• 24 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب ’’اَلْھُدیٰ‘‘ میں بادشاہوں اور مختلف طبقوں کو مخاطب کر کے توجہ دلائی ہے …

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔

پھر علماء کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ان کی اکثریت اسلام کے لئے بیماری کا حکم رکھتی ہے نہ کہ علاج کا۔ یہ لوگوں کے مال طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے ہتھیاتے ہیں۔ کہتے ہیں پر کرتے نہیں‘‘۔ (جو حکم دیتے ہیں وہ خود نہیں کرتے) ’’نصیحت کرتے ہیں پر خودنصیحت نہیں پکڑتے‘‘۔ (خلاصہ ان کی باتوں کا یہ ہے) ’’ان کی زبانیں درشت، دل سخت اور اندھیروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان کی آراء کمزور، ذہن کند، ہمتیں پست اور عمل برے ہیں۔ تھوڑے سے علم پر مغرور ہوجاتے ہیں اور جو اِن سے اختلاف کرے اس پر زبان طعن دراز کرتے اور مختلف حیلوں سے کفر کے فتوے لگاتے ہیں اور دکھ دیتے ہیں اور اس کا مال لوٹ لیتے ہیں …‘‘۔

فرمایا ’’… بخل ان کی فطرت، حسد ان کا شیوہ، تحریفِ شریعت ان کا دین ہے…‘‘۔ (شریعت میں تحریف کرتے ہیں اور پھر نعوذ باللہ نام یہ کہ احمدیوں نے کیا ہے) ’’غضب کے وقت یہ بھیڑیئے ہیں۔ … ان کی ناراضگی یا خوشی صرف اپنے نفس امارہ کی خاطر ہوتی ہے اور ان کا ذکر اور تسبیح محض دکھاوے کیلئے ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو لوگوں کی گردنوں کا مالک سمجھتے ہیں‘‘۔ (کیسی حقیقت بیان کی ہے۔ اور آج کل تو پاکستان میں یہ بہت زیادہ اپنے آپ کولوگوں کی گردنوں کا مالک سمجھنے لگ گئے ہیں) ’’جس کو چاہیں فرشتہ قرارد ے دیں اور جسے چاہیں شیطان کا بھائی۔ ان میں حلم وبردباری کا نام ونشان نہیں بلکہ زبان درازی میں انہوں نے درندوں کو بھی مات دیدی ہے۔ وہ تمہارے پاس بھیڑوں کے لباس میں آتے ہیں حالانکہ وہ انواع واقسام کے بہتانوں سے حملہ کرنے والے خونخوار بھیڑئے ہیں۔ ان کے ہاتھ جھوٹے فتوے لکھتے ہیں اور ایک دو درہم ان کے ایمان کو تباہ کرنے کیلئے کافی ہیں۔ وہ لوگوں کو قبول حق سے روکتے ہیں اور شیطان کی طرح وسوسے ڈالتے ہیں۔ ان کا تکبر بہت بڑھ گیا ہے اور تدبر کم ہو گیا ہے۔ کوئی مفید بات کرنے کی قدرت نہیں رکھتے بلکہ شکوک وشبہات کو ہوا دیتے ہیں۔ جب خاموش ہوتے ہیں تو ان کی خاموشی فرائض کو ترک کرنے کیلئے ہوتی ہے اور جب کلام کرتے ہیں تو اس میں کوئی رعب اور تاثیر نہیں ہوتی۔ شریعت کے مشکل مسائل کے حل سے ان کو کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی طریقت کی باریکیوں کی کوئی خبر ہے۔ عیسی علیہ السلام کی موت کا عقیدہ بڑا واضح ہے لیکن انہیں اسلام کی فتح سے کوئی غرض نہیں ہے…‘‘۔ فرمایا ’’…خدا کی طرف سے ان کی قسمت میں صرف شور شرابا ہی ہے۔ قرآن کو پڑھتے ہیں لیکن صرف زبان سے۔ ان کے دلوں میں قرآن نے کبھی جھانکا ہی نہیں …‘‘۔

فرمایا ’’… ان میں کسل اور غفلت بہت بڑھ گیا ہے اور ذہانت وفراست کم ہو گئی ہے۔ مشکل اور پیچیدہ مسائل حل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ تو انہیں جذبات نفس کی و جہ سے مدہوش اور نفس کااسیرپائے گا…‘‘۔

فرمایا ’’… خدا ئے رحمن کے حقوق کو بھلائے بیٹھے ہیں۔ اس حال میں کیسے ان سے کسی نصرتِ دین کی توقع کی جا سکتی ہے؟ …‘‘

فرمایا ’’… تعصب نے انہیں درندہ صفت بنادیا ہے اور حق بات سننے سے روک دیا ہے۔ انکا دین حرص وہوا پرستی‘ کھانا پینا اور مال بٹورنا ہے۔ اسلام کی مصیبت زدہ حالت پر نہ غم کھاتے ہیں، نہ ہی روتے ہیں‘‘۔ (اگر روئیں گے بھی تو مگر مچھ کے آنسو ہیں) ’’اپنے بادشاہوں کو تودیکھ کران پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے جبکہ خدائے ذوالجلال والاکرام سے کوئی خوف نہیں۔ نہ ہی انہیں ضلالت اور فتنوں کے پھیلنے اور آفات کے نازل ہونے سے کوئی خوف محسوس ہوتاہے۔ … ان میں سے ایک فریق جہاد کے نام پر جاہل لوگوں کوتلواروں سے گردنیں مارنے پر ابھار رہا ہے۔ چنانچہ وہ ہر اجنبی اور راہ رَو کا خون کرتے پھرتے ہیں اور تقویٰ اختیار نہیں کرتے‘‘۔

تو یہ بعض حصے تھے اُن چند صفحات کے جومَیں نے پیش کئے۔ سو سال سے زائد عرصہ پہلے یہ باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی تھیں۔ مسلمانوں کی حالت کا جو نقشہ آپ نے کھینچا، آج بھی ہم اُسی طرح دیکھتے ہیں۔ آپ کے الفاظ اور آپ کا مشاہدہ جو ہے وہ آج بھی ان کے عمل کی گواہی دے رہا ہے کہ ایسے ہی عمل ہیں اور یہی آپ کے الفاظ کی صداقت پر گواہی ہے۔ ان کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے جس طرح آپ کو بتایا وہ آپ نے بیان فرمایا۔ حالات کا جوحل آپ نے پیش فرمایا ہے وہ بھی اسی کتاب میں ہے۔

اس کے بعد کچھ فرقوں کا ذکر فرما رہے ہیں۔ کچھ مختلف لوگوں کا بھی ذکر فرما رہے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ: ’’ان تمام فرقوں کو چھوڑ دو اور تلاش کرو کہ کہیں اللہ نے اپنی طرف سے کوئی علاج نہ نازل کیا ہو‘‘۔ (اللہ تعالیٰ نے کہیں اپنی طرف سے کوئی علاج تو نہیں نازل کیا) ’’یاد رکھو کہ ان فتنوں کا علاج آسمان میں ہے نہ کہ لوگوں کے ہاتھوں میں۔ قرآن کریم میں پرانے لوگوں کے قصے پڑھ کے دیکھ لوکہ ان کے بارہ میں خداتعالیٰ کی کیا سنت تھی۔ پھربعد میں آنے والوں کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کی سنت کیونکر تبدیل ہو سکتی ہے؟‘‘

فرمایا ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ وقت امام کے ظہور کا نہیں ہے؟ …جبکہ تم گمراہی اور جہالت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ پھر اسلام پر حملے ہورہے ہیں اور بلائیں جان ہی نہیں چھوڑرہیں اور اس طوفانِ ضلالت میں تمہارے درمیان کوئی خادمِ دین نظر نہیں آتا۔ حالت یہ ہے کہ لوگ خدا کی نصیحت اور قرآن کی ہدایت بھول چکے ہیں اور جو کچھ حدیثوں میں آیا ہے اسے بھی ردّ کر چکے ہیں۔ کئی گمراہ کن عقائد میں عیسائیوں کے ہم زبان بن چکے ہیں۔ انہیں اپنے کھانے پینے اور عیش وعشرت کی زندگی کے علاوہ کسی چیز کی فکر نہیں۔ کیا ان لوگوں سے دین کی اصلاح کی توقع کی جاسکتی ہے؟‘‘

فرمایا ’’کہتے ہیں کہ صرف عیسیٰؑ ہی مس ِشیطان سے پاک ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھول گیا ہے کہ إِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَان۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معصوم اور مسّ ِشیطان سے پاک نہ تھے؟ پس آج حیاتِ عیسیٰؑ کے عقیدہ سے بڑا گناہ کوئی نہیں ہے۔ اس عقیدہ کے ذریعہ تم عیسائیوں کی تائید کر رہے ہو‘‘۔

فرمایا: ’’تم خود زمانے کی حالت پر غور کرو۔ امت اتنے فرقوں میں بٹ گئی ہے کہ بجز خدائے رحمن کی عنایت کے ان کا اکٹھا ہونا محال ہے۔ کیونکہ ہر ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہا ہے او راب زبانی بحثوں سے بات جنگ وجدال اور قتال تک جاپہنچی ہے۔ ایسی حالت میں کیا تم سمجھتے ہو کہ اختلافات کے اتنے بڑے پہاڑ وں کو درمیان سے ہٹا کرتم آپس میں صلح کر کے یکجان ہوکراسلام کے مخالفین کے سامنے میدان میں آسکتے ہو؟ ہر گز نہیں‘‘۔

حالت تو یہ ہے کہ پاکستان میں ایک شہر میں ختمِ نبوت والوں کا جلسہ ہو رہا تھا اور تمام قسم کے شیعہ، سُنی، بریلوی، دیوبندی وغیرہ سب اکٹھے تھے۔ اور تھوڑے عرصے کے بعد جس دن جلسہ تھا اس سے دو دن پہلے اُن میں پھوٹ پڑ گئی۔ اور پھر تین مختلف جگہوں پر جلسوں کا انتظام ہوا۔ ایک جگہ پر جہاں ایک تنظیم نے جلسے کا انتظام کرنا تھا، وہاں سے پولیس نے اُن کو اٹھایا اور دوسری جگہ لے کے گئے۔ ختم نبوت ان کے نزدیک ایک ایسا ایشو ہے جس پر یہ احمدیوں کے خلاف ایک جان ہو چکے ہیں، اکٹھے ہو چکے ہیں، اس ایشو پر بھی اکٹھے ہو کر جلسہ نہیں کر سکے اور تین مختلف جلسے ایک ہی شہر میں ہو رہے تھے۔ تو یہ تو ان کا حال ہے۔

بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’تمہیں وہ کام کرنے کی طاقت ہی کیونکر حاصل ہوسکتی ہے جو دراصل خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ ان متفرق لوگوں کو صرف آسمانی صُور پھونک کر ہی زندہ فرمائے گا۔ اور حقیقی صُور اُن کے دل ہیں جن میں مسیح موعودؑ کے ذریعہ پھونکا جائے گا اور لوگ ایک کلمہ پر جمع ہو جائیں گے۔ یہی خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ جس امت کی اصلاح کا ارادہ کرتا ہے اسی میں سے ایک شخص کو مبعوث کر دیتاہے۔‘‘

فرمایا ’’لیکن یہ حل علماء اور تمام قوم کو منظور نہیں ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے موسوی سلسلہ کو محمدی سلسلہ کے مشابہ قرارد یا ہے۔ جس طرح یہودی موسیٰ علیہ السلام پر ایمان کے بعد گمراہ ہوگئے توایک عرصہ کے بعداللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اسی طرح امت محمدیہ میں اسی قدر عرصہ گزرنے کے بعد مسیح موعود کو مبعوث فرمایاہے۔ یہ تو خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا مقام ہے نہ کہ اُس کی اِس نعمت کے کفرکرنے کا۔ مسلمانوں کو تو چاہئے تھا کہ اس خبر کو ایک پیاسے کی طرح قبول کرتے اور اسے خداکی سب سے بڑی نعمت قرارد یتے لیکن وہ قرآن کو چھوڑ کر لوگوں کی باتوں کے پیچھے چل پڑے اور مسیح موعودؑ کا انکار کر بیٹھے جیسے یہودنے عیسیٰؑ کا انکار کر دیا تھا۔ یوں نافرمانی میں بھی دونوں امتیں مشابہ ہو گئیں۔‘‘

(ایضًا صفحہ 360-354)

اللہ کرے کہ مسلم اُمّہ کو اس حقیقت کی سمجھ آ جائے کہ آپؑ ہی وہ وجود ہیں جس نے اس زمانے میں مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے کے لئے آنا تھا اور آئے ہیں۔ مسلم ممالک کے جو حالات ہیں، دنیا میں مختلف ارضی و سماوی آفات ہیں، یہ مسلمانوں کو یہ باور کرانے والی ثابت ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں جس فرستادے کو بھیجنا تھا وہ آ چکا ہے اور اسے قبول کریں اور مخالفینِ اسلام کی اسلام کو بدنام کرنے کی جو مذموم کوششیں ہیں اُن کا مقابلہ کرنے کے لئے اس جری اللہ کا ساتھ دے کر اس جہاد میں حصہ لیں جہاں دوسرے مذاہب کو اسلام نے شکست دینی ہے۔ امریکہ میں بھی اور یورپ میں بھی وقتاً فوقتاً مختلف لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بیہودہ قسم کے الزامات لگاتے ہیں یا آپ کی ہتک اور توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں یا قرآنِ کریم کی ہتک کے مرتکب ہو رہے ہیں، اِن کے خلاف اگر آج کوئی جہاد کرنے والا ہے تو یہی اللہ تعالیٰ کا پہلوان ہے جس کے ساتھ شامل ہو کر، جس کے ساتھ جُڑ کر ہم دنیا میں اسلام کی برتری ثابت کر سکتے ہیں۔ جس کے ساتھ جُڑ کر ہم قرآنِ کریم کی تعلیم کی تمام مذہبی کتب پر برتری ثابت کر سکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ جُڑ کر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت کرتے ہوئے آپ کے بلند مقام کی شان دنیا پر ظاہر کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 15؍ اپریل 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اپریل 2021