• 25 اپریل, 2024

میں نے حضور سے ملنا ہے!

میں نے حضور سے ملنا ہے!
ایک دس سالہ بوسنین بچے کی تمنا و آرزو

اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سےپچھلے ہفتہ بوسنیا جانے کا اتفاق ہوا۔وہاں کے مبلغ سلسلہ مکرم مُفیض الر حمان صاحب نے بوسنیا کے دارلحکومت سرائیو سے 130 کلو میٹردور جانے کا پروگرام بنایا۔ ہمارا یہ سفردعا کرنے کے بعد کار کے ذریعہ شروع ہوا۔ راستہ کافی مشکل و دشوار گزار، سڑک بل کھاتی ہوئی، اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر جاتی اپنی خوبصورتی کو دُوبالا کر رہی تھی۔ نماز ظہر و عصر کے لیے ایک جگہ گاڑی کو بریک لگائی تو پہلے سے موجود ایک ویگن پر نظر پڑی جو کہ وہاں پر پارک کی گئی تھی۔ ہم نے سوچا کہ شاید کوئی بھائی پانی پینے کے لیے یا کچھ دیر سستانےاور تازہ دم ہونے کے لیے یہاں پر ٹھہرا ہے۔ لیکن دیکھا تو خوب دیکھا! کہ ایک بوسنین نوجوان سجدہ میں ہے اور اللہ تعالیٰ سے رازو نیاز کررہاہے۔ نیچے اس نے گتے سے تیار کردہ جائے نماز بچھائی ہوئی ہےاور سجدہ کی حد مقرر کر کے آگے بھی ایک نشان رکھا ہوا ہے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھا گویا ہم ایک دوسرے کو کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ اثنائے گفتگو میرے منہ سے نکل ہی گیا کہ وہ تو ہم سے اچھا ہے! جو کہ پورے اہتمام کے ساتھ نماز ادا کر رہا ہے۔ نماز ختم کرکے ہماری طرف آیا۔ ہم نے سلام کرنے میں پہل کی۔ اس نے خوش دلی کے ساتھ سلام کا جواب دیا۔ نام معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ اس کا نام Aldin ہے۔ ’’الدین‘‘ نام سن کر خوشی کے مارے ہماری تو باچھیں ہی کھل گئی۔ بے ساختہ میں نے اپنے ساتھی کی مدد سے ان سے ایک سوال کیا؟ کہ آپ کب سے نماز کے عادی ہیں؟ انتہائی خاکساری اور دھیمی آواز سے اس کا جواب آیا جب سے ہوش سنبھالا ہے۔ اس کے جواب نے اور بھی مسرت کیا ہمیں۔ میرے ساتھی محترم نے ان کا اڈریس لیا اور اپنا اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے دوبارہ ملنے کا عندیہ دیا اور یوں علیحدہ ہواوہ ہم سے۔

جہاں ہماری منزل تھی وہاں پر پہنچ کر ہم ایک گھر میں گئے۔ بوڑھے میاں بیوی سے ملاقات ہوئی۔ بوسنیا کے مبلغ سلسلہ نے ان سے بوسنین زبان میں کھل کر باتیں کیں۔ خاکسار بھی اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے کہیں لقمہ دے دیتا۔ کس زبان میں؟ اردو میں، اور اس کا ترجمعہ کرنے کی درخواست بھی انہیں سے کرتا۔ اسی دوران کیا دیکھتا ہے کہ گھر کی مالکن اپنے کمرے میں جاتی ہے اور ایک نوٹ لاکر مبلغ سلسلہ بوسنیا کے ہاتھوں میں رکھتی ہوئی کہتی ہے یہ ہے چندہ۔ میں نے باتوں باتوں میں اس بزرگ خاتون سے دریافت کیا۔ آپ نے یہ کیوں دیا ہے؟ اور اس کا آپ کو کیا فائدہوتا ہے؟ جواب سنئے! اس عمر رسیدہ کا! جو کہ ایمان سے بھر پُورتھا! کہنے لگی یہی تو سب کچھ ہے! اسی سے تو ہمارا گھر چلتا ہے!اس کے جواب نے کئی دیر تک مجھے سوچنے پر مجبور کیا۔اور یہ خیال آتا رہا کہ واقع ہی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں۔ جس کے ماننے والے دور دراز علاقے میں ہونے کے باوجود بھی چندے کی برکات و فوائد سے آگاہ ہیں۔ الحمدللّٰہ

وہاں سے اٹھ کرہم ایک اور گھر میں گئے۔ ہمیں دیکھ کر وہ حد درجہ مسرت و شادمان تھے۔ گھر کے ہر فردکے چہرے سے خوشی عیاں تھی۔ مہمان نواز تو اس علاقے کے لوگ ہوتے ہی ہیں لیکن ہمارے ساتھ تو ایک خاص سلو ک نظر آیا۔ آگے پڑی میز پر کھانے والے چیزوں کو خوب سجا دیا گیا۔ وہاں جا کر اس بات کا مشاہدہ کیا کہ بلقان کے علاقے میں یہ دستور ہے کہ اگر مہمان نے اپنا شربت پینے والا گلاس خالی کردیا ہے تو مہمان پرور یعنی میزبان اس میں اس وقت تک اور شربت ڈالتا رہے گا۔ جب تک وہ خالی ہوتا رہے گا۔اس لیے ضروری ہے کہ مہمان گرامی گلاس کو آخر تک خالی نہ کرے۔ یہی قانون وطریقہ چائے یا کافی پینے والے مہمان کے کپ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ کھانا کھانے کے بعدجماعت کی ترقیات کی باتیں ہوئیں۔ جلسہ سالانہ جرمنی کا ذکر آیا تو سب میری طرف متوجہ ہوئے۔ شاید وہ یہ سوچ رہے تھے کہ میں ان کو یہ خوشخبری دنیے والا ہوں کہ اس دفعہ جرمنی کے جلسہ پر جرمنی سے باہر سے مہمانوں کی آ مد جلسہ سالانہ پر ہو سکے گی۔ جو کہ Covid کی وجہ سے نا ممکن ہو گئی تھی۔ لیکن جب انہوں نےمیری زبان سے ایسی کوئی اچھی خبر نہ سنی۔ تو لگے ہمیں سناننے اپنی پرانی جلسہ سالانہ جرمنی کی یادیں۔ خاص طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہُ اللہ تعالیٰ سے کی گئی ملاقاتیں۔ ایک دس سالہ بچّہ جو کہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہُ اللہ تعالیٰ کا فریفتہ و چاہنے والا تھا اسی گھر میں ملا۔ جس کانام Serif Neretljak تھا۔ خاکسار نےاُس سے دریافت کیا:کہ کیا آپ نے بھی جلسہ جرمنی میں شامل ہونا ہے؟ جواب تھا اس کا ہاں! میں نے بھی ضرور شامل ہونا ہے۔میں نے پھر استفسار کیا؟ آپ نے وہاں پر کیا کرنا ہے؟ کہنے لگا وہ دس سال کا بوسنین بچہ شریف! میں نےحضور سے ملناہے! میں نے ایک اور سوال بے ساختہ کردیا۔ کیا آپ پہلے کبھی حضور سے ملے ہیں؟ ہاں میں جواب دیتے ہوئے وہ بچہ برق رفتار سے کمرے میں گیا اور تصاویر کو لاکر میرے آگے رکھ دیا۔ اس کےوالد محترم اور دادی جان اپنی تصاویر کو دیکھانے لگیں جو کہ جلسہ سالانہ جرمنی کے بعد حضور اقدس سے ملاقات کی تھیں۔ وہ بچہ ایک تصویر کو دیکھ کر خوشی سےاُچھلنے لگا۔ کیوں؟ کیونکہ! حضور اقدس کے ساتھ ایک تصویر اس کی بھی تھی جس میں حضور اقدس نےتین بچوں کو اپنے آگے کھڑا کر کے ان کے اُوپر اپنا دست شفقت رکھاہواہے۔ مجھے اپنی شہادت کی انگلی کے اشارے سے کہنے لگا وہ شریف: یہ حضورِ اقدس ہیں اور اپنی تصویر کے اُوپر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا یہ میں ہوں۔ اسی طرح اس نے باقی دو بچوں کا بھی تعارف کروایا۔ اس سے اجازت لے کرمیں نے اس تصویر کا فوٹو بنایا اوربے ساختہ میری زبان سے یہ الفاظ جاری ہوئے۔ اے میرے پیارے خدابے شک تو ہی ہے!جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء کرام کی محبت دنیا کے کونوں میں بسنے والے لاکھوں احمدیوں کے دلوں میں ڈالی ہے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

(جاوید اقبال ناصر۔ مربی سلسلہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ