• 24 اپریل, 2024

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات (قسط 14)

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات
بیان فرمودہ
حضرت مصلح موعودؓ 
قسط 14

خیالات و افکاربگڑ یں تو انسان وہم میں مبتلا ہوتا ہے

اگر ہم خیالات پر چلیں تقویٰ اور صلاحیت کی روح اُڑ جائے تو انسان کا واہمہ اسے کہیں کا کہیں لے جاتا ہے۔

حضرت خلیفہ اوّل اپنے ایک عزیز کے متعلق سنایا کرتے تھے کہ انہیں ایک دفعہ پیٹ میں تکلیف ہوئی اور وہ میرے پاس مشورہ کے لئے آئے۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ ذرا لیٹ جائیں تاکہ مَیں ٹٹول کر اندازہ لگا سکوں کہ درد کس مقام پر ہے۔ وہ لیٹ گئے اور میں نے اُنگلیوں سے اُن کے پیٹ کو دبایا یہ دیکھنے کے لئے کہ اُن کے جگر کی کیا کیفیت ہے، معدہ اور امعاءکا کیا حال ہے مگر ابھی میں نے دبایا ہی تھا کہ وہ ہا ہا کر کے شور مچاتے ہوئے اُٹھ بیٹھے اور کود کر پرے چلے گئے۔ میں نے کہا کیا ہوا میں تو پیٹ دیکھنے لگا تھا اور آپ شور مچا کر بھاگ پڑے وہ کہنے لگے مولوی صاحب! آپ نے تو غضب کر دیا۔ آپ کا دماغ بہت مضبوط ہے اور آپ کی توجہ میں بھی بڑی طاقت ہے اگر میرے پیٹ کو دباتے وقت آپ کی توجہ اِس طرف مرکوز ہو جاتی کہ انگلیاں پیٹ میں گھس گئی ہیں تو کیسا غضب ہوتا۔ میرا پیٹ پھٹ جاتا اور انتڑیاں باہر نکل آتیں۔

اب دیکھو انسان کا وہم اُسے کہاں سے کہاں لے جاتا ہے اُن کا وہم اس طرف چلا گیا کہ حضرت خلیفہ اوّل چونکہ مضبوط دماغ کے آدمی ہیں اور ان کی توجہ بڑی زبردست ہے اگر پیٹ دباتے وقت ان کا خیال ادھر چلا گیا کہ میری انگلیاں پیٹ میں گھس گئی ہیں تو واقع میں ان کی انگلیاں پیٹ میں گھس جائیں گی اور میرا پیٹ پھٹ جائے گا، چنانچہ وہ فوراً شور مچاتے ہوئے الگ ہوگئے۔

تو انسانی خیالات اور افکار جب مقررہ حدود سے نکل جاتے ہیں تو اُس وقت وہ وہمیوں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے اور اس کے کسی کام میں بھی برکت نہیں رہتی۔وہ چیز جسے عام طور پر دُنیا میں عقلِ عامہ کہا جاتا ہے شریعت میں وہ اپنی خصوصیت کے لحاظ سے تقویٰ کہلاتی ہے جب دُنیاوی معاملات میں وہ چیز جاتی رہے جسے عقلِ عامہ کہتے ہیں یا شرعی امور میں انسان تقویٰ کے دائرہ سے نکل جائے تو کوئی قانون اُسے فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

پس انسان کو ہمیشہ اپنے کاموں کی بنیاد تقویٰ پر رکھنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہئے کہ وہ اسے صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ197-198)

بغداد کی تباہی

پرانے زمانہ کا ایک واقعہ مشہور ہے جس پر حضرت خلیفہ اولؓ بڑا زور دیا کرتے تھے اور بار بار اِس واقعہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔ مَیں تو سمجھتا ہوں شاید وہ کہانی ہی ہو مگر کہانیاں بھی بہت بڑے نکات کی طرف انسانی دماغ کو متوجہ کر دیا کرتی ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ:
بغداد کی تباہی کا موجب ایک بہت ہی چھوٹی سی بات تھی۔ ایک دفعہ دو بدمعاش بازار میں سے گزرے تو اُنہوں نے دیکھا کہ ایک دکان پر کباب بک رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ کباب کھانے کو بہت دل چاہتا ہے مگر جیب میں کوئی پیسہ نہیں، کوئی ایسی ترکیب نکالیں جس سے مفت کباب کھا سکیں۔ دوسرے نے کہا اس میں کون سی مشکل بات ہے آؤ ہم آپس میں لڑ پڑیں۔ میں تمہیں مارنے لگ جاتا ہوں تم مجھے مارنے لگ جاؤ۔ شور سن کر لوگ اکٹھے ہو جائیں گے، کچھ میری طرف مائل ہو جائیں گے اور کچھ تمہاری طرف۔ جب اس طرح بہت سے لوگ آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں گے تو ہم چپکے سے کھسک کر کباب والے کی دکان پر چلے جائیں گے اور کباب کھا لیں گے۔

چنانچہ اِس تجویز کے مطابق اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم میں سے ایک شیعہ بن جائے اور دوسرا سُنّی اور آپس میں لڑ پڑیں۔ اِس سکیم کے مطابق وہ کباب والے کی دکان کے سامنے کھڑے ہو گئے اور اُنہوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا۔ ایک نے دوسرے کا گلا پکڑ لیا کہ تم ابوبکرؓ اور عمرؓ کے متعلق یہ بات کرتے ہو۔ دوسرے نے کہا ہیں! تم پنج تن کے متعلق ایسی بات کہتے ہو۔ جب دونوں آپس میں لڑنے لگے تو کچھ سُنّی آئے جنہوں نے سنی کی تائید شروع کر دی، کچھ شیعہ آگئے جنہوں نے شیعہ کی تائید شروع کر دی اور آپس میں گالی گلوچ ہونے لگی۔ گالی گلوچ سے بڑھتے بڑھتے ہاتھا پائی تک نَوبت پہنچی۔ کباب والے نے یہ نظارہ دیکھا تو وہ بھی دوڑتا ہوا آیا اور اِس لڑائی میں شامل ہو گیا۔

جب اُنہوں نے دیکھا کہ کباب کی دکان خالی ہے تو وہ دونوں وہاں سے کھسکے اور اُنہوں نے آکر کباب کھانے شروع کر دئیے۔ باقی لوگ تو پنج تن اور خلفاءکے لئے لڑتے رہے اور یہ اِدھر کباب اُڑاتے رہے۔ اِسی دَوران میں ایک آدمی قتل ہو گیا اور اتفاق ایسا ہوا کہ جو شخص لڑائی میں مارا گیا وہ سُنّی تھا۔ بغداد میں سُنّیوں کا زور تھا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ ہمارا ایک سُنّی بھائی شیعوں نے مار ڈالا ہے تو اُنہوں نے شیعوں کو مارنا شروع کر دیا۔

وزیر اعظم شیعہ تھا ۔ اسے یہ خبر سن کر سخت دکھ ہوا اور اس نے ہلاکو خاں کو لکھا کہ آپ بغداد پر حملہ کریں، ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ چنانچہ ہلاکو خاں نے حملہ کر دیا اور ایسی خطرناک جنگ ہوئی کہ 18 لاکھ مسلمان ایک ہفتہ کے اندر اندر بغداد میں مارا گیا۔

اب دیکھو! بغداد پر کتنی بڑی تباہی آئی مگر بات کیا تھی۔ بات صرف اتنی تھی کہ دو آدمیوں نے کہا کہ ہم نے کباب کھانے ہیں، آؤ کوئی ایسی تدبیر کریں جس سے ہم مفت کباب کھا سکیں۔

تو بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جن سے دلوں میں بُغض پیدا ہوتا ہے اور وہ بُغض پھر خاندانوں میں سرایت کر جاتا ہے۔ خاندانوں کا بُغض محلوں میں، محلوں کا بُغض شہروں میں، شہروں کا بُغض علاقوں میں اور علاقوں کا بُغض ساری دُنیا میں پھیل جاتا ہے اور کروڑوں کروڑ لوگ اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔

یہ حالت اپنی ابتدائی شکل میں اس قدر غیر محسوس ہوتی ہے کہ بعض دفعہ کام کرنے والا بھی نہیں جانتا کہ میری اس حرکت کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ وہ ایک بات کو معمولی سمجھ کر کر بیٹھتا ہے مگر اس کا نتیجہ نہایت خطرناک نکلتا ہے۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ199-200)

جھوٹے آدمی کا اعتبار نہیں رہتا

میں نے بار بار کہاہے اور مجھے بار بار کہنے کی ضرورت ہے کہ جب ایک چیز متواتر کسی انسان کے سامنے آتی ہے تو وہ اُس کی اہمیت سے غافل ہو جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں قصہ مشہور ہے کہ ایک بچہ نے جو جنگل میں بکریاں چرا رہا تھا ۔ایک دفعہ مذاق کے طور پر شور مچا دیا کہ شیر آیا، شیر آیا دَوڑنا!! یہ آواز سُن کر گاؤں کے لوگ لاٹھیاں اپنے ہاتھ میں لے کر دَوڑ پڑے مگر جب وہاں پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ لڑکے نے اُن سے مذاق کیا تھا، شیر کوئی نہیں تھا وہ لڑکے کو بُرا بھلا کہتے ہوئے واپس چلے گئے۔

مگر چند دنوں کے بعد واقعہ میں شیر آگیا اور اُس نے اپنی مدد کے لئے گاؤں والوں کو آواز دی تو کوئی شخص بھی اُس کی آواز پر نہ پہنچا اور شیر اُس لڑکے کو پھاڑ کر کھا گیا۔

یہ مثال اِس غرض کے لئے بیان کی جاتی ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے کیونکہ جھوٹے آدمی کا اعتبار اُٹھ جاتا ہے۔ اس نے پہلی دفعہ جھوٹ بولا تو اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری دفعہ جب وہ واقعہ میں سچ بول رہا تھا، لوگوں نے یہی سمجھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ203)

بار بار مرکز آنے کی کوشش کرو

ہماری جماعت کے دوستوں کو مرکز میں آنے کی رفتار بہت تیز کر دینی چاہئے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دوستوں کی یہاں آنے کی رفتار بہت کم ہے، اتنی کم کہ وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لوگ اپنے اوقات اِدھر اُدھر گزارنا زیادہ پسند کرتے ہیں مگر مرکز میں آنے کی اہمیت کو وہ محسوس نہیں کرتے حالانکہ دُنیا میں آئندہ جو کچھ ہونے والا ہے اُس کے لحاظ سے ہماری جماعت کا مرکز سے ایسا ہی تعلق ہونا چاہئے جیسے ایک جانور رسّہ سے بندھا ہوا ہوتا ہے یا جیسے ایک گھوڑا کِیلےسے بندھا ہوا ہو تو جب وہ دور جاتا ہے، رسّہ اس کے گلے میں پھنسنے لگتا ہے اور وہ پھر اپنے کیلے کی طرف آنے پر مجبور ہوتا ہے۔

یہی حال ہر احمدی کا ہونا چاہئے اور اُسے بار بار مرکز میں آنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ جو اہم تغیرات دُنیا میں ہونے والے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ جماعت زیادہ سے زیادہ اخلاص میں اور قربانی میں اور ایثار میں مضبوط ہو۔ ایسا نہ ہوا تو وقت پر بہت لوگ کچے دھاگے ثابت ہوں گے اور سلسلہ کو تقویت پہنچانے کی بجائے دوسروں کو گرانے اور ان کے قدم کو بھی متزلزل کرنے کا موجب ہوں گے۔

رسول کریمﷺ نے جب مکہ فتح کیا تو نَو مسلموں میں سے بعض رسول کریمﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا یارسول اللہ!اب جو طائف والوں سے جنگ ہونے والی ہے اس میں ہمیں بھی شامل ہونے کا موقع عنایت فرمائیں۔ پرانے صحابہؓ اپنے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے بہادر ہیں حالانکہ جب آپ سے لڑائی تھی اُس وقت خدا ہمارے سامنے تھا اور ہم خداتعالیٰ کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ پس اگر ہم آپ کے مقابلہ میں بھاگے۔ تو ہم کسی انسان کے ڈر سے نہیں بھاگے بلکہ خداتعالیٰ کی طاقت کو دیکھ کر بھاگے اس لئے ہماری بہادری کا گزشتہ لڑائیوں پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، ہماری جرأت اور ہماری بہادری کا آپ اُس جنگ سے قیاس کر سکیں گے جو ثقیف اور ہوازن والوں سے ہونے والی ہے اس لئے آپ ہمیں بھی شامل ہونے کی اجازت عطا فرمائیں۔

رسول کریمﷺ نے فرمایا بہت اچھا اجازت ہے دس ہزار مسلمانوں کا اور دو ہزار نو مسلموں کا لشکر تھا جو دشمن کے مقابلہ کے لئے روانہ ہوا۔

طائف کے قبائل بہت ہوشیار تھے چونکہ اسلامی لشکر نے تنگ راستوں میں سے گزرنا تھا اس لئے اُنہوں نے پانچ سَو تیر انداز ایک طرف اور پانچ سَو تیر انداز دوسری طرف کھڑے کر دئیے اُن کا اپنا لشکر کل چار ہزار کا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ہم اتنے تھوڑے لشکر سے مسلمانوں کامقابلہ نہیں کر سکتے۔ اُنہوں نے اس کا علاج یہ سوچا کہ اپنے تیر انداز راستہ کے دونوں طرف کھڑے کر دئیے تاکہ راستہ میں ہی وہ اسلامی لشکر پر تیروں کی بوچھاڑ کر دیں اور اُسے آگے بڑھنے سے روک دیں۔

جب فوج اس تنگ درّہ میں پہنچی تو ایک ہزار تیراندازوں نے اونچی جگہ سے تیروں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔ جب ایک ہزار تیر متواتر گرنا شروع ہوا اور کچھ آدمیوں کو، کچھ گھوڑوں کو اور کچھ اونٹوں کو لگے تو وہ نَو مسلم جو اکڑتے ہوئے اسلامی لشکر کے آگے آگے جا رہے تھے اُنہوں نے بھاگنا شروع کر دیا۔ مسلمان جو پیچھے چلے آرہے تھے وہ بھی اپنی حفاظت نہ کر سکے اور نتیجہ یہ ہواکہ بارہ ہزار کا بارہ ہزار لشکر میدان چھوڑ کر بھاگ گیا، صرف رسول کریمﷺ اور آپ کے گرد12آدمی رہ گئے۔

تب ابوسفیان بن الحارث آگے بڑھے اور اُنہوں نے رسول کریمﷺ کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر کہا یارسول اللہ! آپ کیا کرتے ہیں، اِس وقت واپس لوٹیے، ہم لشکر اسلامی کو اپنے ساتھ لے کر کفار پر پھر حملہ کریں گے۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا میرے گھوڑے کی باگ چھوڑ دو۔ پھر آپ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دشمن کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھنا شروع کر دیا کہ:۔
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبُ۔ اَنَا ابْنُ عَبْدِالمُطَّلِبُ میں جھوٹا نہیں کہ میدان چھوڑ دوں۔ مَیں نبی ہوں پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ اُس وقت صحابہؓ کے دل تم سمجھ سکتے ہو کہ کس طرح اچھل رہے اور دھڑک رہے ہوں گے مگر ان کے لئے سوائے اِس کے کیا چارہ تھا کہ آگے سے ہٹ جائیں اور رسول کریمﷺ کے ارادہ میں حائل نہ ہوں۔ اُس وقت رسول کریمﷺ نے اپنے چچا حضرت عباسؓ سے کہا کہ اِدھر آؤاور اونچی آواز سے مسلمانوں کو آواز دو۔

چونکہ یہ شکست مکہ والوں کی بیوقوفی سے ہوئی تھی اِس لئے مکہ والوں کے فعل پر ناراضگی کا اظہار کرنے کے لئے رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ عباس! بلند آواز سے کہو کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے۔

اُس وقت مہاجرین کا نام آپ نے نہیں لیا کیونکہ مہاجرین مکہ والوں کے رشتہ دار تھے اور رسول کریمﷺ مکہ والوں پر اپنی ناراضگی کا اظہار فرمانا چاہتے تھے۔

ایک انصاری کہتے ہیں اُس وقت ہماری حالت یہ تھی کہ ہم اپنے گھوڑوں کو پیچھے لَوٹاتے اور پورے زور سے اُن کی باگیں کھینچتے تھے یہاں تک کہ ہمارے ہاتھ زخمی ہو جاتے اور جانوروں کی گردن اُن کی پیٹھ سے جا لگتی تھی مگر جب لگام ذرا ڈھیلی ہوتی اور ہم اُنہیں ایڑی مار کر پیچھے کی طرف واپس لانا چاہتے تو وہ پھر آگے کو بھاگ پڑتے۔

جب اِس حالت میں ہمارے کانوں میں یہ آواز آئی کہ اے انصار! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے تو اس وقت ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ عباس کی آواز بلند ہو رہی ہے بلکہ ہمیں یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سب لوگ مر چکے ہیں قیامت کا دن ہے اور اسرافیل کی آواز لوگوں کے کانوں میں آرہی ہے۔

ہم نے ایک دفعہ پھر اپنے اونٹوں اور گھوڑوں کو واپس لوٹانے کے لئے اپنا پورا زور صَرف کیا جو سواریاں مُڑ گئیں مُڑ گئیں اور جو نہ مڑیں ان میں سے بعض کے سوار کود پڑے اور پیدل دوڑتے ہوئے رسول کریمﷺ کے گرد جمع ہو گئے اور بعض نے اپنی میانوں میں سے تلواریں نکال کر سواریوں کی گردنیں کاٹ دیں اور خود لَبَّیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے رسول کریمﷺ کی طرف دَوڑ پڑے۔

اِس واقعہ پر غور کرو اور دیکھو کہ کس طرح کمزور لوگ طاقتوروں کو بھی گھبراہٹ میں مبتلا کر دینے کاموجب بن جاتے ہیں۔ پس یہ دن ایسے نہیں ہیں کہ ہمارے اندر کوئی کمزور طبقہ ہو کیونکہ اگر کمزور طبقہ ہم میں موجود ہواتو وہ بہادروں کو بھی گرا دینے کا موجب بن جائے گا۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ216-219)

افراد جماعت کی قربانیاں اور قادیان کی ترقی

وہ زمانہ جب کہ احمدیت کا نام لینے والا دنیا میں بہت کم،شاذ و نادر کے طور پر کوئی شخص نظر آتا تھا اور جبکہ قادیان میں، اُس قادیان میں جس میں خدا نے ہمیں بعدمیں غیر معمولی طاقت اور شوکت عطا فرمائی صرف چند افراد احمدی کہلانے والے تھے جو بسا اوقات اپنی کمزوری اور ناتوانی کی وجہ سے ادنیٰ سے ادنیٰ تکلیف کو بھی انتہادرجہ کی بَلا اور مصیبت سمجھتے تھے۔

مجھے یاد ہے میاں صدرالدین صاحب جوابتداءمیں گدھوں پر مٹی لاد کر بھرتی ڈالا کرتے تھے اور جنہوں نے بعد میں آٹے کی تجارت شروع کردی اُن کے متعلق ایک دفعہ اطلاع ملی کہ وہ بازار میں سے گزر رہے تھے کہ کسی مخالف نے کوئی شرارت کی۔ میں نے اُن کو بلایا اور چاہا کہ اگر یہ اطلاع درست ہو تو اُس شرارت کا تدارک کیا جائے۔

جب وہ آئے اور میں نے اُن سے اس واقعہ کاذکر کیا تو اُنہوں نے سمجھا کہ شاید میں یہ سُن کرڈر گیا ہوں کہ اب لوگ ہماری مخالفت کرنے لگ گئے ہیں اور اُنہوں نے بجائے میرے سوال کا جواب دینے کے مجھے تسلی دینی شروع کردی او رکہنے لگے بے شک ایک شخص نے کچھ شرارت کی تھی مگر یہ مصیبت اُن مصیبتوں کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتی ہے جوہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے زمانہ میں برداشت کی ہیں۔

جب اُنہوں نے یہ بات کی تو قدرتی طور پر میری توجہ اِس طرف مبذول ہوئی کہ میں بھی سُنوں کہ وہ کیامشکلات تھیں جو اُن کوپیش آئیں اور میں نے اُن سے کہا مجھے بھی اُس زمانہ کا کوئی واقعہ سنائیں۔

وہ کہنے لگے ایک دفعہ میں ڈھاب میں سے مٹی کھود رہا تھاکہ کسی نے مرزا نظام الدین صاحب کو جاکر اطلاع دے دی کہ ڈھاب میں سے مٹی کھودی جارہی ہے۔مرزا نظام الدین صاحب بڑے جوش کی حالت میں وہاں پہنچ گئے۔میں نے اُنہیں دیکھا توایک زاویہ جو مٹی کھودنے کی وجہ سے ڈھاب میں بن چکا تھا اُس کے پیچھے چُھپ گیااور میں نے کہا اے خدا! جیسے تیرے رسول پر غارِ ثور میں ایک مصیبت کا وقت آیا تھا وہی مصیبت کا وقت اب مجھ پر آگیا ہے تُو میری حفاظت فرمااور مجھے اِس تکلیف سے نجات دے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میری ایسی حفاظت فرمائی کہ مرزا نظام الدین صاحب اندھے ہو گئے اُنہیں نظر ہی نہ آیا۔وہ گالیاں دیتے ہوئے واپس چلے گئے اور میں خدا کا شکر کرتے ہوئے باہر نکل آیا۔

اب دیکھو یہ کتنی چھوٹی سی چیز تھی جو اپنے زمانہ کے لحاظ سے اُنہیں بڑی نظر آئی اتنی بڑی کہ مرزا نظام الدین صاحب کے ایک دو تھپڑوں کواُنہوں نے غارِثور کے واقعہ کے مشابہہ قرار دیا۔

مگر یہ حالت کیوں پیدا ہوئی؟ اس لئے کہ قادیان میں احمدیوں کی حیثیت اِتنی حقیر سمجھی جاتی تھی کہ ہر شخص خواہ وہ کیسی ہی ادنیٰ حیثیت رکھنے والا ہو اُن کے کچلے جانے اور دُنیا سے ان کے مٹائے جانے کے متعلق کامل یقین رکھتا تھا۔

مجھے یاد ہے احمدی اپنے گھروں کے لئے مٹی کھودتے تو لوگ اُن کے خلاف شور مچا دیتے حالانکہ وہ مٹی اپنی چھتوں کی لپائی کے لئے یا ایسی ہی اَور اغراض کے لئے کھود رہے ہوتے تھے۔ مگر وہ مقام جہاں احمدیوں کو اپنے مکانوں کی چھتوں پر لپائی کر نے کے لئے بھی مٹی کھودنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی آج اُسی مقام اور اُسی جگہ پر وہ بلندو بالا اور عظیم الشان عمارتیں کھڑی ہیں جو احمدیت کے عظیم الشان کارہائے نمایاں پردلالت کرتی ہیں اور لاکھوں لوگ اِس جماعت سے وابستہ ہیں۔

اب غور کرو کہ کجاتووہ حال تھاکہ قادیان میں صرف چند آدمی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ تھے اور وہ بھی معمولی معمولی لوگوں کا تختہ مشق بنے ہوئے تھے اورکجایہ حالت ہے کہ ہمارے کارناموں کو دیکھ دیکھ کر دشمن کا دل اک یقین اور وثوق سے زیادہ سے زیادہ لبریز ہوتاچلا جارہا ہے کہ یہ ایک طاقتور اور منظم جماعت ہے اور غیرممالک میں بھی یہی احساس پایا جاتا ہے۔

ابھی چند دن ہوئے انگلستان کے ایک اخبار میں شائع ہوا کہ عام طور پر خیال کیاجاتاتھا کہ جماعت احمدیہ بہت بڑی مال دار جماعت ہے مگر اب ہمیں یہ نئی بات معلوم ہوئی ہے کہ اصل میں اس جماعت کی ترقی روپیہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس جماعت کے افراد کی قربانی کی وجہ سے ہے۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ231-232)

تفسیر کبیر نے سینے میں تلاطم پیدا کر دیا

میں نے گزشتہ سفر میں دیکھاکہ ملتان یا منٹگمری کے سٹیشن پرایک شخص عین اُس وقت میری ملاقات کے لئے پہنچا جب کہ ریل چل پڑی تھی مگر وہ پھر بھی ریل کے ساتھ ساتھ دَوڑتا جاتا تھا اور کہتا جاتاتھا کہ میں نے کسی دوست سے لے کر آپ کی تفسیر پڑھی ہے جس نے میرے سینے میں ایک تلاطم پیدا کردیا ہے مگر مجھ میں خریدنے کی استطاعت نہیں۔

اُس کے اندر اِتنا جوش تھا کہ ریل کے ساتھ ساتھ دَوڑتا آیا یہاں تک کہ پلیٹ فارم بھی ختم ہوگیا مگر میں نے دیکھا کہ وہ پھر بھی دَوڑ رہا تھا اور باوجودیکہ ریل کے شور میں اُس کی آواز دَب رہی تھی اُس کے ہونٹ ہلتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ275)

جو خدا کا ہو خدا اسے تنہا نہیں چھوڑتا

پرانے بزرگوں کے واقعات میں ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ ایک بزرگ تھے وہ مجلس میں بیٹھے تھے ایک شخص اُن کے پاس آیا اُنہوں نے31 روپے10آنے اُس سے بطور قرض لئے تھے اور اُس قرض کی ادائیگی میں دیر ہوگئی تھی مجلس میں آکر اُس شخص نے تقاضا کیا کہ میر اقرض مجھے ادا کیا جائے مجھے اس وقت روپے کی سخت ضرورت ہے۔ اُنہوں نے کہا ٹھیک ہے میں نے قرض لیا ہوا ہے اور میں ان شاءاللّٰہ جلدی ادا کرنے کی کوشش کروں گا۔

اُس نے کہا میں ان شاءاللّٰہ، ان شاءاللّٰہ نہیں جانتا میں اُٹھوں گا نہیں جب تک آپ مجھے روپیہ نہ دے دیں اور پھر اُس نے بد گوئی شروع کردی کہ یہ بزرگ بنا پھرتا ہے لیکن ایسا بے ایمان اور بددیانت ہے کہ روپیہ لیتا ہے اور پھر ادا کرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

وہ چپ کر کے بیٹھے رہے آخر غلطی اُنہی کی تھی اُنہوں نے قرض لیا تھا اس کو واپس کرنے کا بھی فکر کرنا چاہیے تھا مگر ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک شخص آیا اور اُس نے کہا فلاں رئیس نے یہ رقم آپ کو تحفہ کے طور پر بھجوائی ہے اُنہوں نے گِنی تو 25۔26روپے تھی اُنہوں نے وہ رقم لپیٹ کر اُسے واپس کردی اور کہا کہ یہ میری نہیں ہوگی کسی اَور کی ہوگی۔ اُس نے لیتے ہی کہا اوہو! مجھ سے غلطی ہوگئی آپ کی رقم تو اس جیب میں ہے اور جب اُ س نے وہ رقم نکالی تو وہ آنوں سمیت اُتنی ہی تھی جتنی وہ شخص مانگتا تھا۔

اب دیکھو جب اُن کے پاس ایک غلط رقم پہنچی تو وہ اُنہوں نے رکھ نہیں لی وہ جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ کو میرے متعلق غیرت ہے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اب جبکہ مجھے مجلس میں ذلیل کیا گیا ہے خدامیرے متعلق اپنی غیر ت ضرور دکھائے گا اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ میر ا قرضہ 31روپے 10آنے ہے اس لئے جب اُن کو 26 روپے ملے اُنہوں نے وہ رقم واپس کرد ی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ میری رقم نہیں ہوسکتی اگر میری رقم ہوتی تو 31روپے 10آنے ہوتی جس کی مجھے ضرورت تھی۔

جب اُنہوں نے 26 روپے واپس کئے تو اُنہیں 31روپے 10 آنے بھی مل گئے اور وہ جو ان کو ٹھگ او ر بددیانت کہہ رہا تھا اُس کو بھی خدا نے ان کی بزرگی کا نشان دکھادیا۔ اگر 26روپے وہ رکھ لیتے تو شاید قرض خواہ 26 روپے لے کر چلاجاتا مگر ہر شخص یہ سمجھتاتھا کہ یہ ایک اتفاقی معاملہ ہے مگر اُنہوں نے 26 روپے واپس کئے اور جب واپس کئے تواُنہیں 31روپے 10 آنے مل گئے۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ326-327)

خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو نوازتا رہتا ہے

میرے ساتھ کئی ایسے واقعات گزرے ہیں بعض دفعہ مذاق میں میَں نے ایک بات کہی ہے تو خدا نے اُ س مذاق کی بات کو بھی پورا کردیا ہے۔

بھائی عبد الرحیم صاحب جو آجکل پشاور رہتے ہیں وہ اور میں ایک دفعہ سارا دن شکار کے لئے پھرتے رہے مگر کوئی جانور نہ ملا واپسی پر ہم کشتی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مجھے ایک مذاق سُوجھا لوگ تو کہتے ہیں کہ خواجہ خضر پانی میں رہتے ہیں مگر میرا یہ عقیدہ ہے کہ خضر ایک فرشتہ ہے اور شاید پرانے بزرگوں کے خیال میں وہ دریاؤں کافرشتہ ہی ہو۔

بہرحال میں نے کہا خواجہ خضر! ہم سارا دن یہاں پھرتے رہے ہیں مگر ہمیں کوئی شکار نہیں ملا اب میں چاہتا ہوں کہ تم ہماری دعوت کرو۔

بھائی عبدالرحیم صاحب چونکہ میرے اُستاد تھے اُنہوں نے یہ سنا تو کہا یہ آپ نے کیا کہا ہے کہ خواجہ خضر ہماری دعوت کرو مگر اُنہوں نے ابھی یہ بات کہی ہی تھی کہ یکدم پانی کی ایک لہر اُٹھی اور ایک بہت بڑی مچھلی ہماری کشتی میں آگری میں نے کہا لو ! خواجہ خضر نے ہماری دعوت کردی تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی نعمتوں سے ہمیشہ سرفراز کرتاہے۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ327-328)

نیک کو کچھ غم نہیں

مَیں دوستوں کو ایک واقعہ سُنا دیتا ہوں بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ پکڑے نہیں جاتے۔

کوئی بزرگ تھے لوگ خیال کرتے تھے کہ وہ بزرگ سیدھے سادے ہیں۔ ایک شخص ان کے پاس گیا اور اُن سے کہا آپ کی جو زمین ہے اُسے کاشت کروایا جائے اور جو آمد آئے وہ ہم دونوں میں تقسیم ہو جایا کرے۔

اُس بزرگ نے کہا بہت اچھا اُس بزرگ نے کہا میں تیار ہوں لیکن پہلے یہ فیصلہ ہو جائے کہ اس آمد کو کس طرح تقسیم کیا جائے تا اختلاف کی کوئی صورت باقی نہ رہے۔ اُس شخص نے کہا فصل کا وزن کرنا توبہت مشکل ہوتا ہے۔ (اُس کا خیال تھا کہ اُس بزرگ سے مفت میں کام لے لے) میری تجویز ہے کہ جو فصل ہم بوئیں وہی تقسیم ہو جائے۔

چنانچہ اُس شخص نے تجویز پیش کی کہ جو فصل بھی ہم بوئیں اُس کا اوپر کا نصف میرا اور نیچے کا نصف آپ کا ہو۔ اُس کا خیال تھا کہ ہم گندم بوئیں گے اور اس طرح غلہ میرا ہوگا اور بُھوسہ اس بزرگ کو ملے گا۔ وہ بزرگ سیدھے سادے نہیں تھے بلکہ عقلمند بھی تھے انہوں نے گاجریں اور مولیاں بُو دیں اور پتے اُس شخص کے حوالے کر دیئے اور گاجریں اور مولیاں خود رکھ لیں۔ اُس شخص نے سمجھا کہ اس دفعہ مجھ سے دھوکا ہو گیا اگلی دفعہ سہی۔

چنانچہ اُس نے بزرگ سے کہا ایک دفعہ اور فصل بوئیں اور دونوں شراکت کریں۔ اس دفعہ آپ اوپر کا حصہ لیں اورمیں نیچے والا حصہ لوں گا۔ اُس بزرگ نے اب کے گندم بو دی اور غلہ آپ رکھ لیا اور نیچے کا حصہ یعنی بھوسہ اُس شخص کے حوالہ کر دیا۔

اُس شخص نے خیال کیا کہ یہ بزرگ اب بھی قابو نہیں آیا چلو ایک دفعہ اور شراکت کریں اور کوئی فصل بوئیں اُس بوڑھے نے کہا بہت اچھا اُس شخص نے کہا اس دفعہ نیچے اور اوپر کا حصہ میں لوں گا اور آپ کو بیچ کا حصہ دوں گا۔ اُس بزرگ نے اس دفعہ مکیءبو دی اور نیچے اور اوپر کا حصہ اُس شخص کے حوالے کر دیا اور خود درمیان کا حصہ لے لیا۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ363-364)

(محمد انور شہزاد)

پچھلا پڑھیں

خادم ترے اہلِ زمیں تُو عبدِ شاہِ آسماں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جنوری 2023