• 19 مئی, 2024

اطاعت خلافت کی برکات

نظام خلافت وہ بابرکت آسمانی نظام ہے جس سے مومنین کی فلاح اور کامیابی وابستہ ہے۔ یہ وہ حبل اللہ ہے جس کو مضبوطی سے تھامنا اور اس کی اطاعت کرنا بھی کامیابی کی کلید ہے۔

خلافت کے لغوی معنی نیابت اور جانشینی کے ہیں جو تجدید دین کرے۔ نبیوں کے زمانہ کے بعد جو تاریکی پھیل جاتی ہے اس کو دور کرنے کے لئے جو ان کی جگہ آتے ہیں انہیں خلیفہ کہا جاتا ہے۔

وعدہ خلافت

قرآن کریم میں سورۃ النور آیت 56 میں اللہ تعالیٰ نے مومنین سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ امت محمدیہ میں اعمال صالحہ بجالانے والوں میں خلافت قائم فرمائے گا۔

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ

(النور: 56)

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔

اسی طرح سورۃ یونس آیت 15 میں ہے:

ثُمَّ جَعَلۡنٰکُمۡ خَلٰٓئِفَ فِی الۡاَرۡضِ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لِنَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ

(یونس: 15)

پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں جانشین بنادیا تا کہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔

بس ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ خلافت کا نظام قائم فرما کر مومنوں کی دینی، تعلیمی، اخلاقی اور روحانی تربیت کا انتظام فرما دیتا ہے۔ خلیفہ وقت کے ذریعہ سے جماعت کی تنظیم کرتا ہے۔ انتشار سے بچاتا اور ایک لڑی میں پرو دیتا ہے۔ الغرض مومنین کو محبت و اخلاص کا وہ درس عظیم ملتا ہے جو خلافت سے وابستگی و اطاعت کے بغیر ناممکن ہے۔ اسی میں کامیابی و کامرانی ہے اور نسلوں کی حفاظت کی ضمانت ہے۔ اور یہ راز اطاعت خلافت میں ہی مضمر ہے ورنہ تاریکی اور گمراہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نور کی شمع کے گرد پروانے کی صورت میں ایک دائرہ میں جمع رکھے اور خلافت کا یہ دائرہ وسیع تر ہوتا جائے۔

خلفاء کی پیروی کا ارشاد نبوی

اطاعت خلافت کے ضمن میں ہم انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا

اِنْ رَأَیْتَ یَوْمَئِذٍ خَلِیْفَۃَ اللّٰہِ فِی الْاَرْضِ فَالْزِمْہُ وَاِنْ نُھِکَ جِسْمُکَ وَأُخِذَ مَالُکَ

ترجمہ: اگر تو اللہ کے خلیفہ کو زمین میں دیکھے گے تو اسے مضبوطی سے پکڑ لینا اگرچہ تیرا جسم نوچ دیا جائے اور تیرا مال چھین لیا جاوے

(مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر 22916)

اسی طرح جامع ترمذی کی ایک حدیث ہے

عَليْكُمْ بِسُنَّتیِ وَسُنَّةِالْخُلَفآءِ الرَّاشِدينَ الْمُھْتَدِیْن

(جامع ترمذی کتاب العلم)

ترجمہ: اے مسلمانو! تم پر میری اور میرے خلفاء کی پیروی لازم ہے جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت دی جائے گی اور جس کی روشنی میں وہ مومنوں کی راہنمائی کریں گے۔

ان دونوں احادیث سے ہمیں خلافت کی اطاعت کا تاکیدی حکم ملتا ہے۔

اطاعت خلافت پر ارشادات

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کامل اطاعت کا نہایت عمدہ بےمثال نمونہ تھے۔ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت میں دل و جان سے لبیک کہا، جن کے بارہ میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ ہیں کہ ’’نور دین تو میری اس طرح اطاعت کرتا ہے جس طرح نبض دل کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام خلیفہ کی اطاعت اور اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں جس سے خلافت کی اطاعت اور برکات کا اندازہ ہوتا ہے ’’خلیفہ در حقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے چونکہ کسی انسان کے لیے دائمی بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اعلیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کے لئے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا ہے تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔‘‘

(شہادت القرآن7، روحانی خزائن جلد6 صفحہ353)

الغرض خلافت کی اطاعت ہی دنیا میں سب سے بڑا اور قیمتی خزانہ ہے اور اس سے چمٹ جانا ہی زندگی اور بقا کی ضمانت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں کو اپنے درخت وجود کی سرسبز شاخیں قرار دے کر دراصل ہمیں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ دیکھو! میرے ساتھ اور میرے بعد میرے خلفاء کے ساتھ اگر تم نے پختہ تعلق رکھا اور اطاعت کا حق ادا کیا تو تب ہی تم سر سبز شاخیں کہلا سکو گے یعنی سرسبز و شاداب رہ سکو گے وگرنہ جو تعلق منقطع کرے گا وہ درخت کے زرد پتوں کی طرح انجام دیکھ لے اور عبرت پکڑے۔

خلفاء بھی ہر دور میں اطاعت خلافت کا درس دیتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک پر شوکت ارشاد دیکھتے ہیں۔ فرمایا ’’میں یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حبل اللہ کے ساتھ ہو…چاہیے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسی میت غسال کے ہاتھ میں ہوتی ہے تمہارے تمام ارادے اور خواہشات مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں۔ تیرہ سو سال بعد یہ زمانہ ہمیں ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا بس اس نعمت کا شکر ادا کرو۔ کیوں کہ شکر کرنے پر ازدیاد نعمت ہوتا ہے۔‘‘

(خطبات نور صفحہ131)

چنانچہ انعام خلافت پر ہم جتنا بھی شکر کریں کم ہے۔ ہمارے وجود کا ذرہ ذرہ بھی اگر سراپا شکر بن جائے تو ہم یہ حق ادا نہیں کر سکتے۔ پس ہمیں چاہیے کہ ہم اس نعمت کی قدر کریں اور اطاعت کے میدان میں بڑھتے چلے جائیں۔

آیت استخلاف میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے جو وعدہ فرمایا کہ وہ ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا وہ بھی اعمال صالحہ بجالانے والوں کے لئے یعنی اطاعت گزاروں اور نیک بندوں کے لیے۔ یہ وعدہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء راشدین اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد ان کے خلفاء میں دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ خوف اجتماعی اور انفرادی رنگ میں دور ہوتا چلا آیا ہے اور قیامت تک ان شاء اللہ پورا ہوگا۔

جماعت میں لاکھوں افراد ہیں جن کا خوف خدا کے فضل سے سے خلیفہ وقت کی دعا سے دور ہوتا ہے۔ ناممکن حالات ممکنات میں بدل جاتے ہیں۔ اس ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان انتہائی توکل اور یقین پر مبنی ہے:

؎ غیر ممکن کو ممکن میں بدل دیتی ہے
اے میرے فلسفیو زور دعا دیکھو تو

یہ سب کچھ محبت الہٰی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر خلیفہ سے محبت و اطاعت کی بدولت ہے۔ خلافت ثانیہ کے دور میں جب احراری گروپ کی سازشوں نے زور پکڑا اور جماعت پر خطرناک ابتلاء اور خوف کے مقامات آئے، جب انہوں نے قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کیا تو حضور یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برحق اعلان فرمایا ’’میں احرار کے پاؤں تلے سے زمین نکلتی دیکھ رہا ہوں‘‘ ساتھ ہی الہٰی منشا کے ذریعہ سے تحریک جدید کا اعلان فرمایا کہ قادیان کی آواز اب زمین کے کناروں تک پہنچے گی۔

الغرض اطاعت اور لبیک کے نتیجہ میں چشم فلک نے دیکھا کہ نہ صرف احرار ناکام ہوئے بلکہ اپنوں اور غیروں میں بھی ذلیل ہوئے اور جماعت کا خوف امن میں تبدیل ہوگیا۔

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور میں 1974ء کے واقعات سے کون واقف نہیں۔ خلیفہ وقت کے ہاتھ پر لبیک کہتے ہوئے جاں نثاروں نے جانیں قربان کردیں لیکن جماعت کے مخالفین نے شجاعت، بہادری اور اطاعت کا عملی نمونہ دیکھا۔ گالیاں سن کر، تکالیف اٹھا کر بھی اپنے حوصلے بلند رکھے اور دشمن کو جواب نہ دیا۔ اطاعت کرتے ہوئے صبر کا بہترین مظاہرہ کیا اورجماعت دور دور تک پھیلتی چلی گئی۔ حتی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے زمانے میں افریقن ممالک میں احمدیت خوب زور شور سے پھیلی اور کافی حد تک ترقی نصیب ہوئی۔

پھر خلافت رابعہ کا دور آیا تو ہم نے ترقی کا ایک نیا چکر دیکھا۔ پاکستان کے حالات اس قدر مخالفت میں چلے گئے کہ حضور کو ملک سے ہجرت کرنا پڑی اور عاشقین خلیفہ نے لندن سے آنے پر خطبات کو اس قدر شوق اور لگن سے عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ نماز سینٹروں، مسجدوں یا گھروں میں اکٹھے ہو کر اپنی پیاس بجھانے میں مصروف عمل رہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ وہ قابل دید منظر آج بھی نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ نہ سردی دیکھتے نہ گرمی حضور کے پیغام کو سننے کی لیے بے چین روحیں سڑکوں پر لمبی لمبی قطاروں میں کھڑی رہیں کیوں کہ جب ایم ٹی اے کا آغاز ہوا تو حضور کے دیدار کرنے کی طلب عاشقین خلیفہ میں بھرپور نظر آتی تھی۔ الغرض آپ کے دور میں افریقہ، یورپ، ایشیا اور دنیا کے کونے کونے میں ایم ٹی اے کے ذریعہ جماعت کی آواز پھیلی اور خلافت سے وابستگی کے نظارے دیکھنے کو ملے اور خلافت دن بدن ترقی کرتی چلی گئی۔ اس کے بعد ہم موجودہ حضور کا زمانہ دیکھتے ہیں جن کے ساتھ ہم خلافت کی نئی صدی میں داخل ہوئے ہیں۔ احمدیت کی ترقی اور فتوحات کے اس دور کے بارہ میں حضور خود فرماتے ہیں ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کے اللہ تعالی کی تائیدات کے ایسے باب کھلے ہیں اور کھل رہے ہیں کہ ہر آنے والا دن جماعت کی فتوحات کے دن قریب دکھا رہا ہے… ان شاء اللہ کوئی نہیں جو اس دور میں احمدیت کی ترقی کو روک سکے اور نہ ہی آئندہ کبھی رکنے والی ہے خلفاء کا سلسلہ چلتا رہے گا اور احمدیت کا قدم آگے آگے بڑھتا رہے گا ان شاء اللہ۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 25 جولائی تا 7 اگست 2008 صفحہ12)

ایک اور جگہ فرمایا ’’افراد جماعت خلیفہ سے بہت محبت رکھتے ہیں اور خلیفہ ان سے محبت رکھتا ہے اور وہ سب خدا سے محبت رکھتے ہیں۔ ان شاء اللہ یہ باہمی محبت ہمیشہ رہے گی۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 11 تا 17 جولائی 2008ء صفحہ10)

خلیفہ سے اطاعت و محبت

خلافت سے وابستگی اور اطاعت تبھی ممکن ہے کہ ہم خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہیں، ہر حکم کی بروقت تعمیل کریں، اس کے قدم پر قدم رکھ کر منازل طے کی جائیں۔ اطاعت کا پہلا زینہ یہ ہے کہ خلیفہ کی آواز کو سنیں۔ ہر وقت جستجو میں رہیں کہ ان کے لبوں اور زبان سے کیا نکلتا ہے اور بروقت عمل کے لیے تیار رہیں قرآنی الفاظ سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَا کے الفاظ ہر وقت ذہن میں رکھیں اور اطاعت میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔ تحریکات پر عمل کریں، مالی ہوں یا جسمانی یا روحانی ہوں ہر عمل پر بھرپور کوشش کو حرز جان بنا لیں۔ تبھی کامیابی ہمارے قدم چومے گی اور جماعت کو ترقیات نصیب ہوں گی۔

اس سلسلے میں خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا ایک اور ارشاد ملاحظہ ہو۔ فرمایا ’’یاد رکھیں اگر یہ دعوی کیا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ سے محبت ہے تو پھر نظام جماعت جو نظام خلافت کا حصہ ہے اس کی بھی پوری اطاعت کریں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 15 جولائی 2005ء)

معیار اطاعت

اطاعت کا اصل معیار یہ ہے کہ اپنی مرضی اور خواہشات کو خلیفہ کی مرضی اور خواہشات کے مطابق ڈھالا جائے۔ اپنی تدبیروں کو ان کے تابع کرنے سے ہی کامیابی میسر آتی ہے۔ اس سلسلہ میں ہم حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمتہ اللہ کا ایک ارشاد دیکھتے ہیں: ’’یاد رکھو… ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے۔‘‘

(الفضل 15 دسمبر 1994ء بحوالہ نظام خلافت کی برکات صفحہ45)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کا ایک ارشاد ہے۔ آپ نے فرمایا ’’بیعت وہ ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے۔‘‘

(ماہنامہ الفرقان، ربوہ، خلافت نمبر، مئی/ جون 1967ء، صفحہ28)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’خلیفہ استاد ہے اور جماعت کا ہر فرد شاگرد جو لفظ بھی خلیفہ کے منہ سے نکلے وہ عمل کے بغیر نہیں چھوڑنا۔‘‘

(روزنامہ الفضل قادیان 2 مارچ 1946)

پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس پہلو کو کس انداز سے پیش کیا۔ فرمایا ’’ہر ایک کے لیے اپنا اطاعت کا معیار ماپنے کا یہ معیار ہے کہ کیا دل میں نور پیدا ہو رہا ہے؟ اطاعت سے روح میں لذت، روشنی آرہی ہے؟ اگر ہر ایک خود اس بات پر غور کرے تو وہ خود ہی اپنے معیار اطاعت کو پرکھ لے گا کہ کتنی ہے۔ کس قدر وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کر رہا ہے؟

(خطبہ جمعہ 5 دسمبر 2014ء)

(الفضل انٹرنیشنل 12 جون تا 18 جون 2015ء صفحہ11)

افضال

بیعت کے نتیجہ میں اور خلافت کی اطاعت کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے افضال و برکات کا نقشہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ملاحظہ ہو:

عادت و اخلاق دلکش ہو گئے
جامع حسن و فضائل ہوگئے
نُور عرفاں ہو گیا مجھ کو نصیب
کور دل تھا صاحب دل ہو گیا
طاعت و اخلاص و استغفار سے
قلب مظلم شمع محفل ہو گیا
لَذّتِ طاعات میں رہتا ہوں محو
یار بِن اِک لحظہ مشکل ہوگیا
اب دُعائیں بھی لگیں ہونے قبول
فضلِ رَبیّ جب سے شامل ہو گیا
حُبِّ قرآن عشق ختم المرسلیںؐ
ہر رگ و ریشے میں داخل ہوگیا
دوستو! کیا کیا بتاؤں نعمتیں
اب تو گننا اُن کا مشکل ہوگیا
ہے ترقی ہر گھڑی انعام میں
خُلدِ دُنیا میں ہی حاصل ہوگیا

(بخار دل صفحہ49-51)

احمدیت کے درخشاں سپوتوں کی اطاعت خلافت

آئیے! دیکھیں کہ ہمارے اسلاف نے اطاعت و فدائیت کے کیسے کیسے نمونے قائم کیے اور برکات حاصل کیں۔ اور صحابہ کرام کی طرح رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡہُ یعنی خدا ان سے راضی ہوا اور وہ اپنے مولا سے خوش) کی راہوں پر چلے۔ اس سلسلہ میں مرزا افضل صاحب مربی سلسلہ کینیڈا نے اپنے درس القرآن مورخہ 28 مارچ 2020ء کے دوران اطاعت و فرمانبرداری کے مضمون کو بیان کرتے ہوئے دو خلفاء کی اطاعت کی بڑی پیاری مثالیں پیش کیں۔ فرمایا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا دور خلافت تھا۔ بنگلہ دیش کے حالات بہت خراب تھے۔ انہوں نے حضرت مرزا طاہر احمد ؒکو وہاں جانے کا حکم دیا۔ اس وقت آپ نے خلیفہ وقت کی اطاعت میں فوراً تعمیل کی اور ایئرپورٹ پہنچے۔ جب وہاں پہنچے تو اعلان ہو رہا تھا کہ جہاز روانگی کے لئے تیار ہے۔ تمام سیٹ مکمل ہوچکی ہیں۔ باقی مسافر واپس چلے جائیں۔ یہ سنتے ہی وہاں کھڑے تمام لوگ چلے گئے لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ وہاں ہی کھڑے رہے کہ مجھے تو خلیفہ وقت نے جانے کا حکم دیا ہے، یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ میں جانہ سکوں۔ ابھی آپ یہ سوچ ہی رہے تھے اور دعا میں مگن تھے کہ اعلان ہوا کہ صرف ایک مسافر کی سیٹ کی جگہ ہے وہ آجائے۔ چنانچہ آپ فوراً جہاز کی طرف دوڑے اور خداکا شکر ادا کیا کہ اس نے خلیفہ وقت کی اطاعت کی توفیق بخشی اور آپ بنگلہ دیش پہنچ گئے۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ خدا نے انکو کتنا بڑا رتبہ دیا خود خلافت کے مقام پر کھڑا کر دیا سبحان اللہ۔

اسی طرح حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کااطاعت خلافت کا ایک دلچسپ واقعہ بیان فرمایا۔ جب حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنی آخری بیماری کے دوران سب کو ملاقات سے منع فرمایا ہوا تھا۔ ان کی بیماری کے سبب مرزا سفیر احمد صاحب نے حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کو پاکستان سے بلا بھیجا۔ جب وہ خلیفہ رابع رحمہ اللہ علیہ سے ملاقات کے لئے گئے تو انہوں نے پوچھا آپ کیسے آئے فرمایا آپ کی تیمارداری کے لیے آیا ہوں فرمایا کہ واپس چلے جائیں۔ آپ اسی وقت خلیفہ وقت کی تعمیل میں اگلی فلائٹ سے واپس چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مرزا سفیر احمد صاحب سے دریافت کیا کہ ان کو کس نے بلایا تھا میں نے سب کو منع کیا ہوا ہے۔ تو انہوں نے بتایا کہ میں نے ان کو آپ کے لیے بلایا تھا۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے ان کو ہمیشہ اپنی اطاعت میں کامل پایا ہے اور اب بھی وہ میری اطاعت میں فوراً واپس چلے گئے ہیں۔ میں بھی حیران تھا کہ وہ کبھی بھی میری خلاف ورزی نہیں کر سکتے وہ کیسے آگئے تھے۔

سبحان اللہ! یہاں بھی ہم ایک خلیفہ کی اپنے خلیفہ بننے سے قبل کی اطاعت کا سبق دیکھتے ہیں اورخدا کا انعام آپ کی ذات مبارک پر۔ اطاعت ہو تو ایسی یہی وہ خوش نصیب ہیں جن کو فرشتے بھی رشک کی نگاہوں سے دیکھتے ہوں گے۔

اب حضرت حافظ روشن علی صاحب کی ایک مثال دیکھتے ہیں ابتدائی زمانے میں اس بے شک حضور کے پاس کپڑوں کا صرف ایک ہی جوڑا تھا جمعرات کی رات کو دھو لیتے اور جمعے کی صبح پہن لیتے ایک بار ایسا ہوا کہ سردیوں کی شدید سرد رات میں کپڑے دھو کر لٹکائے ہوئے تھے کہ مسیح پاک علیہ السلام کی طرف سے پیغام آیا کہ کسی مقدمہ کی پیروی کے لئے گرداسپور جانا ہے ساتھ جانے کے لیے ابھی آجائیں۔ فدائی روشن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھا وہی گیلے کپڑے پہن لئے اور سردی سے بچاؤ کے لیے لحاف لپیٹ کر ساتھ ہولیا سبحان اللہ

(ستمبر 2005ء احمدیہ گزٹ کینیڈا)

اطاعت کی ایسی ایمان افروز مثالیں بے شمار ہیں یہ باتیں ہمیں دعوت عمل دیتی ہیں کہ ہم بھی ان سب دعوؤں کو سچ ثابت کر دکھائیں جو ہم ہر بات تجدید بیعت کے دوران دہراتےہیں ہم میں سے ہر ایک کہتا ہے کہ اے میرے آقا !میں آپ کے ہر حکم پر دل و جان سے آپ کی ہر خواہش پر سو جان سےقربان آپ کے ہر ارشاد پر پابندی کرنا ضروری سمجھوں گا دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اللہ کرے ہم سب اپنےاس عہد کو پورا کرنے والے ہوں آمین۔

ہماری یہ اولین ذمہ داری ہےکہ ہم اپنی اولادوں کو تلقین کرتے چلے جائیں ان میں بھی یہی روح اور جذبہ پیدا کریں جو ہمارے عمل سے ممکن ہے۔ آج کے بچے کل کے جوان ہیں جماعت کے علمبردار اور نمائندہ ہیں ان کے دلوں میں خلافت سے محبت پیدا کریں جسکا ایک عمدہ نمونہ حضور کی خدمت اقدس میں بار بار دعا کیلئے خطوط وغیرہ لکھنا۔ ایم ٹی اے دیکھنا کلاسوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا اور دعاؤں پر بھرپور توجہ دینا ہے اور یہ ہم والدین کی انتہائی ذمہ داری ہے کیونکہ زندہ قوموں کی یہی نشانی ہے کہ ان کی آئندہ نسلیں ان مقاصد کو سربلند رکھنے والی ہوں جن کے لئے ان کے آباء واجداد نے قربانیاں پیش کی ہیں۔ پیارے آقا ہمیں ہر وقت وقت جو ہدایات دیتے ہیں اس پر عمل کریں ضرور ی ہے کہ ہم خطبات جمعہ بہت باقاعدگی سے سنیں اور دعاؤں پر زور دیں۔

؎ خلافت نے وہ حسن زندگی بخشا ہے دنیا کو
چمکتی ہے جمال پاک سے عالم کی پیشانی

عبدالحمید شوق

(الفضل 24 جنوری 1962ء)

دعا

محبت کے جذبے وفا کا قرینہ
اخوت کی نعمت ترقی کا زینہ
خلافت سے ہی برکتیں ہیں یہ ساری
رہے گا خلافت کا فیضان جاری
الہٰی ہمیں تو فراست عطا کر
خلافت سے گہری محبت عطا کر
ہمیں دکھ نہ دے کوئی لغزش ہماری
رہے گا خلافت کا فیضان جاری

(صاحبزادی امتہ القدوس بیگم)

حرفِ آخر

نظام خلافت کی نعمت پر ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے اطاعت گزاروں اور صالحین بندوں کے ساتھ اپنے وعدے کے مطابق خلافت کی جو ردا اپنے پیارے بندوں خلفاء نوردین و محمود، ناصر و طاہر اورمسرور کے سروں پر قائم کی ہے جو غریبوں کے سر پر رحمت ہے تو ہمارے دلوں کی غذا ہے۔

امن بخش کر خوف سے جدا کرتی ہے ہمارے دل و جان اور اولاد ان سب پر قربان ہیں اللہ کرے ہمیں خلافت کی یہ سعادت ہمیشہ ملی رہے اور ہم اس سے بھرپور مستفیض ہوتے رہیں۔ خلافت کے دم سے جماعتیں منظم ہیں۔ مجالس کی دوڑیں ہیں۔ نمائش، ریلیاں اور کھیلیں ہیں۔ تنظیموں کی یہ تمام سرگرمیاں خلافت کی بدولت ہیں۔ چمن کی یہ بہاریں اور محبتیں چاہتیں کی خلافت کی ہی رونقیں ہیں خدایا ہمارے دلوں میں کبھی بھی عداوتیں نہ آئیں بلکہ ہم بھرپور اطاعت سے زمین کے کناروں تک اس کو پھیلاتے چلے جائیں تا دین حق کا ڈنکا جابجا بجتا چلا جائے۔ سارے جہان میں تراجم قرآن پھیل جائیں۔ اور قرآنی انوار سے دلوں کو سارے جہانوں میں روشنی ملے ترقی کا یہ راستہ دن بدن پھیلتا پھولتا رہے اور ہم خلافت کے زیر سایہ پروان چڑھتے چلے جائیں اطاعت کی منزلیں طے کرتے ہماری نسلیں شاد و آباد رہیں اور خدا تعالیٰ ہمارے پیارے آقا کو خلافت کے پرچم کو سر سبز اور لہلہاتا ہوا دیکھیں اور ترقیات اور فتوحات نصیب ہوں۔ آمین ثم آمین

؎ روشن خدا نے کی تھی ازل سے جو شمع نور
مسرور میں بھی روشنی آئی یہی تو ہے
اسلام کے عروج کا رستہ یہی تو ہے
نور نبی نے راہ دکھائی یہی تو ہے

(منزہ ولی سنوری۔ بریمٹن کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مئی 2022

اگلا پڑھیں

تم ضرور امر بالمعروف کرو