موجودہ دور میں اسلام پر جبراور دھوکہ کا الزام انتہائی شدّو مدّ سے لگتا رہتا ہے، کبھی دنیا میں اسلام کے پھیلاؤ کو تلوار اور زبردستی کے نفاذ سے جوڑا جاتا ہے تو کبھی شدّت پسند کارروائیوں کو اسلام کی تعلیم سے جوڑا جاتا ہے، کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام دھوکہ دہی اور سیاست سے پھیلا، کبھی نبی پاکﷺ کی توہین پر دنیا کے مسلمانوں کے جذبات سے کھیل کر ان کے ردّعمل پر اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے۔ اس میں سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ یہ الزام زیادہ تر یا تو لامذہب لوگوں اور قوموں کی طرف سے لگایا جاتا ہے اور یا پھر ایسے لوگوں کی طرف سے جو عیسائیت کو بطور نمونہ کے پیش کرتے ہیں۔
فن لینڈ اور سکینڈےنیوین ممالک میں تبلیغی سٹالز پر یا ویسے ہی لوگوں کے ساتھ جب کبھی بھی گفتگو کا موقع ملا ہے تو احساس ہوا ہے کہ ان لوگوں کو اپنی صحیح تاریخ ہی کا پتا نہیں ہے، تاریخ سے صحیح واقفیت کی بہت ضرورت ہے اور گفتگو میں ایسے لوگوں کے الزامات کے جوابات میں ان کی اپنی ملکی و مذہبی تاریخ کے ریفرینسز سے ان کے بہت سے اعتراضات اٹھنے سے پہلے ہی ختم کئے جا سکتے ہیں۔
کیونکہ اِن تمام اعتراضات بلکہ توہین آمیز بیانات و خاکوں کی اشاعت اور قرآن شریف کے جلانے جیسے واقعات میں یہ نارڈک ممالک پوری دُنیا سے زیادہ آگے اور متحرک نظر آتے ہیں۔ اس لیے میں پہلے حصہ میں یہ بیان کروں گا کہ نارڈک ممالک میں عیسا ئیت پھیلی کیسےاور کیا یہ خود کیا کسی مذہبی تعلیم سے متاثر ہو کر عیسائی ہوئے تھے اور ایسی کیا وجہ ہے کہ اب یہ مذہب سے دور جا چکے ہیں؟ جبکہ دوسرے حصہ میں یہ بیان کروں گا کہ کون ناکام ہوا ہے اسلام جو پیار و امن و کردار سے پھیلا ہے یا کہ یہ عیسائیت؟ اور کون ہے جو کہ پھر سے خون اور سیاست کی تاریخ ابھار رہا ہے۔؟
اسلام کے تبلیغ اور حسنِ کردار اور تعلیم کی وجہ سے پھیلنے کو تو اتنی دفعہ حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے احمدیت بیان کر چکے ہیں کہ شاید بچے بچے کو ان دلائل کا علم ہو گا اس لئےخاکسار اس پہلو کو سرِ دست چھوڑتا ہے۔ صرف فیصلہ کی خاطر اور فطرت کے منطقی نقطہ بتانے کی خاطر کہ جس سے الزام کی بیخ کنی ہو جاتی ہے نیز جس سے الزام لگانے والوں کے اپنے مذہب کی بھی حقیقت کھل کے سامنے آ جاتی ہے، میں حضرت مسیح موعودؑ کا ایک اقتباس درج کرتا ہوں۔
’’اگر جبر کی تعلیم ہوتی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جبر کی تعلیم کی وجہ سے اس لائق نہ ہوتے کہ امتحانوں کے موقع پر سچے ایمانداروں کی طرح صدق دکھلا سکتے۔‘‘ (اگر جبر میں ہو تو دل سے سچائی نہیں دکھائی جا سکتی، وفا کا تعلق نہیں ظاہر کیا جا سکتا) فرمایا ’’لیکن ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی وفاداری ایک ایسا امر ہے کہ اس کے اظہار کی ہمیں ضرورت نہیں۔‘‘
(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد15 صفحہ12) بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، خطبہ جمعہ 11 دسمبر 2015ء)
یقیناً یقیناً یہ آنحضرتﷺ کی تعلیم و تربیت کا ہی ثمرہ تھا کہ چند سالوں میں ایسے جانثار پیدا ہوئے جنہوں نے آگے پھر اپنی اس تربیت سے لاکھوں کروڑوں مسلمان بنائے اور ایسے بنائے کہ جو جتنا بھی مذہب اسلام سے آج کل دور چلا جائے وہ ایک نام محمدﷺ پر اتنا جذباتی ہے کہ وہ بعض اوقات اس نام کی ناموس کی خاطر غلط ردّعمل دکھا جاتا ہے۔ لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جسے پوری دنیا اور خاص کر مغربی دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ محمدﷺ کے بارے میں مسلمانوں میں ایک ایسی وابستگی ہے جو 1500سالوں میں غلط وابستگی (نام کی وابستگی یا انتہا پسندی)میں بدل گئی ہے اور اس پر جہالت کے پردے پڑ گئے ہیں (جس کو تبدیل کرنے مسیح محمدیؑ آیا ہے) مگر وابستگی ختم نہیں ہوئی اور اسی چیز کا فائدہ اٹھا کر جب مغربی دنیا کے لوگ آزادی اظہار کے نام پر آنحضرتﷺ کے خاکے چھاپتے ہیں تو بہت شدید رد عمل سامنے آتا ہے، پھر اس ردعمل سے ان ملکوں میں ایک اور ردعمل پیدا ہوتا ہے مسلمانوں کے خلاف اور نفرت کا یہ پہیّہ ایسے ہی گھومتا رہتا ہے۔
سکینڈے نیوین ممالک میں مذہب کی وقعت واہمیت
2009ء میں شائع ہونے والے Gallup poll کے مطابق سویڈن 82%، ڈنمارک 80%، ناروے 78%اور فن لینڈ میں 70% سے زیادہ لوگ مذہب کو صفر اہمیت دیتے ہیں اور ان کے نزدیک ان کی زندگی میں مذہب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جبکہ اسی ریسرچ میں مسلمان ممالک میں مذہب کی اہمیت بہت ہے سب سے کم بوسنیا میں ہے جو کہ 77%ہے ورنہ اکثر مسلمان ممالک میں مذہب کی اہمیت 90% – 100% ہے۔ یہ اعداد و شمار موجودہ دور میں اس سے بھی زیادہ بڑھ گئے ہوئے ہیں اور یہ اعداد و شمار دکھا رہے ہیں کہ وہ ممالک جن میں مذہب کی اہمیت ہی کوئی نہیں ہے نہ اپنے مذہب کی نہ ہی کسی اور کے مذہب کی تو پھر تو ان سے ایسی ہی حرکتیں سرزرد ہوں گی جو دوسروں کی دل آزاری کا باعث بنیں گی کیونکہ خود تو ان لوگوں نے اپنے آپ کو ان جذبات سے ہی الگ کر لیا اور اپنی دنیا میں یہ سمجھ لیا کہ باقی ساری دنیا بھی ان ہی کی طرح سوچے۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
اسلام پر حملوں کی چند مثالیں
ڈنمارک: کے اخبار Jyllands-Posten نے 30 ستمبر 2005ء میں ادارتی خاکے شائع کئے جس میں آنحضرت ﷺ کی ذات کو دکھایا گیا اور کہا کہ یہ خاکے اسلام پر تنقید اور سیلف سینسرشپ کے بارے میں بحث میں حصہ لینے کی کوشش ہے۔ انکی اشاعت کے بعد لمبا سلسلہ مظاہروں اور فسادات کا شروع ہو گیا اس مسئلے کے نتیجے میں کچھ مسلم ممالک میں پرتشدد مظاہرے اور توڑ پھوڑ بھی ہوئی جس کے بعد ایک بار پھر ان ممالک کو مسلمانوں کے غلط ردعمل کو اور تشدد کو اسلام سے جوڑنے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔ اور اس کے بعد پوری دنیا میں ان خاکوں کو شائع کرنے کے حوالے سے ایک ایسی کوشش کا آغاز ہوا جو کبھی فرانس کے چارلی ہیبڈو میں اشاعت پر منتج ہوا تو کبھی فسادات پر۔ 2017ء میں ڈنمارک میں ایک شخص نے قرآن جلایا اسی طرح اپریل 2019ء میں، ڈنمارک کی اسلامو فوبک ہارڈ لائن پارٹی کے رہنما، راسمس پلوڈن نے جان بوجھ کر توہین کے طور پر، ایک بڑی تعداد میں مسلمان آبادی والے علاقے میں قرآن مجید جلایا۔
سویڈن: میں ستمبر 2020ء میں ڈنمارک کے دائیں بازو کے گروپ کے ممبروں نے قرآن شریف کی ایک کاپی کو جنوبی شہر مالمو میں جلا دیا، لیکن یہ واحد واقعہ نہیں تھا بلکہ کچھ ہی دنوں قبل بھی ایک گروہ نے قرآن شریف ایک اسلام مخالف ریلی میں جلایا تھا۔ ان واقعات کے بعد مظاہرے اور توڑ پھوڑ شروع ہو گئی۔
فن لینڈ: میں یوروپی انتخابات کے وقت، ایک انتہائی دائیں بازو کی جماعت کے رہنما نے عوامی طور پر قرآن کے ایک نسخہ کو ختم کرکے اسلاموفوبک ووٹ کو اکھٹا کرنے کی کوشش کی۔ ایک ترک کاروباری شخص کے مطابق “میں نے پولیس افسران سے کہا کہ وہ نفرت انگیز جرم کر رہا ہے اور انہیں اسے روکنا چاہئے۔ افسران نے کچھ نہیں کیا۔’’
ناروے: اسی طرح کا قرآن شریف جلانے کا وقعہ 2019ء میں ناروے میں بھی ہوا۔
آخر سکینڈے نیوین ممالک اسلام حملوں میں پیش پیش کیوں؟
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں؟ آخر یہ سکینڈے نیوین ممالک ہی کیوں ان کاموں میں متحرک ہیں اور وہ ممالک جو ہر طرح کی آزادی کے علم بردار ہیں اور ترقی اور فلاح کے نمونہ سمجھے جاتے ہیں آخر وہ ہی کیوں؟ اس کا جواب جاننے کے لئے ان ممالک کی تاریخ جاننا بہت ضروری ہے۔ ان ممالک میں بہت بعد میں عیسائیت آئی اور بارہویں صدی عیسوی کی ابتداء تک ان ممالک کے مذاہب paganism اور shamanism تھے یعنی مختلف مظاہر کو خدا مانتے تھے اور ارواح کے ساتھ تعلق مانتے تھے اور ہدایات لینے کے دعویدار تھے۔ بلکہ یہاں کے اصل نیٹو Native لوگ جو سامی Sami کہلاتے ہیں وہ تو اٹھارہویں صدی تک اپنے پرانے مذاہب پر قائم رہے۔ نیز عیسائیت سے ابتدائی تعارف کے وقت ان ممالک میں اکثریت کا ذریعہ معاش چوری اور ڈاکہ زنی تھی اور یہ بحری ڈاکہ زنی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ یہ لوگ vikings کہلاتے تھے، وہی vikings اور ان کا کلچر جس پر یہ ممالک اب فخر کرتے ہیں اور اس کو اپنی قومی پہچان کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
https://www.worldhistory.org/Vikings
عیسائیت کیسے پھیلی؟
عیسائی اسکینڈے نیویا یا نارڈک ممالک میں تقریبا 12 ویں صدی کے درمیان وارد ہوئے۔ ڈنمارک، ناروے اور سویڈن میں بالترتیب 1104، 1154 اور 1164 میں پوپ کے ذمہ داران نے اپنے اپنے آرک ڈیوائسس قائم کیے۔ سب سے پہلا رابطہ وائکنگ کا رومن عیسائیوں سے تب ہوا جب وہ ان کو غلام بنا کر مختلف ممالک جہاں وہ لوٹنے گئے تھے وہاں سے لائے تھے۔بہرحال اسکینڈینیوینیا کے لوگوں کے مسیحی مذہب میں تبدیلی کے لئے مزید وقت درکار تھا کیونکہ چوروں لٹیروں نے عیسائیت کسی تبلیغ یا کردار کے اثر سے قبول نہیں کی تھی بلکہ مختلف ممالک جرمنی وغیرہ جہاں رومن عیسائیت کا اثر تھا سے ملکی روابط کے لئے عیسائی ہوئے تھے۔
Denmark
ڈنمارک میں عیسائیت کا پھیلاؤ وقفے وقفے سے ہوا۔ جب نویں صدی سے 1060ء کی دہائی تک وائکنگ چھاپوں میں حصہ لیا تو Danes کا مقابلہ عیسائیوں سے ہوا۔ Danes اب بھی اس لحاظ سے قبائلی تھے کہ مقامی سردار کا تعین اپنے قبیلہ کے Christians اور عیسائی رشتہ داروں کے ساتھ رویوں پر ہوتا تھا۔ جیسا کہ ذکر ہوا وائکنگ کے حملوں سے عیسائی غلام یا عیسائی عورتوں سےشادیوں کی صورت میں پہلی بار ڈنمارک میں عیسائیت کا تعارف ہوا، عیسائیت اختیار کرنے والا پہلا ڈینش بادشاہ Harald Klak تھا، جس نے جلاوطنی کے دوران بپتسمہ لیا تھا تاکہ Louis the Pious (کنگ آف فرانک) کی حمایت حاصل کر سکے۔
Norway
ناروے میں عیسائیت پھیلانے کی پہلی کوششیں Haakon the Good نے دسویں صدی میں کی تھیں، جن کی پرورش انگلینڈ میں ہوئی تھی۔ اس کی کاوشیں غیر مقبول تھیں اور انہیں بہت کم کامیابی ملی۔ اس کے بعد کے Harald Greyhide جو کہ ایک عیسائی تھا، Pagansکے مندروں کو تباہ کرنے کے لئے جانا جاتا ہے حالانکہ مشہور ہے کہ تباہی پھیلانے کے باوجود اس نے عیسائیت کو مقبول بنانے کی کوششیں نہیں کیں۔
995ء میں Olaf Tryggvason کے بادشاہ بننے کے بعد اس کی Pagans کے ساتھ کافی لڑائیاں ہوئیں مگر اتنی کامیابی نہیں ہوئی، اس کے بعدOlaf I جب بادشاہ بنا تو اس نے اپنی اولین ترجیح یہ رکھی کہ وہ اپنے اختیار کی ہر چیز اور طاقت استعمال کر کے ملک کو عیسائیت میں تبدیل کرے۔ اُس نے مندروں کو تباہ Pagans مزاحمت کاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں جان سے مار ڈالا۔ اور وہ ناروے کے ہر حصے کو کم از کم برائے نام عیسائی بنانے میں کامیاب ہوگیا۔
Sweden
سویڈن کو عیسائی بنانے کی پہلی کوشش 830ء میں اور پھر اگلی صدی میں آرک بشپ آف ہیم برگ کرتا رہاتاہم یہ ناکام کوششیں رہیں۔ اس کے بعد رومن عیسائیوں کی طرف سے کوششیں جاری رہیں یہاں تک کہ پوپ نے بارہویں صدی کے شروع میں Archdiocese کے قیام کی ہدایات دے دیں۔ اگرچہ سویڈن کو 12 ویں صدی تک سرکاری طور پر زور زبردستی کر کے اور لڑائیوں کے ذریعے عیسائی بنالیا گیا تھا، لیکن ناروے کے بادشاہ Sigurd نے 12 ویں صدی کے اوائل میں سویڈش بادشاہی کے جنوب مشرقی حصے Småland کے خلاف صلیبی جنگ کی اور باضابطہ طور پر زبردستی مقامی لوگوں کو عیسا ئیت میں تبدیل کر دیا۔
Finland
فن لینڈ کی صلیبی جنگیں
First Swedish Crusades of Finland
1150ء کی دہائی میں سویڈش کنگ Eric IX اور اپسالا کے انگریزی بشپHenry (کچھ کے نزدیک یہ جرمن مشنری Heinrich تھا) کے ذریعہ جنوب مغربی فن لینڈمیں خاص فوجی مہم کی جو کہ تاریخ میں پہلی سویڈش صلیبی جنگ کہلاتی ہے۔اس صلیبی جنگ کو روایتی طور پر اور تاریخی طور پر کیتھولک چرچ اور سویڈن کے Pagan Finns کو عیسائیت میں تبدیل کرنے کی پہلی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم فن لینڈ کے جنوب مغربی حصے کی عیسائیت سازی کا آغاز 10 ویں صدی میں ہوچکا تھا، اور 12 ویں صدی میں، یہ علاقہ شاید پوری طرح سے عیسائی ہو چکا تھا۔ بعض روایات کے مطابق صلیبی جنگ کے بعد بشپ ہنری کوایک فِن Lalli نے Köyliönjärvi میں ہلاک کر دیا تھا۔ موت کے بعد میں ہنری کی حیثیت فن لینڈ میں کیتھولک چرچ کی مرکزی شخصیت کی بن گئی۔
Second Swedish Crusade
دوسری سویڈش صلیبی جنگ فن کے علاقوں جہاں Tavastians تھے کے خلاف ایک بھر پور فوجی مہم تھی، جس کی قیادت سویڈیش کمانڈر Birger Jarl نے 13 ویں صدی میں کی۔ صلیبی جنگ کے بعد فن لینڈ تدریجاً آہستہ آہستہ کیتھولک چرچ اور سویڈش ریاست کے زیر اقتدار آنے لگا اوراس کے بعد فن لینڈ میں سویڈن کی حکومت کا 500سالہ دور حکومت شروع ہوا جس میں حکومت نے ہر ظلم کا حربہ استعمال کر کے یہاں کے لوگوں کے آبائی مذہب کو زبردستی تبدیل کیا۔ یہاں تک کہ ان کو ان کے خداؤں کے نام لینے پر سزائیں دی جاتی رہیں اور قتل کیا جاتا رہا کئی خداؤں کے نام برائی کے استعاروں سے بدل دیے تاکہ نفسیاتی طور پر جبری مذہب کا غلبہ ہو۔
مختصراً یہ کہ کچھ تبدیلی مذہب کا مقصد سیاسی اور مادی فائدہ کے لئے ہوا ہے، جبکہ کچھ روحانی وجوہات کی بناء پر تھے۔ بعض اوقات لوگوں اور عیسائیوں سے لمبے عرصہ تک میل ملاپ کے نتیجے میں (جیسا کہ ڈنمارک کے لوگ جرمنی یا برطانیہ کے علاقوں میں جا کر آباد ہوئے اور لمبا عرصہ وہاں رہنے کے بعد واپس آنا جانا شروع ہوئے) کچھ اپنے ملکوں اور علاقوں کی آزادی بچانے کی خاطر اور اکثر لڑائیوں اور زور زبردستی کر کے یہ تبدیلی مذہب ہوئی۔
https://www.encyclopedia.com/humanities/culture-magazines/religion-scandinavia-and-eastern-europe
https://en.wikipedia.org/wiki/Christianization_of_Scandinavia
https://www.britannica.com/place/Finland/Earliest-peoples
شمالی یورپ اور سکینڈے نیویا میں پروٹسٹینٹ ازم کا پھیلاؤ
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ وہ تعلیم جو اوپر بیان کی گئی وجوہات کی بنا پر رائج ہوئیں تھیں بہت جلد اپنا اثر کھو بیٹھی بلکہ کہنا چاہیے کہ ان اقوام نے کبھی بھی اس تعلیم کو جو ان پر مسلط کی گئی تھی یا ہوگئی تھی کو کھلے دل سے نہیں اپنایا اور کچھ گنتی کی صدیوں بعد یعنی دو تین سو سال بعد جب پروٹسٹنٹ فرقہ پھیلا جس نے عیسائیت میں اصلاح کا دعویٰ کیا تو سکینڈے نیوین اقوام نے فورا اس کو قبول کرنا شروع کیااور ایک طرح سے اس حقیقت پر مہر ثبت کر دی کہ زبردستی اور جبری مذہب کی تبدیلی لمبا عرصہ نہی چل سکتی نہ ہی وہ کوئی روحانی اصلاحی انقلاب لا سکتی ہے۔ بہرحال لوتھر کی تعلیمات نہ صرف جرمنی میں، بلکہ پورے اسکینڈینیویا میں، پروٹسٹنٹ عیسائیت کی غالب شکل بن گئیں۔ بعد کے قرون وسطی میں، ان دونوں خطوں کے مابین ثقافتی تعلقات، جو تجارت اور زبان میں ایک جیسے ملتے جلتے تھے، مضبوط تھے۔ اسکینڈینیویا بہت کم آباد تھا اور اس کی صرف چند یونیورسٹیاں تھیں۔ اسکینڈینیوینیا کے بہت سے اسکالر باقاعدگی سے جرمن یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں اور یوں سولہویں صدی کے اوائل میں اصلاح کی تعلیمات سے واقف ہوگئے۔ جب وہ اپنے آبائی علاقوں میں واپس آئے تو، وہ اپنے ساتھ لوتھر کے نظریات کا علم لے کر آئےاور سویڈن اور ڈنمارک کے بادشاہوں کو انجیلی بشارت کی اصلاحات اپنانے کی ترغیب دی۔ 1527ء میں، سویڈش کی پارلیمنٹ نے روم کے ساتھ اپنے تعلقات کو توڑنے کے لئے ووٹ دیا، اور دو سال بعد منعقد ہونے والی ایک کونسل نے سویڈن کے چرچ میں اصلاح کی راہ تیار کی۔ ڈنمارک بھی اسی طرح کا تھا، حالانکہ لوتھرانزم کو اپنانے کا عمل تھوڑی دیر بعد ہوا۔ لوگوں نے جو اس مذہبی بوجھ کو جو ان پر لاد دیا گیا تھا ہمیشہ سے اتارنا چاہتے تھے اس لیئے جب لوتھرن عیسائیت نے ان کو آزادی کی راہ دکھائی تو کسی تعلیم سے متاثر ہو کر نہیں بلکہ ایک راہ فرار اختیار کرنے کے لیئے لوگ جلد لوتھرن ازم کی طرف مائل ہو گئے۔
https://www.encyclopedia.com/humanities/culture-magazines/spread-protestantism-northern-europe
جبری تعلیم اور جبری تبدیلی مذہب کا نتیجہ
موجودہ حالت ان اقوام کی اس بات کو اور تقویت دیتی ہے کیونکہ اس کے چند ہی صدیوں بعد اب حالت یہ ہے کہ اکثریت کے نزدیک مذہب کی کوئی وقعت اور اہمیت ہی نہیں۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ یہ اقوام مذہبی زور زبردستی اور تجربوں کا شکار رہی ہے اور خود مذہبی انتہا پسندی کا نتیجہ ہیں اور ثبوت ہیں کہ یہ جارحیت اور انتہا پسندی کامیاب نہیں ہوئی اور اپنے مذہب (عیسائیت) اور مذہبی مقدس ہستیوں کا مذاق اڑانا اور برے القاب سے یاد کرنا ان کے قومی مزاج میں داخل ہو چکا ہے دوسری طرف وہ کیسے یہ الزام اسلام اور مسلمانوں پر لگا سکتے ہیں کہ وہ زور زبردستی سے پھیلا؟ اگر ایسا ہوتا تو کیا ان کا نتیجہ بھی ان اقوام کی طرح نہ ہوتا اور وہ تو کب کے دہریہ ہو چکے ہوتے مگر اصولی طور پر ایسا نہیں ہے اور مسلمان جتنے بھی اخلاقی طور پر پست ہوں حضرت محمدﷺ بانی اسلام کے نام سے ایسی عقیدت رکھتے ہیں اور 1500سالوں سے عقیدت رکھتےچلے آرہے ہیں کہ اگر ان کی شان میں کوئی گستاخی کرتا ہے تو شدید ردعمل ہوتا ہے۔ یہ ممالک شاید اپنی خونی تاریخ کا بدلہ اسلام سے لینا چاہتے ہیں یا شاید یہ اقوام مذہب یعنی عیسائیت کے ظلم و ستم اور زبردستی آزادی مذہب کے چھن جانے سے مذہب سے اتنے دور جا پڑے ہیں کہ مذہبی جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا ارشاد
’’اس سے پہلے اب تک ہماری جو بھی تبلیغی پالیسی رہی ہے اس کی رو سے عموما جماعتیں دلائل کے ذریعہ تبلیغ کرتی تھیں اور یہی طریق سکینڈے نیوین ممالک کے لیئے بھی اب تک اختیار کیا جاتا رہا ہے مگر میں نے محسوس کیا ہے کہ یہ دور اب دلائل کا دور نہیں رہا بلکہ اس سے بڑھ کر خدا نمائی کا دور ہے۔‘‘
’’دلائل کے لحاظ سے ان قوموں سے بات کی جاتی ہے جو اپنے،مذہب کو اچھی طرح سمجھتے ہوں اور دلائل کی رو سے اپنے مذہب پر قائم ہوں۔ ایک پُرانا طبقہ ہے جن کو ابھی نئے زمانے کی ہوائیں نہیں لگیں وہ عیسائیت پر اس وجہ سے قائم ہیں کہ انہوں نے اپنی وراثت میں عیسائیت کو پایا، ان کی کوشش اور ان کی عقلوں کا عیسائیت کے ساتھ چمٹے رہنے سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ایسے طبقے کو جب آپ دلائل کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو بالعموم یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ وہ لوگ دلائل کی بنا پر عیسائیت کے ساتھ نہیں چمٹے ہوئے اس لیئے دلائل کی رو سے ان کو الگ بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
’’وہ لوگ جو اس وقت بھاری اکثریت میں ہیںیعنی یورپ کا نوجوان طبقہ خصوصیت کے ساتھ سکینڈےنیویا میں نوجوان ہی نہیں بلکہ بڑی عمر کےبھی بہت سے ایسے ہیں جو عیسائیت کے قائل ہی نہیں۔ کسی مذہب کے بھی قائل نہیں۔‘‘
مذہب سے عدم دلچسپی کا علاج
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں ’’سارے سکینڈے نیویا کی مذہب سے عدم دلچسپی کا ایک ہی علاج ہے کہ یہاں آئے ہوئے احمدی باخدا انسان بن جائیں اور پھر خدا نماانسان بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ، مورخہ 22؍ستمبر 1989ء بمقام ناروے)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اتمام حجت کے لیئے ایک ہدایت
حضور اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’پھر یہ بھی ایک تجویز ہے آئندہ کے لیئے، یہ بھی جماعت کو پلان کرنا چاہیئے کہ نوجوان جرنلزم (Journalism) میں زیادہ سے زیادہ جانے کی کوشش کریں جن کو اس طرف زیادہ دلچسپی ہو تاکہ اخباروں کے اندر بھی ان جگہوں پر بھی، اس لوگوں کے ساتھ ہمارا نفوذ رہے۔ کیونکہ یہ حرکتیں وقتاً فوقتاً اُٹھتی رہتی ہیں۔ اگر میڈیا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وسیع تعلق قائم ہو گا تو ان چیزوں کو روکا جا سکتا ہے، ان بیہودہ حرکات کو روکا جا سکتا ہے۔ اگر پھر بھی اس کے بعد کوئی ڈھٹائی دکھاتا ہے تو پھر ایسے لوگ اس زمرے میں آتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 10فروری 2006ء)
اللہ کرے ہم سب خاص طور پر ان سکینڈے نیوین ممالک کے احمدی باخدا انسان بن جائیں اور پھر خدا نماانسان بن جائیں تاکہ جلد ہم ان ممالک میں اصل اسلام لانے والے ہوں اور اللہ کرے زیادہ سے زیادہ نوجوان جرنلزم میں آ ئیں تاکہ میڈیا میں رسائی کے ذریعے اصل اسلام کا چہرہ ان کو دکھاتے رہیں تاکہ یہ دنیا اور آخرت میں لعنت کا مورد بننے سے بچ جائیں۔ آمین
(طاہر احمد۔ فن لینڈ)