• 2 مئی, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 25؍ جون2021ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍ جون 2021ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

٭…حضرت عمرؓ کے رعب اور دبدبے سے قیصروکسریٰ کی حکومتیں کانپتی تھیں لیکن آپؓ ایک بدوی عورت کے بچوں کو بھوکا دیکھ کر تِلمِلا اٹھے
٭…ان لوگوں کے لیے انسانی ضروریات کا مہیا کرنا جو اس کی طاقت نہیں رکھتےاسلامی حکومت کا فرض ہے
چار مرحومین : مکرم عبدالوحید وڑائچ صاحب صدر جماعت وائلڈرس ہوسٹ جرمنی ، حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی پڑنواسی محترمہ امة النورصاحبہ اہلیہ ڈاکٹر عبدالمالک شمیم صاحب واشنگٹن امریکہ، مکرمہ بسم اللہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم ناصر احمد خان صاحب بہادر شیر افسر حفاظت خاص، مکرم کرنل جاوید رشدی صاحب آف راولپنڈی کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 25؍جون 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت حارث رفیق ڈوگر صاحب کےحصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت عمرؓ کا ذکر چل رہا تھا، اس ضمن میں آج مزید بیان کروں گا۔زید بن اسلم اپنے والداسلم سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے ساتھ مدینےسے تین مِیل کےفاصلےپر صرار نامی جگہ پرتھے۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ کوئی مسافر ہیں جنہیں رات اور سردی نےروک رکھاہے۔ وہ ان کے قریب گئے تو دیکھا کہ ایک عورت کےساتھ اُس کے کچھ بچے ہیں اور ایک ہنڈیا آگ پر چڑھی ہوئی ہے۔ بچے بھوک کی وجہ سے بلک بلک کر رو رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اس عورت سے بچوں کے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ بچے بھوک کی وجہ سےرو رہے ہیں۔ آپؓ نے پوچھا کہ اس ہنڈیا میں کیاچیز ہے؟ اس عورت نے جواب دیا کہ اس میں صرف پانی ہے اور اس کے ذریعے میں بچوں کو دلاسا دےرہی ہوں تاکہ وہ سوجائیں۔ اللہ ہمارے اور عمرؓ کے درمیان فیصلہ کرےگا۔ آپؓ نے فرمایا خاتون! اللہ تم پر رحم کرے عمرؓ کو تمہاری حالت کیسے معلوم ہوسکتی ہے؟ اس عورت نے کہا عمرؓ ہمارے اُمور کے نگران ہیں اور ہم سے غافل ہیں۔ اسلم کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے مکّے اور مدینے کے درمیان کئی سرائے خانے بنوائے تھے جہاں مسافروں کی ضرورت کی ہر شے میسر تھی۔آپؓ تیزی سے چلتے ہوئے اناج کے ایک گودام پہنچے اور ایک بورا اناج اور ایک ڈبہ چکنائی کا لے کر فرمایا کہ یہ مجھے اٹھوادو۔ اسلم کہتے ہیں کہ مَیں نے عرض کی کہ آپ کی جگہ مَیں اٹھالیتا ہوں۔ لیکن حضرت عمرؓ نے دو تین مرتبہ فرمایا کہ مجھے اٹھوادو۔ آخر میرے زیادہ اصرار پر حضرت عمرؓ نے فرمایا تیرا بھلا ہو کیا قیامت کے دن بھی میرا بوجھ تم اٹھاؤ گے۔ اس کے بعد آپؓ وہ بورا اٹھا کر تیزی سے اس عورت کے پاس واپس پہنچے۔ کھانا تیار کرنے میں اس غریب عورت کی مدد کی اور تب تک وہیں ٹھہرے رہے جب تک بچےپیٹ بھرکر کھانا کھا کر سو نہ گئے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے رعب اور دبدبے سے قیصروکسریٰ کی حکومتیں کانپتی تھیں لیکن آپؓ ایک بدوی عورت کے بچوں کو بھوکا دیکھ کر تِلمِلا اٹھے۔ ان لوگوں کے لیے انسانی ضروریات کا مہیا کرنا جو اس کی طاقت نہیں رکھتے اسلامی حکومت کا فرض ہے۔ ضرورت مندوں کو جو وظائف دیے جاتے ہیں یہ سُستی اور کاہلی پیدا کرنے کےلیے نہیں۔ اسلام جہاں غریبوں کی خبرگیری کا حکم دیتا ہے وہاں سوال کرنے سے بھی لوگوں کو روکتا ہے۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ایک سائل کو دیکھا کہ اس کی جھولی آٹے سے بھری ہوئی تھی اور وہ پھر بھی مانگ رہا تھا۔آپؓ نے اس سےآٹا لےکر اونٹوں کے آگے ڈال دیا اور فرمایا اب مانگ۔

حضرت عمرؓ کے آزاد کردہ یہی غلام اسلم ایک اَور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ تاجروں کا ایک قافلہ مدینہ آیا۔ حضرت عمر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو ساتھ لےکر ان کا پہرہ دینے تشریف لےگئے۔ ایک نہایت چھوٹے بچے کے رونے کی آواز نےآپؓ کو بےچین کیا۔ آپؓ نے اس کی ماں کوبچے کا خیال رکھنے کی طرف توجہ دلائی لیکن بچے کے بلکنے کی آواز ساری رات آتی رہی۔ صبح ہوتے ہی آپؓ اس عورت کے خیمے میں گئے اور بچے کے رونے کی وجہ دریافت کی۔ اس عورت نے کہا کہ مَیں اس کو دودھ کے سِو ا دوسری خوراک کی طرف مائل کرتی ہوں لیکن یہ دودھ ہی مانگتا ہے۔ آپؓ نے پوچھا وہ کیوں؟ تو اس عورت نے کہا عمر صرف ان بچوں کا وظیفہ مقرر کرتے ہیں جن کا دودھ چھڑا دیا گیا ہو۔ آپؓ نے بچے کی عمر پوچھی اور فرمایا کہ دودھ چھڑانے میں اتنی جلدی نہ کرو۔اس روز جب آپؓ نے لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی تو رونے کی وجہ سے آپؓ کی قراءت واضح نہ ہورہی تھی۔ آپؓ نے فرمایا عمرؓ! تیرا برا ہو تُو نے کتنے ہی مسلمان بچوں کا خون کر دیا۔اس کے بعد آپؓ نے منادی کروادی اور سارے ممالک میں یہ حکم بھجوادیا کہ بچوں کا دودھ چھڑانے میں جلدی نہ کروہم ہر پیدا ہونے والے بچے کا وظیفہ مقرر کرتے ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک رات حضرت عمرؓ دورہ کر رہے تھے تو آپؓ نے ایک عورت کو عشقیہ شعر پڑھتے ہوئے سنا۔ آپؓ نے تحقیق کروائی تو معلوم ہوا کہ اس کا خاوند فوج میں ہے اور مدت سے باہر گیا ہوا ہے۔ اس پر آپؓ نے حکم دیا کہ کوئی سپاہی چارماہ سےزیادہ باہر نہ رہے۔

اسی طرح ایک رات حضرت عمرؓ مدینے کے بیرونی حصّے میں تھے۔ ایک خیمے سے کسی عورت کی دردِ زہ کے سبب تکلیف دہ آوازیں سنائی دیں۔ آپؓ نے اس عورت کا حال دریافت کیا۔ اس نے کہا کہ مَیں مسافر، پردیسی ہوں اور میرے پاس کچھ نہیں۔ اس پر حضرت عمرؓ واپس گھر تشریف لائے، اپنی اہلیہ حضرت امِ کلثوم بنت علی اورزچگی کی ضرورت کا سامان لیا نیز آٹا اور چربی وغیرہ لےکراس عورت کے پاس پہنچے۔آپؓ اس کے خاوند کے ساتھ باہر بیٹھے تھے کہ حضرت امِ کلثوم نے آکر بتایا کہ اے امیر المومنین! اپنے ساتھی کو لڑکے کی خوش خبری دے دیں۔ جب اس شخص نے ’امیرالمومنین‘ کے الفاظ سنے تو اسے عِلْم ہوا کہ آپ حضرت عمرؓ ہیں۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مَیں نے حضرت عمرؓ کو بڑی تیزی کے ساتھ کہیں جاتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ اے امیرالمومنین! آپ کہاں جارہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ صدقے کا ایک اونٹ بھاگ گیا ہے اسے تلاش کرنے جارہا ہوں۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ آپ نے اپنے بعد آنے والے خلفاء کے لیے بہت مشکل راہیں متعیّن کر دی ہیں۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ مجھے ملامت مت کرو۔ اس کی قسم جس نے محمدﷺ کو نبوت کے ساتھ مبعوث کیا اگر بکری کا بچّہ بھی دریائے فرات کے کنارے ضائع ہوگیا تو قیامت کےدن عمرؓ کا اس پر مؤاخذہ ہوگا۔

ایک بہت بڑے عیسائی قبیلے کا سردار جبلہ بن ایہم مسلمان ہوا اور حج کے موقعے پر کسی غریب مسلمان کا پاؤں اس کے پاؤں پر پڑگیا۔ جبلہ نے غصّے میں آکر اسے تھپڑ دے مارا۔ کسی شخص نے جبلہ کو بتایا کہ حضرت عمرؓ اس مسلمان کا بدلہ تم سے لیں گے۔ یہ سن کر جبلہ حضرت عمرؓ کے پاس گیا اور پوچھا کہ اگر کوئی بہت بڑا آدمی کسی چھوٹے آدمی کو تھپڑ ماردے تو آپ کیا کیا کرتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں۔ پھر آپؓ نے پوچھا کہ جبلہ! کہیں تم ہی تو یہ غلطی نہیں کر بیٹھے۔ اس پر جبلہ نے جھوٹ بول دیا اور کہا کہ مَیں تو ویسے ہی ایک بات پوچھ رہا تھا۔ یہ کہہ کر وہاں سے اٹھا اور اپنی قوم سمیت مرتد ہوگیا اور اسلامی حکومت کے خلاف رومی جنگ میں شامل ہوا لیکن حضرت عمرؓ نے اس کی پروا نہیں کی۔

حضورِانور نے فرمایا کہ یہ وہ مساوات تھیں جو اسلامی حکومتوں نے قائم کیں اور آج کی اسلامی حکومتوں کے لیے بھی یہ سبق ہے۔

حضرت عمرؓ کا ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے چار مرحومین کا ذکر ِخیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا:

1۔ مکرم عبدالوحید وڑائچ صاحب صدر جماعت والڈشوٹ (Waldshut) جرمنی، سابق صدر خدام الاحمدیہ اور سابق سیکرٹری تربیت سوئٹزرلینڈ۔ مرحوم 12؍مئی کو ماؤنٹ ایورسٹ کو کامیابی سے سر کرنے اور اس پر لوائے احمدیت لہرانے کے بعد نیچے اترتے ہوئے طبیعت خراب ہونے پر اکتالیس سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ تین بیٹے،دوبیٹیاں، والدین، ایک بھائی اور دو بہنیں شامل ہیں۔ مرحوم ایک مثالی احمدی تھےجن میں خدمتِ انسانی کا بےپناہ جذبہ تھا۔ حضورِانور نے فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے ملاقات کی اور سات برِّاعظموں کی چوٹیوں کو سر کرکے ان پر لوائے احمدیت لہرانے کی جازت حاصل کی۔ انہیں خوف تھا کہ مَیں کہیں ان کو منع نہ کردوں مگر مَیں نے انہیں کہا کہ اگر جاسکتے ہو تو جھنڈے گاڑھ دو۔ میرے خیال میں یقیناً نیک مقصد اور جذبے کے ساتھ انہوں نے اسلام اور احمدیت اور خداتعالیٰ کی توحید کا پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے اور اس میں کامیاب بھی ہوئے اور اسی مقصد کے سفر میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔ انہوں نے یقیناً شہادت کا درجہ پایا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ انہیں شہداء میں شمار فرمائے۔

2۔ محترمہ امة النور صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر عبدالمالک شمیم صاحب ابن مولوی عبدالباقی صاحب جو 15؍جون کو واشنگٹن امریکہ میں وفات پاگئیں۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ مرحومہ صاحبزادی امة الرشید بیگم صاحبہ اور میاں عبدالرحمٰن صاحب کی بیٹی تھیں۔ آپ حضرت مسیح موعودؑ کی پڑنواسی اور اسی طرح ننھیال کی طرف سے حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کی پڑنواسی تھیں۔ حضرت مصلح موعودؓ اور سیّدہ امة الحئی صاحبہ کی نواسی، صحابی حضرت مسیح موعودؑ حضرت پروفیسر علی احمد آف بِہار کی پوتی تھیں۔ مرحومہ لجنہ اماء اللہ میں نیشنل سیکرٹری تربیت امریکہ، نیشنل نائب صدر امریکہ، صدر لوکل لجنہ واشنگٹن اور مختلف کمیٹیوں کی ممبر رہیں۔

3۔ مکرمہ بسم اللہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم ناصر احمد خان صاحب بہادر شیر افسر حفاظت خاص۔ آپ 14؍ جون کو 84 برس کی عمر میں جرمنی میں وفات پاگئیں۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔

4۔ مکرم کرنل جاوید رشدی صاحب ابن چودھری عبدالغنی صاحب آف راولپنڈی۔ مرحوم سابق سیکرٹری تعلیم، وقف ِجدید، رشتہ ناطہ، وصایا اور تین بار حلقہ سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی کے صدر بھی رہے۔ مرحوم کا کچھ عرصہ پیشتر انتقال ہوا تھا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

(بشکریہ الفضل انٹرنیشنل)

پچھلا پڑھیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کا ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی سالانہ کانفرنس سے خطاب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جون 2021