• 29 اپریل, 2024

معراج اور اسراء کی حقیقت (قسط اول)

معراج اور اسراء کی حقیقت
(قسط اول)

معراج اور اسراء

معراج اور اسراء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ دو بزرگ کشوف اور عظیم الشان معجزات ہیں جن کی تفصیل قرآن کریم اور احادیث میں بیان ہوئی ہے۔ ان دونوں واقعات کو امت مسلمہ میں بڑی قدرومنزلت سے یاد رکھا جاتا ہے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ اس قدر شان وشوکت رکھنے والے ان معجزات کی تفاصیل میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے اور یہ اختلاف جس نےبڑی لمبی بحثوں کو جنم دیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کچھ عرصہ بعد سے شروع ہو کر اب تک چلا آ رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اُن بنیادی غلطیوں کی طرف نشان دہی کروں جو اس اختلاف کی وجہ بنیں ضروری سمجھتا ہوں کہ روٴیا اور کشوف کے بارہ میں کچھ عرض کر دوں۔

رؤیا اور کشوف کی حقیقت

روٴیا کا لفظ اردو میں خواب کے ہم معنیٰ استعمال ہوتا ہے یعنی سوتے ہوئے کوئی نظارہ دیکھنا۔ اور یہ ہر انسان کے تجربے میں ہے جس میں نیک و بد کی کوئی تمیز نہیں۔ مگر انبیاء کو جو روٴیا ہوتے ہیں وہ اپنی کیفیت، شان و شوکت اور عظمت میں عام انسان کی روٴیایا خواب سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ یہ روٴیائے صادقہ ہوتے ہیں جن میں الہامی رنگ نظر آتا ہے۔ اور بعض روٴیا مستقبل کی جلیل القدر پیشگوئیوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ قرآن شریف میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ حضرت یوسف نے روٴیا میں سورج چاند اورگیارہ ستاروں کو دیکھا کہ وہ انہیں سجدہ کر رہے ہیں۔ اس پر آپ کے والد حضرت یعقوب نے فرمایا:۔

لَا تَقۡصُصۡ رُءۡیَاکَ عَلٰۤی اِخۡوَتِکَ

(یوسف: 6)

کہ اپنی روٴیا اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہ کرنا۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی روٴیا کا ذکر ہے آپ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ذکر کیا:۔
’’اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ‘‘ (الصٰفٰت: 103) یقینا میں سوتے میں دیکھا کرتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ جب اس خواب پر عمل کرنے کے لئے دونوں باپ بیٹا راضی ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو مخاطب کر کے فرمایا:

قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا

(الصٰفٰت: 106)

یقینا تو اپنی رؤیا پوری کر چکا ہے۔ اس طرح کی اور بہت سی مثالیں قرآن شریف میں موجود ہیں۔

اب آئیے کشف کی طرف! کشف عربی کا لفظ ہے جو اردو میں بھی مستعمل ہے جس کے معنیٰ ہیں کسی چیز کا کھولنا یا ظاہر کرنا یاکسی امر کا انکشاف کرنا۔ یہ اک ایسی کیفیت کا نام ہے جب انسان غنودگی یا عین بیداری کی حالت میں ایسے مشاہدات کر لیتا ہے جو عام انسان کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ اسے غیبی امور سے اطلاع دی جاتی ہے۔ سچے خواب کی طرح کشف کی حالت کسی بھی انسان کو حاصل ہو سکتی ہے۔ عام انسان کو جو کشف کی طاقت حاصل ہوتی ہے وہ معمولی نوعیت کی ہوتی ہے اور یہ خاص ذہنی صلاحیت اور مسلسل مجاہدات کے ذریعہ حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ کافر، بے دین اور مشرک کو بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ مگر جو کشوف انبیاء اور اولیاء اللہ کو دکھائے جاتے ہیں وہ اپنی قدرومنزلت کے لحاظ سے اور امور غیبیہ کی کثرت کی وجہ سے عام انسان کے کبھی کبھار کے تجربہ سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب سرمہ چشم آریہ میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ حضور فرماتے ہیں:۔
’’خدائے تعالیٰ نے اپنے عجیب عالم کو تین حصہ پر منقسم کر رکھا ہے۔

  1. عالم ظاہر جو آنکھوں اور کانوں اور دیگر حواس ظاہری کے ذریعہ اور آلات خارجی کے توسل سے محسوس ہو سکتا ہے۔
  2. عالم باطن جو عقل اور قیاس کے سے سمجھ میں آسکتا ہے۔
  3. عالم باطن در باطن جو ایسا نازک اور لایدرک و فوق الخیالات عالم ہے جو تھوڑے ہیں جو اس سے خبر رکھتے ہیں۔ وہ علم غیب محض ہے جس تک پہنچنے کے لئے عقلوں کو طاقت نہیں دی گئی مگر ظن محض۔ اور اس عالم پر کشف اور وحی اور الہام کے ذریعہ سے اطلاع ملتی ہے نہ اور کسی ذریعہ سے۔‘‘

’’عقلمند لوگ عالم کشف کے عجائبات سے انکار نہیں کرتے بلکہ انہیں ماننا پڑتا ہے کہ جس جواد مطلق نے عالم اول کے ادنی ادنی امور کے دریافت کرنے کے لئے انسان کو حواس اور طاقتیں عنائت کی ہیں وہ تیسرے عالم کے معظم اور عالیشان امور کےدریافت سے جس سے حقیقی اور کامل تعلق خدا تعالیٰ سے پیدا ہوتا ہے اور سچی اور یقینی معرفت حاصل ہو کر اسی دنیا میں انوارنجات نمایاں ہو جاتے ہیں کیوں انسان کو محروم رکھتا۔‘‘

’’صاحب کشف پر ایسے ایسے اسرار ظاہر ہوتے ہیں کہ اُن کی کُنہ کو سمجھنے میں عقل عاجز رہ جاتی ہے۔ بعض اوقات صاحب کشف صدہا کوسوں کے فاصلہ سے باوجود حائل ہونے بے شمار حجابوں کے ایک چیز کو صاف صاف دیکھ لیتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات عین بیداری میں باذنہ تعالیٰ اس کی آواز بھی سن لیتا ہے اور اس سے زیادہ تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض اوقات وہ شخص بھی اس کی آواز سن لیتا ہے جس کی صورت اُس پر منکشف ہوئی ہے۔‘‘

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2)

دو بنیادی غلطیاں

واقعہ معراج اور اسراء کے بارہ میں دو بڑی بنیادی اور بھاری غلطیاں کی گئیں جو وقت گزرنے کے ساتھ پختہ تر ہو گئیں اور آج اُمت مسلمہ کی اکثریت (علما اور عوام) اصل حقائق کے برعکس اپنا عقیدہ بنا کر اس پر عمل پیرا ہیں اور ہر سال 27 رجب کو اس واقعہ کی یاد میں شب معراج منائی جاتی ہے اور مختلف قسم کی بدعات اور خلاف اسلام رسوم بھی اس میں داخل کر دی گئی ہیں۔

پہلی غلطی: واقعہ معراج اور اسراء کے ضمن میں پہلی غلطی یہ ہوئی کہ ان دو علیحدہ علیحدہ واقعات کو ایک ہی واقعہ سمجھ لیا گیا حالانکہ ان دونوںمیں کم از کم پانچ سے سات سال کے عرصہ کا فرق ہے۔ معراج کا سفر نبوت کے پانچویں سال یا اس سے کچھ پہلے کا ہے جبکہ اسراء کا سفر ہجرت سے چھ ماہ یا ایک سال قبل پیش آیا۔ قرآن کریم میں معراج کا واقعہ سورۃ النجم میں بیان کیا ہے جس میں بیت المقدس یا مسجد اقصی کا کوئی ذکر نہیں ملتا جبکہ اسراء کا واقعہ سورۃ بنی اسرائیل کے آغاز میں بیان کیا گیا ہے جس میں آسمان پر جانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

احادیث میں بھی ان دونوں واقعات کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے۔ معراج کی حدیث بخاری میں چھ جگہوں پر بیان کی گئی ہے اسی طرح واقعہ اسراء کا ذکر بھی کئی مقامات پر آیا ہے۔

سیرت ابن ہشام میں ان دونوں واقعات کو علیحدہ طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح طبقات ابن سعد جلد اول میں مشہور مؤرخ ابن سعد نے بھی دونوں کو علیحدہ علیحدہ تاریخوں میں مختلف تفاصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام میں سوئے ہوئے تھے جبکہ اسراء والے واقعہ کی رات آپ اپنی چچا زاد بہن اُم ھانی (حضرت ابو طالب کی بیٹی اور حضرت علی کی بہن) کے گھر سوئے تھے۔

دوسری غلطی: دوسری اہم ترین غلطی یہ ہوئی کہ اسراء اور معراج دونوں کو جسمانی سمجھ لیا گیا جو کہ واضح قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اسی سورۃ بنی اسرائیل میں جسے سورۃ اسراء بھی کہا جاتا ہے اس دعوی کو واضح طور پر رد کر دیا گیا۔

کُفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھنے اور وہاں سے نشان کے طور پر کتاب لانے کا مطالبہ کیا جس پر ارشادہوا:۔

قُلۡ سُبۡحَانَ رَبِّیۡ ہَلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا

(بنی اسرائیل: 94)

تُو کہ دے کہ میرا رب (ان باتوں سے) پاک ہے (اور) میں تو ایک بشر اور رسول کے سوا کچھ نہیں۔

جسمانی معراج کے حق میں دلائل

جسمانی معراج یا اسراء کے حق میں دلائل دینے والے یہ کہتے ہیں کہ آیت اسراء سُبۡحَانَ سے شروع ہوتی ہے جو ثابت کرتی ہے کہ یہ کوئی معمولی خواب میں آنے والا واقعہ نہیں تھا بلکہ خدا تعالیٰ نے سُبۡحَانَ کہہ کر بتایا کہ یہ بہت عظیم الشان واقعہ ہے (یعنی جسم سمیت اسراء و معراج) جو عام انسانوں کی عقل سے بالا تر ہے۔ اب دیکھیں کہ جس جگہ رسول اللہ کے جسم سمیت آسمان پر چڑھنے کو رد کیا جا رہا ہے وہاں بھی سُبۡحَانَ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ پس صرف اس لفظ سے اسراء و معراج کا جسمانی ہونا ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ آیت اسراء میں ’’بِعَبْدِہٖ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور عَبْد جسم بمع روح کے معنیٰ میں ہے۔ اکیلی روح کے معراج کے لئے عَبْد کا لفظ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

تیسری دلیل کے طور پر سورة النجم کی پہلی آیت ’’وَالنَّجۡمِ‘‘ پیش کی جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ستارے کی قسم کھائی اور اسلوب قرآن سے ثابت ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ نے قسم کھائی وہ کسی غیر معمولی واقعہ کے رونما ہونے کے ثبوت کے طور پر ہوتی ہے۔ اگرمعراج اور اسراء محض ایک خواب تھا تو خدا تعالیٰ کو قسم کھا کر اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

چوتھی دلیل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے خود اسے سورۃ بنی اسرائیل میں لوگوں کے لئے آزمائش قرار دیا۔ ایک خواب اہل مکہ کے لئےکسی آزمائش کا موجب نہیں بن سکتی تھی۔

پانچویں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اسراء کی رات کے واقعات پر کفار مکہ نے شام سے آنے والے قافلے سے تصدیق کی اور واقعات ویسے ہی تھے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے تھے۔

چھٹی دلیل کے طور پر حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا جاتا ہے کہ سورة النجم میں مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَمَا طَغٰی (النجم: 18) کہا گیا ہے کہ نہ نظر کج ہوئی اور نہ حد سے بڑھی۔ یہ نظر کا دیکھنا جسمانی آنکھ سے تھا نہ روح کی آنکھ سے۔

حافظ ابن کثیر نے بھی تفسیر بنی اسرائیل میں ان دلائل کو نقل کیا ہے۔

(تفسیر ابن کثیر جلد سوم)

ابن ہشام نے بھی اس موضوع پر تفصیلی بحث کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس بارہ میں تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔

  1. ایک وہ جو معراج کو جسمانی مانتے ہیں۔
  2. دوم وہ لوگ جو اسے روحانی مانتے ہیں یعنی کہ ایک خواب۔
  3. اور ایک تیسرا گروہ ہے جو کہتا ہے کہ معراج دو دفعہ ہوئی۔ پہلی مرتبہ عالم خواب میں اور دوسری مرتبہ جسمانی معراج ہوئی۔ اس تیسرے گروہ کے سرخیل حضرت ابو بکر ابن عربی ہیں۔

(سیرت ابن ہشام جلد دوم)

موجودہ دور میں ابوالاعلی مودودی صاحب ’’تفہیم القرآن‘‘ تفسیر سورۃ بنی اسرائیل اور ڈاکٹر طاہر القادری ’’فلسفہء معراج‘‘ جسمانی معراج کے قائل ہیں جبکہ غلام احمد پرویز، مولانا امین اصلاحی اور جاوید احمد غامدی روحانی معراج کے قائل ہیں۔

روحانی معراج کے حق میں دلائل

سورۃ بنی اسرائیل جس میں واقعہ اسراء بیان ہوا ہے اسی سورۃ میں خدا تعالیٰ نے واقعہ اسراء کو رؤیا قرار دیا اور تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت اسراء کے واقعہ سے متعلق ہے۔ فرمایا

وَمَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلنَّاسِ

(الاسراء: 61)

ترجمہ اور وہ خواب جو ہم نے تجھے دکھایا اُسے ہم نے نہیں بنایامگر لوگوں کے لئے آزمائش۔

سورة النجم جس میں واقعہ معراج بیان ہوا ہے اس میں بھی ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی

(النجم: 12)

کہ اس موقع پر جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل نے دیکھا وہ ٹھیک ٹھیک اور سچ تھا۔
حضرت امام بخاری واقعہ معراج پر جو حدیث لائے ہیں وہ کِتَابُ التَّوْحِیْدِ بَاب کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسیٰ تَکْلِیْمًا میں موجود ہے اور حضرت انس سے مروی ہے۔ اس کے آغاز میں لکھا ہے:۔ ’’وَھُوَ نَآئِمٌ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘‘ کہ جس رات معراج کا واقعہ پیش آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام ( خانہ کعبہ ) میں سو رہے تھے۔ اس کے بعد لمبی روایت ہے اور اس کے اختتام پر درج ہے کہ ’’وَاسْتَیْقَظَ وَھُوَ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘‘ اور جب آپ نیند سے بیدار ہوئے تو آپ مسجد حرام میں تھے۔

ایک دوسری رویت میں ہے کہ معراج کا نظارہ آپ کو نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں دکھایا گیا۔

(بخاری باب بدء الخلق)

مشہور اسلامی مؤرخ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ شب معراج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر غائب نہیں ہوا تھا ’’مَا فُقِدَ جَسَدُہٗ‘‘ اللہ رب العزت نے آپ کی روح کو سیر کرائی۔

ابن اسحاق مزید لکھتے ہیں جب معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے حضور کی معراج کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:۔ ’’وہ اللہ کی جانب سے سچی خواب تھی۔‘‘

(سیرت ابن ہشام جلد دوم)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’سیر معراج اس جسم کثیف کے ساتھ نہیں تھا بلکہ وہ نہایت اعلی درجہ کا کشف تھا جس کو درحقیقت بیداری کہنا چاہئے۔ ایسےکشف کی حالت میں انسان ایک نوری جسم کے ساتھ حسب استعداد نفس ناطقہ اپنے کے آسمانوں کی سیر کر سکتا ہے۔ پس چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس ناطقہ کی اعلی درجہ کی استعداد تھی اور انتہائی نقطہ تک پہنچی ہوئی تھی اس لئے وہ اپنی معراجی سیر میں معمورہ عالم کے انتہائی نقطہ تک جو عرش عظیم سے تعبیر کیا جاتا ہے پہنچ گئے۔ سو در حقیقت یہ سیر کشفی تھا جو بیداری سے اشد درجہ پر مشابہ ہے بلکہ ایک قسم کی بیداری ہی ہے۔ میں اس کا نام خواب ہر گز نہیں رکھتا اور نہ کشف کے ادنی درجوں میں سےاس کو سمجھتا ہوں بلکہ یہ کشف کا بزرگ ترین مقام ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام حصہ اول)

پھر فرمایا:۔
’’ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوا تھا مگر اس میں جو بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ صرف ایک معمولی خواب تھا سو یہ عقیدہ غلط ہے اور جن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ معراج میں آنحضرت اسی جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر چلےگئے تھے سو یہ عقیدہ بھی غلط ہے بلکہ اصل بات اور صحیح عقیدہ یہ ہے کہ معراج کشفی رنگ میں ایک نورانی وجود کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ ایک وجود تھا مگر نورانی اور ایک بیداری تھی مگر کشفی اور نورانی جس کو اس دنیا کے لوگ نہیں سمجھ سکتے۔‘‘

(الحکم جلد10 نمبر21 مورخہ 17جون 1906 صفحہ4)

دونوں واقعات میں خلط ملط کیوں ہوا؟

یہاں نہایت اہم سوال اُٹھتا ہے کہ دو اتنے عظیم الشان اور تاریخی واقعات میں اس قدر اختلاف کیونکر پیدا ہوا ؟

پہلی بات جو ذہن میں رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ عربی زبان میں رات کے سفر کو اسراء کہا جاتا ہے خواہ یہ سفر زمین کے ایک حصےسے دوسرے حصے تک جانے کا ہو یا زمین سے آسمان کی طرف سفر ہو۔ اب چونکہ اسراء اور معراج کے دونوں سفر رات کو ہوئے اور ایک ہی رات میں مکمل ہوئے اس لئے دونوں سفروں کے لئے اسراء کا لفظ استعمال کیا جانے لگا۔ مگر روایات سے اس بات کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ بعض دفعہ صحابہ اسراء کا لفظ صرف مسجد الحرام سے بیت المقدس اور واپس بیت الحرام کے لئے ہی استعمال کرتے تھے چنانچہ حدیث جابر رضی اللہ عنہ جو بخاری اور مسلم میں مروی ہے اسراء کا لفظ صرف بیت المقدس تک جانے کے لئے استعمال ہوا ہے۔

(خصائص الکبری جلد اول)

دوسری بات یہ ہے کہ ان دونوں سفروں میں بہت سی باتیں مشترک تھیں (اگرچہ اس میں راویوں کی غلطی بھی شامل ہے) جس نے دونوں واقعات کو ایک واقعہ سمجھنے کی بنیاد رکھی۔ مگر یہ اشتراک کسی ایک روایت میں نہیں بلکہ مختلف روایات کو اکٹھا پڑھیں تویہ قدر مشترک سامنے آتی ہے۔ مثال کے طور پر دونوں سفروں میں :

  1. براق کا ذکر ملتا ہے۔
  2. انبیاء سے ملاقات کا ذکر ہے۔
  3. انبیاء کو نماز پڑھانے یعنی امامت کا ذکر آتا ہے۔
  4. جنت اور دوزخ کے بعض مناظر دیکھنے کا ذکر پایا جاتا ہے۔

ان وجوہات کے زیر اثر اسراء اور معراج کو ایک واقعہ سمجھ لیا گیا۔ یعنی ایک ہی رات میں مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک کا سفر اور پھر مسجد اقصی سے آسمان کا سفر۔ پھر واپسی پر آسمان سے مسجد اقصی اور واپس مکہ مکرمہ۔

اسراء اور معراج کی تاریخ

چونکہ مسلمانوں میں اسراء اور معراج کو ایک ہی واقعہ مانا جاتا ہے اس لئے اس واقعہ کی تاریخ متعین کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگراس کے باوجود ان میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔

اگر صرف سال کے تعیین کی بات کریں تو دس مختلف روایات ملتی ہیں کوئی ہجرت سے چھ ماہ قبل بتاتا ہے کوئی ایک سال قبل۔ کسی روایت میں دو سال قبل ہجرت کا ذکر ہے اور کسی میں پانچ سال کا، وغیرہ۔

اسی طرح مہینہ کی تعیین کے بارہ میں پانچ مختلف روایات ہیں ربیع الاول، ربیع الثانی، رجب، شعبان اور رمضان کا ذکر ملتا ہے۔

دن میں بھی اختلاف ہے۔ تین روایات ہیں جن میں جمعہ، ہفتہ اور پیر کے دن بتائے گئے ہیں۔

جس رات کو معراج ہوئی اس بارہ میں چار تاریخوں کا تذکرہ ملتا ہے یعنی 17 ربیع الاول، 27 ربیع الاول، 29 رمضان اور 27 رجب وغیرہ۔ زیادہ تر مسلمان علماء اور عوام 27 رجب کی روایت پر یقین رکھتے ہیں اور اس رات منانے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ ساری رات عبادت کرنے اور مختلف قسم کی بدعات اور رسومات اس رات کے ساتھ منسلک کر دی گئی ہیں۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ساری زندگی نہ تو اس رات کسی خاص تقریب کا اہتمام فرمایا اور نہ ہی اُمت کو اس کی فضیلت بیان کرکے اس رات عبادت کا حکم دیا۔ خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی شب معراج منانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ یہ سب بعد کی ایجادات ہیں جن کا اسلام کی تعلیمات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے جماعت احمدیہ ایسی بدعات کو درست نہیں سمجھتی اور ایسی رسومات سے اپنے آپ کو دور رکھتی ہے۔

اب تک میں نے اسراء اور معراج کا مختصر تعارف کروایا ہے۔ اب یہاں میں اسراء اور معراج کو علیحدہ علیحدہ قدرے تفصیل کےساتھ بیان کروں گا۔ ترتیب زمانی کے لحاظ سے چونکہ معراج کا واقعہ پہلے اور اسراء بعد میں ظہور پذیر ہوا اس لئے میں پہلے معراج کےسفر سے شروع کروں گا۔

واقعہ معراج

معراج عربی زبان کا لفظ ہے جو عَرَجَ سے نکلا ہے جس کے معنیٰ اوپر چڑھنے کے ہیں اور اسی وجہ سے سیڑھی کو معراج کہا جاتاہے جو بلندی پر چڑھنے کے کام آتی ہے۔ قرآن کریم میں واقعہ معراج سورۃ النجم میں بیان ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

عَلَّمَہٗ شَدِیۡدُ الۡقُوٰی ۙ﴿۶﴾ذُوۡ مِرَّۃٍ ؕ فَاسۡتَوٰی﴿۷﴾ وَہُوَ بِالۡاُفُقِ الۡاَعۡلٰی﴿۸﴾ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی ۙ﴿۹﴾ فَکَانَ قَابَ قَوۡسَیۡنِ اَوۡ اَدۡنٰی ۚ﴿۱۰﴾ فَاَوۡحٰۤی اِلٰی عَبۡدِہٖ مَاۤ اَوۡحٰی ﴿ؕ۱۱﴾ مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴿۱۲﴾ اَفَتُمٰرُوۡنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی ﴿۱۳﴾وَلَقَدۡ رَاٰہُ نَزۡلَۃً اُخۡرٰی ﴿ۙ۱۴﴾ عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی ﴿۱۵﴾ عِنۡدَہَا جَنَّۃُ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۱۶﴾ اِذۡ یَغۡشَی السِّدۡرَۃَ مَا یَغۡشٰی ﴿ۙ۱۷﴾ مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَمَا طَغٰی ﴿۱۸﴾ لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی ﴿۱۹﴾

(النجم: 6 تا 19)

ترجمہ: اسے مضبوط طاقتوں والے نے سکھایا ہے۔ جو بڑی حکمت والا ہے۔ پس وہ فائز ہوا۔ جبکہ وہ بلند ترین اُفق پر تھا۔ پھر وہ نزدیک ہوا۔ پھر وہ نیچے اُتر آیا۔پس وہ دو قوسوں کے وتر کی طرح ہو گیا یا اس سے بھی قریب تر۔ پس اس نے اپنے بندے کی طرف وہ وحی کیا جو بھی وحی کیا۔اور دل نے جھوٹ بیان نہیں کیا جو اُس نے دیکھا۔ پس کیا تم اس سے اس پر جھگڑتے ہو جو اُس نےدیکھا؟جبکہ وہ اسے ایک اور کیفیت میں بھی دیکھ چکا ہے۔ آخری حد پر واقع بیری کے پاس۔ اور اس کے قریب ہی پناہ دینے والی جنت ہے۔ جب بیری کو اس نے ڈھانپ لیا جس نے ڈھانپ لیا۔ نہ نظر کج ہوئی اور نہ حد سے بڑھی۔ یقینا اس نے اپنے رب کےنشانات میں سے سب سے بڑا نشان دیکھا۔

سورة النجم کی یہ وہ آیات ہیں جو واقعہ معراج کے بارہ میں بیان کی جاتی ہیں۔ یہاں چار اہم سوال اُٹھائے جاتے ہیں:

چار اہم سوال

  1. اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ آیات واقعہ معراج کے بارہ میں ہیں؟
  2. قَابَ قَوۡسَیۡنِ میں کیا اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے یا حضرت جبریل علیہ السلام کا ؟
  3. معراج کی رات کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا؟
  4. کیا واقعہ معراج صرف ایک مرتبہ ہوا یا ایک سے زائد مرتبہ؟

آئیے پہلے سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں!

سورة النجم کی ان آیات میں جن امور کا ذکر ہوا ہے وہ سب معراج سے تعلق رکھتے ہیں جن کا ذکر احادیث میں ملتا ہے مثلاً

  1. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی تک جانا
  2. اس وقت سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی پر کسی چیز کا نازل ہونا
  3. سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی کے پاس جنت کا دیکھنا
  4. قَابَ قَوۡسَیۡنِ کی حالت کا پیدا ہونا
  5. اللہ تعالیٰ کو دیکھنا
  6. کلام الہی کا وہاں نازل ہونا

ان تمام باتوں کی تصدیق کے لئے ہمیں اُن روایات کو دیکھنا ہو گا جو واقعہ معراج کے تعلق میں احادیث میں بیان ہوئی ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کوئی ایک روایت علیحدہ طور پر ان تمام امور کا احاطہ نہیں کرتی بلکہ تمام روایات کو یکجا دیکھ کر نتیجہ اخذ کیا جائےگا۔ چونکہ یہاں ساری روایات درج نہیں کی جا سکتیں۔ (واقعہ معراج کو کم از کم 25 صحابہ نے روایت کیا ہے) میں یہاں صحیح بخاری کی روایت کا خلاصہ پیش کروں گا جو حضرت انس سے مروی ہے اور جسے امام بخاری ’’کِتَابُ التَّوْحِیْدِ بَاب کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسیٰ تَکْلِیْمًا‘‘ کے تحت لائے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اور مضبوط اور معتبر روایات سے بھی کچھ واقعات لئے گئے ہیں۔

’’ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام کے اس حصہ میں جو حطیم کہلاتا ہے لیٹے ہوئے تھے اور یقظہ اور نوم کی درمیانی حالت تھی یعنی آپ کی آنکھ تو سوتی تھی مگر دل بیدار تھا کہ آپ نے دیکھا کہ جبریل علیہ السلام نمودار ہوئے ہیں۔ حضرت جبرائیل نے آپ کے قریب آکر آپ کو اُٹھایا اور چاہ زمزم کے پاس لا کر آپ کا سینہ چاک کیا اور آپ کے دل کو زمزم کے مصفاپانی سے اچھی طرح دھویا۔اس کے بعد ایک سونے کی طشتری لائی گئی جو ایمان و حکمت سے لبریز تھی اور حضرت جبرائیل نے آپ کے دل میں حکمت و ایمان کا خزانہ بھر کر آپ کے سینہ کو پھر اُسی طرح بند کر دیا۔ اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام آپ کواپنے ساتھ لے کر آسمان کی طرف اُٹھ گئے اور پہلے آسمان پر پہنچ کر دستک دی۔ دربان نے پوچھا کون ہے؟ جبرائیل نے جواب دیا میں جبرائیل ہوں اور میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ دربان نے پوچھا کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا گیا ہے؟ جبرائیل نے کہا ہاں۔ اس پر دربان نے دروازہ کھول کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ اندر داخل ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بزرگ انسان کو دیکھا۔ جس نے آپ کو مخاطب ہو کر کہا ’’مَرْحَبًا اے صالح نبی اور اے صالح فرزند۔‘‘ اور آپ نے بھی اُسے سلام کیا۔ اس شخص کے دائیں اور بائیں ایک بہت بڑی تعداد میں روحوں کا سایہ پڑ رہا تھا۔ جب وہ اپنےدائیں طرف دیکھتا تو اُس کا چہرہ خوشی سے تمتما اُٹھتا تھا اور جب بائیں طرف دیکھتا تھا تو غم سے اُس کا منہ اُتر جاتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسل نے جبرائیل سے پوچھا! یہ صاحب کون ہیں؟ جبرائیل نے کہا یہ آدم ہیں اور ان کے دائیں طرف ان کی نسل میں سے اہل جنت کا سایہ پڑ رہا ہے جسے دیکھ کر وہ خوش ہوتے ہیں اور بائیں طرف اہل نار کا سایہ ہے جسے دیکھ کر وہ غم محسوس کرتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت جبرائیل آپ کو لے کر آگے چلے اور دوسرے آسمان کے دروازہ پر بھی آپ کو یہی واقعہ پیش آیا۔ اور اس کے اندر داخل ہو کر آپ نے دو شخصوں کو دیکھا جنہوں نے ان الفاظ میں آپ کو خیر مقدم کیا کہ ’’مَرْحَبًا اے صالح نبی اور صالح بھائی‘‘ اور آپ نے بھی انہیں سلام کیا۔ اور جبرائیل نے آپ کو بتایا کہ یہ حضرت عیسٰیؑ اور حضرت یحیٰیؑ ہیں جو خالہ زاد بھائی تھے۔ اسی طرح جبرائیل آپ کو اپنے ساتھ لے کر تیسرے اور چوتھے اور پانچویں آسمان میں سے گزرے جن میں آپ نے علی الترتیب حضرت یوسف ؑ اور حضرت ادریسؑ اور حضرت ہارونؑ کو پایا۔ چھٹے آسمان پر آپ کی ملاقات حضرت موسیٰ ؑ سے ہوئی اور حضرت موسیٰ ؑ نے بھی آپ کو اسی طرح مَرْحَبًا کہا اور آپ نے سلام کیا۔ جب آپ ان سے آگے گزرنے لگے تو حضرت موسیٰ ؑ روپڑے جس پر آواز آئی۔ اے موسیٰ! کیوں روتے ہو؟ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا۔ اے میرے اللہ! یہ نوجوان میرے پیچھے آیا مگر اسکی اُمت میری اُمت کی نسبت جنت میں زیادہ داخل ہوگی۔ میرے اللہ میں نہیں سمجھتا تھا کہ کوئی شخص میرے پیچھے آکر مجھ سے آگے نکل جائے گا۔ اس کے بعد آپ ساتویں آسمان میں داخل ہوئے جہاں آپ کی حضرت ابراہیمؑ سے ملاقات ہوئی جو بیت معمور کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے یہ بیت معمور آسمانی عبادت گاہ کا منظر تھا (جس کے گویا ظل کے طور پر دنیا میں کعبۃ اللہ تعمیر ہوا تھا)۔ حضرت ابراہیم ؑ نے بھی آپ کو دیکھ کر اُسی طرح مَرْحَبًا کہا جس طرح حضرت آدم نے کہا تھا (کیونکہ وہ بھی حضرت آدم کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد تھے) اور آپ نے بھی اسی طرح اُن کو سلام کہا۔

اس کے بعد آپ اور آگے بڑھے اور وہاں پہنچے جہاں اس وقت تک کسی بشر کا قدم نہیں پہنچا تھا۔ یہاں آپ نے اپنے اوپر سے بہت سی قلموں کے چلنے کی آواز سنی (جو گویا قضا و قدر کی قلمیں تھیں)۔ اس کے بعد آپ کو اپنے سامنے ایک بیری کا درخت نظر آیا جو گویا زمینی تعلقات کے لئے آسمان کا آخری نقطہ تھا اور اس کے ساتھ سے جنت الماوی شروع ہوتی تھی۔ اس بیری کے درخت کے پھل اور پتے بڑے بڑے اور عجیب و غریب قسم کے تھے۔ جب آپ نے اس درخت کو دیکھا تو اس پر ایک فوق البیان اور گوناگوں تجلی کا ظہور ہوا جس کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ الفاظ میں یہ طاقت نہیں کہ انہیں بیان کر سکیں۔ اس بیری کے نیچے چار دریا بہ رہے تھے جن کے متعلق جبرائیل نے آپ کو بتایا کہ ان میں سے دو دریا تو دنیا کے ظاہری دریا نیل و فرات ہیں اور دو باطنی دریا ہیں جو جنت کی طرف کو بہتے ہیں۔ اس موقع پر آپ کو حضرت جبرائیل اپنی اصلی شکل و صورت میں نظر آئے اور آپ نے دیکھا کہ وہ چھ سو پروں سے آراستہ ہیں۔ اس کے بعد آپ کو جنت کی سیر کرائی گئی اور بالآخر آپ نے دیکھا کہ آپ خدائے ذوالجلال کے دربار میں پیش ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے بلا واسطہ کلام فرمایا اور بعض بشارات دیں اور آخر کارخدا تعالیٰ کی طرف سے یہ اطلاع ملی کہ آپ کی اُمت کے لئے رات دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئی ہیں۔ آپ یہ حکم لے کرواپس آئے تو راستہ میں حضرت موسیٰ نے آپ کو روک کر پوچھا کہ آپ کو کیا احکام ملے ہیں؟ آپ نے پچاس نمازوں کا حکم بیان کیا۔ حضرت موسیٰ ؑیہ حکم سن کر چونک پڑے اور کہا کہ میں بنی اسرائیل کے ساتھ واسطہ پڑنے کی وجہ سے صاحب تجربہ ہوں۔ آپکی امت کو اتنی نمازوں کی ہر گز برداشت نہ ہو گی۔ پس آپ واپس جائیں اور خدا تعالیٰ سے اس حکم میں تخفیف کی درخواست کریں۔ آپ گئے اور اللہ تعالیٰ نے پچاس میں دس کی کمی کر کے چالیس نمازوں کا حکم دیا۔ مگر واپسی پر حضرت موسیٰ نے پھر روکا اور کہاکہ یہ بھی بہت زیادہ ہیں آپ واپس جا کر مزید رعایت مانگیں۔ اس پر آپ پھر گئے اور دس کی مزید رعایت منظور ہوئی۔ غرض اس طرح حضرت موسیٰ ؑ کے مشورہ پر آپ بار بار خدا کے دربار میں گئے اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازوں کا حکم دیا۔ اس پر حضرت موسیٰ ؑ نے آپ کو پھر روکا اور مزید رعایت کے لئے واپس جانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ میں بنی اسرائیل کو دیکھ چکا ہوں اور وہ اس سے بھی کم عبادت کو نباہ نہیں سکے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ اب مجھے واپس جاتے ہوئےشرم آتی ہے۔ اس پر غیب سے آواز آئی ’’اے محمد! یہ پانچ نمازیں بھی ہیں اور پچاس بھی کیونکہ ہم نے ایک نماز کے بدلےمیں دس کا اجر مقرر کر دیا ہے۔ اس طرح ہمارے بندوں سے تخفیف بھی ہوگئی اور ہمارا اصل حکم بھی قائم رہا۔ اس کے بعد جب آپ مختلف آسمانوں سے ہوتے ہوئے نیچے اترے تو آپ کی آنکھ کھل گئی اور آپ نے دیکھا کہ اسی طرح مسجد حرام میں لیٹے ہوئے ہیں۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمدؓ)

سورة النجم میں ایک بات یہ بیان کی گئی ہے کہ ان نظاروں کے وقت ایک ایسی حالت پیدا ہوئی جس کا نام ’’فَکَانَ قَابَ قَوۡسَیۡنِ اَوۡ اَدۡنٰی‘‘ رکھا گیا ہے معراج کی روایات میں اس کا بھی ذکر موجود ہے۔ (یہ روایت حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی ہے جسے ابن جریر نے نقل کیاہے۔ اس کے علاوہ اور کتب حدیث میں بھی یہ روایت آئی ہے) حضرت ابو سعید خدری کی روایت میں سدرۃ المنتھی کے ذکر کےبعد یہ الفاظ ہیں کہ ’’فَکَانَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہٗ قَابَ قَوۡسَیۡنِ اَوۡ اَدۡنٰی ‘‘ یعنی میرے اور اس کے درمیان صرف قَابَ قَوۡسَیۡنِ یا اس سے بھی کم فرق رہ گیا۔

سورة النجم میں ایک امر یہ بیان کیا گیا کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ’’مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی‘‘ خصائص الکبری میں حضرت اسماء بنت ابی بکر کی روایت سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔

سورة النجم میں ارشاد ہے کہ فَاَوۡحٰۤی اِلٰی عَبۡدِہٖ مَاۤ اَوۡحٰی اللہ تعالیٰ کی وحی آپ پر نازل ہوئی۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ’’فَکَلَّمَہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی‘‘ کہ اللہ تعالیٰ نے سدرۃ المنتھی کے پاس آپ سے کلام کیا۔

یہ مختلف روایات کا خلاصہ ہے۔ اور اس میں اُن تمام چھ امور کا بھی ذکر ہے جو سورة النجم میں بیان ہوئے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ سورة النجم میں واقعہ معراج ہی کو بیان کیا گیا ہے۔

معراج کی رات انبیاء سے ملاقات

شب معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل انبیاء سے ملاقات فرمائی:

  1. پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے
  2. دوسرے آسمان پر حضرت عسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰؑ سے
  3. تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے
  4. چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے
  5. پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے
  6. چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور
  7. ساتوں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے

قَابَ قَوۡسَیۡنِ

قَابَ قَوۡسَیۡنِ کا مطلب ہے دو ہاتھ کا فاصلہ یا دو کمانوں کا آپس میں فاصلہ۔

اب میں دوسرے سوال کی طرف آتا ہوں کہ قاب قوسین میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت جبرائیل کے نزدیک ہونے کاذکر ہے یا خدا تعالیٰ کے۔ اس بارے میں بھی مفسرین میں اختلاف ہے۔ حافظ ابن کثیر نے ان آیات کا جو ترجمہ کیا ہے وہ یوں ہے:
’’پھر فرماتا ہے کہ حضرت جبرائیل آنحضرت کے قریب ہوئے اور زمین کی طرف اترے یہاں تک کہ حضور کے اور حضرت جبرائیل کے درمیان دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی اور نزدیکی ہو گئی‘‘

(تفسیر ابن کثیر سورة النجم)

سورۃ بنی اسرائیل کی تفسیر میں ابن کثیر لکھتے ہیں
’’یہ جو سورة النجم ہیں ہے ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی یعنی پھر وہ نزدیک ہوا اور اتر آیا اس سے مراد حضرت جبرئیل ہیں جیسے کہ ان تین بزرگ صحابیوں (حضرت عائشہ، حضرت ابن مسعود، حضرت ابو ہریرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین) کا بیان ہے۔ صحابہ میں سے تو کوئی اس آیت کی تفسیر میں ان کا مخالف نظر نہیں آتا‘‘

(تفسیر ابن کثیر جلد سوم)

اس کے برعکس حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ آیت دَنَا فَتَدَلّٰی کے تفسیری ترجمہ میں فرماتے ہیں:
’’اور وہ (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بندوں کے اضطراب کو دیکھ کر اور ان پر رحم کر کے خدا سے ملنے کے لئے) اس سے قریب ہوئے اور وہ (خدا) بھی (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے شوق میں) اوپر سے نیچے آ گیا۔‘‘

(تفسیر صغیر سورة النجم)

(باقی کل ان شاء اللّٰہ)

(ڈاکٹر فضل الرحمٰن بشیر۔موروگورو، تنزانیہ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 25؍فروری 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 فروری 2022