• 5 مئی, 2024

رمضان میں خداتعالیٰ کی رضا

رمضان آیا اور بڑی تیزی سے گزر گیا، صرف چند روز باقی رہ گئے ہیں، پانچ چھ دن۔ جب رمضان شروع ہو تو انسان سوچتا ہے، ایک مومن سوچتا ہے کہ یہ تیس دن ہیں، اس میں بڑی نیکیاں کرنے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا موقع مل جائے گا۔ مَیں یہ بھی کر لوں گا، مَیں وہ بھی کر لوں گا جس سے خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکوں۔ لیکن آج یہ احساس ہو رہا ہے کہ یہ کیا! صرف چند روز رہ گئے؟ اور رمضان کا آخری جمعہ بھی آ گیا۔ مَیں تو کچھ بھی نہیں کر سکا۔ سوچنے والا، صحیح مومن یہی سوچتا ہے۔ تو بہرحال اب یہ چند دن بھی یہ احساس دلا دیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنا ہے۔ جتنا سمیٹ سکتے ہیں سمیٹ لیں، خالص ہو کر اس کی عبادت کی طرف توجہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر چلنے کی کوشش کریں، اس سے مدد مانگیں تو یہ احساس اور یہ عمل ہر قسم کی نیکیاں بجا لانے کی طرف توجہ دلانے والا ہو گا اور اس کی عبادت کی طرف خالص ہو کر متوجہ کرنے والا ہو گا، اس کے فضلوں کا وارث بنانے والا ہو گا۔۔۔ تو اگر ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے خالص ہو کر ان چھ دنوں میں ہی خداتعالیٰ کے آگے جھکیں گے تو کیابعید کہ یہ چھ راتیں بلکہ ان میں سے ایک رات ہی ہمارے اندر انقلابی تبدیلی لانے والی ہو، خدا کا صحیح عبد بنانے والی بن جائے اور ہماری دنیا و آخرت سنور جائے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہم اپنے مقصد پیدائش کو پہچاننے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کا مقصد پیدائش تو یہی بتایا ہے کہ اس کے عبادت گزار بندے بن جائیں۔ یہی پیدائش کا مقصد ہے۔ پس اپنی عبادتوں کے معیار کو اونچا کرنے کے لئے یہ چند دن رہ گئے ہیں۔ اور ان چنددنوں کے بارے میں خداتعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ جو آخری عشرہ کے دن ہیں یہ اس برکتوں والے مہینے کی وجہ سے جہنم سے نجات دلانے کے دن ہیں۔ گناہ گار سے گناہگار شخص بھی اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے تو اپنے آپ کو آگ سے بچانے والا ہو گا۔ پس یہ گناہگار سے گناہگار شخص کے لئے بھی ایک خوشخبری ہے کہ اپنی زندگیوں کو پاک کرنے کے سامان کر لو۔ پس جن کو اس رمضان کے گزرے ہوئے دنوں میں دعاؤں کا موقع ملا ہے، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کا موقع ملا ہے، اس کی رضا کی راہوں پر چلنے کا موقع ملا ہے یا جن کو اپنی شامت اعمال کی وجہ سے گزرے ہوئے دنوں کی برکات سے فیضیاب ہونے کا موقع نہیں ملا۔ ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی خشیت دل میں پیدا کرتے ہوئے ان آخری دنوں کی برکات سے فیض اٹھاتے ہوئے، دعائیں کرتے ہوئے، خداتعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے ان بقیہ دنوں کے فیض سے فیضیاب ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور یہ دن جو ہیں ان کو دعاؤں میں گزارنا چاہئے۔

۔۔۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آخری عشرے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کے لئے اتنی کوشش فرماتے جو اس کے علاوہ کبھی دیکھنے میں نہ آتی تھی۔

(صحیح مسلم۔ کتاب الاعتکاف۔ باب الاجتہاد فی العشر الاواخر من شہر رمضان)

پس ہمارے سامنے یہ اُسوہ ہے۔ ان بقایا دنوں میں ہمیں چاہئے کہ خاص توجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں یہ دن گزاریں، دعاؤں میں لگ جائیں اور اپنی دنیا وآخرت سنوارنے والے بن جائیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور محاسبہ نفس کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے، اسے اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے اور جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے لیلۃ القدر کی رات قیام کیا اسے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

(بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر۔ باب فضل لیلۃ القدر)

گزشتہ گناہ بخشے جانے کا مطلب ہی یہی ہے کہ اس کو آئندہ سے گناہ سے نفرت پیدا ہو جائے گی اور نیکیاں کرنے کی طرف توجہ زیادہ پیدا ہو جائے گی اور اس کا ہر فعل خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بن جائے گا۔ پس ایک مومن جب اپنی غلطیوں پر نظر رکھتے ہوئے، اپنا محاسبہ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہو گا، اس کے آگے جھک رہا ہو گا، دعائیں کر رہاہو گا تو یہ دن یقینا اس میں انقلابی تبدیلی پیدا کرنے والا دن ہو گا۔ پس ہر احمدی کو چاہئے کہ ان دنوں کواپنی زندگیوں کو سنوارنے کا ذریعہ بنا لیں اور خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جائیں۔ ایک روایت میں ہے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص محض للہ دونوں عیدوں کی راتوں میں عبادت کرے گا اس کا دل ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا جائے گا اور اس کا دل اس وقت بھی نہیں مرے گا جب سب دنیا کے دل مر جائیں گے۔

(ابن ماجہ کتاب الصیام۔ باب فی من قام فی لیلتی العیدین)

پس دیکھیں، رمضان کی تبدیلیوں کو جو پاک تبدیلیاں دل میں پیدا ہوتی ہیں ان کو مستقل بنانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے خوبصورت انداز میں ترغیب دلائی ہے۔ عید کی خوشیوں میں اکثر لوگ بھول جاتے ہیں۔۔۔ کہ نماز بھی وقت پہ پڑھنی ہے کہ نہیں، تو رات کی عبادت کی طرف، نوافل کی طرف توجہ دلا کر یہ بتا دیا کہ فرائض تو تم نے پورے کرنے ہی ہیں لیکن اگرہمیشہ کی رضا اور خداتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو راتوں کو بھی ان دنوں میں عبادت سے سجاؤ۔ رمضان کے بعدبھی اور خاص طور پر ایسے موقعوں پر جب خوشی کے موقعے ہوتے ہیں۔ جب آدمی کو دوسری طرف توجہ زیادہ ہو رہی ہوتی ہے۔ صرف ڈھول ڈھمکوں اور دعوتوں میں ہی نہ وقت گزار دو۔ پس یہ عبادتیں جو ہیں یہ زندگی کا مستقل حصہ بننی چاہئیں۔ دعاؤں کے سلسلے میں چند اور احادیث ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں اور کس طرح ہم دعاؤں کے فیض حاصل کر سکتے ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جس کے لئے باب الدعا کھولا گیا گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ محبوب اس کے نزدیک یہ ہے کہ اس سے عافیت طلب کی جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان پر جو ابتلاء آچکے ہیں یا جن سے خطرہ درپیش ہو ان سے محفوظ رہنے کے لئے سب سے زیادہ مفیدبات دعا ہے۔ پس اے اللہ کے بندو تمہیں چاہئے کہ تم دعا میں لگے رہو۔

(سنن الترمذی۔ کتاب الدعوات۔ باب فی دعاء النبیﷺ)

(خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 2005)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ