• 2 مئی, 2024

ہمارے ساتھ جڑ کر ہمیں بدنام نہ کرو (حضرت مسیح موعود)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
…لیکن بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو اس لئے آئے تھے تا کہ مسلمانوں کی بھی اصلاح کریں اور مسلمانوں کے لئے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی حکم فرمایا تھا کہ جب وہ امام مہدی آئے تو تم اُس کوماننا، چاہے برف کی سِلوں پر جا کر ماننا پڑے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی حدیث نمبر 4084)

لیکن ہم احمدی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کی جماعت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہم نے یہ سچائی کا پیغام دنیا کو پہنچانا ہے، لیکن کس طرح؟ پہلے تو ہمیں اپنے آپ کو سچا ثابت کرنا ہو گا۔ انبیاء نے اپنی سچائی کی دلیل اپنی زندگی میں سچ کی مثالیں پیش کرکے دی کہ روزمرہ کے عام معاملات سے لے کر انتہائی معاملات تک کسی انسان سے تعلق میں، Dealing میں کبھی ہم نے جھوٹ نہیں بولا۔ پس یہ سچائی کا اظہار ہمیں بھی اپنی زندگیوں میں کرنا ہو گا۔ اور یہی کام ہے جو انبیاء کے ماننے والوں کا ہے کہ جس طرح انبیاء اپنی مثال دیتے ہیں اُن کے حقیقی ماننے والے بھی اپنی سچائی کو اس طرح خوبصورت کر کے پیش کریں کہ دنیا کو نظر آئے۔ ہمیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرنے کا حکم ہے۔ پس اس اسوہ پر چلتے ہوئے سچائی کے خُلق کو سب سے زیادہ ہمیں اپنانا ہو گا۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو تبھی پورا کر سکتے ہیں جب اس خُلق کو اپنائیں گے۔ تبھی ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ لیکن سچائی کے یہ معیار تبھی حاصل ہوں گے جب ہم ہر سطح پر خود اپنی زندگی کے ہر لمحے کو سچائی میں ڈھالیں گے۔ ہماری گھریلو زندگی سے لے کر ہماری باہر کی زندگی اور جو بھی ہمارا حلقہ اور ماحول ہے اُس میں ہماری سچائی ایک مثال ہو گی، تبھی ہماری باتوں میں بھی برکت ہو گی، تبھی ہمارے اخلاق اور سچائی دوسروں کو متأثر کر کے احمدیت اور اسلام کے قریب لائیں گے۔ پس اس کے لئے ہمیں ایک جدوجہد اور کوشش کرنی ہو گی۔ اپنے عملوں کو سچائی سے سجانا ہو گا۔ اگر ہم چھوٹے چھوٹے مالی فائدوں کے لئے جھوٹ کا سہارا لینے لگ گئے تو پھر ہماری باتوں کا کیا اثر ہوگا۔

جیسا کہ پہلے مَیں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں اگر ہم غلط بیانی کر کے مثلاً حکومت سے، کونسل سے مالی مفاد حاصل کر رہے ہیں، اگر ہم اپنے ٹیکس صحیح طور پر ادا نہیں کر رہے تو پکڑے جانے پر پھر جماعت کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ احمدی کا ہر ایک کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ احمدی ہے اور جب بدنامی ہو جائے تو پھر تبلیغ کیا ہو گی؟ کس طرح ثابت کریں گے کہ جس جماعت سے آپ کا تعلق ہے جس کا دعویٰ ہے کہ احمدی برائیوں میں ملوث نہیں ہوتے، قانون کے پابند رہتے ہیں، باقی مسلمانوں سے مختلف ہیں کیونکہ انہوں نے اس زمانے میں اُس شخص کی بیعت کی ہے جو دنیا کی رہنمائی کے لئے آیا ہے تو یہ ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ پس یہ ثابت کرنے کے لئے ہمیں اپنے عملوں کو درست کرنا ہو گا، چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ ہم کس طرح ثابت کریں گے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو قرآن و سنت پر عمل کرنے والے ہیں۔ پس ہمیں اس کام کو پھیلانے کے لئے جماعت کی نیک نامی کے لئے اپنی ذاتی اصلاح کی طرف بھی بہت کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ جھوٹ پکڑے جانے پر نہ صرف ہم اپنے آپ کو مشکل میں ڈالتے ہیں بلکہ جماعت اور اسلام کی بدنامی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ پھر بعض دوسری بداخلاقیاں ہیں۔ بعض نوجوانوں کا غلط قسم کی صحبت میں اُٹھنا بیٹھنا ہے۔ پھر میاں بیوی کے گھریلو جھگڑے ہیں، پہلے بھی مَیں نے عرض کیا، جن میں بعض اوقات پولیس تک معاملے پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں پھر کوئی نہ کوئی فریق غلط بیانی سے کام لیتا ہے۔ تو بہر حال یہ سب چیزیں جماعت کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں اور معاشرے میں غلط اثر قائم ہو کر تبلیغ میں روک کا بھی باعث بنتی ہیں۔ پھر اس کے علاوہ اگر غلط بیانی کی عادت پڑ جائے تو جماعت کے اندر بھی اپنے معاملات میں جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے اور پھر اس جھوٹ سے ہر معاملے میں بے برکتی پڑتی چلی جاتی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اس سے گھروں میں بھی بچوں پر بُرا اثر پڑ رہا ہوتا ہے۔ بات کا اثر نہیں ہوتا۔ کئی بچے بچیاں مجھے لکھ بھی دیتے ہیں کہ ہمارا باپ باہر بظاہر بڑا نیک شریف اور سچا اور کھرا مشہور ہے۔ خدمت کرنے والا بھی ہے لیکن گھروں کے اندر ہمیں پتہ ہے غلط باتیں کرنے والا ہے اور سچائی سے ہٹا ہوا ہے۔ تو ایسے باپوں کا بچوں پر کیا اثر ہو گا یا ایسی ماؤں کا بچوں پر کیا اثر ہو گا جو غلط بیانی سے کام لیتی ہیں؟ اگر پوچھو تو پھر جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے کہ ہم ٹھیک ہیں۔ سب ٹھیک ہے۔ تو پھر ایسے لوگوں کی تبلیغ کا اور بات کا بھی اثر نہیں ہوتا۔ جن کے گھروں کے بچوں پر ہی اثر نہیں ہو رہا جن کے گھروں کے بچے ہی اُن سے غلط اثر لے رہے ہیں، اُن پر غلط اثر قائم ہو رہا ہے وہ باہر کیا اصلاح کریں گے؟

پس اس بات کا ہر احمدی کو بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم میں یہ باتیں پیدا ہو رہی ہیں اور بڑھ رہی ہیں تو پھر تو ہم اُن لوگوں میں شمار ہوں گے جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ ہم یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ احمدیت سچی ہے، حقیقی اسلام ہے۔ ہم یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ’محبت سب کے لئے ہے نفرت کسی سے نہیں‘ لیکن سب سے پہلے تو ہم نے اپنے گھروں کو محبت دینی ہے وہاں سچائی قائم کرنی ہے۔ اپنے عزیزوں، رشتے داروں کو محبت دینی ہے، اپنی جماعت کے افراد کو محبت دینی ہے، اپنے ماحول کو محبت دینی ہے، تبھی ہماری محبت وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی جائے گی، تبھی سچائی سے آگے سچائی پھیلتی چلی جائے گی۔ ورنہ ہمارا یہ نعرہ کھوکھلا ہے۔ ہم جھوٹے نعرے لگا رہے ہیں۔ ہمارے گھروں میں تو بے چینیاں ہوں اور ہم دوسروں کو بلا رہے ہوں کہ آؤ اور سچائی کو پا کر اپنی بے چینیوں کو دور کرو۔ ہم دوسروں کو جا کر تو محبت کی تبلیغ کر رہے ہوں اور اپنے ہمسایوں سے ہمارے تعلقات اچھے نہ ہوں جس کا سب سے زیادہ حق ہے۔ قرآنِ کریم میں ہمسائے کا سب سے زیادہ حق لکھا ہے۔ اسلام میں سب سے زیادہ حق ہمسائے کو دیا گیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تمہارا دینی بھائی بھی تمہارا ہمسایہ ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلدچہارم صفحہ 215مطبوعہ ربوہ)یہ صرف گھر سے گھر جڑنا ہمسائیگی نہیں ہے بلکہ ہر دینی بھائی جو ہے وہ تمہارا ہمسایہ ہے اُس کا حق ادا کرو۔ پس اگر ہم سچے ہیں تو آپس کے تعلقات کو بھی مضبوط جوڑنا ہو گا ورنہ ہماری تبلیغ بے برکت ہو گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ (الصف: 3) (کہ اے وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ کیونکہ اگر تمہارے عمل تمہارے قول کا ساتھ نہیں دے رہے تو یہ منافقت ہے اور اس میں کبھی برکت نہیں پڑ سکتی۔ اس سے ہمیشہ بے برکتی پیدا ہو گی۔ ایمان کو اپنے قول و فعل کے تضاد سے داغدار نہ کرو۔ جس سچے اور کامل نبی کے عاشقِ صادق کے ساتھ تم جُڑ گئے ہو یا جڑنے کا دعویٰ کرتے ہو اُس کے ساتھ حقیقت میں جڑنا تو تبھی ہو گا جب کوئی تم پر یہ کہہ کر انگلی نہ اُٹھائے کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔ اگر یہ جھوٹا ہے تو ہر کہنے والا یہی کہے گا کہ یہ خود جھوٹا ہے تو جس کے ساتھ جڑ کر یہ سچائی کا اعلان کر رہا ہے تو اس کی سچائی بھی محلِ نظر ہو گی۔ تبھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہمارے ساتھ جڑ کر ہمیں بدنام نہ کرو۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ145۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

(خطبہ جمعہ 9؍ ستمبر 2011ء)

پچھلا پڑھیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کا ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی سالانہ کانفرنس سے خطاب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جون 2021