آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر42
گزشتہ سبق سے ہم فعل Verb کے زمانہ حال Present سے متعلق بات کررہے ہیں۔ زمانہ حال کی سادہ حالتوں پر بات ہورہی ہے جس کا آغاز ہم نے ایک ایسے زمانہ سے کیا تھا جسے اردو میں مضارع کہا جاتا ہے اور انگریزی زبان میں اسے مستقبل کا زمانہ سمجھا جاتا ہے جبکہ اردو میں یہ زمانہ حال ہی ہوتا ہے۔ اس میں مشروط Conditional اور تمنائی Wish, desire جیسی صورت حال پر بات کی جاتی ہے۔ آج کے سبق میں ہم زمانہ حال کی ایک اور سادہ صورت پر بات کریں گے۔
امر
یہ دوسری سادہ صورت زمانہ حال کی ہے۔ امر کا مطلب ہے حکم یہ عموماً Generally حکم Order اور التجا Request کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے یہ کہنا کہ جاؤ، چلو، دور رہو، تشریف رکھیئے۔ اس طرح کے جملوں میں فاعل Subject پوشیدہ ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جس کو مخاطب کیا جارہا ہے وہ سامنے موجود ہوتا ہے۔ اگر فاعل خاص طور پہ ظاہر کیا جائے تو اس کا مقصد بات میں زور پیدا کرنا، ذمہّ داری لینا یا دھمکی دینا ہوسکتا ہے۔ جیسے میں کہہ رہا ہوں جاؤ، یا کہا جائے تم نے سنا نہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ دور رہو وغیرہ۔
علامت: امر یعنی حکم یا التجا کی علامت یہ ہوتی ہے کہ مصدر Infinitive کی آخری علامت نا، نے وغیرہ کو ختم کردیا جاتا ہے۔ جیسے کھانا سے کھا، پینا سے پی، لکھنا سے لکھ، آنے سے آوٴ وغیرہ۔
ادب و اخلاق: جب ادب یا اخلاقی طور پہ میعاری گفتگو کی جاتی ہے تو جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہیں جیسے کھا کہنے کی بجائے بے تکلفی سے کہا جائے گا کھاؤ اور انتہائی ادب کے لئے کہیں گے کھائیے یا کھائیں۔ اس کے لئے واحد کے بعد واؤ یا ی کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح مزید مثالوں پہ غور کریں۔ تُو کر۔ تم کرو۔ آپ کریں۔ آپ کیجیئے۔ واحد کا استعمال بے تکلفی، بچوں یا نوکروں سے کو مخاطب کرنے کے لئے اور اسی طرح نظم میں ہوتا ہے نیزخدا تعالیٰ کی بلند شان ِوحدانیت کے اظہار کے لئےبھی واحد کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔
امر یعنی حکم تین معنی دیتا ہے
- حکم جیسے جاؤ یا ابھی جاؤیا فوراً جاؤ وغیرہ
- التجا یا تمنا جیسے براہ کرم تشریف رکھیے، براہ مہربانی اندر آجائیں۔ کبھی ہمارے ہاں (یعنی ہمارے گھر) بھی آئیں۔
- دعا جیسے جیتے رہو۔ سکھی رہو، بڑی عمر ہو۔
امر میں جس کو حکم دیا جاتا ہے ضروری نہیں کہ وہ حاضر ہی ہو یعنی مخاطب غائب Third person بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے اسے کہو کہ وہاں جائے۔ یہ بالواسطہ Indirect طریق ہے۔ یہ حکم بلا واسطہ Direct بھی دیا جاسکتا ہے جیسے بہتر ہے کہ وہ ایسا کرے۔ اس کے لئے یہی مناسب ہے کہ اس وقت چلا جائے۔ بعض اوقات انسان خود اپنے آپ کے لئے بھی امر استعمال کرتا ہے جیسے میرا خیال ہے کہ مجھے آج چلے جانا چاہئے۔ من حیث الجماعت (ایک متحد گروہ ہونے کے باعث) ہمیں چاہئے کہ ہم قرآنی احکامات پر عمل کریں۔ کچھ سمجھ نہیں آتا میں وہاں جاؤں یا نہ جاؤں۔ ایسا کروں یا نہ کروں۔ اگر قواعد کی رو سے دیکھیں تو یہ طریق امر سے زیادہ مضارع ہے۔
مصدر بطور امر: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مصدر فعل کی بنیادی شکل ہے جس سے افعال، اسما، صفات وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔ انگریزی میں اسے Infinitive کہا جاتا ہے۔ جیسے He wants to write a letter یعنی وہ ایک خط لکھنا چاہتا ہے۔ یہاں لکھنا بطور اسم Noun استعمال ہوا ہے انگریزی زبان میں ورب کی پہلی حالت کے ساتھ Ing کا اضافہ کرنے سے بھی اسم اور اسم صفت بن جاتا ہے۔ جیسے I like driving میں Driving ایک اسم یا ناؤن ہے۔ اسی طرح اگر کہیں کہ
Hunger is a driving force in human life
تو یہاں Driving ایک Adjective ہے۔ اردو میں ایک لفظ کی اصل حالت مصدر کہلاتی ہے جیسے جانا، کھانا، لکھنا وغیرہ۔ جب مصدر سے فعل بنایا جاتا ہے تو اس کی آخری علامت نا کو ہٹا دیا جاتا ہے اور ماضی، حال یا مستقبل کے لحاظ سے کچھ الفاظ کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جیسے لکھنا سے لکھ اور لکھ سے ماضی لکھا اور حال لکھتا یا لکھ رہا اور مستقبل لکھے گا وغیرہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح مصدر بطور اسم یا ناؤن بھی استعمال ہوتا ہے جیسے مجھے لکھنا پسند ہے۔ اسے گانا پسند ہے۔ جانوروں کو ستاناایک بری عادت ہے۔ اسی طرح اگر مصدر کے آخر پہ بڑی ے کا اضافہ کردیں تو مصدر اسم صفت Adjective بن جاتا ہے۔ جیسے گانے والا کھلونا۔ نہانے والا ٹب۔ کپڑے سکھانے والی تار۔ وغیرہ۔تو بات یہ ہورہی تھی کہ مصدر بھی بطور امر کے استعمال ہوتا ہے اور اس کا مقصد بات میں زور پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جیسے ’جلدی آنا کہیں راستے میں نہ رک جانا‘۔ تعظیم یعنی احترام کے لئے غائب جمع Third person plural استعمال کرتے ہیں۔ جیسے آپ تشریف رکھیں، آپ وہاں نہ جائیں۔ بعض اقات مزید تکلف پیدا کرنے کے یا سرکاری احکامات کے لئے امر کے بعد ی اور ہمزہ بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے آ ایک امر ہے تو آئیے ہوجائے گا۔ آیئے، کھایئے، بیٹھیئے، لکھیئے وغیرہ اس کہ مثالیں ہیں۔
جب امر کے آخر پہ ی یا ےہو جیسے لے، دے، پی، وغیرہ تو وہاں ی اور ہمزہ سے پہلے ج کا اضافہ کردیتے ہیں۔ دے سے دیئے بولنے میں مشکل پیدا کرتا ہے کیونکہ ی دو بار آکر تلفظ میں مشکل پیدا کرتا ہے اسی طرح دو ہمزے بھی اکھٹے نہیں ہوسکتے تو اس مشکل کا حل یہ کیا گیا کہ انتہائی شائستگی پیدا کرنے کے لئے ج کا اضافہ کیا گیا اور لے سے لیجئے۔ پی سے پیجئے۔ کیا سے کیجئے۔ دے سے دیجئے بنا دیا جاتا ہے۔ ج کا اضافہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ جا آواز میں یا کے بہت نزدیک ہے۔ بعض اوقات شعری وزن کی خاطر یا خوبصورتی بڑھانے کے لئے دیجئے، کیجئے وغیرہ کا ہمزہ ختم کردیا جاتا ہے جیسے آتا ہو تو ہاتھ سے نہ دیجے، جاتا ہو تو اس کا غم نہ کیجے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ انداز جدید اردو میں کم استعمال ہوتا ہے۔ اس کے استعمال کا دارومدار علاقے اور تہذیب پر بھی ہے نیز یہ خالصتاً ادبی اندازِ گفتگو ہے۔نیز یہ طریق التماس و التجا میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ بعض علاقوں میں کیجئے، لیجئے وغیرہ کے ساتھ مزید ادب و احترام یا تہذیب ظاہر کرنے کے لئے گا کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جیسے آپ ہمارے گھر آیئے گا، جی کچھ فرمایئے گا، آپ کیا پسند کیجئے گا وغیرہ۔
بعض اوقات فعل کے آخری و سے پہلے ایک ی بڑہا دیتے ہیں۔ جیسے لکھو سے لکھیو، رہو سے رہیو اس قسم کا استعمال جدید شعرا ء میں سے جون ایلیا کی شاعری میں ملتا ہے جیسے
نظر پر بار ہو جاتے ہیں منظر
جہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو
امر میں بعض اوقات جو حکم دیا جاتا ہے اس میں آئندہ ہمیشہ یا تا دیر قائم رہنا پایا جاتا ہے جیسے خدا کا حکم ہے کہ چوری نہ کرو، قتل نہ کرو وغیرہ۔
امر میں بعض اوقات کام کا جاری رہنے پایا جاتا ہے جیسے جیتا رہ، کرتا رہ، جلتا رہ۔
امر میں تشدد اور سختی ظاہر کرنے کے لئے مصدر کے بعد ہوگا بڑھا دیتے ہیں جیسے تمھیں کرنا ہوگا۔ اب تو تمھیں جانا ہی ہوگا۔یہ اندازاً عام طور پہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کسی کو حکم ماننے سے انکار ہو۔ اسی مقصد کے لئے مصدر کے بعد پڑے گا کا اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔ جیسے لکھنا پڑے گا، جانا پڑے گا۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں
یہ بات مسلمانوں میں ہر شخص جانتا ہے اور غالباً کسی کو بھی اس سے بے خبری نہ ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد کو بھیجتا ہے جو دین کے اُس حصہ کو تازہ کرتا ہے جس پر کوئی آفت آئی ہوئی ہوتی ہے یہ سلسلہ مجددوں کے بھیجنے کا اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے موافق ہے جو اس نے اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ (الحجر: 10) میں فرمایا ہے پس اس وعدہ کے موافق اور رسول اللہ ﷺ کی اس پیشگوئی کے موافق جو کہ آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے وحی پاکر فرمائی تھی یہ ضروری ہوا کہ اس صدی کے سر پر جس میں سے انیس برس گذر گئے کوئی مجدد اصلاح دین اور تجدید ملّت کے لئے مبعوث ہوتا اس سے پہلے کہ کوئی خداتعالیٰ کا مامور اس کے الہام و وحی سے مطلع ہوکر اپنے آپ کو ظاہر کرتا مستعد اور سعید فطرتوں کے لئے ضروری تھا کہ وہ صدی کا سر آجانے پر نہایت اضطراب اور بے قراری کے ساتھ اس مرد آسمانی کی تلاش کرتے اور اس آواز کے سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہوجاتے جو انھیں یہ مژدہ سناتی کہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے وعدہ کے موافق آیا ہوں۔
(ملفوظات جلد2 صفحہ232 ایڈیشن 2016)
اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی
بے خبری: علم نہ ہونا
صدی: سو سال century
مجدد: تجدید کرنے والا، تازہ کرنا، ایک قدیم خیال، عقیدے یا نظریے کو ازسر نو زندہ کرنا، قائم کرنا۔
آفت: مصیبت
موافق: مطابق
اصلاح دین: Reformation of religion
تجدید ملّت: Reunion/restoration of nation
مستعد اور سعید فطرت: efficient and capable قابل اور اہل لوگ۔
صدی کا سر: صدی کا اختتام یا صدی کا آغازLast or starting decades of a century
ضطراب اور بے قراری: کسی مشکل کو دیکھ کر دل میں پیدا ہونے والی دکھ کی کیفیت۔
ہمہ تن گوش: پوری توجہ اور انہماک سے سننے والا، کمال متوجہ۔
مژدہ: خوشخبری
(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)