• 27 جولائی, 2024

کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے (روح پرور، ایمان افروز واقعات) (قسط 2)

کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے
روح پرور، ایمان افروز واقعات
قسط 2

والدین سے پیار۔جنت ماں کے قدموں کے نیچے

مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا(حرم حضرت مسیح موعود علیہ السلام )کی والدہ حضرت صاحب کے گھر تشریف لائیں تو گھر کی ملازمہ نے ان سے گستاخی کی۔ آپ ناراض ہوکر نچلے دالان میں چلی گئیں اور اوپر جانے سے انکار کر دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب اس کا علم ہوا تو آپ اپنی بیگم صاحبہ (حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا)کا ہاتھ پکڑ کر ان کو نیچے لے گئے۔نانی جان بستر پر لیٹی ہوئی تھیں۔ حضرت صاحب نے چارپائی کی پائینتی کی طرف ان کو کھڑا کرکےاپنے ہاتھ سے ان کا سر نیچا کیا اور والدہ کے پاؤں میں ان کا سر رکھ کر بوسہ دینے کا اشارہ کیا۔اس کے بعد آپ اوپر تشریف لے گئے۔ ماں نے بیٹی سے ناراضگی دور کی اور خوشی خوشی اوپر تشریف لے گئیں۔

(روزنامہ الفضل 28؍ فروری1995ء)

اطاعت۔احترام

حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ مثنوی مولانا روم کا درس دیا کرتے تھے۔ چودھری ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ کو بھی اپنے والد محترم کے ہمراہ آپ کی صحبت کا موقعہ ملتا رہا۔آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’مجھے خوب یاد ہے کہ بعض دفعہ اس درس کے دوران میں کوئی آدمی کہہ دیتا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام باہر تشریف لائے ہیں تو یہ سنتے ہی حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ درس بند کر دیتے اور اُٹھ کھڑے ہوتے اور چلتے چلتے پگڑی باندھتے جاتے اورجوتا پہننے کی کوشش کرتے اور اس کوشش کے نتیجہ میں اکثر آپ کے جوتے کی ایڑیاں دب جایا کرتی تھیں۔جب آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو جب تک حضور علیہ السلام آپ کو مخاطب نہ کرتے تھے، آپ رضی اللہ عنہ کبھی نظر اُٹھا کر حضور علیہ السلام کے چہرے کی طرف نہ دیکھتے۔‘‘

(اصحاب احمد، جلد یاز دہم، صفحہ 52)

انداز بیاں بات بدل دیتا ہے

ایک شخص یہودی تھا۔وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے ملاقات کرنے کے لئے آیا۔کسی دوست نے حضور علیہ السلام سے اس کے متعلق پوچھا۔آپ کی تعریف ؟تو حضور علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ یہودی ہے بلکہ یہ فرمایا کہ آپ بنی اسرائیل میں سے ہیں۔کیونکہ اس لفظ یہودی میں حقارت کا مفہوم شامل ہو گیا ہے۔

(مضامین مظہر۔صفحہ 12)

خدام کی دلداری

حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے خدام کی دلداری کا بہت خیال رہتا تھا اور حضور علیہ السلام ان کے لئے خود اپنی ذات سے ہر قسم کی قربانی اور ایثار کا عملًا اظہار فرماتے تھے۔ایک مرتبہ عید کا دن اورمیرا صافۂ سر صاف نہ تھا۔اس لئے جب کبھی ہم آتے تھے تو ایک آدھ دن کی فرصت نکال کر آتے۔ لیکن جب یہاں آتے اور حضور علیہ السلام قیام کا حکم دے دیتے تو پھر ہمیں ملازمت کے چلے جانے کا بھی خیال نہ ہوتا تھا۔اسی طرح عید کا دن آ گیا اور میں ایک ہی صافہ لے کر آیا تھا اور وہ میلا ہو گیا۔میں نے چاہا کہ بازار سے جاکر خرید لاؤں۔چنانچہ میں بازار کی طرف جا رہا تھا۔آپ نے مجھے دیکھ لیا اور آپ کی فراست خدا داد تھی۔پوچھا کہاں جا رہے ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ عید کا دن ہے۔میرا صافہ میلا ہے۔میں بازار سےخریدنے جا رہا ہوں۔اسی وقت وہاں ہی کھڑے اپنا عمامہ شریف اتار کر مجھے دے دیا اور فرمایا یہ آپ کو پسند ہے ؟آپ لے لیں۔میں دوسرا باندھ لیتا ہوں۔مجھ پر اس محبت اور شفقت کا جو اثر ہوا الفاظ سے ادا نہیں کر سکتے۔میں نے نہایت احترام کے ساتھ اس عمامہ کو لے لیا اور آپ بے تکلف گھر تشریف لے گئے اور دوسرا عمامہ باندھ کر آ گئے۔

(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ166-167)

امانت

حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام لیٹے ہوئے تھے اور سید فضل شاہ صاحب نےاشارہ کرکے مجھے کہا کہ یہاں جیب میں کچھ سخت چیز پڑی ہے۔ میں نے ہاتھ ڈال کر نکال لی تو حضور علیہ السلام کی آنکھ کھل گئی۔آدھی ٹوٹے ہوئے گھڑے کی ایک چینی تھی اور دو ایک ٹھیکرے۔میں پھینکنے لگا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا۔یہ میاں محمود نے کھیلتے کھیلتے میری جیب میں ڈال دئے۔آپ پھینکیں نہیں میری جیب میں ہی ڈال دیں۔کیونکہ انہوں نے ہمیں امین سمجھ کر اپنے کھیلنے کی چیز رکھی ہے۔وہ مانگیں گے تو ہم کہاں سے دیں گے۔پھر وہ جیب میں ہی ڈال دئے۔

(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 169)

دعا سے صحت

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ’’تذکرۃ الشہادتین ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں کہ میرا ارادہ تھا کہ گورداسپور ایک مقدمہ میں جانے سے پہلے اس کتاب کو مکمل کر لوں اور اسے اپنے ساتھ لے جاؤں مگر مجھے شدید درد گردہ ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ یہ کام نہیں ہو سکے گا۔ اس وقت میں نے اپنے گھر والوں (یعنی حضرت نصرت جہاں رضی اللہ عنہا )سے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں آپ آمین کہتی جائیں۔چنانچہ میں نے صاحبزادہ عبد الطیف شہید رضی اللہ عنہ کی روح کو سامنے رکھ کر دعا کی کہ الٰہی ! اس شخص نے تیرے لئے قربانی کی ہے اور اس کی عزت کے لئے یہ کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔تو اپنے فضل سے مجھے صحت عطا فرما۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھ نہیں بجے تھے کہ میں بالکل تندرست ہو گیا اور اسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا۔‘‘

(تذکرۃ الشہادتین صفحہ72-73)

میں لگاتار روتا رہا

حضرت مولانا ظفر احمد صاحب کپورتھلوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آخری دن جب آتھم کی پیشگوئی سنائی گئی تو اس کا رنگ بالکل زرد ہو گیا اور دانتوں میں زبان دیکر گردن ہلا کر کہنے لگا کہ میں نے حضرت محمد صاحب کو دجال نہیں کہا۔حالانکہ اس نے اپنی کتاب اندرونہ بائبل میں یہ لفظ لکھا تھا۔پھر آتھم گر پڑا۔حالانکہ وہ بہت قوی آدمی تھا۔پھر دو عیسائیوں نے اس کی بغلوں میں ہاتھ دیکر اسے اُٹھایا۔ ایک شخص جگن ناتھ عیسائی تھا۔وہ مجھ سے اکثر باتیں کیا کرتا تھا۔میں نے اس سے کہا کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔وہ کہنے لگا آتھم بے ایمان ہو گیا ہے اور ڈر گیا ہے۔پھر جب ہم واپس آئے تو کرنل الطاف علی خان صاحب ہمارے ساتھ ہوگئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں حضرت صاحب سے تخلیہ میں ملنا چاہتا ہوں۔کرنل صاحب کوٹ پتلون پہنے داڑھی مونچھ منڈوائے ہوئے تھے۔ میں نے کہا تم اندر چلے جاؤ۔باہر سے ہم کسی کو نہ آنے دیں گے۔پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ کرنل صاحب اندر چلے گئے اورآدھا گھنٹہ کے قریب حضرت صاحب کے پاس تخلیہ میں رہے۔کرنل صاحب جب باہر آئے تو چشم پُر آب تھے۔میں نے کہا آپ نے کیا باتیں کیں جو ایسی حالت ہے۔وہ کہنے لگے کہ جب میں اندر گیا تو حضرت صاحب اپنے خیال میں بوریئے پر بیٹھے تھے۔میں نے کہا حضور زمین پر بیٹھے ہیں۔حضور نے سمجھا کہ غالبًا کرنل صاحب بوریئے پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔اس لئے حضور نے اپنا صافہ بوریئے پر بچھا دیا اور فرمایا آپ یہاں بیٹھیں۔میرے آنسو نکل پڑے اور میں نے عرض کی کہ اگرچہ میں ولایت میں بیپتسمہ (Baptize)لے چکا ہوں۔مگر اتنا بےایمان نہیں ہوں کہ حضور کے صافے پر بیٹھ جاؤں۔حضور فرمانے لگے کہ کچھ مضائقہ نہیں آپ بلا تکلف بیٹھ جائیں۔میں صافے کو ہٹا کر بوریئے پر بیٹھ گیا اور میں نے اپنا حال سنانا شروع کیا۔میں شراب بہت پیتا ہوں اوردیگر گناہ بھی کرتا ہوں۔خدا اور رسول کا نام نہیں جانتا۔لیکن میں آپ کے سامنے توبہ کرکے عیسائیت سے مسلمان ہوتا ہوں۔ مگر جو عیوب مجھے لگ گئے ان کو چھوڑنا مشکل ہے۔حضور علیہ السلام نے فرمایا۔استغفار پڑھا کرو اور پنچگانہ نماز پڑھنے کی عادت ڈالو۔جب تک میں حضور علیہ السلام کے پاس بیٹھا رہا۔میری حالت دگر گوں ہوتی رہی اور میں روتا رہا۔

(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ110-111)

علم کو قید نہ کریں

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک نائی تھا جسے زخموں کو اچھا کرنے کا ایک بہت ہی اعلیٰ درجہ کا نسخہ معلوم تھا۔دور دور سے لوگ اس کے پاس علاج کے لئے آتے اور فائدہ اُٹھاتے مگر وہ اتنا بخیل تھا کہ اپنے بیٹے کو بھی مرہم کا نسخہ نہیں بتاتا تھا اور کہتا کہ یہ اتنا بڑا ہنر ہے کہ اس کے جاننے والے دوآدمی ایک وقت میں نہیں ہو سکتے۔ بیٹے نے بہتری منتیں کیں اور کہا مجھے یہ نسخہ آپ بتا دیں مگر وہ یہی جواب دیتا کہ مرتے وقت تمہیں بتاؤں گا۔اس سے پہلے وہ نہیں بتا سکتا۔بیٹا کہتا کہ موت کا کوئی پتہ نہیں کہ کس وقت آ جائے آپ مجھے یہ نسخہ بتا دیں۔مگر باپ آمادہ نہ ہوتا۔آخر ایک دفعہ وہ بیمارہوا اور سخت حالت نازک ہو گئی۔بیٹا کہنے لگا۔باپ اب تو مجھے نسخہ بتا دیں مگر وہ جواب دیتا کہ میں مروں گا نہیں اچھا ہو جاؤں گا۔پھر حالت اور خراب ہو گئی تو بیٹے نے پھر منتیں کیں مگر پھر بھی وہی جواب تھا کہ کیا تو سمجھتا ہے کہ میں مرنے لگا ہوں۔میں تو ابھی نہیں مرتا۔غرض اسی طرح وہ جواب دیتا رہا یہاں تک کہ وہ مر گیا اور اس کا بیٹا جاہل کا جاہل ہی رہا۔یہ چیز ایسی ہے جسے اسلام جائز قرار نہیں دیتا۔

(تفسیر کبیر سورۃ النور صفحہ 282)

ہر بات میں اچھا پہلو

میاں عبد العزیز صاحب المعروف مغل نے بیان کیا کہ:
’’ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک کی چھت پر تشریف فرما تھے۔حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ حضرت صاحب نے مہمانوں کے لئے پرچ پیالیاں منگوائی ہوئی تھیں۔میر مہدی حسن صاحب سے پرچیں گر گئیں اور چکنا چور ہو گئیں۔مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کیا کہ حضرت صاحب آواز آئی ہے معلوم ہوتا ہے میر مہدی حسن صاحب سے پرچیں ٹوٹ گئیں۔فرمایا میر صاحب کو بلاؤ۔میر مہدی حسین صاحب ڈر گئے اورڈرتے ڈرتے سامنے آئے۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔میر صاحب کیا ہوا ہے۔انہوں نے عرض کیا حضور ٹھوکر لگنے سے پرچیں ٹوٹ گئیں۔اس پر فرمایا کہ دیکھو جب یہ گری تھیں تو ان کی آواز کیسی اچھی تھی۔‘‘

حسین طرزِ عمل

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ایک مرتبہ میں سیر کو جا رہا تھا۔ایک پٹواری عبد الکریم میرے ساتھ تھا۔ وہ ذراآگے تھا اور میں پیچھے۔راستے میں ایک بڑھیا کو ئی 70یا 75برس کی ضعیفہ ملی۔اس نے ایک خط اسے پڑھنے کو کہا۔مگر اس نے اس کو جھڑکیاں دے کر ہٹایا۔میرے دل پر چوٹ سی لگی۔اس نے وہ خط مجھے دیا۔میں اس کو لیکر ٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا۔اس پر پٹواری کو بہت شرمندہ ہونا پڑا کیونکہ ٹھہرنا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 305)

صرف ایک گھنٹہ کا کرایہ

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےمتعلق تحریر فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام عصر کی نمازسے فارغ ہوکر حسب طریق سیر کے خیال سے باہر تشریف لائے۔ (آخری سیر )ایک کرایہ کی گھوڑا گاڑی حاضر تھی جو فی گھنٹہ مقررہ شرح پر منگوائی گئی تھی۔آپ نے اپنے نہایت مخلص صحابی شیخ عبد الرحمٰن قادیانی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس گاڑی والے سے کہہ دیں کہ وہ ہمیں صرف اتنی ہی دور لے جائے کہ ہم اس وقت کے اندر اندر ہوا خوری کرکے گھر واپس پہنچ جائیں۔ چنانچہ اس کی تعمیل کی گئی اور آپ تفریح کے طور پر چند میل پھر کر واپس آ گئے۔ اس وقت آپ کو کوئی خاص بیماری نہ تھی۔صرف مضمون لکھنے کی وجہ سے کسی قدر ضعف تھا اور غالبًا آنے والے حادثے کے مخفی اثر کے تحت ایک گونہ ربودگی اور انقطاع کی کیفیت طاری تھی۔

(سلسلہ احمدیہ صفحہ 182)

مخالفین کی اولاد حضور کے قدموں میں

شیخ نیاز محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت مخالف محمد بخش صاحب تھانیدار بٹالہ کے بیٹے تھے۔شیخ صاحب کی اہلیہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا کہ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہنستے ہوئے اندر تشریف لائے اور ایک کپڑا مجھے دے کر فرمایا کہ معلوم ہے کہ یہ کپڑا تمہیں کس نے دیا ہے ؟ پھر فرمایا یہ اسی کے بیٹے نے دیا ہے جس نے تمہارے ٹرنک لیکھرام کی تلاشی کے وقت توڑے تھے۔حضور انور علیہ السلام کو اس خیال سے کس قدر روحانی سرور حاصل ہوا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح مخالفین کی اولاد کو پکڑ پکڑ کر حضور علیہ السلام کے قدموں کے گرا دیا ہے۔

(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 100طبع اوّل )

دوستو !جاگو !کہ اب پھر زلزلہ آنے کو ہے

دھرم شالہ میں ڈسٹرکٹ بورڈ کے ہیڈ کلرک ایک ہندو دوست پنڈت مولی رام ہوتے تھے۔ان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خط و کتابت تھی۔3؍اپریل 1905ءکو یعنی زلزلہ آنے سے صرف ایک دن قبل ان کو حضور علیہ السلام کا ایک خط پہنچا جس میں حضور علیہ السلام نے لکھا تھا کہ خدا کا عذاب آسمان پر بھڑک رہا ہے۔اس کا عذاب سالوں میں نہیں مہینوںمیں نہیں بلکہ سینکڑوں میں زمین پر نازل ہونے والا ہے۔ پنڈت صاحب نے یہ خط پڑھے بغیر سرہانے تلے رکھ دیا۔شام کو صبح کو انہوں نے اسے پڑھنا شروع کیا۔پنڈت صاحب ابھی یہ خط پڑھ ہی رہے تھے کہ زلزلہ آ گیا اور خط پڑھتے پڑھتے اپنے مکان سے باہر آ گئے۔حضور علیہ السلام کے خط کی بدولت ان کی جان بچ گئی۔اس سے عجیب تر واقعہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا۔حضور علیہ السلام 4؍اپریل 1903ء کی صبح کو ‘‘نصرۃ الحق’’یعنی براہین احمدیہ حصہ پنجم کا مسودہ لکھ رہے تھے۔اس دوران جب حضور علیہ السلام اس الہام تک پہنچے کہ:
’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا تعالیٰ اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا۔‘‘

حضور علیہ السلام یہ الفاظ لکھ کر اس کے پوراہونے کا ثبوت درج کرنے کو تھے کہ زلزلہ آ گیا۔

(البدر 6؍ اپر یل 1905ء صفحہ 6 کالم نمبر 3)

آپ کے منہ کی بات پوری ہو جائے

جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے علم پاکر اپنے لئے ایک نکاح ثانی کی پیشگوئی فرمائی تو گویہ پیشگوئی بعض شرائط کے ساتھ مشروط تھی مگر پھر بھی چونکہ اس وقت اس کا ظاہری پہلو یہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ ایک نکاح کی پیشگوئی ہے اور لڑکی کے والدین اور عزیز و اقارب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت خلاف تھے۔تو ایسے حالات میں حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے کئی دفعہ خدا کے حضور رو رو کر دعائیں کیں:
’’خدایا تو اپنے مسیحا کی سچائی ثابت کر اور اس رشتہ کے لئے خود اپنی طرف سے سامان مہیا کر دے۔‘‘

اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے دریافت کیا کہ اس رشتہ کے ہو جانے سے تم پر سوکن آتی ہے۔تم ایسی دعا کیوں کرتی ہو۔تو حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے اس کے جواب میں فرمایا:
’’کچھ بھی ہو۔میری خوشی اس میں ہے کہ آپ کے منہ سے نکلی ہوئی بات پوری ہوجائے۔‘‘

اس چھوٹے سے گھریلو واقعہ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بے نظیر حسنِ سلوک اور عدیم المثال شفقت نے آپ کے اہل خانہ پر کس قدر غیر معمولی اثر پیدا کیا ؟

(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 600)

خدا قادر ہے

ایک دفعہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی اپنے ایک رشتہ دار کو امروہے سے قادیان ہمراہ لائے۔وہ شخص فربہ اندام 60،50سال کی عمر کا ہوگا اور کانوں سے اس قدر بہرہ تھا کہ ایک ربڑ کی نلکی کانوں میں لگایا کرتا اور زور زور سے بولتے تو قدرے سنتا۔ حضرت اقدس علیہ السلام ایک دن تقریر فرما رہے تھے اور وہ بھی بیٹھا تھا۔اس نے عرض کی حضور مجھے بالکل سنائی نہیں دیتا۔میرے لئے دعا فرمائیں کہ مجھے آپ کی تقریر سنائی دینے لگے۔آپ نے دوران تقریر اس کی طرف روئے مبارک کرکے فرمایا کہ خدا قادر ہے۔اسی وقت اس کی سماعت کھل گئی اور وہ کہنے لگا حضور مجھے ساری تقریر آپ کی سنائی دیتی ہے اور وہ شخص نہایت خوش ہوا اور نلکی ہٹا دی اور پھر وہ سننے لگ گیا۔

(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 134)

(صوفیہ اکرم چٹھہ۔لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی