• 5 مئی, 2024

جدا ہوا اِس شجر سے جو بھی نہ پائی چھاؤں کہیں بھی اُس نے

وہ لب کشا ہوں تو ہر سُو مہکے، سخن کو اُن کے گلاب جانا
پیام گہرے لیے ہوئے ہے، سکوت اُن کا خطاب جانا

وجود اُن کا سراپا ہر پل قیام و قعدہ رکوع و سجدہ
دعا کو اُن کی ہمیشہ ہم نے قبول اور مستجاب جانا

زباں مقدس قدم مبارک ہر عیب خامی سے ہیں منزّہ
اُنہیں خدائے قوی و برتر کے ہاتھوں لکھی کتاب جانا

ہماری صبحیں اُنہی سے روشن اُنہی سے لیل و نہار تاباں
سحر میں ناہید، دن میں خورشید، رات میں ماہتاب جانا

ملے نہیں تھے وہ اُن سے جب تک، تھے وہم دل میں سوال لب پر
ملے جب اُن سے بنا ہی پرسش تشفّی پائی جواب جانا

جدا ہوا اِس شجر سے جو بھی، شجر بھی وہ کہ گھنا ہے سایہ
نہ پائی چھاؤں کہیں بھی اُس نے، ہمیشہ زیرِ عتاب جانا

ہے ہم میں روحِ بلال و مُصعب، تمہارے عزمِ لہب کریں گے
ہمارے پائے ثبات لرزاں، یہ کیسے تم نے جناب جانا!

بتاؤں کیسے لکھوں میں کیونکر زباں ہے قاصر قلم بھی خستہ
وہ لمحہ اک اک بغیر اُن کے بسر کیا جو، عذاب جانا

(م م محمود)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مئی 2022

اگلا پڑھیں

تم ضرور امر بالمعروف کرو