• 21 مئی, 2025

غزوہ ہند والی پیشگوئی کب اور کیسے پوری ہوئی پیشگوئیوں کے اصول۔مذہبی تاریخ اور واقعاتی شہادتوں کی روشنی میں

آج کل پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے مختلف حلقوں میں غزوہ ہند والی پیشگوئی بہت سرگرم ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کاایک لشکرہند سےجنگ کرےگا جس میں مسلمان فتح یاب ہوں گے اس حدیث کی جذباتی تشریح کر کے مختلف عناصر عوام اور فوج اور حکومت کو جذباتی نعروں میں بہا کر اپنی مفیدطلب کارروائی کرانا چاہتے ہیں اس لئےاس مضمون کو حقائق کی نظر سے دیکھنا ضروری ہے۔

پیشگوئیوں کے متعلق یہ امر مسلمہ ہے کہ جو بھی پیشگوئی خدا کی طرف سے ہو یا اس کے رسول اور مامور کی زبان سے نکلی ہو وہ ضرور پوری ہو کر رہتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ ہی مالک کون و مکان ہے اور اس کارسول امین اور مطاع ہے اور رسول کو غیب کی خبریں دیا جانا اور ان کا پورا ہونااس رسول کے خدا کی طرف سے ہونے کی ایک زبردست علامت ہے اسی لئے قرآن کریم اور احادیث رسول ﷺ میں کثرت سے غیب کی خبریں موجود ہیں جو چودہ سو سال سے پوری ہوتی چلی آ رہی ہیں اور رسول اللہ ﷺ اور قرآن اور ان کے خدا کی صداقت کی ناقابل تردید علامتیں ہیں ۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا پیشگوئی کے وقوع میں آنے سے پہلے کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ پیشگوئی کیسے پوری ہوگی قریب میں ہوگی یا دیر میں ۔ تقدیر مبرم ہے یا ٹل جائے گی ۔کس نام سے کیا مراد ہے ۔یہ سب اندازے اور قیاسات ہیں جو حقیقت کے قریب بھی ہو سکتے ہیں اور دوربھی اور بعیداز حقیقت بھی اور یہ طریق بھی خدا نے اسی لئے مقرر کر رکھا ہے تاکہ رسول کی سادگی اور عدم بناوٹ پر گواہ ہو یعنی یہ پیشگوئی رسول نے خود نہیں گھڑی بلکہ کسی اور ہستی نے اسے بتائی ہے اور اس کی کنہ اور کیفیات سے رسول بھی واقف نہیں جب پیشگوئی پوری ہو گی تب رسول کو بھی سمجھ آئے گی اور خدا کی ہستی اور علم لازوال پر گواہ ہو گی تاریخ مذہب یہی شہادت دیتی ہے۔

چند معنی خیز پیشگوئیاں

آقائے کائنات حضرت محمد رسول اللہ ﷺکی عظمت اور بے نفسی ملاحظہ ہو آپؐ کو ایک جگہ ہجرت گاہ کے طور پر دکھائی گئی آپ ﷺ نے فرمایا میں نے اسے یمامہ یا ہجرکا علاقہ سمجھا مگر وہ مدینہ ثابت ہوا (صحیح بخاری کتاب التعبیر باب اذا رای بقرا ۔حدیث نمبر 7035) آقا ﷺ نے خواب میں ابوجہل کے لئے جنت میں انگور کا خوشہ دیکھا مگر ابوجہل تو کفر کی حالت میں واصل جہنم ہوا اس کا بیٹا عکرمہ مسلمان ہوا تو رسول اللہ ﷺ بہت خوش ہوئے اور خواب کی تعبیر سمجھ لی عکرمہ ؓنے اسلام کی خاطر عظیم قربانیاں کیں اور جنت کے انگور کھائے۔

(السیرۃ الحلبیہ باب فتح مکہ جلد 3 ص 133)

مولائے کل ﷺ نے فرمایا میرے بعد سب سے پہلے میری وہ بیوی فوت ہو گی جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں گے ازواج مطہرات ؓ نے ہاتھ ماپے تو حضرت سودہ ؓ کے ہاتھ لمبے نکلے مگر جب سب سے پہلے حضرت زینب بنت جحش ؓ فوت ہوئیں تو پتہ لگا کہ لمبے ہاتھوں سے مراد کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے والے ہاتھ ہیں۔

(صحیح بخاری کتاب الزکوۃ باب فضل الصدقۃ حدیث نمبر 1420)

سفر ہجرت میں سراقہ سے فرمایا کہ کسریٰ کے کنگن تیرے ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے یہ پیشگوئی حضرت عمر ؓکے دور خلافت میں پوری ہوئی اور حضرت عمر ؓنے باصرار سونے کے کنگن سراقہ کو پہنائے باوجودیکہ مردوں کے لئے سونا پہننا منع ہے لیکن خدا کے رسول کا کلام پورا کرنےکے لئے تھوڑی دیر کے لئے ایسا کیا گیا۔

(اسد الغابہ تذکرہ سراقہ)

پس پیشگوئیوں کا ایک اپنا جہان معانی ہے جس کو روحانی علوم کے ساتھ ہی مطالعہ کرنا چاہئے ورنہ یہودیوں والا حال ہوگا بائیبل میں ملاکی نبی کی پیشگوئی تھی کہ یہودیوں کے مسیح کے آنے سے پہلے ایلیا آسمان سے اترے گا حضرت مسیحؑ کے دعوے پر یہود نے یہی مطالبہ کیا مگر مسیحؑ نے فرمایا کہ ایلیاء سے مراد یحییٰ ہے اور آسمان سے مراد روحانی برکتیں اور انوار ہیں لیکن یہودیوں نے انکار کر دیا اور آج تک دیوار گریہ پر آنسو بہاتے ہیں اور ایلیا کے آسمان سے اترنے کی التجا کرتے ہیں۔

(ملاکی باب 4 آیت 5 اور متی باب 11 آیت 13 تا 15)

احادیث میں رسول کریم ﷺ کی سینکڑوں پیشگوئیاں درج ہیں ہیں ان میں سے ایک متذکرہ غزوہ ہند والی پیشگوئی بھی ہے جس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ آئندہ پوری ہوگی کیسے ہو گی یہ اللہ بہتر جانتا ہے مگر آئیے اصولوں کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

روایت کے اصولوں پر

یہ پیشگوئی صحاح ستہ یعنی حدیث کی 6 صحیح ترین کتب میں سے سنن نسائی میں موجود ہے جو درجہ کے لحاظ سے 6 میں سے پانچویں نمبر پر ہے صحاح ستہ وہ کتب ہیں جن کے مصنفین نے راویوں کے متعلق یہ تسلی کر لی تھی کہ وہ سچے اور انسانی اندازوں کے مطابق راستباز تھے مصنف کتاب سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک راویوں کا سلسلہ مکمل ہے اور کوئی راوی غائب نہیں ہے پس اس پہلو سے تو ایک حد تک اعتماد ہے کہ علم روایت کی رو سے حدیث بظاہر درست معلوم ہوتی ہے۔

حدیث کا متن

حدیث کے الفاظ ہیں عن ثوبان مولیٰ رسول اللّٰہ ﷺ عن النبی ﷺ قال عصابتان من امتی احرز ھما اللہ من النار عصابۃ تغزو الھندو عصابۃ تکون مع عیسی بن مریم علیہ السلام

(سنن نسائی کتاب الجہاد باب غزوۃ الہندص 42 حدیث نمبر 3175)

حضرت ثوبانؓ (جو رسولؐ کے آزاد کردہ غلام تھے) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ آگ سے سے بچائے گا ان میں سے سے ایک گرو وہ ہند سے سے جہاد کرے گا اور دوسرا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہوگا۔

سنن نسائی میں ہی حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےہم سے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا تھا

(سنن نسائی حدیث نمبر 3173)

اس کے علاوہ بھی قریب زمانہ کی اوربعد کی متعددکتب احادیث اور تاریخ میں یہ بھی یہ پیشگوئی موجود ہے اور لفظوں کے تھوڑے تھوڑے فرق کے باوجودِ مفہوم ایک جیسا ہی ہے جس سے اس امکان کو تقویت ملتی ہے کہ یہ کلام رسول ﷺ ہی ہے چند کتب کے نام یہ ہیں مسند احمد۔ المعجم الاوسط طبرانی۔ سنن الکبریٰ بیہقی۔ البدایہ والنہایہ

حضرت ابوہریرہؓ کی ایک اور روایت میں غزوہ ہنداور اس میں مسلمانوں کے فتح پانے کا ذکر ہے اور یہ کہ مسلمان ان کے بادشاہوں کو زنجیروں میں میں جکڑ کر واپس آئیں گے تو ابن مریم کو شام میں پائیں گے اس روایت کو ناقابل اعتماد اور ضعیف قرار دیا گیا ہے کیونکہ کہ اس کے راوی مجہول اور غائب ہیں۔

(کتاب الفتن نعیم بن حماد)

پہلا گروہ

اس پیشگوئی کے ظہور میں آنے کے متعلق کافی اختلافات ہیں واضح ہے کہ اس میں دو گروہوں کا ذکر ہے پہلے گروہ کے متعلق کئی مکاتب فکر ہیں۔

نمبر1 یہ پیشگوئی ہندوستان پر محمد بن قاسم اور بعد کے مسلم حملہ آوروں کے ذریعہ پوری ہو چکی ہے۔
نمبر 2 پاکستان اور ہندوستان کے مابین ہونے والی جنگوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا آئیے ان کا محاکمہ کرتے ہیں۔

رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں سندھ پنجاب اور موجودہ ہندوستان کا علاقہ ہند یا سندھ کہلاتا تھا پس پاکستان قدیم جغرافیائی نقشوں میں ہند ہی ہے اور ہند ہی کے ایک علاقہ کی دوسرے سے لڑائی کی رسول اللہ ﷺخبر نہیں دے رہے بلکہ اپنی امت کے ایک ایسے طبقہ کی ہند سے لڑائی کی خبر دے رہے ہیں جو غیر ہندی ہوگا پس پاک و ہند جنگوں پر اس کا اطلاق بہت حد تک غیر معقول ہو گا ۔

رسول اللہ ﷺ نے ہزاروں پیشگوئیاں فرمائی ہیں اور ان کے درمیان ایک پورا مربوط نظام ہے جس کی ایک کڑی دوسرے کو تقویت دیتی ہے اور پوری زنجیر بناتی ہے حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

كيف تهلك أمة أنا في أولها وعيسى في آخرها یعنی وہ امت کیسے ہلاک ہو سکتی ہے جس کے شروع میں ہوں اور آخر میں عیسیٰ ہو گا۔

(معجم ابن عساکر جلد 1 ص 451)

اسلام کے دور اوّل میں جہاد بالسیف کی اجازت دی گئی تھی جس کا ایک مقصد مذہبی آزادی کا قیام اور ظلم و ستم کا خاتمہ تھا اس لئے دور اوّل میں بہت سے ملکوں میں جہاد کے ساتھ ان عناصر کا خاتمہ کیا گیا جو مذہبی آزادی پر رکاوٹیں عائد کئے ہوئے تھے ظلم و جور کا دور دورہ تھا اسلامی جہاد نے ان کا زور توڑا لوگوں کو اسلام کا حسین پیغام اور امن و آشتی اور مساوات کا نظام دیکھنے کا موقع ملا اور پھر لوگ اپنی مرضی سے اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے۔

ہند میں اسلام کی خوشبو

مؤرخین کے مطابق علاقہ ہند میں اسلام کی پہلی کرن ہجرت نبوی ﷺ سے پہلے پھوٹی تھی جب 10 نبوی میں شق قمر کا واقعہ دیکھ کر مالابار کا راجہ زمورن اس نتیجہ پر پہنچا کہ عرب میں ایک پیغمبر پیدا ہو گیا ہے۔

(آئینہ حقیقت نما ص 71 اکبر شاہ خان نجیب آبادی)

روایت ہے کہ راجا سلطنت چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کے حضور حاضر ہونے کے لئے چل پڑا مگر راستے میں فوت ہو گیا عہد فاروقی میں 15ھ میں مالابار اور سراندیپ کے علاقوں میں اسلام کی خوشبو پھیلنی شروع ہوئی۔

ہندپر پہلا حملہ

مشہور مؤرخ علامہ بلاذری کی تحقیق کے مطابق ہند پر مہم جوئی کا آغاز حضرت عمرؓکے دور خلافت میں ہوا 15ھ 636ء میں سندھ پر مغیرہ نے حملہ کیا مگر شہید ہو گئے 23ھ میں مسلمان ایک اور حملہ میں فتح یاب ہوئے۔

حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں 29ھ (649ء) میں مکران کے مسلمان حاکم ہند کی سرحد تک پہنچ گئے اور بلوچستان سے ملحقہ بعض علاقوں پر قبضہ کر لیا 39ھ (659ء) میں حضرت علیؓ نے ہندوستان کے محاذ پر لشکر بھیجا اور لڑائی میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی سند ھ پر فوجیں روانہ کرنے کا سلسلہ اگرچہ خلافت راشدہ کے زمانہ سے جاری تھا مگر یہ فتوحات سرحدی علاقوں سے آگے نہ بڑھیں لیکن 712ء میں محمد بن قاسم نے سندھ کے علاقہ کو اسلامی سلطنت میں شامل کیا اسی لئے سندھ باب الاسلام کہلاتا ہے اس کے بعد ہندوستان کی فتوحات کا سلسلہ مدتوں جاری رہا۔

اولین اسلامی دستے

پس اس پیشگوئی کے پہلے حصے کا اطلاق ان اوّلین اسلامی دستوں پر ہو سکتا ہے جنہوں نے ہند میں اسلام کا دروازہ کھولا اس میں محمد بن قاسم اور ان کے ساتھیوں کا بڑا کردار ہے جنہوں نے سندھ میں اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی بہت بعد کی لڑائیاں سیاسی جنگیں تو کہلا سکتی ہیں مذہبی نہیں کیونکہ ان میں مسلمانوں کی باہمی لڑائیاں بھی شامل ہیں۔

دوسرا گروہ

دوسرےگروہ کا تعلق مسیح ؑکے ساتھ ہے اور اس میں کسی جنگ کا ذکر نہیں یہ ان احادیث کے عین مطابق ہے جن میں لکھا ہے کہ یضع الحرب یعنی مسیحی جنگیں یعنی مذہبی جنگیں ختم کر دے گا یا یضع الجزیہ یعنی جزیہ ختم کر دے گا اور دنیا مذہبی آزادی کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہو گی۔

(صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی حدیث نمبر 3448)

حدیثوں میں ہے کہ آیت تضع الحرب اوزارھا یعنی جنگ اپنے اوزار رکھ دے گی کا تعلق یاجوج ماجوج اور مسیح ؑ کے ساتھ ہے۔

(تفسیر ابن کثیرجلد 8 ص 335 ۔تفسیر طبری جلد 12 ص 467)

یہ دور آچکا ہے اور یورپ امریکہ ۔افریقہ ۔ایشیا۔آسٹریلیا۔عالم عرب حتیٰ کہ اسرائیل میں بھی مسلمان خدا کی عبادت آزادی سے کرتے ہیں سوائے فلسطین اور کشمیر اور چند سیاسی شورش زدہ علاقوں کے۔۔ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی ہزاروں مساجد مدارس اور مقدس مزارات ہیں۔ہندوستان میں سکھ حکومت کے بعد انگریزوں کی آمد سے مذہبی آزادی کا جو دور شروع ہوا وہ بالعموم جاری ہے۔

یہی وہ دور ہے جس میں ایک وجود نے تمثیلی طور پر مسیح ہونے کا دعویٰ کیا یعنی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی جنہوں نے حضرت مسیح ناصریؑ کی وفات کا اعلان کیا اوروہ موعود مسیح اور مہدی ہونے کا اعلان فرمایا جس کا امت مسلمہ انتظار کر رہی تھی انہوں نے جماعت احمدیہ کی ٫1889 میں بنیاد رکھی جو علم اور قلم کے ذریعے اسلامی جہاد کا فریضہ ساری دنیا میں ادا کر رہی ہے پس اگر مسیحؑ نے آسمان سے اُترنا ہے تو یہ پیشگوئی یقیناً ان کے ساتھ پوری ہو گی لیکن اگر حضرت مسیحؑ فوت ہو چکے ہیں تو پھر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کی جماعت اس پیشگوئی کی مصداق ہے جو 213 ملکوں میں پھیل چکی ہے اور ایک واجب الاطاعت امام ان کا رہنما ہے حضرت مرزا صاحب کی صداقت کے بے شمار دلائل ہیں جو ایک الگ بحث ہے۔

عظیم الشان پیشگوئی

پس اگر یہ مؤقف درست ہے اور جیسا کہ واقعات اس کی صحت ثابت کر رہے ہیں تو رسول اللہ ﷺکا یہ کلام محض ایک پیشگوئی نہیں بلکہ عظیم الشان پیشگوئیوں اور مفاہیم پر مشتمل ہے یہ کلام بتا تا ہے کہ ہند میں اسلام کے دو دور مقدر ہیں ایک وہ جب اسلام جہاد بالسیف کے ساتھ ہند میں داخل ہو گا اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح دے گا اور انہیں جنت میں داخل کرے گا اور یہی وہ علاقہ ہے جہاں مسیح موعود ظہور پذیر ہو گا اور اس کی بعثت کے ساتھ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہو گا ایک بڑی جماعت اس کے ساتھ ہو گی اور جہاد بالقلم اور تبلیغ کے ذریعہ خدمات بجا لائےگی اور خدا انہیں جنت عطا فرمائے گا جیسا کہ مسیح ؑکے متعلق حدیث میں ہے یحدثھم بدرجاتھم فی الجنۃ یعنی مسیح موعود اپنے ساتھیوں کو جنت میں ان کے درجات سے مطلع فرمائے گا۔

(صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال حدیث نمبر 2937)

دوسری روایت میں ہے یبشرھم بدرجات الجنہ..

(کتاب الفتن ۔نعیم بن حماد ۔جلد 2 ص569 ،حدیث نمبر 1593)

پس ہمارے نزدیک تو یہ عظیم الشان پیشگوئی پوری ہو چکی ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت کی ببانگ دہل گواہی دے رہی ہے ۔

بستر پر موجود رہے اور سیر ہفت افلاک
ایسی کسی پر رحمت کی برسات نہیں دیکھی
صدیوں کی اس دھوپ چھاؤں میں کوئی ہمیں بتلائے
کون سی پوری ہوتی اس کی بات نہیں دیکھی


(عبدالسمیع خان۔غانا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ