• 23 اپریل, 2024

اس وقت میں چند واقعات پیش کروں گا جو اُن لوگوں کے ہیں جو رؤیا کے ذریعے سے جماعت میں شامل ہوئے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ غلامِ صادق ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے دنیا میں بھیجا۔ آپؑ کا جو کچھ بھی ہے وہ آپ کا نہیں بلکہ آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ اور جو کچھ بھی آپ نے فیض پایا آپؐ کی غلامی سے پایا۔ آپؑ ایک جگہ ’’رسالہ الوصیت‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:
’’نبوتِ محمدیہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اُس میں فیض ہے۔ اس نبوّت کی پَیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے۔‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ311)

پس آپ نے یہ فیض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس پیروی کی وجہ سے اُس مقام تک پہنچایا جو نبوت کا مقام ہے۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ صرف کامل پیروی بھی کافی نہیں ہے یا کامل پیروی کی وجہ سے انسان نبی نہیں بن جاتا کیونکہ اس میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے۔ ہاں اُمّتی اور نبی دونوں لفظ جب جمع ہوتے ہیں، دونوں کا اجتماع جو ہے، اس پر وہ صادق آسکتی ہے، کیونکہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک نہیں بلکہ نبوت کی چمک اس فیضان سے زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ پس اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمتی ہونے کی وجہ سے اور آپ کی کامل پیروی اور عشق کی وجہ سے نبوت کا مقام اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا۔ یعنی نبوت کا مقام اُمّتی ہونے کی وجہ سے ملا اور اس عشق کی وجہ سے ملا۔ اُمتی ہونا ایک لازمی شرط ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی تائیدات سے نواز کر آپ کے حق میں نشان دکھا کر ایک دنیا کی توجہ آپ کی طرف پھیری اور یہ سلسلہ جو آپ کے دعویٰ سے شروع ہوا آج تک چل رہا ہے اور نیک طبع اس جاری فیض سے فیض پا رہے ہیں اور آپ کی بنائی ہوئی جماعت میں، آپ کی بنائی ہوئی کشتی میں سوار ہو رہے ہیں۔ لیکن یہاں بھی اپنے آقا کی پیروی میں جو فیض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حاصل ہوا، اُس سے وہی فائدہ اُٹھا رہا ہے جو آپ کے بعد اللہ تعالیٰ سے تائید یافتہ آپ کی خلافت سے منسلک ہے۔ آج بھی اللہ تعالیٰ نیک فطرتوں کو آپ کی صداقت کے بارے میں رہنمائی فرماتا ہے، فرما رہا ہے اور اس رہنمائی کی وجہ سے لوگ جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ اور اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ آپ کے بعد آپ کی خلافت بھی برحَق ہے، ان لوگوں کو رؤیائے صادقہ کے ذریعہ سے آپ کے ساتھ آپ کے خلفاء کو بھی دکھا دیتا ہے جس سے اُن کا ایمان اور تازہ ہوتا ہے۔

اس وقت میں چند واقعات پیش کروں گا جو اُن لوگوں کے ہیں جو رؤیا کے ذریعے سے جماعت میں شامل ہوئے، دنیا کے مختلف کونوں کے لوگ، دنیا کے مختلف ملکوں کے لوگ، مختلف رنگ کے لوگ، مختلف نسل کے لوگ۔

گیمبیا کے ایک صاحب ہیں، وہاں کے Wellingara گاؤں کے ہیں، Modou Nijie صاحب۔ اُن کا جماعت سے رابطہ 2003ء کے آخر پر ہمارے داعیانِ الی اللہ کے ذریعے سے ہوا۔ اُس وقت وہ تیجانیہ (Tijaniyya) فرقہ (یہ تیجانیہ فرقہ افریقہ میں بڑا عام ہے) سے گہری وابستگی رکھتے تھے۔ لیکن اُنہیں دین کا کوئی شعور نہیں تھا۔ بس جس طرح عام مسلمانوں میں طریق ہے مُلاّ کے غلام تھے، جو اُس نے کہہ دیا کر دیا، اسلام کا کچھ پتہ نہیں۔ نشے کے بھی عادی تھے۔ احمدیت قبول کرنے سے کچھ عرصہ پہلے وہ کہتے ہیں میں نے خواب دیکھی کہ ایک جنگل میں جھاڑیوں کی صفائی کر رہا ہوں اور خواب میں ہی شدید محنت و مشقت کے بعد بالآخر وہ جگہ صاف کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اب وہ ایک صاف ستھری سفید اور چمکدار جگہ میں تھے۔ پھر انہوں نے خواب میں خدا کے ایک بزرگ برگزیدہ شخص کو دیکھاجو اپنے صحابہ کے ساتھ تھے۔ دیکھا کہ یہ بزرگ اُنہیں اپنی طرف بلا رہے ہیں کہ اگر اپنی اصلاح مقصود ہے تو میری طرف آؤ۔ تو یہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ خواب، اس طرح کی، اس سے ملتی جلتی، تقریباً یہی مضمون احمدیت قبول کرنے سے قبل تین دفعہ دیکھی اور پھر انشراحِ صدر کے ساتھ احمدیت میں شامل ہو گئے۔ بیعت کرنے کے بعد اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی تصاویر دکھائی گئیں تو اِن تصاویر میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر دیکھتے ہی وہ بول اُٹھے کہ یہی وہ خدا کے برگزیدہ بزرگ ہیں جو مجھے خواب میں اپنی طرف بلا رہے تھے۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد اِن میں ایک انقلاب پیدا ہوا، ایک تبدیلی آئی۔ پنجوقتہ نماز باجماعت کے عادی ہو گئے، انہوں نے قرآنِ کریم پڑھنا سیکھا، دیگر تحریکات میں حصہ لینا شروع کیا اور پھر بڑی عمر کے ہونے کے باوجود قرآنِ کریم مکمل کرنے کے بعد بڑے شوق سے اپنی آمین بھی کروائی۔ اس کے بعد اپنے بچوں اور دیگر احمدی بچوں کو قرآنِ کریم پڑھانا شروع کیا۔ (اس بڑی عمر میں سیکھا بھی اور پھر آگے اس کو عام بھی کیا)۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ صاحب اب موصی ہیں، تہجد کی باقاعدگی سے ادائیگی کرنے والے ہیں۔ ان کے رشتہ داروں نے بھی اس تبدیلی کو محسوس کیا۔ ان کے عزیز کہتے ہیں کہ جب ہم اِن کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یقین نہیں آتا کہ یہ وہی شخص ہے جس میں یہ انقلاب برپا ہوا۔

پھر گیمبیا کے ہی ایک استا د ہیں استاد عیسیٰ جوف صاحب۔ امیر صاحب نے ان کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت چھوٹی عمر میں جب مَیں کیتھولک فرنچ سکول میں پڑھتا تھا اُس وقت میری عمر دس سال تھی جب میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک پرانے گھر میں جس میں روشنی بھی کافی مدھم ہے اُس میں سو رہا ہوں۔ جب میں نے چھت کی طرف دیکھا تو چھت نہیں تھی۔ آسمان پر مجھے ایک شخص نظر آیا جس نے سرخ رنگ کی چادر اور سنہری پگڑی زیبِ تن کی ہوئی تھی۔ وہ شخص مجسم نور تھا اور اُس کے ارد گرد روشنی کا ایک ہالہ تھا۔ وہ آسمان سے میری طرف آ رہا تھا۔ وہ شخص درود شریف پڑھ رہا تھا جیسے ہم احمدی پڑھتے ہیں، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے۔ کہتے ہیں جب میں سولہ سترہ سال کا ہوا اُس وقت میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جھاڑیوں سے گزرتا ہوا ایک متروک اور پرانے مکان تک آیا لیکن اس مرتبہ مکان کی مرمت اور تزئین و آرائش ہو چکی تھی۔ اُس کی دیواریں سفید اور دروازے اور کھڑکیاں سبزرنگ کی تھیں۔ مجھے خواب میں ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ اب یہ جگہ متروک نہیں رہی بلکہ اُسے عزت و حرمت دی گئی ہے۔ جب میں نے مالک مکان کے آنے سے قبل ہی مکان سے نکلنا چاہا اُس موقع پر ایک بزرگ شخص باہر آیا اور مجھے آواز دی۔ میں خوفزدہ ہو گیا اور انکار کر دیا۔ اس بزرگ نے دوبارہ آواز دی۔ مَیں نے کہا میں اس وقت نہیں آؤں گا جب تک مجھے نہیں بتاتے کہ تم کون ہو؟ اُس بزرگ نے جواب دیا میں آخری ایام میں آؤں گا سو میں آیا ہوں تم خوف نہ کرو۔ اس پر مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور میں اس بزرگ کے ساتھ ایک دفتر میں گیاجس میں کچھ لیبارٹری کی طرح کے آلات پڑے ہوئے تھے۔ اس بزرگ نے کہا یہ میری لیبارٹری ہے اور میں کیمیا دان ہوں۔ مجھے اس بزرگ سے محبت اور ہمدردی پیدا ہو گئی۔ میں نے اس بزرگ سے کہا کہ آپ مکان میں افسردہ تنہا زندگی گزار رہے ہوں گے۔ اُس بزرگ نے جواب دیا ہماری تحریک ہر جگہ تنہا لوگوں کے لئے کام کر رہی ہے۔ ہم ان تمام پیاروں اور تنہا لوگوں کی مجلس میں ہوتے ہیں۔ اس کے بعد میں اِن بزرگ سے الگ ہو گیا اور کہتے ہیں جب میری آنکھ کھلی ہے تو اُس بزرگ کی محبت سے میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اس بزرگ کی انسانیت کے لئے خدمات کے باوجود تنہا زندگی پر افسردہ تھا۔ دس سال بعد جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر دیکھی تو یہ بعینہٖ وہی بزرگ تھے جو مجھے دونوں خوابوں میں نظر آئے تھے۔ پہلی خواب میں آسمان سے نازل ہوئے اور دوسری خواب میں بزرگ کی صورت میں۔ اب دیکھیں بچوں کو بھی اللہ تعالیٰ کس طرح رہنمائی فرماتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 3؍ جون 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مئی 2021