ڈاکٹر طاہر اشفاق مرحوم
احمدیت کے شیدائی
پہلے ہرنائی میں تھے اور پھر 1960ء میں کراچی آ بسنے والےمرحوم کے والد محترم ڈاکٹر اشفاق احمد صاحب کو الٰہی تائید و نصرت اور نور بصیرت و فراست سے 1971ء میں ایک ایسی جماعت میں شمولیت کی توفیق ملی جس کے بانی کو اللہ تعالی نے دین حق کی نشاة ثانیہ کے لئے مبعوث فرمایا اور اسے یہ وعدہ دیا کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ اور پھر ڈاکٹر صاحب کی ایسی کایا پلٹی کہ اپنے آقا ومربی کے مشن کو تندہی کے ساتھ آگے بڑھانے میں اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ دعوت الیٰ اللہ کا آپ کو جنون کی حد تک شوق تھا اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ آپ ایک نڈر داعی الیٰ اللہ تھے اور دلائل قاطعہ کے ساتھ مدمقابل کو لاجواب کر دیتے اور مخالفین انگشت بدنداں ہو کر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ آپ انتہاء درجہ کے دلیر اور نڈر تھے۔ کہا کرتے تھے کہ جب اللہ تعالی نے مجھے نور احمدیت سے منور ہونے کی توفیق عطا فرمائی تو مخالف مولوی جتھوں کی صورت میں ہمارے گھر کا گھیراؤ کر لیتے اور نعرہ بازی کرتے۔ جب میں نہتا گھر سے باہر نکلتا تو وہ تتر بتر ہو جاتے اور انہیں مجھ سے آنکھ تک ملانے کی جرأت نہ ہوتی اور پسپائی میں ہی اپنی عافیت جانتے۔ پیشتر ازیں آپ کے زیر مطالعہ زیادہ تر جماعت اسلامی کا لٹریچر رہا کرتا تھا۔
سترہ اٹھارہ سال آپ نے پاکستان مشین ٹول فیکٹری میں ملازمت کی۔ قبول احمدیت کی وجہ سے مخالفت شروع ہو جانے پر ملازمت کو خیرباد کہنا پڑا۔ آپ ایک ماہر اور بلند پایا ہومیوپیتھک ڈاکٹر بھی تھے اور اسی کی پریکٹس کرتے رہے۔ اکاؤنٹس کے بھی ماہر تھے روزانہ احمدیہ ہال کراچی میں جا کر اعزازی طور پر خدمت سلسلہ بجا لاتے رہے۔ 13 اکتوبر 2006ء کو احمدیہ ہال سے موٹر سائیکل پر گھر جاتے ہوئے روڈ ایکسیڈنٹ میں یہ بے لوث خادم سلسلہ اس جہان فانی سے راہیٴ ملک عدم ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان سے بے انتہاء پیار کا سلوک کرتے ہوئے ان کے درجات بہت بلند فرمائے۔ آمین
دنیا میں آنکھ کھولنے والا ہر بچہ سعید فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پہلی تربیت گاہ اس کی ماں کی گود ہوا کرتی ہے۔ جوں جوں بڑا ہوتا جاتا ہے توں توں اس کا حلقہ احباب اور میل جول وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے اور ماحول اس پر اثرانداز ہونا شروع ہو جاتا ہے اور زمانے کے حالات و واقعات اور نشیب و فراز اس کی ذہنی سمتوں کو استوار اور متعین کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ نیک صحبت اسے نیکی کا پیکر و خوگر اور دیندار بناتی ہے اور بدصحبت اسے دین سے دور اور شیطان کی گود میں دھکیل دیتی ہے۔
25جولائی 1964ء کو کراچی میں ایک سعید فطرت بچے نے محترم ڈاکٹر اشفاق احمد صاحب کے ہاں جنم لیا اس وقت تک ان کے والد محترم سلسلہ حقہ احمدیہ سے منسلک نہ تھے۔ آپ نے اس بچہ کا نام طاہر احمد رکھا جو اسم با مسمیٰ ثابت ہوا۔ اس نے بنفس نفیس احمدیت میں شمولیت اختیار کی اور سلسلہ کی اقدار کو کامل طور پر کماحقہ اپنے اوپر حاوی کر لیا اور بعد میں آنے کے باوجود کئی پہلوں پر سبقت لے گئے۔ آپ کی جماعتی وابستگی کو دیکھتے ہوئے بعض کو یہ کہتے ہوئے کہ طاہر جرمنی جا کر زیادہ ہی جماعتی بن گیا ہے میرے گناہ گار کانوں نے بارہا خود سنا۔ انہوں نے ماسٹر تک تعلیم حاصل کر کے کراچی میں معروف خبررساں ایجنسی رائٹرز میں ملازمت کا آغاز کیا۔ باوجودیکہ مزید بہتر آفرز ہوئیں تاہم آپ نے قناعت کا عجب مظاہرہ کرتے ہوئے پہلی ملازمت کو ہی ترجیح دی۔
کہتے ہیں ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ 2001ء کو جب سے اس عاجز کی دامادی میں آئے میں نے انہیں حلیم الطبع،منکسرالمزاج، ہنس مکھ، خوش اخلاق، نیک طینت اور ہردلعزیز اور مرنجاں مرنج سدا بہار شخصیت پایا۔ عجز و انکسار، فروتنی و بردباری آپ کی گھٹی میں رچی بسی تھی۔ افسوس صد افسوس آج میں اپنے انتہائی مونس و غمخوار اور معتمد سے محروم ہو چکا ہوں۔ بڑے صائب الرائے تھے۔ اچھے برے کی تمیز اور دھیما مزاج ان کے نمایاں وصف تھے۔ ہمیشہ بات نرم و ملائم اور دھیمے لہجہ میں کرتے غصیلہ پن ان کے پاس سے بھی نہ گزرا تھا۔ متوازن طبیعت اور سوچ کے مالک تھے۔ اکیس سالہ تعلق میں انہوں نے مجھے کبھی شکوہ و شکایت کا موقع نہ دیا۔ اکرام ضیف بھی ان کی فطرت کا خاصہ تھا۔ مجھے مخاطب کرتے وقت ہمیشہ ابی جان ابی جان ان کے ورد زبان رہا۔ انہی اوصاف کی بدولت ان کا گھر جنت نظیر تھا۔
ماہر اور قابل ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہونے کے ناطے جب بھی کبھی ان سے کسی تکلیف کا ذکر کیا انہوں نے فورا ً ادویہ تجویز کر دیں۔ قیام کراچی میں جماعت کی فری ہومیوپیتھک ڈسپنسری بھی چلایا کرتے تھے۔ گھر پر اگر کسی بھی وقت کوئی مریض آ جاتا تو ماتھے پر بل لائے بغیر اسے بھی اپنے پاس سے مفت ادویہ دینے میں کبھی لیت و لعل سے کام نہ لیتے۔ دکھی انسانیت کی خدمت انہوں نے اپنے اوپر فرض کر رکھا تھا۔ ہمیشہ ان کا یہ مطمح نظر رہا کہ ان سے کبھی کسی خواص و عام کو شکوہ و شکایت کا موقع نہ ملے۔ بیوی بچوں اور دیگر متعلقین کو ہمیشہ ان کا صحیح مقام و مرتبہ دیا۔
26دسمبر 2018ء کو بمع اہل و عیال جرمنی چلے گئے وہاں بھی جماعتی خدمات کو اپنا شعار و دستور بنائے رکھا اور ہمیشہ انہیں ترجیح و اولیت دی۔ نماز و روزہ کے سختی سے پابند تھے۔ جہاں بھی جاتے ہمیشہ مسجد میں جا کر نمازوں اور جمعہ کی ادائیگی کی حتی الوسع کوشش کرتے۔ بچوں کی صحیح تربیت پر ہمہ وقت کاربند رہے۔ اللہ تعالیٰ کے خاص الخاص فضل و کرم سے تین بیٹوں میں سے بڑا بیٹا حافظ قرآن ہے۔ ان کی خواہش تینوں بیٹوں کو حافظ قرآن دیکھنے کی تھی۔
شومیٴ قسمت 30 دسمبر 2021ء کو پتہ کی تکلیف ہوئی۔لیزر کے ذریعہ پتے سے پتھریاں نکالی گئیں۔ جنوری 2022ء کے آخر میں صرف تین دن گھر آئے۔ پیچیدگی پیدا ہونے کے باعث یکم فروری کو پھر ہسپتال میں داخل ہوگئے۔ پانچ ماہ دو ہسپتالوں میں یکے بعد دیگرے آپریشن ہوئے اس تکلیف دہ عرصہ میں انہوں نے بڑے صبر، حوصلہ اور خندہ پیشانی سے متوکل علیٰ اللہ رہتے ہوئے بڑی کٹھن تکالیف کا مقابلہ کیا۔ ڈاکٹروں نے ہر ممکن علاج میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن آخر وہی ہوا جو منظور خدا تھا اور 31 مئی 2022ء کو اس گوہر کمیاب و نایاب نے اپنے بلانے والے دل و جان سے عزیز سب سے پیارے رب العالمین کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی جان جان آفریں کے سپرد یہ کہتے ہوئے کر دی کہ
بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
یقین واثق ہے کہ فرشتوں کی نگہبانی اور جلو میں آپ اپنے رب الاعلیٰ کے حضور حاضر ہوئے ہوں گے اور اپنی ابدی و مستقل قیام گاہ کو بہت بہتر پایا ہو گا اور خوشی سے پھولے نہ سمائے ہوں گے۔ اے باری تعالیٰ اپنے اس نئے مہمان کو اپنے قرب خاص میں جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرما۔ آمین۔ ڈاکٹر طاہر اشفاق مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے ان کو 3جون 2022ء کو جرمنی میں سپرد خاک کیا گیا۔
اے خدائے بزرگ و برتر! جانے والے کے اوصاف حمیدہ کو ہم جملہ پسماندگان کو عموما ً اور اہلیہ اور بچوں کو خصوصاً اپنانے اور تا دم آخر ان پر عمل پیرا ہونے کی ہمت و طاقت دے اور اہلیہ اور بچوں کا خود ہی حافظ و ناصر اور کفیل ہو اور انہیں دکھ اور غم کی اس گھڑی میں اپنی رضا پر راضی رکھتے ہوئے برداشت اور صبر کی ہمت و طاقت عطا فرما۔ آمین ثم آمین
یہ میری خوش بختی و خوش قسمتی ہے کہ سفر آخرت پر روانہ ہونے سے چار روز قبل موبائل کے ذریعہ آپ کی اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ کی صدا میرے کانوں میں پڑی جو آج بھی مجھے آپ کی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے اور ان شاءاللہ تعالیٰ تا حیات یہ احساس قائم و دائم رہے گا اور میں اس کی چاشنی سے لطف اندوز ہوتا رہوں گا۔ القصہ مختصر ہم سے عارضی طور پر بچھڑنے والا وجود بیشمار خوبیوں کا مجسمہ تھا۔
اے جانے والے! ہمارا تجھ سے وعدہ ہے کہ ہم تیری نیک یادوں کو زندہ رکھنے میں ہمیشہ مقدور بھر کوشاں رہیں گے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یہ چند روزہ دنیوی زندگی تو عارضی اور امتحانی زندگی ہے اصل اور ابدی زندگی تو اخروی زندگی ہے۔ انسانی پیدائش کی اصل غرض و غایت اپنے خالق حقیقی کی عبادت اور نیک اعمال کی بجاآوری ہے۔ خدا تعالیٰ کو تواس کی عبادت کی کوئی ضرورت نہیں یہ انسانی فلاح و کامرانی کے لئے ہی ہے۔ یہ آپ کی خدا کی عبادت اور نیک اعمال ہی آپ کا اصل زاد راہ ہےجو آپ کی اخروی اور ابدی زندگی کو سنوارنے اور سرخروئی کا ضامن ہو گا اور جزاء و سزا کے دن اسی پر آپ کی کامیابی کا زیادہ تر انحصار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی کوتاہیوں اور سستیوں کو ترک کر کے خداتعالی کی عبادت کا اصل، حقیقی اور صحیح حق ادا کریں اور اپنے اسلاف کے نیک اعمال کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں اور نیک اعمال کے ذریعہ اپنی آخرت کو سنواریں۔ اے خدائے ذوالجلال !ہمیں اس کی توفیق و صلاحیت اور ہمت عطا فرما۔آمین
(حمیدالدین خوشنویس)