15 جولائی, 2025

جانور سے محبت کی لازوال داستان

ہرن مینار۔ شیخوپورہ
جانور سے محبت کی لازوال داستان

مغل بادشاہوں نے اپنے اپنے دور میں فن تعمیر کے لازوال، حیرت انگیز اور انتہائی خوبصورت و دیدہ زیب نمونے یادگار چھوڑے ہیں۔ آج صدیاں گزرجانے کے بعد بھی ان کی شان و شوکت میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ پاکستان اور بھارت کے طول و عرض میں آج بھی ان کی تعمیر کردہ عمارتیں، قلعے، باغات اور محل اس دور کی انسانی کاریگری، سوچ، محنت اور فن تعمیر کی یاد دلاتے ہیں۔ انہی یادگاروں میں ایک شیخوپورہ میں واقع ’’ہرن مینار‘‘ بھی شامل ہے۔ بلاشبہ ہرن مینار کا ڈیزائن انسانی دماغ کا لازوال شاہکار ہے۔ تاج محل انسانی محبت کی نشانی ہے اور یہ جانور سے لازوال محبت کی یادگار ہے۔ یہ علاقہ مغل بادشاہ جہانگیر اور اس کے شاہی خاندان کے لئے ’’شکار گاہ‘‘ کا درجہ رکھتا تھا۔ اس ہرن مینار اور شہر شیخوپورہ کی بنیاد شہنشاہ نو رالدین محمد جہانگیر نے رکھی تھی۔ آج شیخوپورہ پنجاب کے ایک اہم شہر کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ لاہور سے35 کلو میٹر کے فاصلے پر مغرب میں واقع ہے۔ یہ شہر پنجابی زبان شیکسپیر بھی کہلاتا ہے اور مشہور شاعر وارث شاہ کی لوک داستاں ہیر رانجھا بھی شیخوپورہ سے منسوب ہے۔ یہ مینار جہانگیر بادشاہ کی اپنے محبوب ہرن کی یاد گار ہے جو اس نے ہرن کے مرنے کے بعد اس نے اپنے محبوب ’’ہرن‘‘ کی یاد میں تعمیر کروایا تھا، اس کی بتدریج تکمیل مکمل ہوئی تھی۔ بعد ازاں پانی کا بڑا تالاب، چوکور گنبد والی عمارت اور بارہ دری کی تعمیر ہوئی۔ جہانگیر نے شکار کے دوران ایک ہرن کو پکڑا جس نے چند ہی ہفتوں میں جنگلی خصلتیں چھوڑ کر پالتو جانوروں کی عادتیں اپنا لیں اور یوں یہ معصوم ہرن شہنشاہ کی آنکھوں کا تارہ بن گیا جو بعد ازاں ایک بیماری کے باعث مرگیا تھا۔ کہیں کہیں اس کے مرنے کی وجہ غلطی سے شکار کا نشانہ بن جانے کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ تزک جہانگیر میں شیخوپورہ اور اس تفریحی ہرن مینار کا ذکر ملتا ہے۔ اس میں شہنشاہ ہرن سے اپنی محبت کی وجہ بھی لکھتا ہے کہ ’’ذوالحج منگل کے روز جہانگیر پورہ (شیخوپورہ) میں پڑاؤ ڈالا جو شکار کھیلنے کے لئے میرا پسندیدہ مقام تھا۔ اس جگہ ہنس راج نامی ہرن کی ایک قبر اور مینار ہے جو میرے حکم سے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ ہرن سدھائے ہوئے ہرنوں کی لڑائی اور صحرائی ہرنوں کے شکار میں مدد دینے میں بے مثال تھا‘‘۔

کہا جاتا ہے کہ لاہور شاہی قلعہ سے باہر دریائے راوی کی دوسری جانب گھنے جنگلوں میں شہزادہ سلیم شکار کھیلنے جایا کرتا تھا اور تخت نشینی کے بعد جہانگیر اپنی ملکہ نورجہان کیساتھ یہاں شکار کرتا اور طویل قیام کرتا تھا۔ یہ مقام ان دونوں کی محبت کی یادگار کی حثیت سے بھی شہرت رکھتی ہے۔ اس دور میں یہ مقام انتہائی سرسبز اور شاداب ہوا کرتا تھا، چھوٹے جانوروں کی بہتات ہوتی تھی اور خصوصا ہرنوں کے غول چوکڑیاں بھرا کرتے تھے۔ ایک ہرن سے جہانگیر کو بہت محبت تھی جو اس نے اسی جنگل سے پکڑا تھا اس کا نام ’’ہنس راج‘‘ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ملتا ہے، 1607 میں یہ ہرن کسی بیماری کی وجہ سے مرگیا تو شہنشاہ نے اس کی یاد میں یہ بلند و بالا خوبصورت مینار تعمیر کرایا جو ’’ہرن مینار‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کی تعمیر میں خود شہنشاہ نے دلچسپی لی اور نگرانی کی۔ ہرن مینار کو ہر دور کے حکمرانوں نے بے پناہ سراہا ہے۔ خصوصا انگریز سیاحوں نے تو اس کو بہت سراہا اور اسے پسند کیا۔ آج اور ماضی کی حکومتوں نے اس تاریخی اثاثہ کی دیکھ بھال کرتے ہوئے اس میں جدید ترین ذرائع استعمال کرتے ہوئے اس کی خوبصورتی میں اضافہ کیا اور یہ سلسلہ جاری ہے، آج کل مختلف رنگوں کی روشنیوں کے سبب رات کے مناظر میں اس کی دلکشی چوگند ہو گئی ہے۔ اور اس کی تزئین و آرائش مسلسل جاری ہے۔ آج بھی ہزاروں کی تعداد میں سیاح اس تاریخی مینار کو دیکھنے آتے ہیں۔ جہانگیر کی ماں بیٹے کو پیار سے ’’شیخو‘‘ کہہ کر پکارتی اور بعد ازاں یہ شیخوپورہ میں تبدیل ہوگیا۔ شہنشاہ جہانگیر کا عہد حکومت1605-1627 تک رہا ہے۔ ہرن مینار کی ابتداء میں کل بلندی130 فٹ تھی لیکن بعد میں اس کا اوپر کا کچھ حصہ گرتا گیا اور اب اس کی بلندی110 فٹ ہے۔ بل کھاتی گول سیڑھیاں اوپر کو جاتی ہیں۔ مینار کے سامنے تالاب اور بارہ دری یک کو ایک پختہ خوبصورت راستہ بھی بنایا گیا۔ تالاب کے چاروں اطراف میں چھوٹے چھوٹے پل بھی تعمیر کئے گئے ہیں۔ تاریخ کی کتابوں کے مطابق اس تالاب سے پالتو اور دیگر جانوروں کو پانی پلایا جاتا تھا اور ایک بار شہنشاہ نے اپنے پیارے ہرن ’’ہنس راج‘‘ کو بھی اسی تالاب سے پانی پلایا تھا۔ اس تالاب کی لمبائی892 فٹ اور چوڑائی750 فٹ اور درمیان سے گہرائی18فٹ ہے۔ مینار کی سیڑھیوں اور تالاب کے ارد گرد راستوں کو چونے کے پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ مینار کی سڑھیوں کی تعداد ایک صد کے لگ بھگ ہے۔ انسان اور جانور کی آپس کی اس لازوال نشانی اور یادگار کو محفوظ رکھنے اور زیادہ سے زیادہ خوبصورت بنانے کے لئے پنجاب آرکیالوجی محکمہ کی طرف سے متعدد نئے اقدامات کئے گئے ہیں جن میں رنگ برنگی روشنیوں کا انتظام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ پاکستانی اخبارات کی خبروں کے مطابق اس جگہ پر نئے ہرن لانے اور ان کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ نام کی نسبت حقیقی رنگ بھی نظر آسکے۔ اس کے لئے محکمہ تحفظ جنگلات کیساتھ ایک معاہدہ بھی کیا گیا ہے۔ آج ہرن مینار کو ایک بڑے تفریحی مقام کی حثیت حاصل ہوچکی ہے اور عیدین اور چھٹیوں کے موقع پر لوگوں کی بڑی تعداد یہاں پہنچتی ہے اور تفریح سے لطف اندوز ہوتی ہے۔

(منور علی شاہد۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

فقہی کارنر