• 8 جولائی, 2025

مکرم چوہدری سلطان احمد طاہر آف کراچی

مکرم چوہدری سلطان احمد طاہر خاکسار کے حقیقی تایا تھے۔ ان کے حالات و خدمات کے بارہ میں خاکسار نے خود آج سے 24سال قبل1995ء میں اُن سے انٹر ویو کیا اور نوٹس کی صورت میں اپنے پاس محفوظ رکھا۔ ان یادداشتوں اور دیگر ذرائع کی روشنی میں زیر نظرمضمون تحریر کررہا ہوں اور ایک حصہ ان کی سیرت کے بارہ میں شامل تحریر کیا ہے۔

مکرم چوہدری سلطان احمد طاہر 23فروری 1925ء کو مانگٹ اونچے تحصیل حافظ آباد (جو اب ضلع بن چکا ہے) میں الحاج میاں پیر محمد اور محترمہ زینب بی بی کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین اپنے گاؤں میں علم و عرفان اور زہد و تقویٰ کی وجہ سے معروف تھے دونوں کو حج بیت اللہ کی سعادت بھی ملی تھی۔ان کے والدمحترم الحاج میاں پیر محمد صاحب جن کی دستی بیعت 1910ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی ہے تاہم آپ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت 1904ء میں کر چکے تھے۔ والد کے بڑے بھائی حضرت مولوی فضل الدین صحابی حضرت مسیح موعود ؑ تھے اور حیدر آباددکن ، لکھنو و بہاروغیرہ میں بطور مربی خدمات بجالاتے رہے۔

چوہدری سلطان احمد طاہر نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں اور پھر حافظ آباد سے 1941ء میں میٹرک نمایاں نمبروںکے ساتھ پاس کیا۔ اسی سال آپ قادیان چلے گئے۔میٹرک کا رزلٹ قادیان میں آیا۔ قادیان میں آپ نمبروں کے لحاظ سے دوسری پوزیشن پر تھے۔

1941ء میں قادیان میں آپ نے باقاعدہ ملازمت کا آغاز سندھ سنڈیکیٹ کے دفتر سے کیا۔یہ دفتر براہِ راست حضرت مصلح موعودؓ کے ماتحت تھا اور سندھ کی زرعی اراضی کے حسابات کے بارہ میں حضورؓ سے ہدایات ملتی تھیں۔ جب ملازمت کے لئے آپ کا تعارف آفس سپرنٹنڈنٹ نے حضرت مصلح موعود ؓ سے کروایا اور بتایا کہ سلطان احمد ابن پیر محمد مانگٹ اونچے کے رہنے والے ہیں تو حضرت مصلح موعودؓ نے پوچھا کہ یہ مولوی فضل الدین صاحب کے بھتیجے ہیں یا حافظ محمد اسحاق ؓ کے بھتیجے ہیں؟اس سوال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کس قدر ہمارے خاندان کو جانتے تھے۔ حضرت مولوی فضل الدین کے بھائی کانام بھی پیر محمد تھا اور حافظ اسحاق کے بھائی کا نام بھی پیر محمد پیر کوٹی تھا جو کہ مولوی سلطان احمد پیر کوٹی کے والد اور پیر کوٹ کے رہنے والے تھے۔دونوں خاندان رشتہ داریوں میں بندھے ہوئے تھے۔میرے والد محترم چوہدری محمد صادق واقف زندگی بیان کرتے ہیں کہ بھائی سلطان سے تعارف کی وجہ سے حضرت مصلح موعودؓ مجھے سلطان کا بھائی کہہ کر پکارا کرتے تھے۔

بہرحال چوہدری سلطان احمد طاہر کی دفتری و دنیاوی امورکی ساری ٹریننگ حضرت مصلح موعودؓ کی نگرانی میں ہوئی۔ کام کرنے کا سلیقہ حضرت مصلح موعودؓ نے سکھایا اور پھر جماعتی خدمت کی توفیق بھی ملی اور ایک کامیاب زندگی گزاری۔

1943ء میں آپ کو حضرت سیدہ مہر آپا کو میٹرک کے امتحان کی تیاری کے سلسلہ میں ٹیوشن پڑھانے کا اعزاز ملا۔آپ نے اکتوبر1943تامارچ1944ءتک ان کی میٹرک کی تیاری کروائی ۔ حضرت سیّدہ مہر آپا حرم حضرت مصلح موعودؓ آپ کو ہمیشہ ماسٹر صاحب ہی کہا کرتی تھیں۔

سندھ سنڈیکیٹ میں آپ نے 1941ء تا 1954ء تک ملازمت کی۔ اسی دوران آپ نے منشی فاضل ، F.A اور B.A کے امتحانات بھی پاس کرلئے۔ 1954 تا 1959ء آپ کراچی میں جماعتی خدمات میں مصروف رہے اس دوران آپ کو تنخواہ وکالت زراعت تحریک جدید کی طرف سے ملتی تھی۔7

1954ء میں آپ کراچی آگئے ۔ جماعت نے وائر لیس گیٹ کراچی کے ساتھ کارخانہ کے لئے 26ایکٹر اراضی خریدی تھی۔یہ زمین بیچنے کا ارادہ بنا۔ کوشش ہوئی لیکن فروخت نہ ہو سکی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے آپ کے بارہ میں فرمایا کہ ‘‘ان سے پوچھیں اگر ان کو زمین کے لئے بھیجا جائے تو کوئی کامیابی کی امید ہے’’۔حضورؓ دورہ سندھ پر تشریف لے آئے۔ سلطان احمد طاہر بھی آگئے اور زمین کی فروخت کی کوشش کرتے رہے۔ اس دوران صدر انجمن کی ایک اور زمین کا قطعہ بھی آپ کے ذریعہ فروخت ہوا۔آپ نے حضور ؓسے درخواست کی کہ کوئی اور کام بھی دیا جائے۔ حضورؓ نے دارالصدر کراچی کی تعمیر کے نگران محترم حافظ عبدالسلام کو ہدایت دی کہ ان سے بھی خدمت لے لیں۔ہوا یوں کہ حضورؓکے دورہ یورپ روانگی کے بعد محترم حافظ عبدالسلام کو ربوہ آنا پڑا یوںکوٹھی دارالصدر کراچی کی تعمیر کا کام آپ کے سپرد ہوگیا۔

کوٹھی دارالصدر کی تعمیر کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی کوٹھی بیت الفضل (دارالصدر کے ساتھ جو کہ اب منہدم ہو چکی ہے) کی تعمیر کا کام بھی چوہدری سلطان احمد طاہر کے سپرد ہوگیا۔آپ نے1959ء تک یہ کام مکمل کروائے۔ اسی دوران 1957ء میں وائرلیس گیٹ والی زمین کا سودا ہوگیا۔اس وقت حضورؓ خرابی صحت کی وجہ سے مری میں مقیم تھے۔آپ اس سودا کی رپورٹ لے کر مری گئے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدہ مہر آپا نے فرمایا کہ ’’اس سودا کی خبر سے حضورؓ بے حد خوش ہوئے ہیں۔اگر اس قسم کی چند خوشی کی خبریں حضور کو مل جائیں تو آپ کی صحت بالکل ٹھیک ہو جائے‘‘

1959ء میں آپ کراچی کی جماعتی تعمیرات سے فراغت کے بعد محترم شیخ رحمت اللہ صاحب سابق امیر جماعت کراچی جو کہ کنسٹرکشن کا کام کرتے تھے ان سے منسلک ہوگئے۔ان کے ساتھ آپ نے عزیز آباد میں 200 مکانات 1959ء میں تعمیر کروائے اور پھر آپ نے تعمیرات کا ذاتی کام شروع کیا۔

1959ء میں آپ نے عزیز آباد رہائش رکھ لی۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ عزیز آباد /دستگیر کے علاقے کا میں پہلا صدر منتخب ہوا۔1974ء تک آپ دستگیر کے علاقے میں رہے۔آپ کو احمدیہ مسجد بیت العزیز عزیزآباد کی تعمیر میں نمایاں خدمات کا موقع ملا ۔ جگہ کا قبضہ اور تعمیر میں آپ کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اس کا بجلی کا کنکش آج بھی آپ کے نام کا لگاہوا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو تعمیر مساجد کراچی میں نمایاں خدمت کا موقع ملا ہے۔

بیت العزیز کی تعمیر کا ذکر ہوچکا ہے یہاں آپ صدر جماعت بھی رہے ہیں۔

مسجد بیت الحمد مارٹن روڈ کی تعمیرکمیٹی کے آپ رکن رہے اور اس کی تعمیر و تزئین کی نگرانی کرتے رہے۔

محمود آباد منظور کالونی کی مسجد کیلئے مالی قربانی اور اس کی تعمیر کی نگرانی کا کام بھی کیا۔

4۔ اپنے آبائی علاقہ حافظ آباد میں بھی آپ کو تعمیر مساجد میں حصہ لینے کا موقع بھی ملا۔اپنے گاؤں مانگٹ اونچا میںمربی ہاؤس تعمیر کروا کر دیا جو آپ کا آبائی گھر تھا۔ تعمیر کے بعد صدر انجمن احمدیہ کے نام کروادیا۔ مانگٹ اونچا کی مسجد کی تعمیر میںبھی حصہ لیا۔اسی طرح وفات سے قبل ایک مسجد کوٹ شاہ عالم ضلع حافظ آباد میں اپنی نگرانی اور گرہ سے تعمیر کروادی۔

آپ کی خدمات کا مختصر تذکرہ اور ذکر خیر تاریخ احمدیت کراچی جلد نمبر2 کے صفحہ1207 میں شائع شدہ ہے۔آپ صدر حلقہ دستگیر /عزیز آباد رہے۔ اس کے علاوہ حلقہ محمد علی سوسائٹی میں بھی بطور صدر خدمات سرانجام دیں۔ کراچی کے شعبہ اشاعت میں بھی آپ خدمات بجالاتے رہے۔ 1989ء کراچی کے سووینئر کی اشاعت کی کمیٹی میں خدمت کا موقع ملا۔ سوینیئرمیں آپ کا نام اور تصویرشائع شدہ ہے۔

لجنہ اماء اللہ کراچی کے شعبہ اشاعت میں بھی معاونت کرتے رہے ہیں۔لجنہ کراچی کے مجلہ المحراب 1991ء میں آپ کا نام اشتہارات اکٹھا کرنے والوں میں شائع شدہ ہے۔

٭آپ سال 1953-54ء کی مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں ’’محاسب‘‘ کے عہدہ پر فائز رہے ۔ اس سال صدر خدام الاحمدیہ مرکزیہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور نائب صدر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد تھے۔

1943ء میں آپ کی شادی حضرت ماسٹر عطامحمد صحابی حضرت مسیح موعودؑ سابق استاد جامعہ احمدیہ ربوہ کی بیٹی مکرمہ امۃ الحفیظ شوکت سے ہوئی۔جو حضرت میاں فضل محمد ہرسیاں والے صحابی حضرت مسیح موعودؑ کی نواسی اور محترم مولانا نسیم سیفی سابق ایڈیٹر روزنامہ الفضل ربوہ کی ہمشیرہ تھیں۔مکرمہ امتہ الحفیظ شوکت نے 67سال کی عمر میں 13مارچ1991ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کیں:۔

1۔ مکرمہ امتہ الحکیم ایم ایس سی گولڈمیڈلسٹ اہلیہ مکرم ظفر اقبال سیفی ابن مولانا نسیم سیفی مقیم کراچی۔

2۔ مکرم سلیمان احمد طاہر ایم بی اے۔ کراچی میں پراپرٹی کے بزنس سے وابستہ ہیں اور محترم مولانا نسیم سیفی کے داماد ہیں۔آپ فوٹو گرافی کے شوقین اور اس میں کمال رکھتے ہیں۔

3۔مکرم ڈینٹل سرجن ڈاکٹر داؤد احمد طاہر حال مقیم انگلستان۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نصرت جہاں سکیم کے تحت 9سال تک گیمبیا میں خدمت کی توفیق ملی۔انگلستان میںبھی مختلف حیثیتوں سے خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔انصاراللہ برطانیہ کی نیشنل عاملہ کے ممبر رہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری جنرل اور اسسٹنٹ سیکرٹری رشتہ ناطہ جماعت برطانیہ رہے ۔آپ احمدیہ میڈیکل ایسوسی ایشن برطانیہ کے سرگرم رکن اور ان کے سیکرٹری فنانس ہیں۔ٹی آئی سکو ل اور ٹی آئی کالج ربوہ میں آپ کو ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کے کلاس فیلو رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

4۔مکرم مسعود احمد طاہر حال مقیم کینبرا آسٹریلیا۔ آپ کو ربوہ میں ایک لمبا عرصہ جماعتی تقریبات میں فوٹو گرافی کی خدمت کی توفیق ملتی رہی اور آسٹریلیا میں بھی یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

5۔مکرمہ ڈاکٹر طاہرہ نصیر حال مقیم برطانیہ اہلیہ مکرم چوہدری نصیر احمد گورایہ۔

6۔مکرمہ آصفہ منظور ایم ایس سی گولڈ میڈلسٹ حال مقیم کینبرا آسٹریلیا اہلیہ شیخ منظور احمد ابن شیخ طاہر احمد نصیر آف کراچی۔

الحمدللہ کہ آپ کی ساری اولاد اور اولاد در اولاد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دینی و دنیاوی حسنات سے متمتع ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو اپنے نیک والدین اور بزرگان کی روایات کو زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

محترم چوہدری سلطان احمد طاہر نے یکم مارچ 2000ء کو 75سال کی عمر میں وفات پائی ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔

اللّٰھُمَّ اغْفِرْہٗ وَارْحَمْہٗ وَارْفَعْ دَرَجَاتَہٗ وَاَدْخِلْہٗ فِیْ جَنّٰۃِ النَّعِیْمِ

محترم چوہدری سلطان احمد طاہر ایک اصول پسند ،منظم اور باوفا شخصیت کے مالک تھے۔ پابند صوم و صلوٰۃ اور خدا ترس وجود اوراپنے والدین کی دعاؤں کا ثمرتھے۔آپ نے محنت و دیانت کے ساتھ ساری عمر گزاری۔ آپ نے اپنی زندگی صرف اپنے لئے نہیں بلکہ خدمت دین اور خدمت خلق میں بسر کی۔آپ کی ایک بڑی نیکی یہ تھی کہ آپ نے اپنے والدین اور بڑے بھائی الحاج مولوی محمد شریف واقف ِ زندگی کو حج بیت اللہ کے لئے اپنے خرچ پر بھجوایا۔ 1960ء میں اپنے والد محترم اور 1974ء میں والدہ محترمہ کے ساتھ بڑے بھائی کو حج کے لئے بھجوایا۔اپنے عزیز وں کی بھلائی کی خاطر بہت کچھ کیا اور اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ خود قناعت سے کام لیا لیکن مالی قربانی اور مستحقین کی امداد میں ہمیشہ کمر بستہ رہے۔ آپ صائب الرائے شخصیت تھے۔ لوگوں کو مشورہ دیتے وقت ہمیشہ ان کی ہمدردی اور فائدہ مدّ نظر رکھتے تھے۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو براہ راست حضرت مصلح موعودؓ کے ماتحت اور آپ کی تربیت میں کام کرنے کا موقع ملا جو آپ کی کامیاب زندگی کا ضامن بنا۔آپ کی سیرت کے چند نمایاں پہلوؤں کا مختصر تذکرہ کررہا ہوں۔

امانت داری اور حساب بینی کی عادت ایسی تھی کہ رشک آتا تھا۔ اپنی حساب بینی کی وجہ سے آپ دوسروں کو بھی فائدہ دیا کرتے تھے۔پراپرٹی اور تعمیر ات کے شعبہ سے لمبا عرصہ وابستہ رہے ۔ اس میں آپ یہ بات ملحوظ رکھتے کہ اس شعبہ میں اپنے ارد گرد کے احباب اور عزیزان کو فائدہ پہنچ جائے ۔کم خرچ میںان کی ضرورت پوری ہوجائے۔ اس کے لئے آپ کی کوشش ہوتی کہ پلاٹ یا مکان اپنا ہو تا کہ وہ کرایہ اور محتاجی سے بچ سکیں۔یہ سچی ہمدردی آپ کو عزیزان کے ساتھ تھی اور آپ نے اس ہمدردی کے نتیجہ میں بہتوں کو فائدہ پہنچایا۔ آپ کی بیٹی ڈاکٹر طاہرہ نصیر بیان کرتی ہیں کہ حساب بینی اور امانت کا یہ عالم تھا کہ پائی پائی کا حساب رکھتے اور کاروبار میں کوئی منافع آتا تو وہ روپوں کے ساتھ چند آنے یا پیسے بھی کسی طرف بنتے تو وہ آنے بھی ادا کرتے تھے اور کہتے یہ حساب کی بات ہے، یہ صاف اور سیدھا ہونا چاہئے اور آپ کبھی ادھار نہیں رکھتے تھے بلکہ جو حساب ہوتا وہ بروقت ادا کر دیتے تھے۔

صلہ رحمی بہت کیا کرتے تھے۔ اس کا عملی اظہار ان کی سچی ہمدردی اور ان کی مختلف طریقوں سے معاونت کرنے سے کیا۔آپ کی بہن آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم بشارت احمد دارالیمن وسطی ربوہ کا کہنا تھا کہ آج میں جو کچھ ہوں وہ بھائی سلطان کی وجہ سے ہوں ۔قادیان میں آپ کے گھر پڑھنا لکھنا سیکھا تو میری زندگی سنور گئی اور پھر تاوفات بھائی جان میرے پُرسان حال رہے اور ہر مشکل میں میرے کام آئے۔
تحصیل علم کی لگن اور تڑپ ہمارے خاندان میں ہمارے دادا جان الحاج میاں پیر محمد صاحب آف مانگٹ اونچے کی غیر معمولی توجہ سے آئی ہے۔ آپ صاحب عرفان وجود تھے اور یہ معرفت اپنی اولاد اور اولاد در اولاد میں دیکھنا چاہتے تھے۔انہوں نے اپنے بچوں کوگاؤں اور پھرگاؤں سے باہر قادیان و ربوہ میں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔

چوہدری سلطان احمد طاہر ایک ذہین طالب علم تھے۔انتہائی چھوٹی عمر میں گاؤں سے باہر حافظ آباد پانچ چھ میل گاؤں سے دور روزانہ سکول جاتے۔ آپ کے والدین آپ کواور آپ کے بڑے بھائی الحاج مولوی محمد شریف واقف زندگی سابق اکاؤنٹنٹ جامعہ احمدیہ ربوہ کو اذان فجر سے پہلے تیار کر کے سکول کے لئے روانہ کردیتے تھے کیونکہ لمبا فاصلہ تھا۔ بسااوقات نیند کے جھونکے آرہے ہوتے اور سکول کے لئے پیدل سفر جاری رہتا۔آپ کا ریکارڈ تھا کہ آپ سکول سے کبھی غیر حاضر نہ ہوئے سوائے ایک غیر حاضری کے جب ایک دفعہ آپ دوسرے گاؤں شادی کی تقریب پر گئے تو موسم خراب ہوگیا اور آپ واپس اپنے گاؤں نہ پہنچ سکے۔ سکول کے ماسٹر نے اگلے دن بتایا کہ میں نے سکول سے چھٹی ہونے تک تمہاری غیر حاضری نہیں لگائی کہ شاید سلطان احمد آجائے کیونکہ وہ کبھی غیر حاضر نہ ہوا ہے ۔ جب چھٹی ہوگئی تب اپنا فرض نبھاتے ہوئے غیر حاضری لگائی۔اس سے آپ ان کی بچپن سے ہی حصول ِ علم کی لگن، باقاعدگی اور محنت پیہم کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

قادیان میں ملازمت کے دوران آپ نے ٹیوشن بھی پڑھائی اور پھر ملازمت کے ساتھ ساتھ منشی فاضل،ایف اے اور بی اے بھی پاس کیا۔ اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا اور بچوں کو کہا کہ جس قدر اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں کریں اخراجات کی وجہ سے رکاوٹ نہیں آئے گی بلکہ میں پوسٹ گریجوایشن کیلئے بھی آپ کو سپورٹ کرونگا۔ الحمدللہ کہ آپ کے سب بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ۔آپ نے اپنے خاندان کے کئی طلبہ اور دیگرمستحق طلباء کیلئے امداد کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور ہمیشہ بچوں کی تعلیم کیلئے سرگرم رہے اور لائق بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔

چوہدری سلطان احمد طاہر خاموشی کے ساتھ اپنے عزیزوں اور غریبوں کی امداد کیا کرتے تھے۔ آپ کی بیٹی محترمہ امتہ الحکیم بتاتی ہیں کہ جب ہم والد محترم کا جنازہ لے کر کراچی سے ربوہ گئے تو دو روز بعد ہمارے پھوپھا بشارت احمد آف دارالیمن وسطی میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ بھائی سلطان احمد طاہر ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کو میرے اکاؤنٹ میں رقم بھجوادیا کرتے تھے اور پھر میں فہرست کے مطابق اس رقم کو بیوائوں اور مستحقین میں تقسیم کر دیا کرتا تھا۔اب بھی میرے پاس کچھ رقم موجود ہے اس کے بارہ میں بتادیں کیا کرنا ہے تو میں نے کہا کہ یہ رقم بھی مستحقین کو ہی دیں۔ ہمیں علم نہیں تھا کہ اباجان اس خاموشی اور باقاعدگی کے ساتھ مستحقین کی مدد کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو مختلف تحریکات میں مالی قربانی کی توفیق ملی۔آپ دربار ِ خلافت سے اٹھنے والی ہر تحریک پر لبیک کہتے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے جب جماعت کے سامنے1973ء میں صد سالہ جوبلی منصوبہ پیش کیا اور اس کے لئے مالی قربانی کی تحریک فرمائی تو اس تحریک پر آپ نے والہانہ انداز میں لبیک کہتے ہوئے ایک لاکھ 11 ہزار ایک سو گیارہ کا وعدہ اپنے اور اپنی فیملی کی طرف سے پیش کر دیا۔اس زمانہ میں یہ بہت بڑی رقم تھی اس کا اندازا اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک گورنمنٹ آفیسر کی ابتدائی تنخواہ ان دنوں میں تین سوروپے کے قریب تھی۔آپ نے جب یہ وعدہ کردیا اور گھر میں بتایا تو بچوں نے کہا کہ اتنی بڑی رقم کا وعدہ کیا ہے یہ کہاں سے ادا کریں گے۔تو آپ نے کہا میںنے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے وعدہ کر دیا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرنے کے سامان بھی اپنی جناب سے پیدا کر دے گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ سامان پیدا کرتا چلا گیا اور آپ نے یہ رقم حسب ِ وعدہ اندر میعاد ادا کردی۔

مانگٹ اونچے میں اپنے آبائی گھر کو والدین کی وفات کے بعد اپنے بہن بھائیوں کوان کا حصہ دیکر مربی ہاؤس کی خاطراس میں ضروری تعمیر کروا کر جماعت کو ھبہ کر دیا۔ یوں آپ کا آبائی گھر اب آپ کی طرف سے ایک صدقہ جاریہ کے طور پر موجود ہے۔

آپ جماعت کی طرف سے ہونے والی مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ جماعتی عمارات میں جہاں مالی قربانی کرنے والوں کے نام کنندہ ہیں وہاں آپ کا نام بھی موجود ہے۔میں نے ایک بار تایا جان سلطان سے پوچھا کہ آپ کبھی جلسہ سالانہ برطانیہ کے لئے نہیں گئے تواس تناظر میں آپ نے بتایا میں لندن تو نہیں جا سکا تاہم حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جب ہجرت کر کے وہاں تشریف لے گئے تو آپ نے نئے مراکز کیلئے مالی تحریک فرمائی تھی تو میں نے اس تحریک میں ایک لاکھ روپیہ کی رقم ادا کردی تھی ۔1984-85ء کے زمانہ میں یہ ایک خطیر رقم تھی جس کی ادائیگی کی آپ کو توفیق ملی۔

آپ کی بیٹی امتہ الحکیم بتاتی ہیں کہ ایک دفعہ میں اپنے شوہر ظفراقبال سیفی کے ہمراہ آپ کے ہاں گئی تو ابا جان میرے میاں سے شیئرز کی خریدو فروخت کی باتیں کر تے ہوئے آپ نے کہا کہ یہ تو اللہ پر میرا ادھار ہوگیا ہے۔ میں نے کہا ابا جان اللہ پر کیا ادھار ہو گیا ؟تو آپ نے کہا کہ میں نے یہ شیئرزابھی بیچے نہیں ہیں لیکن ان میں سے میں نے اللہ کا حصہ دے دیا ہے۔ اب ان کا منافع تو مجھے ضرور ملے گا ۔تو ہوگیا نہ اللہ پر ادھار !!

وفات سے ایک دو سال قبل حالت صحت میں آپ نے جو خدمت کی توفیق پائی اس کا تذکرہ بھی ایمان افروز ہے۔ آپ کی بیٹی امۃ الحکیم بتاتی ہیں کہ جون جولائی کے ایام تھے ابا جان نے ربوہ جانے کے لئے رخت سفر باندھا ۔ میں نے کہا گرمی بہت شدید ہے موسم بہتر ہو جائے تو چلے جائیں لیکن آپ نے کہا کہ ضروری کام ہے اور جانا ہے لیکن اپنے کام کے بارہ میں ہمیں نہیں بتایا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ گزشتہ بار آپ جماعت کے ذریعہ ضلع حافظ آباد کی جماعت کوٹ شاہ عالم میں تعمیر مسجد کا وعدہ کر آئے تھے۔ چنانچہ آپ نے دو تین ماہ گرمیوں میں وہاں قیام کیا اور اپنی نگرانی میں اپنے خرچ پر اپنے والد محترم کی طرف سے مسجد کی تعمیر کروائی ۔ آپ درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھ جاتے، وہیں آرام کرتے اور جو روکھا سوکھا کھانا مل جاتا وہ کھالیتے ۔تکمیل مسجد کے بعد آپ سرگودہا اپنے قدیمی دوست مکرم ماسٹر محمد الدین انور کے ہاں گئے۔ وہاں آپ گر کربے ہوش ہوگئے معلوم ہوا کہ شوگر بہت ہائی ہو چکی تھی۔ واپس کراچی آئے اور مجھے کہا کہ اپنی فیملی ڈاکٹر آصفہ آف ڈیفنس سوسائٹی (بنت مکرم ڈاکٹر عبدالرحمن کا مٹی)کے ہاں لے چلیں۔ وہاں چیک اپ کروایا اورساتھ سفر کی اپنی رودادبھی سنائی تب ہمیں آپ کے ضروری کام کا پتا چلا اور جس مشقت اور جوش کے ساتھ یہ نیک کام کیا اس کا علم ہوا۔تب ڈاکٹر آصفہ نے کہا کہ سلطان طاہر نیک کام کی خاطر گئے تھے اس لئے بچ کر آگئے ہیں۔

اپنی صحت کی حالت میں آپ نے اپنی نگرانی میں آخری کام اللہ کے گھرکی تعمیر کا کیا تھا۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس نیکی کو قبول کیا ہو گا اور آپ کو اپنے ہاں عمدہ گھر جنت میں عطا کر دیاہوگا۔اللہ تعالیٰ آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور آپ کی اولاد کو آپ کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔


(محمد محمود طاہر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ