• 6 مئی, 2024

عبودیت کا اعتراف

’’ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں کسی کامل انسان کا نمونہ موجود نہیں اور نہ آئندہ قیامت تک ہو سکتا ہے۔ پھر دیکھو کہ اقتداری معجزات کے ملنے پر بھی حضورؐ کے شامل حال ہمیشہ عبودیت ہی رہی اور بار بار اِنَّمَآاَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ (الکہف:111) ہی فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ کلمہ ٔ توحید میں اپنی عبودیت کے اقرار کا ایک جزو لازم قرار دیا۔ جس کے بدوں مسلمان، مسلمان ہی نہیں ہو سکتا۔ سوچو اور پھر سوچو، پس جس حال میں ہادیٔ اکمل کی طرز زندگی ہم کو یہ سبق دے رہی ہے کہ اعلیٰ ترین مقام قرب پر بھی پہنچ کر عبودیت کے اعتراف کو ہاتھ سے نہیں دیا تو اور کسی کا تو ایسا خیال کرنا اور ایسی باتوں کا دل میں لانا ہی فضول اور عبث ہے۔‘‘

(ملفوظات جلداوّل صفحہ74۔ایڈیشن1988)

پھر فرماتےہیں:
’’جو شخص قبل ازوقت جلدی کرتا ہے۔ وہ نقصان ہی اٹھاتا ہے۔ اور نہ نرا نقصان بلکہ ایمان کو بھی صدمہ پہنچ جاتا ہے۔ بعض ایسی حالت میں دہریہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے گائوں میں ایک نجار تھا۔ اس کی عورت بیمار ہوئی اور آخر وہ مر گئی۔ اس نے کہا اگر خدا ہوتا تو میں نے اتنی دعائیں کیں تھیں وہ قبول ہو جاتیں اور میری عورت نہ مرتی۔ اس طرح پر وہ دہریہ ہو گیا۔ لیکن سعید اگر اپنے صدق اور اخلاص سے کام لے تو اس کا ایمان بڑھتا اور سب کچھ ہو بھی جاتا ہے۔ زمین کی دولتیں خدا تعالیٰ کے آگے کیا چیز ہیں۔ وہ ایک دم میں سب کچھ کرسکتا ہے۔ کیا دیکھا نہیں کہ اس نے اس قوم کو جس کو کوئی جانتا بھی نہ تھا بادشاہ بنا دیا۔ اور بڑی بڑی سلطنتوں کو ان کا تابع فرمان بنا دیا۔ اور غلاموں کو بادشاہ بنا دیا۔ انسان اگرتقویٰ اختیار کرے۔ خدا تعالیٰ کا ہو جاوے تو دنیا میں اعلیٰ درجہ کی زندگی ہو ۔مگر شرط یہی ہے کہ صادق اور جواں مرد ہو کر دکھائے۔ دل متزلزل نہ ہو اور اس میں کوئی آمیزش ریاکاری وشرک کی نہ ہو۔

ابراہیم علیہ السلام میں وہ کیا بات تھی جس نے اس کو ابو الملت اور ابو الحنفاء قرار دیا اور خدا تعالیٰ نے اس کو اس قدر عظیم الشان برکتیں دیں کہ شمار میں نہیں آسکتیں یہی صدق اور اخلاص تھا۔

دیکھو ابراہیم علیہ السلام نے ایک دعا کی تھی کہ اس کی اولاد میں سے عرب میں ایک نبی ہو۔ پھر کیا وہ اسی وقت قبول ہو گئی؟ ابراہیم ؑ کے بعد ایک عرصہ دراز تک کسی کو خیال بھی نہیں آیا کہ اس دعا کا کیا اثر ہوا۔ لیکن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی صورت میں وہ دعا پوری ہوئی اور پھر کس شان کے ساتھ پوری ہوئی۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ419۔420۔ ایڈیشن 1984ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مئی 2021