خدا تعالیٰ کے وجود کے بارے میں
رچرڈ ڈاکنس صاحب کے چند نظریات پر تبصرہ
قسط دوم
خاکسار نے گزشتہ مضمون ’’ خدا تعالیٰ کے وجود کے بارے میں رچرڈ ڈاکنس صاحب کے چند نظریات پر تبصرہ‘‘میں خدا تعالیٰ کے وجود کے بارے میں رچرڈ ڈاکنس صاحب کے چند نظریات کا تجزیہ پیش کیا تھا۔ ڈاکنس صاحب دہریہ نظریات کے نمایاں ترین دانشور سمجھے جاتے ہیں اور اس موضوع پر بہت سی کتب تحریر کر چکے ہیں۔ اور انہوں نے اپنے نظریات کی تائیدمیں جو دلائل پیش کئے ہیں، اس دور میں اس سوچ کے اکثر احباب وہی دلائل پیش کرتے ہیں۔ چونکہ ان کا نام اب ایک حوالہ بن چکا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ ان کے پیش کردہ دلائل کو پرکھ کر سچ جاننے کی کوشش کی جائے۔
وہ اپنی کتاب ’’The God Delusion‘‘ میں ڈارون کے نظریہ ارتقا کو بار بار پیش کرتے ہیں اور یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ زمین پر زندہ اشیاء کی پیچیدگی اور ان کے پر حکمت نظام سے متاثر ہو کر یہ نتیجہ نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ان کو بنانے والی ایک ہستی موجود ہے کیونکہ ڈارون کے نظریہ ارتقا اور قدرتی انتخاب (Natural Selection) نے اس معمہ کو ہمیشہ کے لئے حل کر دیا ہے۔سادہ سی مثال ہے کہ صنعتی انقلاب سے پہلے لندن میں جو پروانے پائے جاتے تھے وہ سفید رنگ کے ہوتے تھے اور ان پر سیاہ نقطے ہوتے تھے۔ جب صنعتی انقلاب شروع ہوا تو کوئلے کے استعمال اور اس کے دھوئیں کی وجہ سے جن عمارتوں پر وہ بیٹھتے تھے وہ سیاہ ہو گئے۔ چنانچہ جو پروانے زیادہ سیاہ رنگ کے تھے وہ پرندوں کو نظر نہیں آتے تھے اور انہیں وہ نہیں کھا سکتے تھے اور جو سفید رنگ کے تھے وہ پرندوں کو آسانی سے نظر آ جاتے تھے، وہ انہیں آسانی سے کھا سکتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لندن میں سیاہ رنگ کے پروانے بہت زیادہ ہو گئے اور سفید رنگ کے پروانے ختم ہو گئے۔
جن جنگلات میں زرافے کا ارتقاء ہوا وہاں ان جانوروں کو درختوں کے پتے کھانے پڑتے تھے۔ اور سب جانوروں کے لئے ان پتوں تک پہنچنا مشکل ہوتا تھا جو کہ درختوں کے اوپر کے حصے پر لگے ہوتے تھے۔ اور خشک موسم میں نچلی سطح پر لگے ہوئے پتے ختم ہو جاتے تھے چنانچہ وہ جانور زیادہ نشو نما پاتے تھے جن کی گردنیں لمبی ہوتی تھیں۔ اس مخصوص ماحول میں زرافے کے آباء میں وہ جانور زیادہ بہتر نشو نما پا رہے تھے جن کی گردن لمبی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں سال بعد دنیا میں لمبی گردن والے زرافے زیادہ ہو گئے اور اس جانور کی گردن لمبی ہو گئی۔
ڈیئر قسم کا چوہا امریکہ میں پایا جاتا ہے۔ اس کا رنگ عموماً بھورا ہوتا ہے کیونکہ اس رنگ کا چوہا جنگل میں آسانی سے چھپ کر دشمن سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ لیکن اس کی جو قسم ریت کے ٹیلوں میں پائی جاتی ہے وہ ہلکے رنگ کی ہوتی ہے کیونکہ ریت کے تودوں میں ہلکے رنگ کا چوہا آسانی سے پوشیدہ رہ سکتا ہے۔چنانچہ آ ٹھ ہزار سال کے عرصہ میں اس علاقہ میں بھورے رنگ کی بجائے ہلکے رنگ کے چوہوں کی قسم پیدا ہوگئی۔اس طرح ہر نوع کے جاندار اپنے آپ کو اپنے ماحول میں زندہ رکھنے اور نشو نما پانے کے لئے بہتر سے بہتر بناتے جاتے ہیں۔
ڈارون کے نظریات کے مطابق لاکھوں سال کی تبدیلیوں کے بعد جانداروں کی مختلف انواع کی کچھ آبادی میں اتنی تبدیلیاں پیدا ہوجاتی ہیں کہ اس طویل عمل کے بعد وہ اپنی نوع سے علیحدہ ہو کر زیادہ بہتر اور پیچیدہ قسم کی نوع کا روپ دھار لیتی ہیں۔اس طرح زمین پر زندگی کی کروڑوں قسم کی انواع نے جنم لیا۔ڈارون کے یہ نظریات مکمل طور پر زمین پر زندگی کے سفر کی وضاحت پیش کرتے ہیں کہ نہیں یہ ایک علیحدہ بحث ہے لیکن سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ زمین پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا؟ کیا بغیر کسی خالق کے یہ زمین پر زندگی کا آغاز ممکن تھا ؟نظریہ ارتقا زمین پر زندگی کے آغاز کے بعد کی ترقی کی کچھ وضاحت پیش کرنے کی کوشش تو کرتا ہے لیکن زندگی کی پیدائش سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ سوال تو بعد میں اٹھے گا کہ زندگی نے ترقی کرتے کرتے پیچیدہ سے پیچیدہ شکل کس طرح اختیار کی پہلے تو یہ معمہ حال ہونا چاہیے کہ زندگی کا آغاز کس طرح ہوا؟
رچرڈ ڈاکنس اپنی کتاب میں بار بار یہ اصرار کرتے ہیں کہ بےشک زمین پر پیچیدہ سے پیچیدہ شکل میں جاندار پائے جاتے ہیں اور ان کی ساخت اپنے اندر حکمتوں کا ایک خزانہ رکھتی ہے لیکن یہ نتیجہ نکالنے کی ضرورت نہیں کہ ان اشیاء کو ترقی کی منازل طے کرانے والی کوئی ہستی موجود ہے کیونکہ ان کے نزدیک ڈارون کا نظریہ ارتقا اس کی وضاحت پیش کرتا ہے کہ زندگی نے کس طرح ترقی کی لیکن وہ اپنی کتاب The God Delusionمیں کافی دیر تک اس بنیادی سوال سے گریز کرتے ہیں کہ زمین پر زندگی کا آغاز کس طرح ہوا؟ کیا بغیر ایک خالق ہستی کے ایسا ممکن تھا۔ حالانکہ یہ سوال سب سے پہلے اٹھنا چاہیے تھا۔
بالآخر وہ اپنی کتاب کے صفحہ 160 پر اس مسئلہ پر وضاحت پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کی وضاحت بیان کرنے سے پہلے یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ موجودہ تحقیق کے مطابق سائنسدان کیا کہتے ہیں کہ زمین پر زندگی کا نقطہ آغاز کیا تھا ؟ آج سے ساڑھے چار ارب سال پہلے زمین وجود میں آ ئی اور تقریباً تین ارب ستر کروڑ برس قبل زمین پر زندگی کی ابتدائی حالت کا آغاز ہوا۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آغاز کس طرح ہوا؟
اس دور کے ماہرین کہتے ہیں کہ سب سے پہلا مرحلہ یہ تھا کہ RNAکے مالیکیول وجود میں آئے۔ یہ مالیکیول اکثر زندہ اشیاء کے تمام خلیوں میں پائے جاتے ہیں۔یہ بہت پیچیدہ مالیکیول ہے جو کہ ایک چکر کھاتے ہوئے دھاگے کی صورت میں ہوتا ہے۔سادہ الفاظ میں یہ قدرت کی ایک تحریر ہے جو کہ خلیوں میں دوسرے کاموں کے علاوہ پیغام رسانی کا کام بھی کرتی ہے۔ یہ تحریر ایک بہت معین اور پیچیدہ صورت میں ہوتی ہے۔ اگر اس کی ساخت میں معمولی سا فرق بھی ہو تو یہ اپنا کام درست طریق پر نہیں کر سکتی اور زندگی کے لئے کام نہیں آ سکتی۔ اگر اس مالیکیول کو مناسب ماحول میں رہنے دیا جائے تو اس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ اپنے جیسے دوسرے RNAکے مالیکیول کو پیدا کر سکے۔
کیا اتنی پیچیدہ چیز خود بخود محض اتفاقاً وجود میں آ سکتی ہے۔یہ سوال اسی طرح ہے کہ اگر ہم گتے کے چھوٹے سے ٹکڑوں پر انگریزی کے حروف تہجی لکھ دیں یعنی A,B,Cسے لے کر X,Y,Zتک اور ایک نابینا کو کہیں کہ انہیں اپنی مرضی سے ایک لائن میں رکھتا جائے اور محض اتفاق سے وہ بالکل صحیح ترتیب میں رکھے جائیں۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ یا جب وہ نابینا اندازے سے یہ ٹکڑے ایک ترتیب سے رکھتا جائے تو ایک محض اتفاق سے ایک فصیح عبارت کا جملہ بن جائے۔یا یہ ممکن ہے کہ ایک بلی کھیلتے ہوئے ایک لیپ ٹاپ کے ،کی بورڈ (Key Board)پر پاؤں مارتی جائے اور محض اتفاق سے ایک پیراگراف کی درست عبارت لکھی جائے۔ اگر یہ ممکن نہیں تو جو قدرتی تحریر بہت معین طور پر RNAپر لکھی ہوتی ہے وہ اتنی پیچیدہ اور معین اور پرحکمت ہے کہ اگر اس میں ذرا فرق آئے تو زندگی کا سفر شروع نہیں ہو سکتا، وہ کس طرح محض اتفاق سے وجود میں آ سکتی ہے۔ڈاکنس صاحب اپنی کتاب میں اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مذہبی طبقہ جب ارتقا (Evolution)کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے تو زندگی کے آغاز پر جا کر پناہ لیتا ہے۔یعنی یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ اگر کوئی خالق موجود نہیں تو زندگی کا آغاز کس طرح ہوا؟ کیونکہ زندگی کا آغاز اپنی ذات میں ایک پیچیدہ اور پر حکمت عمل تھا اور وہ بغیر کسی خالق کے ممکن نہیں۔اس کا حل پیش کرنے کی بجائے وہ لکھتے ہیں:
The origin of life only had to happen once. We therefore can allow it to have been an extremely improbable event, many orders of magnitude more improbable than most people realize.
(The God Delusion by Richard Dawkins , Published by Penguin Random House UK 2016 p162)
ترجمہ: زندگی کا آغاز تو ایک مرتبہ ہی ہونا تھا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس بات کا امکان بہت ہی کم تھا )کہ زندگی خود بخود شروع ہو۔اور جتنا اکثر لوگوں کا خیال ہے یہ آغاز اس سے بھی زیادہ نا ممکن معلوم ہوتا ہے۔
یہاں وہ اپنے بچھائے ہوئے جال میں خود ہی پھنس گئے ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ مضمون میں ذکر کیا گیا تھا کہ وہ اس کتاب کے شروع میں یہ لکھتے ہیں کہ ہم یہ ثابت تو نہیں کر سکتے کہ خدا موجود نہیں ہے لیکن چونکہ عقل کی رو سے اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ خدا موجود ہو تو ہم اس بنیاد پر خدا کے وجود کا انکار کر تے ہیں۔لیکن جب زندگی کے آغاز کا ذکر آتا ہے تو وہ یہ ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ سائنسی طور پر اس بات کا امکان بہت ہی زیادہ کم ہے کہ زندگی خود بخود شروع ہو گئی ہو۔اگر ان کے نزدیک سائنسی طور پر اس بات کا امکان بہت ہی زیادہ کم بلکہ اکثر لوگوں کے وہم و گمان سے بھی زیادہ کم ہے کہ زندگی جیسی پیچیدہ چیز خود بخود بغیر خالق کے محض اتفاقاً وجود میں آ گئی ہو تو انہیں اپنے اصول کے مطابق یہ اعلان کرنا چاہیے کہ سائنسی طور پر یہ ممکن نہیں ہے کہ زندگی اتفاقاََ شروع ہو گئی ہو۔اس کے بعد یہی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس زندگی کا کوئی خالق موجود ہے۔
اوپر درج کئے گئے حوالے میں ڈاکنس صاحب کہتے ہیں کہ زندگی کا آغاز تو ایک ہی مرتبہ ہونا تھا۔گویا وہ یہ قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گو بغیر کسی پیدا کرنے والے خدا کے خود بخود زندگی کا آغاز تو تقریباً نا ممکن نظر آتا ہے۔ کسی طرح ہوگیا ہوگا۔ سائنسی نقطہ نظر سے یہ کوئی معقول جواب نہیں۔ سائنسی مسئلے اس طرح کہ مفروضے پیش کر کے حل نہیں کیے جاتے کہ ایسا کسی طرح ہو گیا ہوگا۔ اور انہوں نے اپنے اس مفروضے کا کوئی ثبوت نہیں پیش کیا کہ زندگی کا آغاز صرف ایک مرتبہ ہی ہوا ہے۔ سائنس نے ابھی یہ ثابت ہی نہیں کیا کہ کائنات کے کسی اور گوشے میں یا بہت سے گوشوں میں زندگی موجود نہیں اور پوری کائنات میں صرف زمین پر ہی زندگی موجود ہے۔ سائنسدانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس بات کی امید رکھتی ہے کہ کبھی نہ کبھی کسی اور مقام پر زندگی کا سراغ مل جائے گا اور اگر کائنات کو ایک ارب حصوں میں تقسیم کیا جائے تو اب تک اس اعتبار سے اس کے ایک حصہ کا بھی جائزہ نہیں لیا جا سکا۔
یہ لکھنے کے چند ہی صفحوں بعد صفحہ 166پر وہ خود اپنے مفروضے کی تردید کر کے لکھتے ہیں:
I think it is likely there is intelligent life elsewhere
ترجمہ: میرے خیال میں زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ کسی اور مقام پر ذہانت رکھنے والی مخلوق موجود ہے۔
اگر ان کا مفروضہ درست تھا کہ کائنات میں زندگی کا آغازایک مرتبہ ہوا ہے تو ان کا یہ خیال درست نہیں ہو سکتا کہ کائنات میں کسی اور مقام پر ایسی مخلوق موجود ہے جو کہ انسانوں کی طرح ذہانت رکھتی ہے۔
اسی صفحہ پر وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر ہم مثال کےطور پر یہ مان لیں کہ خود بخود زندگی کی بالکل ابتدا ہونے کے امکانات ارب میں ایک کے برابر ہیں تو بھی اس کائنات میں ارب ہا ارب سیارے موجود ہیں۔ اس فارمولے کے تحت محض اتفاقاً ایک ارب سیاروں پر بھی زندگی کا آغازہو سکتا ہے۔ یعنی وہ اس بات سے شروع ہوئے تھے کہ زندگی کا آغاز صرف ایک مرتبہ ہوا۔ پھرکچھ صفحات میں ہی یہ تعداد ممکنہ طور پر ایک ارب تک جا پہنچی۔ اس مرحلہ پر وہ اپنے مفروضے اتنی تیزی سے تبدیل کر رہے ہیں کہ پڑھنے والے کا ذہن چکرا جاتا ہے۔ بہر حال یونہی سہی اب ان کے اس تازہ دعوے کا جائزہ لیتے ہیں۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ دنیا میں ارب ہا ارب سیارے موجود ہیں۔لیکن اب تک جن سیاروں کا جائزہ لیا گیا ہے ان میں سے بہت کم پر زندگی شروع ہو کر پنپ سکتی ہے۔اگر سیارہ اپنے ستارے کے بہت قریب گردش کر رہا ہو گا تو اس کا درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا کہ اس پرزندگی کا نہ آغاز ہو سکے گا اور نہ زندگی پنپ سکے گی۔ اور اگر بہت دور ہو گا تو اتنا سرد ہوگا کہ اس پر زندگی موجود نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی سیارہ مشتری کی طرح بڑا ہوگا تو اس کی سطح ایسی حالت میں ہو گی کہ اس پر زندگی پرورش نہیں پا سکتی۔اور کیپلر خلائی دوربین کی جمع کردہ مواد کے مطابق کائنات کے صرف دس فیصد ستارے ایسے ہیں جن کے گرد زمین جیسے سیارے موجود ہیں۔اس کے علاوہ زندگی کے لئے سیارے پر پانی ہونا ضروری ہے۔
(ابو نائل)