• 19 اپریل, 2024

آپس کا لین دین کا معاملہ

ہماری تمدنی اور معاشرتی زندگی کا ایک اہم حصہ آپس کا لین دین کا معاملہ ہے۔ انسان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ لیکن یہی لین دین جب قرض کی صورت میں ہو تو بے انتہاء معاشرتی مسائل پیدا کر دیتا ہے۔ بھائیوں بھائیوں کی رنجشیں ہو جاتی ہیں، دوستوں کے آپس میں لڑائی جھگڑے ہو جاتے ہیں اور جب بڑے پیمانے پر کاروباری اداروں اور بنکوں سے قرض لئے جاتے ہیں تو بعض دفعہ سب کچھ لٹنے اور ذلت و رسوائی تک نوبت آ جاتی ہے۔

تو ایک مومن کو، ایسے شخص کو جو خداتعالیٰ کا عبد کہلانے کا دعویٰ رکھتا ہے، معاشرے کی اس برائی سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اور پھر طریق بھی فرما دیا کہ کس طرح لڑائی جھگڑوں اور ذلت و رسوائی کی باتوں سے بچا جا سکتا ہے، اسلام نے قرض دینے والوں کوبھی بتا دیا کہ کس طرح قرض دینے کے بعد واپس لینے کا تقاضا کرنا ہے اور لینے والوں کو بھی بتا دیا کہ تم نے کس طرح حسن ادائیگی کی طرف توجہ دیتے ہوئے معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرنا ہے یا اپنا مقام بلند کرنا ہے۔ قرآن کریم نے اتنی گہرائی میں جا کر انسانی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے لین دین جو قرض کی صورت میں ہو اس کا حساب رکھنے کا طریق سکھایا ہے کہ اگر نیت نیک ہو تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ فریقین کو کسی بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَدَایَنۡتُمۡ بِدَیۡنٍ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکۡتُبُوۡہُ کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم ایک معین مدت کے لئے قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اب یہ دیکھیں کتنا خوبصورت حکم ہے، بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں بڑا اعتبار ہے، کیا ضرورت ہے لکھنے کی، ہم تو بھائی بھائی کی طرح ہیں۔ لکھنے کا مطلب تو یہ ہے کہ بے اعتباری ہے اس طرح سے تو ہمارے اندر دُوری پیدا ہو گی اور ہمارے اندر رنجشیں بڑھیں گی اور ہمارے آپس کے تعلقات خراب ہوں گے۔ تو یاد رکھیں کہ اگر تعلقات خراب ہوتے ہیں اور اگر تعلقات خراب ہوں گے تو تب ہوں گے جب قرآن کریم کے حکم کی خلاف ورزی کریں گے نہ کہ قرآن کریم پر عمل کرنے سے۔

(خطبہ جمعہ 13؍اگست 2004ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی