• 3 مئی, 2024

’’یہ درد رہے گا بن کے دوا، تم صبر کرو وقت آنے دو‘‘

’’یہ درد رہے گا بن کے دوا، تم صبر کرو وقت آنے دو‘‘
سانحہ دارالذکر لاہور 28 مئی2010ء

جمعہ 28 مئی کو دارالذکر پر دہشت گردوں کے حملے کو کئی گھنٹے گزر چکے تھے لیکن شدید فائرنگ اور کبھی کبھار ہولناک دھماکوں کا سلسلہ ابھی بھی جاری تھا،لیکن انسانی آہ وبکا ہ بالکل نہیں تھی، جیسا کہ عموما ایسے حالات میں سنی جاتی ہیں۔ شدید ترین مسلسل فائرنگ، گولیوں کی ترتڑاہٹ اور بم دھماکے ہم سن رہے تھے۔ فضا میں ایک انتہائی غم ناک اور سوگوار سا سماں تھا جو پہلے کبھی دیکھا، نہ محسوس کیا تھا، اندرونی ہال بارے مناظر کے مختلف وسوسے ذہن میں آ رہے تھے، پیاروں کی شکلیں نگاہوں کے سامنے تھیں کہ نہ جانے کس حال میں ہونگے۔ میں جدید بلاک (شادی ہال) دارالذکر میں اپنے دفتر میں تھا، خاکسار کے ساتھ میرا بڑا بیٹا مطہر احمد طاہر کے علاوہ مکرم میر قمر سلیمان صاحب (وکیل وقف نو) اور مبشر مجید باجوہ صاحب مربی سلسلہ بھی موجود تھے۔ کئی گھنٹے پہلے جب ہم نماز جمعہ کی تیاری کر رہے تھے کہ حملہ ہوگیا تھا، اور شدید فائرنگ شروع ہوگئی تھی۔ خاکسار نے کہا کہ شادی ہال کی کوئی بارات لگتی ہے، لیکن میر صاحب نے فورا ًکہا نہیں، یہ فائرنگ، گولیاں چلنی کی آوازیں ہیں اور بعد میں اس کی تصدیق بھی ہو گئی تھی۔ بالکل ابتدائی لمحات میں میں وجہ جاننے کے لئے جب باہر نکل کر گلی کی نکڑ تک پہنچا تو دیکھا کہ دارالذکر گیٹ سیکورٹی پر مامور پولیس والے (ایک کے ہاتھ میں پستول پکڑا تھا) وہ سیکورٹی پوائنٹ چھوڑ کر ہماری طرف اندر گلی میں بھاگے آرہے تھے، میں وہیں سے واپس پلٹ گیاتھا اور دارالذکر اندر فون کیا تو حملہ ہونے کا پتہ چل گیا تھا۔ کچھ دیر بعد اپنے دفتر کے کمرہ کی لائٹس بند کرکے پردے کھڑکیوں کے آگے کردیئے تھے اور کمرہ میں موجود ٹیلی ویژن آن کر دیا تھا اور وہاں تمام چینلز پر حملے کی خبریں نشر ہونا شروع ہو چکی تھیں۔ اس سے پہلے محترم میرقمر سلیمان صاحب ربوہ اور دیگر مقامات پر ٹیلی فون پر اطلاعات دے چکے تھے اور دے رہے تھے جب کہ میں اپنے صحافی دوستوں کو اطلاع کر چکا تھا، لیکن چینلز پر خبروں کے چلتے ہی مجھے موبائل پر دوستوں کے ٹیلی فونز آنے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، سبھی میری خیریت جاننے کے علاوہ صورتحال کے بارے میں بھی پوچھ رہے تھے، انہی کالوں میں ایک ٹیلی فون کال آئی اے رحمان صاحب کی بھی تھی، بعد میں وہ مجھے ملاقاتوں میں گڑھی شاہوکا غازی کہہ کر بھی پکارا کرتے تھے ۔ کئی گھنٹوں بعد باہر گلی میں بھاری جوتوں اور انسانی آوازوں سے لگ رہا تھا کہ پولیس باہر آچکی ہے، کبھی کبھار میں پردہ کی اوٹ سے باہر دیکھتا تو سامنے کی چھت سے ایک پولیس والا فائرنگ کرتا دکھائی دیتا تھا، وہ فائرنگ کرکے نیچے کہیں چھپ جاتا اور پھر نکل کر فائرنگ کرتا۔ فائرنگ کے دوران بھی اس دوران محترم میر صاحب نے متعدد بار کمرہ سے باہر نکلنے کی کوشش کی لیکن ہم نے بمشکل انہیں روکا تھا لیکن اس بار جب فائرنگ کے وقفہ میں کچھ اضافہ ہوا تو پھر ان کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا اور وہ دروازہ کھول کر باہر صحن میں چلے گئے، میں نے پیچھے سے رکنے کی آواز دی تو آپ نے جواب دیا کہ جو باہر ہیں وہ بھی کسی کے بیٹے ہیں۔ پھرہم بھی ان کے پیچھے کمرہ سے باہر نکل کر صحن میں آئے اور چھوٹے دروازے سے باہر گلی میں پہنچ گئے جہاں کئی درجن کے لگ بھگ پولیس ایلیٹ فورس کے جوان اور افسر موجود تھے ۔ ہمارے گیٹ کے بالکل سامنے ہی دارالذکر مربی ہاؤس کی کھڑکی تھی جو باہر اسی گلی میں کھلتی تھی، ہم نے اس کھڑکی سے دیکھا کہ اندر احباب کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے دکھائی دیتے تھے، پسینے سے شرابور لگ رہے تھے اور سب کھڑکی سے باہر دیکھ رہے تھے، کچھ کے کپڑے اور چہرے خون آلودہ تھے، پتہ نہیں کب سے وہ باہر سے مدد کے منتظر تھے۔ ان میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل تھے، اسی وقت کھڑکی کو توڑا گیا اور احباب کو باہر نکالنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس موقع پر محترم میر صاحب نے منع کرنے کے باوجود خود کو پیش کر دیا اور کھڑکی کے نیچے کھڑی کار پر دونوں ہاتھ رکھ کر جھک گئے، اندر سے کھڑکی سے احباب باہر نکلتے وقت میر صاحب کی کمر کا سہارا لیکر باہر گلی میں کود جاتے، میں پاس کھڑا ان افراد کو سہارا دیتا، بچوں کو اٹھا لیتا، لیکن یہ سلسلہ چند افراد تک چلا کیونکہ احباب کی تعداد بہت زیادہ تھی، پھر وہ لٹک کر گاڑی کے سہارے باہر نکلتے رہے تھے، یوں ساٹھ سے ستر کے قریب دوستوں کو مربی ہاؤس سے کھڑکی کے ذریعے باہر نکالا اور شادی ہال میں ان کو پہنچایا، وہاں میں نے اپنے بیٹے مطہر کو کہا کہ دفتر سے جگ گلاس لاؤ، سب کو پانی پلاؤ اور یوں سب کو پانی پلایا گیا اور ان کی حالت آہستہ آہستہ کچھ نارمل ہونے لگی، پھر زیادہ تراحباب نے اپنے گھروں میں ٹیلی فون پر رابطے کر نے شروع کر دیئے تھے۔ دارالذکر کا جو عقبی گیٹ اس گلی میں کھلتا تھا اس پر بڑا اور مضبوط تالا لگا ہوا تھا، اس کو توڑے بغیر پولیس اندر نہیں جا سکتی تھی۔ بھاگ دوڑ کرکے ایک مضبوط ہتھوڑا منگوایا گیا تھا جس کو پولیس کے جوانوں نے توڑا اور پھر پولیس اور ہم اسی دروازہ سے دارالذکر کے اندر داخل ہوئے تھے۔ (اندر کی آنکھوں دیکھی روداد میں گزشتہ مضامین میں لکھ چکا ہوں)، سب سے پہلی نعش جو میں نےاندر داخل ہو کر دیکھی تھی وہ محترم خلیل سولنگی صاحب شہید کی تھی، جو صحن سے اوپر جاتی سیڑھیوں کے پاس موجود تھی، بالکل سیدھے لیٹے ہوئے تھے اور ان کا سینہ خون سے شرابور تھا (بعد میں تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ حملہ کے وقت سولنگی صاحب نیچے دفاتر میں موجود اور محفوظ تھے، لیکن فائرنگ کے وقفہ کے دوران باہر آجانے پر اچانک شدید فائرنگ سے شہید ہوگئے تھے، اسی طرح متعدد اور بھی شہادتیں ہوئیں تھیں) مینار کے اوپر سے دہشت گردنیچے کی طرف فائرنگ کرتا رہا اور پھر نیچے آکر اندر مین ہال اور باہر صحن میں فائرنگ کرتا رہا، گرنیڈ پھینکتا رہا تھا، مینار کی سیڑھیوں پر جا بجا خون دیکھا گیا تھا، منصوبہ یہی لگتاتھا کہ زیادہ سے زیادہ احمدیوں کو شہید کیا جائے، بالآخر بدبخت دہشت گرد نے خود کو مین ہال میں اڑا لیا تھا۔ ہال میں پڑی الگ کھوپڑی جس کو میں نے ٹھوکر ماری تھی، اس پر ہلکی ہلکی داڑھی تھی عمر بیس، پچیس کے درمیان کی لگتی تھی۔ ٹی وی چینلز پر حملہ آوروں کی تعداد 2 دکھائی گئی تھی لیکن حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ ان کی تعداد دو سے زیادہ تھی۔

اگلے دو دن تک تو پھر صبح سے رات گئے تک بے انتہا مصروفیات رہی تھی، تین دن تک مین ہال کی حالت جوں کی توں رہی تھی کہ حکومتی اداروں کے بندوں اور میڈیا کا آنا جانا رہا تھا، تیسرے دن خون، بارود کی بدبو سے صورتحال ناقابل برداشت اور انسانی صحت کے لئے خطرناک ہونے لگی تو پھر وہاں وقارعمل کرکے مکمل دھلائی صفائی کردی گئی تھی۔

اس دہشت گردی کی بازگشت دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکی تھی، ملکی اور انٹر نیشنل پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں سہ سرخیاں لگی تھی۔ سانحہ کے دن سے ہی سرکاری اعلیٰ حکام کی آمدو رفت شروع ہو گئی تھی، جو اگلے کئی دن تک جاری رہی۔ جب گورنر پنجاب سلمان تاثیربھی تشریف لائے تھے، ملاقات والا کمرہ صحافیوں اور کیمروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، جگہ کی کمی کی باعث کمرہ کے اندر زمین پر بیٹھ کر صحافیوں نے اپنا کام کیا تھا۔ صوبائی وزیر اقلیتی امور کامران مائیکل جب دارالذکر آئے تو ان سے ملاقات ہوئی، اس ملاقات کے دوران ایک موقع پر محترم صاحب زادہ مرزا غلام احمد صاحب نے بہت جلالی انداز میں کہا تھا کہ ہم خود کو اقلیت تسلیم نہیں کرتے، نہ کبھی کریں گے (مفہوم تقریباً یہی تھا)، اس پر وزیر موصوف مسکرائے تھے۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا والے خاکسار سے موبائل پر صورتحال کے بارے پوچھتے رہے جو خبر کے ساتھ شائع بھی ہوئے تھے ان میں نیویارک ٹائمزایشیا پیسفک اور فرانس کا انگریزی نیوز چینل، اخبار ’’France 24‘‘، لاہور کا ڈیلی ٹائمزقابل ذکر ہیں۔ دوسرے یا تیسرے دن کی بات ہے کہ ایک انسانی حقوق کی تنظیم کے اراکین نے ملاقات کے بعد دارالذکر کے باہر مشعلیں جلاکر اظہار یکجہتی کرنا تھا، لیکن اس کے لئے اجازت درکار تھی، خاکسار نے محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کو بتایا اور کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ آپ بھی شامل ہوں، اس پر آپ نے کہا، کیوں نہیں ، میں ضرور شامل ہونگا، پھر وہ خاکسار کے ساتھ باہر گیٹ پر گئے اور وہاں ان کے ساتھ جلی مشعلوں کے ساتھ کھڑے ہو ئے،اس موقع پر میڈیا والوں نے تصاویر بھی لیں اور کلپس بھی بنائے، روزنامہ ڈان لاہور نے آپ کی یہ تصویر بہت واضع کرکے شائع کی تھی۔ اگلے دس دن تک صبح سے شام تک محترم مرزا غلام احمد صاحب، لوگوں سے ملتے اور گفتگوکرتے رہے لیکن آپ کے چہرہ پر کبھی تھکاوٹ نہیں دیکھی تھی۔ ماہ جون کی چیدہ چیدہ باتیں جو روزانہ رات ڈائری میں نوٹ کی تھیں ان کو اسی ترتیب سے اختصار کے ساتھ قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے ۔ سانحہ کے اگلے دن29 مئی کوسب سے پہلے لاہور کی این جی اوز اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے بڑے وفد کی دارالذکر آمد ہوئی، انہوں نے پہلے اظہار افسوس کیا اور پھر انہوں نے اندرون ہال کا چکر لگایا، اس موقع پر لاہور ایم ٹی اے ٹیم نے کچھ تاثرات بھی ریکارڈ کرنے تھے اور انہوں نے کئے۔ شام کو بی بی سی اردو لاہور نے دو انٹرویوز ریکارڈ کئے۔ اسی شام لاہور پریس کلب میں لاہور کی معروف این جی اوز اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نیٹ ورک جیک جوائنٹس ایکشن کمیٹی نے پرہجوم پریس کانفرنس کی جس کی صدارت محترمہ حنا جیلانی نے کی، سیپ کے ڈائریکٹر تحسین اور عرفان مفتی صاحب سمیت درجنوں مرد و خواتین نے شرکت کی،اس میں حنا جیلانی نے اور دیگر سبھی نے پریس کانفرنس میں دہشت گردی کے اس واقعہ کی پرزور اور شدید مذمت کی۔ بعد ازاں کلب کے باہر پرامن احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ معروف ٹی وی اینکر مبشر لقمان نے دارالذکر کا دورہ کیا، دارالذکر کے کلپ ریکارڈ کئے اور رات گیارہ بجے ایکسپریس نیوز پر محترم صاحبزادہ مرزاغلام احمد صاحب کا لائیو انٹرویو لیا، ان کے ساتھ مجیب الرحمن شامی اور اطہر عباس تھے۔ دو جون رات آٹھ بجے کے قریب آئی جی پنجاب، ہوم سیکرٹری، ڈی پی او لاہور اور دیگر اعلیٰ حکام دارالذکر آئے اور ان کی محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی، واقعہ اور سیکورٹی کے معاملات پر گفتگو ہوئی۔ مکرم ملک طاہر احمد صاحب امیر لاہوربھی ملاقات میں موجود تھے۔ تین جون۔ صبح دس بجے پولیس کے اعلیٰ حکام دارالذکر پہنچے، پہلے ان کی مکرم شیخ ریاض محمود صاحب اور کرنل محمد نعیم صاحب کے ہمراہ میٹنگ ہوئی، بعد ازاں مکرم ملک طاہر احمد صاحب کے ہمراہ لاہور میں احمدیوں کی مساجد کی سیکورٹی کےبارےمیں بات چیت ہوئی۔

محترمہ عاصمہ جہانگیر کی آمد۔ ساڑھے گیارہ بجے محترمہ عاصمہ جہانگیر جماعت احمدیہ کے ساتھ اظہار یکجہتی اور واقعہ کے افسوس کرنے کے لئے دارالذکر تشریف لائیں۔ اس وقت خاکسار اپنے بیٹے مطہر احمد طاہر کو ایف ایس سی کے امتحانی سنٹر سے پک کرنے گیا ہوا تھا، جب مجھے دارالذکر سے ان کی آمد کی اطلاع اور دارالذکر پہنچنے کی ہدایت ملی۔ خاکسار پہنچا تو جدید گیسٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی۔ انہوں نے خاکسار کی کمر پر شفقت سے ہاتھ پھیر کر اظہار افسوس کیا۔ قریبا ًچالیس منٹ تک ملاقات جاری رہی، ملاقات میں مکرم مرزا عدیل احمد صاحب اور محترم نواب فاروق احمد صاحب بھی موجود تھے، بعد میں محترم امیر صاحب کی ہدایت پر ان کو باہر گیٹ پر الوداع کیا گیا۔

چار جون جمعتہ المبارک۔ حملہ دارالذکر کے بعد یہ پہلا جمعہ تھا۔ مرکز سے لاہور کی بڑی مساجد میں نماز جمعہ کی ادئیگی کے لئے مرکزی جید علمائے کرام لاہور تشریف لائے اور انہوں نے نماز جمعہ پڑھائیں اور احباب جماعت لاہور نے بڑی تعداد میں پہلے سے زیادہ اس جمعہ میں شرکت کی تھی۔ انتہائی رقت آمیز ماحول میں درد و غم سے بھری دعاؤں کے ساتھ نمازیں پڑھی گئیں۔ اسی شام بی بی سی اردو ریڈیو سروس نے دارالذکر میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد کچھ احباب جماعت کے انٹرویوز لئے جن میں محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کے علاوہ مکرم عمران ندیم صاحب (حال مقیم یوکے)، مکرم عبد المجید قریشی صاحب اور مکرم نصیر احمد صاحب شامل تھے انٹرویوز میں نماز جمعہ پڑھنے کے بارہ میں تاثرات شامل تھے، اسی طرح رات آٹھ بجے کے قریب مکرم میجر شاہد عطاء صاحب کےتوسط سے ایک انگریزی جریدہ کے لئے مکرم صاحب زادہ مرزا غلام احمد صاحب کا انٹرویو ریکارڈ ہوا۔

پانچ جون۔ اس روز ربوہ سے ماہنامہ انصاراللہ کے نمائندہ مکرم طاہر محمود صاحب اور روزنامہ الفضل کے نائب ایڈیٹر مکرم فخرالحق شمش صاحب لاہور پہنچے۔ انہوں نے شہدائے لاہور کے گھروں میں تعزیت کے لئے رابطے کرنے تھے، ان کی معاونت کے لئے مکرم عمران ندیم صاحب اور مکرم ایم ایم خان صاحب کی لاہور سے ڈیوٹی لگائی گئی ۔ رات نیوز چینل سماء کے رپورٹر ابرار الحسن نے کاشف صاحب اور شیخ بشارت احمد صاحب (حال مقیم کینڈا) کے توسط سے دارالذکر میں محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب سے ملاقات کی اور انٹرویو کے ٹپس تیار کئے ۔

چھ جون۔ روزنامہ الفضل اور ماہنامہ انصاراللہ ربوہ کا شہداء کی فیملی کے ساتھ تعزیت کا سلسلہ اتوار کو بھی جاری رہا، ان کی معاونت خاکسار کی ٹیم کے انہی ممبروں نے کی جو ہفتہ کو ان کے ساتھ تھے۔ اسی دن اتوار کومکرم میر قمر سلیمان صاحب وکیل وقف نو کی مع اہلیہ لاہور تشریف آوری ہوئی۔ آپ نے مکرم منیر اے شیخ صاحب شہید، امیر لاہور، مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب شہید اور مکرم جنرل ریٹائرڈ ناصر احمد صاحب شہید کے گھروں کا دورہ کیا اور اہل خانہ سے تعزیت کی۔ محترم امیر صاحب کی ہدایت کی روشنی میں خاکسار مع اپنی اہلیہ، مکرم این بلوچ صاحب اور احمد علی چوہدری (حال مقیم کینیڈا) ہمراہ تھے، شام چار بجے تک یہ کام جاری رہا۔

سات جون۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق میں جیک کی ہنگامی میٹنگ۔ سوموار سات جون کو ایچ آر سی پی کے دفتر میں جیک (جوائنٹ ایکشن کمیٹی برائے پیپلز رائٹس) کی ہنگامی میٹنگ، میٹنگ روم میں منعقد ہوئی، خاکسار بھی اس میں شامل تھا ۔ کمیشن کے سرکردہ افراد کے علاوہ لاہور کی معروف نیشنل، انٹرنیشنل این جی اوز کے سربراہان، نمائندے اور کارکن بھی شامل تھے۔ میٹنگ کا ایجنڈا لاہور میں احمدیوں کی مساجد پر حملے تھا۔ میٹنگ میں صورتحال پر تفصیل کے ساتھ گفتگو ہوئی تھی اور انتہا پسندی کے خلاف مختلف لائحہ عمل، تجاویز کو منظور کیا گیا۔ میٹنگ میں شامل ہونے والوں میں آئی اے رحمان صاحب، ڈاکٹر مہدی حسن صاحب، حسین نقی صاحب، محبوب خان صاحب ، اور جیک کے عہدیداران شامل تھے۔

آٹھ جون۔ پرو فیسر ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب کی آمد۔ رات آٹھ بجے کے قریب پاکستان کے معروف کالم نگار، دانشور، استاد ڈاکٹر پروفیسر اجمل نیازی صاحب سانحہ کی مذمت اور شہداء کی تعزیت کے لئے دارالذکر تشریف لائے۔

محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کے ساتھ ملاقات کی، مکرم امیر صاحب بھی موجود تھے، رات کا کھانا انہوں نے یہیں کھایا، اس موقع پر خاکسار کے علاوہ مکرم این بلوچ صاحب اور مکرم میجر سعدی صاحب بھی موجود تھے۔

اسی رات کو محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیا۔ ایم ٹی اے ربوہ کی ٹیم کے بھی کچھ ممبران اس موقع پر موجود تھے۔

10جون ۔ ۔ ۔ نو جون تو دارالذکر سے باہر مصروفیات میں گزرا، دس جون کی دوپہر کو بھی ایک انٹرویو ایم ٹی اے لندن کی ریکارڈنگ ماڈل ٹاؤن میں ہوئی تھی۔ مکرم نصیر شاہ صاحب چیئرمین اہم ٹی اے بھی موجود تھے، مکرم وجاہت مسعود صاحب، صحافی اعظم خلیل صاحب کے انٹرویوز لئے گئے تھے اور مکرم مجیب الرحمن صاحب ایڈوکیٹ نے یہ لئے تھے۔ اسی دن سہ پہر تین بجے چینل5 کی ٹیم نے دارالذکر میں مکرم مرزا غلام احمد صاحب اور مکرم مجیب الرحمٰن صاحب ایڈو کیٹ کے انٹرویو لئے۔ اس کے بعد وقفوں سے پھر گاہے بگاہے انٹرویوز کا سلسلہ جاری رہا۔ 13 جون کو ایچ آر سی پی کے دفتر میں ایم ٹی اے لندن کے چیئرمین کی نگرانی میں انٹرویوز ہوئے، جس میں مکرم آئی اے رحمان صاحب، مکرم مجیب الرحمٰن صاحب ایڈوکیٹ اور مکرم راجہ غالب احمد صاحب نے شرکت کی۔ 22 جون کو فرانس کے معروف انگریزی ٹی وی نیوز چینل24 فرانس نے گیارہ بجے انٹرویو ریکارڈ کئے۔ 23 جون کو اسلام آباد سے بی بی سی کی اردو، انگریزی زبان کی ٹیموں کی شام پانچ بجے دارالذکر میں آمد ہوئی اور انہوں نے پروگرام ریکارڈ کیا، معاونت کرنے والوں میں مکرم آفتاب احمد (جرمنی) اور مکرم این بلوچ صاحب شامل تھے ۔

(منور علی شاہد۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مئی 2021