• 31 جولائی, 2025

نوافل اور نفلی روزہ

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
راتوں کو اٹھ اٹھ کے عبادت کر۔ جس سے ہماری مراد یہ ہے کہ رات کا اکثر حصہ عبادت میں گزارا کر یعنی اس کا نصف یا نصف سے کچھ کم کردے۔ (سورۃ المزمل: 2-3)

ہمارے پیارے آقا سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2010ء میں دو نوافل اور 2011ء میں ہفتہ میں ایک نفلی روزہ رکھنے کی تحریک فرمائی تھی تاکہ ہر احمدی جماعت کی ترقی کے لئے دعائیں کرے اور خداتعالیٰ سے ہرقسم کے حاسدوں کے حسد کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے خداتعالیٰ کی پناہ میں آسکے۔ لیکن جماعت اس طرف اس طرح توجہ نہیں کر رہی جس طرح کرنی چاہئے۔ اسی لئے آج نفلی روزہ اور نفلی عبادت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ مذکورہ بالاآیات میں اللہ تعالیٰ نے رات کی عبادت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے نصف یا اس سے زائد رات کو عبادت میں گزارنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اور رات کی نیند وہی اپنے اوپر حرام کرے گا جو تکلیف کو محسوس کرے گا۔ دنیا دار بھی جب دنیا کی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی بھی دنیا کی خاطر رات کی نیند اڑ جاتی ہے لیکن وہ انسان بہت خوش قسمت ہے جو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے رات کو بے چین ہو کر انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے دعائیں کرے۔

نفلی عبادت کے بہت سے فوائد ہیں

ہمارے سیدومولیٰ آنحضرت صلی الله علیہ و اٰلہ وسلم فرماتے ہیں کہ الله تعالیٰ فرماتا ہےکہ میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں ادا کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ میں اس کےکان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے،۔اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے،۔اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے عطا کرتا ہوں۔ اگر وہ کسی چیز سے میری پناہ کا طالب ہوتا ہے تو میں اسے پناہ دیتاہوں۔

(صحیح بخاری کتاب الرقاق)

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:
انسان کو صرف پنجگانہ نماز اور روزوں وغیر ہ احکام کی ظاہری بجاآوری پر ہی ناز نہیں کرنا چاہیے کہ نماز پڑھنی تھی پڑھ لی، روزے رکھنے تھے رکھ لئے، زکوٰة دینی تھی دے دی وغیرہ ۔ نوافل ہمیشہ نیک اعمال کے مُتَمَّمْ و مكمل ہوتے ہیں اور یہی ترقیات کا موجب ہوتا ہے۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ343)

ایک اور جگہ فرمایا:
حدیث میں آیا ہے کہ مومن نوافل کے ساتھ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے۔ نوافل سے مراد یہ ہے کہ خدمت مقرر کردہ میں زیادتی کی جائے۔ ہر ایک خیر کے کام میں دنیا کا بندہ تھوڑا سا کر کے سست ہو جاتا ہے لیکن مومن زیادتی کرتا ہے۔ نوافل صرف نماز میں ہی مختص نہیں بلکہ ہر ایک حسنات میں زیادتی کرنا نوافل ادا کرنا ہے۔ مومن محض خداتعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ان نوافل کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ اس کے دل میں ایک درد ہے جو اسے بے چین کرتا ہے اور وہ دن بہ دن نوافل و حسنات میں ترقی کرتا جاتا ہے اور بالمقابل خداتعالیٰ بھی اس کے قریب ہوتا جاتا ہے حتی کہ مومن اپنی ذات کو فنا کر کے خداتعالیٰ کے سایہ تلے آجاتا ہے۔ اس کی آنکھ خداتعالیٰ کی آنکھ، اس کے کان خداتعالیٰ کے کان ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ وہ کسی معاملہ میں خداتعالیٰ کی مخالفت نہیں کرتا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہےکہ اس کی زبان خدا تعالیٰ کی زبان، اس کا ہاتھ خدا تعالیٰ کاہاتھ ہو جاتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسيح الثانیؓ فرماتے ہیں:
عبادتوں میں سے سب اہم عبادت نماز با جماعت ہے۔ اس کے بعد ذکر الہٰی ، نوافل پڑھنا، درود پڑھنا، تسبیح، تحمید اور تکبیر کرنا۔ یہ سب چیزیں عبادت میں شامل ہیں مگر میں دیکھتا ہوں ابھی تک ہماری جماعت میں اس طرف بہت ہی کم توجہ ہے۔

(خطبات محمود جلد26 صفحہ25)

پھر فرمایا:
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر کوئی شخص فرائض کو پوری طرح ادا کر دے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے انعامات کا مستحق ہو جاتا ہے مگر یہ امر بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ فرائض کی کامل ادائیگی نوافل کے بغیر ناممکن ہے۔ ایک شخص فرض نمازوں کے علاوہ وہ تہجد اور دوسرے نوافل بھی ادا کرتا رہتا ہے تو قیامت کے دن جب اس کے فرض اعمال میں کمی واقع ہوگی تواللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ اس بندے کا کچھ اور بھی حساب ہمارے ذمہ ہے لاؤ یہ کمی وہاں سے پوری کر دیں ……فرض روزوں میں کسی قسم کی کوتاہی رہ گئی ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہمارا یہ بندہ فرضی روزے ہی نہیں رکھتا رہا بلکہ نفلی روزے بھی رکھتا رہا ہے یہ کمی و ہاں سے پوری کر دو…… غرض اگر یہ نوافل کا شوقین ہو گا تو اس کا حساب بجائے کم ہونے کے کچھ بڑھ ہی جائے گا اور اس زیادتی کی وجہ سے نہ صرف وہ اپنے حساب کو پورا کر دے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زائد انعامات کا بھی مستحق ہو جائے گا۔ پھر ہم کو یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ رسول کریمﷺ فرماتے ہیں کہ بندہ نوافل کے ذریعہ ہی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے…… تو یہ حدیث بھی بتاتی ہے کہ نوافل انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب لے جانے والی چیزیں ہیں اور درحقیقت اعلیٰ روحانی کمالات انہی سے حاصل ہوتے ہیں۔

(خطبات محمود جلد20 صفحہ517)

نیز فرمایا:
نہ صرف تہجد پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہئے بلکہ مختلف اوقات میں نفلی روزے بھی رکھنے چاہئیں …… اگر انسان نفلی روزے رکھنے کا عادی ہوتو پہلے وہ فرض روزے رکھے گا اور فرض روزوں کی ادائیگی میں اگر کوئی کمی رہ جائے گی تو اسے نفلی روزے پورا کر دیں گے۔ پس ہمیں …… نفلی روزوں کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے …… اسی طرح نمازیں ہیں۔ نمازوں میں بھی نوافل کی طرف خاص طور پرتو توجہ رہنی چاہئے۔

(خطبات محمود جلد20 صفحہ521)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ہر احمدی کو جو حضرت مسیح موعودؑ کو مان کر اپنے آپ کو مومنین کی جماعت میں شامل سمجھتا ہے، ان دو اُمور کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہئے۔ پہلی چیز نماز کا اہتمام باقاعدگی سے ادائیگی ہے۔ حتی الوسع باجماعت نماز ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پھر ان نمازوں کو نوافل کے ساتھ سجایا بھی جائے۔

(خطبہ جمعہ فرمود 13۔اپریل 2007ء)

نیز فرمایا:
ہر احمدی کم از کم دونفل روزانہ صرف ان لوگوں کے لئے ادا کرے جواحمدیت کی وجہ سے کسی بھی قسم کی تکلیف میں مبتلا ہیں …… اسی طرح جماعتی ترقی کے لئے بھی خاص طور پر دعائیں کریں۔

(خطبہ جمعہ فرموده 3؍دسمبر 2010ء)

حضورانور ایده الله تعالىٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ایک نفلی روزہ ہر ہفتہ میں …… مناسب ہوگا کہ جماعتی طور پر ایک ہی دن روزہ رکھا جائے۔ ہر مقامی جماعت اپنے طور پر یہ فیصلہ کر سکتی ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ پھر مقامی جماعت میں بھی ایک فیصلہ ہو۔ پیر یا جمعرات کا دن رکھ لیا جائے ۔ یہی پاکستان کے احمدیوں کو میں نے کہا تھا۔ بہر حال جب میں نے تحریک کی تھی اس پر جماعت کو بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 14۔اکتوبر 2011ء)

نیز فرمایا:
عارضی روکیں آتی ہیں اور آ ئیں گی۔ دشمنوں اور حاسدوں کے وار ہوں گے لیکن اس سے کسی احمدی میں مایوسی نہیں آنی چاہئے۔ ان روکوں کو دیکھ کر …… مومن مز ید اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے اور جھکنا چاہئے۔ پس دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ اپنی نمازیں سنواریں۔ فرائض پورے کریں اور پھر نوافل کی طرف توجہ دیں۔ کیونکہ یہ دعائیں اور عبادتیں ہی ہیں جنہوں نے ہمارے مقاصد کے حصول میں ہماری مدد کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبانیں تر رکھیں اور زبانیں تر رکھنے سے ہی ہماری فتوحات کے دروازے کھلنے ہیں۔ ان شاء اللہ۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ8 فروری 2008ء)

آخری بات

ہمارے امام ہمام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہم پاکستانی احمدیوں کی مشکلات کے ازالہ اور دُوری کے لئے نہ صرف اہالیان پاکستان کو نوافل اور نفلی روزوں کی طرف توجہ دلا چکے ہیں بلکہ دنیا بھر کے احمدیوں سے ہماری مشکلات کی دُوری کے لئے تحریک کی ہے۔ اس لحاظ سے ہمارا اولین فرض ہےکہ ہم 2 نفل روزانہ اور ہفتہ میں ایک نفلی روزہ کو حرز جان بنا لیں۔

قریباً تمام مغربی افریقہ میں ہمارے احمدی افریقن بھائی ہفتہ میں 2نفلی روزے رکھتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ایک نفلی روزہ تو حضور انور کی تحریک کی تعمیل میں ہے جبکہ منگل کا نفلی روزہ پاکستانی احمدی بھائیوں کی مشکلات کی دوری کے لئے ہے۔ افریقن بھائیوں کے اس جذبۂ اخوت کو سامنے رکھ کر ہمیں خود بھی بڑھ چڑھ کر عبادات کی طرف توجہ دینی چاہئے اور نوافل بھی ادا کریں کیونکہ نوافل فرض عبادات کےلئے باڑ کا کام دیتے ہیں یعنی فرض عبادات کی حفاظت کرتے ہیں۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اپریل 2021