صبر و تحمل کی کمی تمام رنجشوں کا باعث بنتی ہے
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جرمنی کے دورہ ماہ جون 2011 ء کے دوران احباب جماعت کو رشتہداریوں میں برداشت، صبر سے کام لینے کی بار بار تلقین فرمائی جیسے 18 جون کو 7 نکاحوں کا اعلان کرتے ہوئے خطبہ نکاح میں فرمایا۔
’’ آج کل مادیت کا زیادہ زور ہے یا کیا وجہ ہے؟ بے صبری کا اظہار زیادہ ہے صبر کم ہو چکا ہے لوگوں میں برداشت کم ہو چکی ہے کہ ذرہ ذرہ سی بات پر لڑائیاں بھی ہوتی ہیں۔ رنجشیں بھی پیدا ہوتی ہیں اور پھر ان کی نوبت یہاں تک آتی ہے کہ رشتے ٹوٹ جاتے ہیں‘‘
(روزنامہ الفضل 7جولائی 2011ء)
19 جون کو جرمنی بھر سے آئے 240 واقفین نو کو حضور انور ایدہ اللہ نے یوں نصیحت فرمائی۔
پھر برداشت ہے۔ برداشت آج کل بہت کم ہوتی چلی جا رہی ہے دنیا میں۔ اور صبر ہے یہ بھی آپ میں پیدا ہونا چاہئے تبھی آپ حقیقت میں فیلڈ میں جا کر اپنی خدمات کا صحیح استعمال کر سکتے ہیں۔
(روزنامہ الفضل 8 جولائی 2011ء)
اسی طرح 25 جون کو ممبرات لجنہ اماء اللہ سے اپنے معرکۃ الآراء خطاب جس میں حضور انور ایدہ اللہ نے جہاں بہت سے تربیتی امور بیان فرمائے وہاں میاں بیوی کے حقوق اور رشتہ داریوں کو احسن طریق سے نبھانے کی طرف ممبرات کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا۔
عائلی معاملات میں مثلاً بہت فکر مندی پیدا کرنے والی صورت پیدا ہو رہی ہے، صورتحال آج کل یہ ہر جگہ ہے اور جرمنی بھی اس میں شامل ہے۔ صبر نہیں رہا آج کل حوصلہ نہیں رہا، برداشت نہیں رہی۔ اگر ایک فریق زیادتی کرتا ہے تو دوسرا فریق پھر نہلے پر دہلا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خلع اور طلاقوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
(الفضل 16 جولائی 2011ء)
جرمنی سے واپس آکرلندن کے 45 ویں جلسہ سالانہ پرحضور انور نے دوسرے دن مورخہ 23 جون کو مستورات سے بصیرت افروز خطاب فرمایا۔ جس میں عائلی اور فیملی جھگڑوں سے نجات کی عالمی تحریک فرمائی۔ اس میں بھی پیارے حضور نے بار بار عدم قوت برداشت کا ذکر فرمایا ہے کہ برداشت کم ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے خانگی اور فیملی جھگڑوںمیں اضافہ ہوا ہے۔ مثلاً حضور نے فرمایا۔
i-بے صبری اور گندی زبان سے امن برباد ہو رہا ہے۔ii-ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کو احترام دیں۔ صبر اور برداشت سے کام لیں۔ iii-بے صبری نہ ہو گی برداشت ہوگی تو تقویٰ سے رشتے قائم ہوں گے اور آخرمیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔ بے صبری سے بچنا ہو گا۔برداشت کرنے کی عادت ڈالنی ہو گی اور دخل اندازی بھی بند کرنی ہوگی۔ سچائی کا استعمال زیادہ کرنا ہو گا۔
(روزنامہ الفضل29جولائی2011ء)
پیارے حضور کے ان ارشادات کو آج اگر عالمی حالات کے تناظر میں دیکھیں تو زندگی کے ہر شعبہ میں بے صبری دکھائی دیتی ہے۔برداشت کم ہو گئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی بات پر انسان فوراً غصہ میں آجاتا ہے اور آپے سے باہر ہو نے لگتا ہے۔ اس میں اب انسان ہی نہیں بلکہ سوسائٹیاں، جماعتیں ، کمیونٹیاں اور حکومتیں بھی Involve ہو رہی ہیں۔ ایک سوسائٹی کا دوسری سوسائٹی کے خلاف غیظ و غضب ، ایک جماعت کی دوسری جماعت کے خلاف منصوبہ بندی، ایک کمیونٹی کی دوسری کمیونٹی کے خلاف ہرزہ سرائی اور دوسری حکومت کی مخالفت اوراُسے دباؤ میں رکھنا روز کا معمول بنتا جا رہا ہے۔دوسری طرف انسان نے اپنی ترجیحات خود بنالی ہیں۔ اگر اس کو اپنے موافق ماحول میسر نہ ہو تو بڑبڑانا شروع کرتا ہے اور دوسروں کے خلاف بولنے لگتا ہے۔ طبیعت کے خلاف اگر کوئی بات ہو جائے توخاوند بیوی کو ڈانٹنا شروع کر دیتا ہے۔ بیوی طبیعت کے مخالف بات سننے پر سر پھوڑنا شروع کر دیتی ہے۔ حالانکہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اپنی بیوی کی خامیوں کا ہی ذکر نہ کرتے رہا کرو آخر اُس کے اندر اچھائیاں بھی ہو ں گی۔
اگر معاشرہ کو دیکھیں تو وہ بد امنی کا شکار نظر آتا ہے۔ لڑائی جھگڑے، قتل و غارت، اغواء برائے تاوان، ڈکیتی کے واقعات اورٹارگٹ کلنگ عام ہوتی جا رہی ہے۔ کرائم ریٹ بہت بڑھ گیا ہے۔ اقتصادی بد حالی اور کساد بازاری جگہ جگہ نظر آرہی ہے۔ بے روزگاری نے انسان کو پریشان کر رکھا ہے ساری دُنیا کریڈٹ کرنچ کا شکار ہے ہر انسان Depression اور Frustration کا شکار نظر آتا ہے۔ گویا کہ انسان نفسیاتی مریض ہو تا جا رہا ہے۔ گھر میں معمولات زندگی بُری طرح Disturb ہیں۔ جب انسان نے اپنے رہن سہن کا معیار بلند کر لیا ہے۔ ترجیحات زندگی تبدیل کر لی ہیں اور اس کریڈٹ کرنچ میں وہ اپنا خود ساختہ معیار زندگی برقرار نہیں رکھ پا رہا تو لازماً بے صبری پیدا ہو گی اور برداشت کا مادہ کم ہوگا۔
مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ قبل گھروں میں یہ سہولیات نہ تھیں جو اب ہیں۔ انسان شدید گرمی میں بھی ہاتھ کے پنکھے سے گزارا کر لیتا تھا اور صبرو شکر کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر تا تھا۔ باہر درخت کے نیچے چارپائی بچھالی یا فرش کو ٹھنڈا کرکے چارپائی بچھا کر سو گیا اس وقت بیماریاں بھی کم تھیں۔
اب قریباً ہر گھر میں پنکھا اور کولر ہونے کے باوجود انسان گرمی کی شدت و حدت کا واویلا کرتا دکھائی دیتاہے۔ AC والا بھی گرمی کا رونا رو رہا ہوتا ہے۔ بیماریاں پہلے سے بہت بڑھ گئی ہیں۔ہر چوتھا شخص شوگر، بلڈ پریشر اور دل کا مریض دکھائی دیتا ہے۔ پھر بے صبری کیوں نہ بڑھے، برداشت کے مادے میںکمی کیوں نہ ہو۔ گھروں میں توتکار کیوں نہ ہو۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پنکھا یا کولر نہیں چلے گا تو طبیعت میں بے چینی تو پیدا ہو گی جو آخرکار لڑائی پر منتج ہو تی ہے ۔
حضرت مسیح موعودؑ کا نمونہ تو ہمارے سامنے یوں موجود ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ سخت گرمی کے دن تھے حضرت بانی سلسلہ احمدیہؑ تالیف و تصنیف میں منہمک تھے ایک مخلص دوست نے عرض کی۔ گرمی بہت ہے۔ تبسم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ تجویز تو آپ کی اچھی ہے مگر پنکھا لگا اور ٹھنڈی ہوا چلی تو پھر نیند آجائے گی اور سونے کو جی چاہے گا۔قوم تو آگے ہی سوئی ہوئی ہے ہم بھی سو رہے تو دین کی تائید کون کرے گا؟
جیسا کہ اوپر لکھ آیا ہوں کہ Frustration اور Depression بڑھنے کی وجہ صرف گرمی کا برداشت نہ کرنا ہی نہیں بلکہ انسان کی اپنی بنائی ہوئی بعض ترجیحات بھی ہیں جیسے فیشن ہے۔ عید اور شادی بیاہ جیسے خوشی کے مواقع میں بھی فیشن کے مطابق اشیاء نہ ملنے پر طبیعت میں غصہ کی علامات ظاہر ہورہی ہوتی ہیں جو لڑائی جھگڑے کا باعث بنتی ہیں۔
ان تمام کا علاج توقرآنی تعلیم میں خداتعالیٰ پر توکل ہی ہے۔ اس کے حضور جھک کر دُعا کرنے میں ملتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بارہا اس مضمون کو بیان فرمایا کہ تکلیف میں انسان خداتعالیٰ کی طرف جھکتا ہے اور جب اس کی وہ تکلیف دُور ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی دُعاؤں کو سُن کر اس پر کوئی انعام نازل کرتا ہے تو بے صبری دکھلاتا اور خدا تعالیٰ سے دُور ہو جاتا ہے۔
عُسرویُسر ہر دو حالتوں میں اپنے رب کریم کا شاکر و صابر عبد بن کر رہنے ہی میں کامیابیاں ہیں۔ فلاح کے راستے کھلتے ہیں۔ قوت برداشت، صبر اور وسعت حوصلہ کا مضمون بہت وسیع ہے اور اخلاق حسنہ کی اساس ہے تمام اخلاق انہی کے اردگھومتے نظر آتے ہیں۔ اور بہت سی بد اخلاقیاں، بے صبری، وسعت حوصلہ نہ ہونے اور برداشت کی کمی کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔ جبکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی اس لئے کیا کہ وہ برداشت کا مادہ رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب آیت 73 میں جہاں امانت کے اُٹھانے کا ذکر فرمایا ہے کہ یہ امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی گئی انہوں نے معذرت کرلی مگر انسان نے اِسے اُٹھالیا۔ دراصل اُس جگہ اس برداشت کا ذکرہے جو انسان میں موجود ہے۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اپنی کتاب ’’محبت الہٰی‘‘ میں اس امانت کو محبت کا نام دیا ہے جو ایک انسان اپنے خدا اور اس کی مخلوق سے کرتا ہے اور اس محبت کی وجہ سے مخلوق کی خاطر بہت سی تکالیف ،مصائب اور مشکلات کو برداشت کرتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔
’’ میں نے اپنی امانت یعنی محبت کو آسمانوں کے رہنے والوں یعنی فرشتوں اورزمین کے حیوانات اور پہاڑوں کے جانداروں پر پیش کیا مگر وہ اس کے اٹھانے سے ڈرے اور انکار کر دیا مگر انسان نے جو کہ ظالم اور جاہل ہے اس کو اٹھا لیا اور محی الدین ابن عربی صاحبؒ جو کہ ائمہ اسلام میں سے گزرے ہیںفرماتے ہیں کہ اس جگہ پر انسان کی تعریف ہے مذمت نہیں اور ظالم اور جاہل کے الفاظ جو کہ بظاہر بُرے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں اس جگہ پر تعریف کے طورپر استعمال ہوئے ہیں اور وہ اس طرح ہے کہ ظالم سے مراد ہے کہ انسان اپنی جان پرظلم کر سکتا ہے اور ان مصیبتوں اور تکلیفوں کو برداشت کر سکتا ہے جو کہ خدا کی محبت میں اس کو پیش آویں۔ اور جاہل اس لئے کہ اس نے ان تکالیف اور شدائد کی بابت سوچا بھی نہیں جو اس کو اس راہ میں پیش آسکتی تھیں اور دوسرے حیوانات نے دور اندیشی سے اس سے انکار کردیا اور گوکہ اس جگہ انسان نے دور اندیشی سے کام نہیں لیا لیکن یہ اس کی تعریف ہے کہ اس نے خدا تعالیٰ کی محبت کو ایک پیاری اور عمدہ چیز دیکھ کر کسی اور بات کا خیال بھی نہیں کیا۔ اور وہ بوجھ جس کا اٹھانا دوسروں نے ناپسند کیا تھا اس کو برضاورغبت اٹھالیا۔ اور اسی لئے ہے کہ جب انسان اپنے عہد اور اقرار کو پورا کرتا اور خدا کی محبت میں اپنے آپ کوباوجود سخت سخت مصیبتوں اور تکلیفوں کے ثابت قدم رکھتا ہے تو اس پر اس قدر انعام اور اکرام ہوتے ہیں جو کہ کسی اور مخلوق پر نہیں ہوتے۔‘‘
حضرت مسیح موعود قوت برداشت کے حوالہ سے احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’ جوش کے وقت اپنے آپ کو سنبھالنا چاہئے۔ دکھ تو ہوتا ہے مگر انسان ثواب پاتا ہے۔ اگر کوئی ہمیں برا کہتا ہے تو وہا ں سے اٹھ گئے یا الگ ہو گئے۔نہ سناکہ جس سے جوش آوے اور فساد ہووے‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ایک متقی کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’متقی کی یہ صفت ہے کہ اس میں برداشت تحمل ہوتا ہے اور یہ صبر کوئی ایسی چیز نہیں جو انسانی قدرت سے باہر ہو۔ اسی لئے لَا …(البقرہ:287) فرماچکا ہے۔ ایک رئیس تھا اس کے حضور میں ایک شخص نے عرضی دی کہ حضور کی قوم کے ایک آدمی نے مجھے گالی دی ہے۔ اُسے بُلایا گیا۔ رئیس نے اس آدمی کو سخت گالیاں دیں جو اس کی شان سے بعید تھیں۔ اخیر اس حاکم نے اس سے پوچھا تم نے اس افسر کی کیوں بےعزتی کی؟ تو وہ کہنے لگا کہ اس نے مجھے گالی دی تھی پھر مجھ میں تابِ حوصلہ نہ رہی۔ رئیس نے کہا کہ صبر کی طاقت تو تجھ میں ہے۔ دیکھو میں نے بھی تجھے گالیاں دیں اور تم چپکے ہنسا کئے۔ اگر لوگ صبر کریں تو بہت سی لڑائیوں کا خاتمہ ہو جاوے۔
صبر کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے اپنے تئیں روکنا۔ غیظ و غضب سے، شہوت سے، حرص و آزسے‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنی تقریر جلسہ سالانہ 1919ء بعنوان ’’عرفان الہٰی‘‘ میں تزکیہ نفس کے طریق بیان فرمائے اس کے تحت غلطی پر تنبیہ کی صورت میں برداشت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا۔
’’اگر کسی غلطی پر تنبیہ ہو تو اسے برداشت کیا جائے۔ بہت لوگ اس لئے اپنی اصلاح نہیں کر سکتے کہ جب انہیں ان کی کوئی غلطی بتائی جائے تو اس پر چِڑتے ہیں اور اس کی اصلاح نہیں کرتے۔ لیکن ایسا نہیں چاہئے جب غلطی پر تنبیہ ہو تو اس کو برداشت کرنا چاہئے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتۡہُ الۡعِزَّۃُ بِالۡاِثۡمِ فَحَسۡبُہٗ جَہَنَّمُ (البقرہ:207) کہ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کو اگر کہا جائے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ تو ان کو نصیحت کے سننے سے غیرت آجاتی ہے اور اپنی ہتک عزت کے خیال سے دیوانہ ہو کر بجائے نصیحت سے فائدہ اٹھانے کے ناصح کا مقابلہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے۔ کیونکہ وہ بجائے اس کے کہ غلطی بتانے والے کے ممنون ہوں۔ الٹے اس سے لڑتے ہیں۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ جس کسی میں غلطی یا نقص دیکھے بازار میں کھڑا ہوکر اسے تنبیہ کرنا شروع کر دے۔ سمجھانا ہمیشہ علیحدگی میں چاہئے اور سمجھانے والے کو اپنی حیثیت اور قابلیت بھی دیکھنی چاہئے کہ وہ جس شخص کو سمجھا نا چاہتا ہے اسے سمجھانے کی قابلیت بھی رکھتاہے یا نہیں تاکہ اس کانتیجہ الٹا نہ نکلے۔ غرض جہاں یہ ضروری ہے کہ غلطی کرنے والوں کو برداشت کی طاقت پیدا کرنی چاہئے اور سمجھانے والے کی بات کوٹھنڈے دل سے سننا چاہئے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ سمجھانے والا بھی بہت احتیاط سے کام لے۔یہ نہ ہو کہ جس کو چاہے لوگوں میں ذلیل کرنا شروع کردے‘‘
حضرت مسیح موعودؑ کا صبر و تحمل ضبط نفس اور قوت برداشت
اب یہاں چند ایک واقعات مامور زمانہ حضرت مسیح موعود کی سیرت سے نقل کئے جا رہے ہیں جو اپنے پیارے امام و مطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اطاعت میں ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔ آپ نے اس میدان میں ایک نمونہ اپنے متبعین کیلئے چھوڑا ہے۔ آپ اپنے متعلق خود فرماتے ہیں۔
’’میں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اور خداتعالیٰ نے میرے نفس کو ایسا (۔) بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے میرے نفس کو گندی سے گندی گالیاں دیتا رہے۔ آخر وہی شرمندہ ہو گا اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا‘‘
حضرت ملک غلام حسین صاحب رہتاسی صحابی حضرت مسیح موعودؑ تحریر فرماتے ہیں۔
’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک مولوی ہندوستان سے آیا۔ نماز ظہر ہو چکی تھی۔ ماہ جون تھا۔ حضرت مسیح موعود نماز پڑھ کر تشریف فرما ہوئے اور بہت سے خدام بیٹھے تھے کہ وہ مولوی آیا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا آئیے تشریف لائیے۔ وہ بیٹھنے نہ پایا تھا کہ اس نے گالیاں نکالنا شروع کر دیں اور کہنے لگا کہ تم نے دین محمدی کو بگاڑ دیا ہے۔ حضورؑ نے مسکراکر فرمایا۔ مولوی صاحب تشریف رکھیں۔ آپ کے سب سوالات کا جواب دیا جائے گا۔ مجھے فرمایا کہ اندر سے مولوی صاحب کے لئے دودھ میں برف اور کیوڑہ ڈال کرلے آئو۔ مولوی صاحب گرمی میں سے آئے۔ میں نے دودھ لا کر مولوی صاحب کو دیامگر اس نے پینے سے انکار کر دیا اور نہ پیا۔ اور برابر گالیاں … دیتا رہا۔ ایک نو احمدی جو عیسائی سے احمدی ہوا تھا۔ وہاں موجود تھا۔ اس سے صبر نہ ہو سکا اور ایک تھپڑ لگا دیا۔ وہ مولوی فوراً اُٹھ کر چلاگیا۔
حضرت اقدس اس نواحمدی پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم نے اس مولوی کو کیوں مارا؟وہ گالیاں تو ہمیں دے رہا تھا۔ … حضور نے اس نو احمدی سے کہا کہ اس کو ابھی جا کر واپس لاؤ۔ وہ شخص واپس لانے کے لئے گیا۔ بعد میں خود حضور تشریف لے گئے اور اس مولوی سے فرمایا کہ آپ واپس چلیں۔ مگر وہ نہ مانا اور چلا گیا۔
ایک دفعہ جبکہ حضرت مولوی عبداللطیف صاحب قادیان آئے ہوئے تھے۔ حضور نے ایک موقع پر تقریر فرمائی اور ایک باہر کے آئے ہوئے شخص نے گستاخی سے کہا کہ آپ کیونکر مہدی اور مسیح ہو سکتے ہیں جبکہ آپ کے مخارج حروف بھی درست نہیں ہیں۔ مولوی عبداللطیف صاحب کو غصہ آگیا۔ ایک دوسرے موقع پر حضرت اقدس نے بتلایا کہ میں اس عرصہ میں اس مولوی صاحب کا ہاتھ پکڑے رہا۔ تاکہ اسے کہیں مار نہ دیں‘‘
اس واقعہ کی تفصیل ایک اور جگہ پر یوں ملتی ہے۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کی مجلس میں ایک شخص لکھنؤ سے آیا اور اس نے مقابلہ کی خواہش کی اور کہا میں آپ کو آپ کے دعوے میں جھوٹا ثابت کروں گا۔ حضرت مسیح موعود نے اس کی سخت کلامی سن کر فرمایا۔
میرے دلائل تو متقیوں پر اثر کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگا کہ آپ نے اتنا بڑا دعویٰ کر دیا۔ مگر آپ قاف کا تلفظ تک صحیح ادا نہیں کر سکتے۔
حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیفؓ مسیح موعودؑ کی مجلس میں بیٹھے تھے یہ سن کر غصے میں آگئے اور اسے مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا۔ مگر حضرت مسیح موعودؑنے منع فرمایا۔ اور فرمایا کہ سید صاحب بھی ہمارے مہمان ہیں۔ اور آپ بھی ہمارے مہمان ہیں۔ اور میں درمیان میں صلح کرانے والا ہوں پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ اچھا آپ نے عربی پڑھی ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ پھر فرمایا کہ حدیث بھی پڑھی ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ پھر فرمایا کہ آپ نے وہ حدیث نہیں پڑھی۔ جس میں لکھا ہے کہ مہدی کی زبان میں ثقل ہو گا۔ اس پر وہ مان گیا اور بیعت کی اور آپ کی مدح میں قصیدہ لکھا۔ اس شخص کا نام مولوی یوسف خاں تھا۔
حضرت چوہدری غلام محمد صاحب ساکن پوہلہ مہاراں ضلع سیالکوٹ حضرت مسیح موعود کے کمال قوت برداشت کا ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں۔
جلسہ سالانہ 1906ء کا ذکر ہے نماز جمعہ کا خطبہ ہو رہا تھا۔ جگہ بالکل پُر تھی۔ سب سے آخر میں میں لوئی بچھا کر بیٹھا کہ حضرت مسیح موعود اور میر حامد شاہ صاحب بھی آکر تشریف فرماہوئے۔ جب نماز شروع ہوئی۔ تو حضور کو ایک ہندو نے شدید گالیاں دینی شروع کیں۔ اس ہندو کا مکان بیت اقصیٰ کی بڑی سیڑھیوں سے جنوب مغرب کی طرف تھا۔ وہ نہایت غلیظ گالیاں نکال رہا تھا۔ حتیٰ کہ اس نے آپ کی لڑکیوں کو بھی غلیظ گالیاں اور نامناسب الفاظ کہے کہ یہ لوگوں کو بلا کر لاتا ہے۔ میرے مکان پر سے گزرتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہوئے میرے دل میں بڑی گھبراہٹ تھی۔ خیال کر رہا تھا کہ نماز کے بعد خدا جانے اس کا کیا حشر ہو گا۔ آپ ضرور اس کو سزا دیں گے۔ اور رسوائی کریں گے۔ مگر میں حیران رہ گیا کہ حضور نے اس کو کچھ نہ کہا اور گھر کو چلے گئے۔ تھوڑے وقفہ کے بعد حد بندی کرنے کے لئے حضور نے تار لگانے والے کو بھیجا۔ حد بندی کرنے کے بعد حضور نے آکر تقریر فرمائی اور کہا کہ میں آج بہت خوش ہوں کہ میری جماعت نے نہایت صبر کا نمونہ دکھایا ہے۔ اور اسی سال حضور نے ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ مشہور نظم لکھی۔ ہاں ایک بات بھول گیا وہ یہ کہ جب وہ ہندو گالیاں دے چکا تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے حضرت مسیح موعود سے عرض کی حضور! بہتر ہو کہ اس مکان کو خرید لیں۔
تو حضور نے فرمایا۔ کہ میں تو اس کو ایک پیسہ میں بھی نہیں خریدتا۔ جوشاہی خیمہ کے پاس آکر خیمہ لگاتا ہے۔ اس کی شامت آئی ہوئی ہے۔‘‘
حضرت مصلح موعود نے حضرت مسیح موعود کی سیرت بیان کرتے ہوئے آپ کے ضبط نفس کے دو واقعات یوں بیان فرمائے۔
’’حضرت مسیح موعود کی مجلس میں ایک شخص آیا اور آپ کو آتے ہی گالیاں دینے لگ گیا۔ اور جب خوب گالیاں دے چکا۔ اور بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا۔ تسلی ہو گئی یا کچھ اور بھی باقی ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ حضرت مسیح موعود لاہور تشریف لے گئے تھے۔ وہاں رستہ میں ایک شخص نے آپ کو دھکا دے دیا تھا۔ لوگ اس کو مارنے لگے۔ مگر آپ نے فرمایا۔ نہیں اسے کچھ نہ کہو۔ اس نے تو اپنے اخلاص سے ہی دھکا دیا ہے۔ وہ دراصل مدعی نبوت تھا۔ آپ نے فرمایا۔ اس نے سمجھا ہے کہ ہم ظالم ہیں اور اس کا حق مار رہے ہیں‘‘
حضور کی سیرت کا یہ پہلو اتنا روشن اور تابناک ہے کہ اگر تائیدات الٰہیہ کسی بندے کے ساتھ نہ ہوں تو اتنا صبروتحمل اور ضبط نفس کا مظاہرہ ایک انسان کے بس کی بات نہیں۔
حضرت مسیح موعود کی مخالفت میں جو گندے اشتہارات گالیوں کے شائع ہوا کرتے تھے، ان کو حضور ایک الگ بستے میں رکھتے تھے۔ چنانچہ ایسے اشتہاروں کا ایک بڑا بستہ بن گیا تھا۔ جو ہمیشہ آپ کے کمرے میں کسی طاق میں یا صندوق میں محفوظ رہتا تھا۔
(الفضل 14 جون 2004ء)
برداشت کا ایک پہلو افسران یا حاکموں سے تعلق رکھتا ہے جن کے پاس لوگ شکایات لے کر جاتے ہیں اور ایک فریق کی بات سن کر فوراً جذبات میں مغلوب ہو جاتے ہیں۔اس سلسلہ میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت مسیح موعود کی سیرت کا یوں ذکر کرتے ہیں۔
’’ایک دفعہ مولوی محمد علی صاحب کو معلوم ہوا کہ کسی شخص نے حضرت صاحب کے پاس ان کی کوئی شکایت کی ہے۔ اس پر وہ بہت برہم ہوئے۔ اور حضرت صاحب سے عرض کیا کہ لوگ خواہ مخواہ ہماری شکایتیں آپ کے پاس لے جاتے ہیں۔ اور ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے آپ نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا۔آپ گھبرائیں نہیں، لوگ اگر ایسی شکایتیں کرتے بھی ہیں تو میری ایسی حالت ہوتی ہے کہ گویا میں نے سنا ہی نہیں کہ کسی نے کیا کہا‘‘
نفسانی جوشوں کو دبانا بھی ایک ایسا خُلق ہے جو برداشت کے زمرہ میں آتا ہے۔ اس سلسلہ میں ہماری جماعت کی تاریخ بھری پڑی ہے چنانچہ آریوں کی طرف سے1907ء کے جلسہ مذاہب میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر فرمایا۔
’’اگر پاک طبع (۔) کو اپنی تہذیب کا خیال نہ ہوتا اور بموجب قرآنی تعلیم کے صبر کے پابند نہ رہتے اور اپنے غصہ کو تھا م نہ لیتے تو بلاشبہ یہ بدنیت لوگ ایسی اشتعال دہی کے مرتکب ہوئے تھے کہ قریب تھا کہ وہ جلسہ کا میدان خون سے بھر جاتا۔ مگر ہماری جماعت پر ہزار آفرین ہے کہ انہوں نے بہت عمدہ نمونہ صبر اور برداشت کا دکھایا اور وہ کلمات آریوں کے جو گولی مارنے سے بدتر تھے ان کو سن کر چپ کے چپ رہ گئے۔‘‘
پھر چشمہ معرفت کے آغاز پر باعث تالیف عنوان کے تحت آپ تحریر فرماتے ہیں۔
’’اگر میری طرف سے اپنی جماعت کے لئے صبر کی نصیحت نہ ہوتی اور اگر میں پہلے سے اپنی جماعت کو اس طور سے تیار نہ کرتا کہ وہ ہمیشہ بد گوئی کے مقابل پر صبر کریں تو وہ جلسہ کا میدان خون سے بھر جاتا مگر یہ صبر کی تعلیم تھی کہ اس نے ان کے جوشوں کو روک لیا۔‘‘
حضرت میاں اللہ دتہ صاحب رفیق حضرت مسیح موعود ساکن ترگڑی ضلع گوجرانوالہ نے بیان فرمایا۔
ایک دفعہ جب حضرت صاحب لاہور تھے ایک مولوی حضرت صاحب کو گالیاں نکالتا تھامیں نے ارادہ کیا کہ میں اسے پکڑ کر خوب ماروں۔ اتنے میں حضرت صاحب مکان سے باہر نکلے۔ فرمایا کہ چاہے کوئی شخص ہمیں کسی قدر بھی گالیاں دے ہماری جماعت کا کوئی آدمی کسی کو ضرر نہ دے جو ایسا کرے گا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب رفیق حضرت مسیح موعودرعیہ کے ہسپتال میں لمبا عرصہ ملازم رہے ہیں۔ انہی ایام کا واقعہ ہے کہ ایک روز حضرت شاہ صاحب نماز کی ادائیگی کے لئے نزدیکی بیت الذکر میں تشریف لے گئے اس وقت ایک سخت مخالف احمدیت چوہدری رحیم بخش صاحب وضو کے لئے مٹی کا لوٹا ہاتھ میں لئے وہاں موجود تھے۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کو دیکھتے ہی مذہبی بات چیت شروع کر دی۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کی کسی بات پر چوہدری رحیم بخش صاحب نے شدید غصہ میں آکر مٹی کا لوٹازور سے آپ کے ماتھے پر دے مارا۔ لوٹا ماتھے پر لگتے ہی ٹوٹ گیا۔ ماتھے کی ہڈی تک مائوف ہو گئی اور خون زور سے بہنے لگا۔ ڈاکٹر صاحب کے کپڑے خون سے لت پت ہو گئے۔ آپ نے زخم والی جگہ کو ہاتھ سے تھام لیا اور فوراً مرہم پٹی کے لئے ہسپتال چل دئے۔ ان کے واپس چلے جانے پر چودھری رحیم صاحب گھبرائے کہ اب کیا ہوگا؟ یہ سرکاری ڈاکٹر ہیں۔ افسر بھی ان کی سنیں گے اور میرے بچنے کی اب کوئی صورت نہیں۔ میں کہاں جاؤں اور کیا کروں؟ وہ ان خیالات میں ڈرتے ہوئے اور سہمے ہوئے بیت الذکر میں ہی دبکے پڑے رہے۔ اِدھر ڈاکٹر صاحب نے ہسپتال میں جا کر زخمی سر کی مرہم پٹی کی۔ دوائی لگائی اور پھر خون آلود کپڑے بدل کر دوبارہ نماز کے لئے اسی مسجدمیں آگئے۔
جب ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب دوبارہ مسجد میں داخل ہوئے اور چودھری رحیم بخش صاحب کو وہاں دیکھا تو دیکھتے ہی آپ مسکرائے اور مسکراتے ہوئے پوچھا کہ:۔
’’چوہدری رحیم بخش ! ابھی آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوا ہے یا نہیں؟‘‘
یہ فقرہ سنتے ہی چوہدری رحیم بخش صاحب کی حالت غیر ہو گئی فوراً ہاتھ جوڑتے ہوئے معافی کے ملتجی ہوئے اور کہنے لگے کہ شاہ صاحب! میری بیعت کا خط لکھ دیں۔ یہ اعلیٰ صبر کا نمونہ اور نرمی اور عفو کا سلوک سوائے الٰہی جماعت کے افراد کے کسی اور سے سرزد نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ چودھری صاحب احمدی ہو گئے کچھ عرصہ بعد ان کے باقی افراد خانہ بھی جماعت احمدیہ میں داخل ہوگئے۔
(الفضل3جون1967ء)
جہاں تک حضرت مسیح موعودکا خانگی معاملات میں برداشت کا تعلق ہے وہ بھی آپ کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ آج لوگ ذرا ذرا سی بات پر اپنی بیویوں سے جھگڑپڑتے ہیں۔ سالن میں معمولی نمک زیادہ ہو جائے یا بروقت کھانا نہ ملے تو آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔ گالی گلوچ پر اُتر آتے ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود نے معاشرت کا ایک مثالی نمونہ ہمارے لئے چھوڑا۔روایت ہے کہ
شادی کے بعد حضرت اماں جان جب پہلے پہل دلی سے قادیان تشریف لائیں تو آپ کو بتایا گیا کہ حضرت صاحب گڑ کے میٹھے چاول پسند فرماتے ہیں آپ نے بہت شوق اور اہتمام سے میٹھے چاول پکانے کا انتظام کیا۔ تھوڑے سے چاول منگوائے اور اس میں چار گنا گڑ ڈال دیااور بالکل راب سی بن گئی۔ جب پتیلی چولہے سے اتاری اور چاول برتن میں نکالے تو دیکھ کر سخت رنج اور صدمہ ہوا کہ یہ تو خراب ہو گئے ادھر کھانے کا وقت قریب ہو گیا۔ آپ حیران تھیں کہ اب کیا کروں۔ اتنے میں آپ آگئے۔ آپ کا چہرہ دیکھا جو رنج اور صدمہ سے رونے والیوں کا سا بنا ہوا تھا آپ دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا۔ کیا چاول اچھے نہ پکنے کا افسوس ہے؟
پھر فرمایا نہیں یہ تو بہت اچھے ہیں۔ میرے مذاق کے مطابق پکے ہیں۔ ایسے زیادہ گڑوالے ہی تو مجھے پسندیدہ ہیں یہ بہت ہی اچھے ہیں اور پھر بہت خوش ہو کر کھائے آپ فرماتی تھیں کہ ’’حضرت صاحب نے مجھے خوش کرنے کی اتنی باتیں کیں کہ میرا دل بھی خوش ہو گیا‘‘
گھریلو معاملات میں رنجشیں قوت برداشت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
آجکل …ہر جگہ میاں بیوی کے جھگڑوں کے معاملات میرے سامنے آتے رہتے ہیں۔ جن میں مرد کا قصور بھی ہوتا ہے عورت کا قصور بھی ہوتا ہے۔ نہ مرد میں برداشت کا وہ مادہ رہا ہے جو ایک مومن میں ہونا چاہئے نہ عورت برداشت کرتی ہے … قصور دونوں کی طرف سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے رنجشیں پیدا ہوتی ہیں گھر اجڑ تے ہیں پس دونوں طرف کے لوگ اگر اپنے جذبات پر کنٹرول رکھیں اور تقویٰ دل میں قائم کرنے والے ہوں تو یہ مسائل کبھی پیدا نہ ہوں۔
پھر فرمایا۔
جب شادی ہوگئی تو اب شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کریں۔ نیک سلوک کریں۔ ایک دوسرے کو سمجھیں ۔اللہ کا تقویٰ اختیار کریں۔
مشترکہ خاندانی نظام میں بوڑھے والدین کی خدمت کرنا اور ان کی حرکات کو برداشت کرنا بھی ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں۔
’’جب انسان بوڑھا ہو جاتا ہے تو بو جہ بے دست وپا ہونے کے اور مختلف قسم کی بیماریوں اور ضعفوں کے پیدا ہو جانے کے اس کا مزاج چڑچڑا ہو جاتا ہے پس فرمایا کہ اس حالت میں بھی کہ جب وہ نہایت چڑچڑے اور ترش رو ہو جائیں اور ان کی حرکات برداشت سے باہر ہوتی جائیں تم کو چاہئے کہ ان کی کسی حرکت پر اظہار ناراضگی نہ کرو بلکہ (ان کی خواہش) اگر پوری کر سکتے ہو تو کردو اور اگر پوری نہیں کر سکتے تو بڑی نرمی سے عرض کردو کہ یہ بات ہماری طاقت سے باہر ہے اور جب ان سے کلام کرو تو نہایت ادب کے ساتھ کرو اور ان کے سامنے ایسے نرم ہو جاؤ کہ گویا رحمت کے مارے تم ان کے سامنے بچھے جاتے ہو اور پھر اسی پر بس نہ کرو بلکہ ان کے لئے دعائیں کرتے رہو کہ ان کی خدمت میں جو کچھ کوتاہی ہم سے ہوتی ہے اس کا بدلہ خدائے تعالیٰ اپنے پاس سے ان کو دے‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے جماعت احمدیہ کی دوسری صدی میں داخلہ سے قبل مورخہ 24 نومبر 1989ء کو ایک تاریخی اور بصیرت افروز خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ جس میں حضورنے جماعت کو اخلاق حسنہ اپنانے کی تلقین فرمائی کہ اب ہم دوسری صدی میں داخل ہونے کو جار ہے ہیں۔ اس میں بداخلاقیوں اور بُرائیوں کا بوجھ اُٹھا کر سفر کرنا مشکل ہو گا اس لئے اخلاق حسنہ بالخصوص پانچ بنیادی اخلاق کی طرف توجہ دلائی جن میں سے تیسرے نمبر پر وسعت حوصلہ اور قوت برداشت کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا۔ اور مذہبی قوموں کی تعمیر میں سب سے اہم بات اس کے اخلاق کی تعمیر کو قرار دیتے ہوئے ہر تین ذیلی تنظیموں کو انہیں اپنانے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔
’’تیسری چیز وسعت حوصلہ ہے۔ بچپن ہی سے اپنی اولاد کو یہ سکھانا چاہئے کہ اگر تمہیں کسی نے تھوڑی سی کوئی بات کہی ہے یا تمہارا کچھ نقصان ہو گیا ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں اپنا حوصلہ بلند رکھو اور حوصلے کی یہ تعلیم بھی زبان سے نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اپنے عمل سے دی جاتی ہے۔ بعض بچوں سے نقصان ہو جاتے ہیں ۔گھر کا کوئی برتن ٹوٹ گیا سیاہی کی کوئی دوات گر گئی، کھانا کھاتے ہوئے پانی کاگلاس الٹ گیا اور ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر میں نے دیکھا ہے کہ بعض ماں باپ برافروختہ ہو کر بچوںکے اوپر برس پڑتے ہیں، ان کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں، چپیڑیں مارتے ہیں اور کئی طرح کی سزائیں دیتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ جن قوموں میں یا جن ملکوںمیں ابھی تک ان کا ایک طبقہ یہ توفیق رکھتا ہے کہ وہ نوکر رکھے وہاں نوکروں کے ساتھ تو اس سے بھی بہت بڑھ کر بد سلوکیاں ہوتی ہیں۔ تو ان جگہوں میں جہاں نوکروں سے بد سلوکیاں ہو رہی ہوں ، ان گھروں میں جہاں بچوں سے بدسلوکیاں ہو رہی ہوں وہاں آئندہ قوم میں بڑا حوصلہ پیدا نہیں ہو سکتا۔
حضرت مسیح موعودؑنے جو اپنے بچوں کی تربیت کی وہ محض کلام کے ذریعے نہیں کی بلکہ اعلیٰ اخلاق کے اظہار کے ذریعے کی ہے۔ حضرت مصلح موعود جب بچے تھے حضرت مسیح موعود کا ایک بہت ہی قیمتی مقالہ جو آپ نے تحریرفرمایا تھا اور اس کو طباعت کے لئے تیار فرمایا تھا وہ آپ نے کھیل کھیل میں جلا دیااور سارا گھر ڈرا بیٹھا تھا کہ اب پتہ نہیں کیا ہو گا اور کیسی سزا ملے گی (لیکن) جب حضرت مسیح موعود کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا کوئی بات نہیں خدا اور توفیق دے دے گا۔
حوصلہ اپنے عمل سے پیدا کیا جاتا ہے اور وہ ماں باپ جن کے دل میں حوصلے نہ ہوں وہ اپنے بچوں میں حوصلے نہیں پیدا کر سکتے اور نرم گفتاری کا بھی حوصلے سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ چھوٹے حوصلے ہمیشہ بدتمیز زبان پیدا کرتے ہیں۔بڑے حوصلوں سے زبان میں بھی تحمل پیدا ہوتا ہے اور زبان کا معیار بھی بلند ہوتا ہے۔
پس محض زبان میں نرمی پیدا کرنا کافی نہیں جب تک اس کے ساتھ حوصلہ بلند نہ کیا جائے اور وسیع حوصلگی جماعت کے لئے آئندہ بہت ہی کام آنے والی چیز ہے۔ جس کے غیر معمولی فوائد ہمیں اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی نصیب ہو سکتے ہیں لیکن وسیع حوصلگی کا یہ مطلب نہیں کہ ہر نقصان کو برداشت کیا جائے اور نقصان کی پرواہ نہ کی جائے۔ یہ ایک فرق ہے جو میں کھول کرآپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ اس کو سمجھ کر ان دونوں باتوں کے درمیان توازن کرنا پڑے گا…
حوصلے سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ نقصان کی پرواہ نہ کرنے کی عادت ڈالی جائے۔ یہ دو باتیںپہلو بہ پہلو چلنی چاہئیں ۔ حوصلہ سے مراد یہ ہے کہ اگر اتفاقاً کسی سے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس پربرداشت کیا جائے اور اس سے کہا جائے کہ اس قسم کی باتیں ہوتی رہتی ہیں اور جن کے حوصلے بلند ہوں وہ پھر بڑے ہو کر بڑے نقصان برداشت کرنے کے بھی زیادہ اہل ہو جاتے ہیں۔ بعض دفعہ آفات سماوی پڑتی ہیں اور دیکھتے دیکھتے انسان کی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ جن کو چھوٹی چھوٹی باتوںکا حوصلہ نہ ہو وہ ایسے موقعوں کے اوپر پھر خدا سے بھی بدتمیز ہو جاتے ہیں اور بے حوصلگی کے ساتھ خود غرضی کا ایک ایسا گہر ا رشتہ ہے کہ اس خود غرضی کے نتیجے میں ہر دوسری چیز اپنی تابع دکھائی دینے لگتی ہے۔ اگر وہ فائدہ پہنچا رہی ہے تو ٹھیک ہے ذراسا بھی نقصان کسی سے پہنچے تو انسان حوصلہ چھوڑ بیٹھتا ہے اور جب بندوں سے بے حوصلگی شروع ہو تو بالآخرانسان خدا سے بھی بے حوصلہ ہو جاتا ہے۔ اسی لئے حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ نے ہمیں یہ گُر سمجھایا کہ ……
(ترمذی باب ما جاء فی الشکر لمن احسن الیک)
کہ جو بندے کا شکر ادا کرنانہ سیکھے وہ خدا کا کہاں کرسکتا ہے۔ جو بندے کا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر نہیں کرتا۔
یہ جو گہرا فلسفہ ہے یہ ہم روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ حوصلے پر بھی اسی بات کا اطلاق ہوتا ہے اسی لئے میں نے کہا تھا کہ یہ معمولی بات نہیں بڑے ہو کر اس کے بہت بڑے بڑے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔ وہ نقصان جس میں انسان بے اختیار ہو اس پر صبر کا نام حوصلہ ہے۔ نقصان کی طرف طبیعت کامیلان ہونا یہ حوصلہ نہیں ہے یہ بے وقوفی ہے، جہالت ہے اور بعض صورتوں میں یہ خود ناشکری بن جاتا ہے۔ اس لئے بچوں کو جب حوصلہ سکھاتے ہیں تو چیزوں کی قدر کرنا بھی سکھائیں۔
انسان اگر اسوۂ رسول اور تعلیمات قرآنیہ پر چلتے ہوئے برداشت کو اپنا شیوہ بنالے تو اس کا اللہ تعالیٰ عظیم پھل عطا فرماتا ہے۔ اور وہ فرشتوں کی ہمرکابی کی صورت میں ملتا ہے۔
حدیث میں آتا ہے۔
ایک شخص آنحضرت ﷺ کے سامنے حضرت ابوبکرؓ کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور حضرت ابوبکرؓ چپ تھے حضور ؐ بیٹھے مسکراتے رہے۔ مگر جب اس شخص نے انتہا کردی تو حضرت ابوبکرؓ نے بھی جواباً کچھ کہہ دیا اس پر حضور ؐ ناراض ہو کر چل پڑے۔ حضرت ابوبکرؓ نے وجہ پوچھی تو آپ ؐ نے فرمایا جب تک تم خاموش تھے فرشتے تمہاری طرف سے جواب دے رہے تھے مگر جب تم نے جواب دینا شروع کیا تو فرشتے چلے گئے اور شیطان آگیا۔ میں شیطان کے ساتھ کس طرح بیٹھ سکتا تھا۔
(سنن ابی داود کتاب الادب باب الانتصار حدیث نمبر4251)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھائو اور خوش رہو۔ اور گالیاں سنو اور شکر کرو۔ اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو۔ تم خدا کی آخری جماعت ہو۔ سو وہ عمل نیک دکھلائو جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو‘‘
ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ جماعت کو صبروبرداشت کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’ایک نیکی صبر و تحمل ہے صبر کے نتیجہ میں بہت سی برائیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ صبر کی کمی کے باعث غلط فہمیاں اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہراحمدی کو صبراختیار کرناچاہئے۔دل خراش باتوں کو برداشت کریں۔ اس پالیسی کے نتیجہ میں بہت سے جھگڑوں کا حل ہو سکتا ہے۔ فیملی تنازعات ، خواہ وہ خاوند و بیوی کے درمیان ہوں یا بھائیوں کے درمیان ہوں۔ یہ سب بچگانہ تنازعات ہوتے ہیں…
دنیا بھر میں ایک طوفان بے تمیزی ہے۔ قتل عام ہو رہا ہے اور قومیں دوسری قوموں پر حملہ آور ہو رہی ہیں۔ یہ سب بے صبری کا ہی نتیجہ ہے۔ دنیا تباہی کے دہانے پر ہے۔ احمدیوں کو دنیا کو بچانا ہوگا۔ اس لحاظ سے صبر و برداشت کی عادت کو اس انداز میں اختیار کرنا ہو گا کہ احمدی ہر میدان میں صبر و برداشت کا نمونہ بن جائیں‘‘
(فرخ شاد)