• 10 دسمبر, 2024

ہم نے کی لانگ رائیڈ

اس ہفتے میں ایک چھٹی آرہی تھی تو عموماً ایسی چھٹیوں میں ہم لمبے سائیکل سفر کا پروگرام بنا لیتے ہیں۔ یہ سائیکلنگ کا شوق بھی ہمیں ربوہ میں آ کر لاحق ہوا ہے۔ اس آنے والی ممکنہ چھٹی کے لئے بھی ہم نے ایک سائیکل سفر کا منصوبہ باندھنا شروع کر دیا۔ ہمارا ارادہ 50 کلومیٹر کی رائیڈ کا تھا اور وقت کا اندازہ ہم نے چار گھنٹے لگایا۔سائیکل سفر کے لئے روٹ بھی ذہن میں واضح تھا۔ ربوہ کے اطراف دو مین روڈ ہیں۔ ایک سرگودھا روڈ جس پر بہشتی مقبرہ واقع ہے۔ اور دوسرا ساہیوال روڈ جو بیت الاقصیٰ کی بیک سائڈ پر ہے۔ تو ہمارا پلان یہ تھا کہ سرگودھا روڈ پر لالیاں تک رائیڈ کریں گے جو 14 کلومیٹر کا فاصلہ بنتا ہے۔ اور لالیاں سے جھنگ روڈ کی طرف مڑ جائیں گے اور ساہیوال روڈ پر ترکھانوالہ چوک کو شرف ملاقات بخشتے ہوئے سیدھے ربوہ پہنچ جائیں گے۔ اب یہ اتنا سیدھا اور واضح روٹ تھا کہ اس کے لئے گوگل میپ استعمال کرنا ہمیں صریح انسانی عقل کی توہین محسوس ہوئی اور ہم نے فیصلہ کیا کہ کم از کم آج کے دن ہم گوگل میپ کو موبائل فون کی آخری تہہ میں سلائیں گے۔ آخر ہم کوئی گوگل میپ کے غلام ہیں کہ اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتے۔

صبح ساڑھے آٹھ بجے رختِ سفر باندھا، اپنی واحد شریک سفر چائنا سا ئیکل کے کیرئیر پر پانی کی بوتل اور ایک چھوٹا تولیہ فٹ کیا، رائڈنگ کی ایپ اوپن کی اور اسٹارٹ کا بٹن دبا کر سائیکل سفر شروع کیا۔ لالیاں سے کچھ پہلے سڑک کے کنارے ایک بادام گھوٹا والے بابا جی کا ڈیرہ تھا۔ سوچا ان کے درشن کرتے جائیں۔ پانی کی بوتل نکالی اور خالی کرکے اس میں بادام گھوٹا بھروالیا۔ کچھ ہی دیر میں لالیاں پہنچ گئے۔ منصوبے کے عین مطابق لالیاں سے جھنگ روڈ پر مڑے اور اردگرد کے سر سبز کھیتوں اور دیہاتی نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے آہستہ رفتار سے سائیکلنگ جاری رکھی۔ راستے میں ایک جگہ تھکن اور پیاس محسوس ہوئی تو بادام گھوٹا کی بوتل نوش فرمائی۔ اور آخر کار ساہیوال روڈ کو ترکھانوالہ چوک پر کامیابی سے ہٹ کرلیا۔ ہمارے منصوبے کے یہ دو مراحل اللہ کے فضل سے بخیر و خوبی اور عافیت سے طے ہوگئے۔

ہماری اس ترکھانوالہ چوک سے یہ پہلی ملاقات تھی اس لئے ذرا دیر کو رکے اور ایک گلاس گنے کا رس نوش جاں کیا۔ اب ذرا جائزہ لیا کہ آگے کس طرف کو جانا ہے۔ یہاں سے ایک سڑک تقریباً اسی سمت کو واپس جا رہی تھی جس طرف سے ہم آئے تھے۔ ہم نے اپنی عقل شریف کا استعمال کیا اور سوچا کہ یہ تو لالیاں کی طرف ہی جارہی ہوگی۔ لہذا ہم دوسری سڑک پر ہوگئے اور چلتے چلے گئے۔ کچھ آگے جا کر ہم نے موبائل فون نکال کر وقت دیکھا تو بارہ بج کر پینتالیس منٹ ہورہے تھے۔ پہلا خیال دل میں یہ گزرا کہ اب تھوڑا سا گھبرا لینا چاہئے کہ سوا ایک بجے تو محلے کی بیت الذکر میں ظہر کی نماز کا وقت ہے کہیں جماعت نہ نکل جائے۔ ہم تو یہ پلان کرکے نکلے تھے کہ یہ پورا سائیکل سفر بارہ بجے تک ختم کرکے ربوہ پہنچ چکے ہوں گے۔ ہمیں لگا کہ ہم کچھ زیادہ ہی آہستہ چل رہے ہیں۔ اگر رفتار کچھ تیز کریں تو امید ہے کہ بروقت ربوہ پہنچ کر نماز باجماعت میں شامل ہوجائیں۔ اب ہم نے رفتار بڑھائی اور ارادہ تھا کہ پندرہ بیس منٹ تک ربوہ پہنچ جائیں گے۔

لیکن جیسا کہ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ میں نے خدا کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔ تو ہم اس بات سے بے خبر تھے کہ آنے والے لمحات میں ہمارے تو ارادوں کے حروف تہجی بھی بری طرح سے ٹوٹنے والے ہیں۔ ہوا یہ کہ رفتار تیز پر تیز کرتے گئے لیکن ربوہ کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہ آئیں۔ ہم پریشان کہ ہمارے اندازے کے مطابق تو ترکھانوالہ چوک سے بیس کلومیٹر ہی ربوہ ہے تو یہ بیس کلومیٹر ختم ہونے کا نام کیوں نہیں لے رہے۔ کچھ مزید آگے چلے تو یک بہت بڑا بازار آیا۔ اب ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ اتنا بڑا بازار تو ربوہ میں بھی کوئی نہیں کجا یہ کہ ربوہ کے مضافات میں ہو۔ کہیں کچھ غلط تو نہیں ہوگیا۔ وقت دیکھا تو تین بج رہے تھے۔ خیر سب سے پہلے تو وہاں ایک ہوٹل میں کھانے کے لئے چلے گئے کہ اب بھوک لگنا شروع ہوگئی تھی۔ کھانے کے بعد ہوٹل والے صاحب سے ہی پوچھا کہ بھائی یہ سڑک سیدھی ربوہ ہی جاتی ہے نا؟ تو انہوں نے بتایا کہ جی جناب سیدھی ربوہ ہی جاتی ہے لیکن اس طرف کو نہیں بلکہ مخالف سمت کو جس طرف سے آپ آرہے ہیں۔ یہ سن کر ہمارے تو ہوش ٹھکانے آگئے۔ اب گوگل میپ کی یاد آئی۔ شرمندہ شرمندہ سے ہوکر میپ کھولا تو پتہ لگا کہ ربوہ یہاں سے 51 کلومیٹر ہے۔ اب ہمارے ٹھکانے پر آئے ہوئے ہوش پھر سے اُڑ گئے کہ صبح ساڑھے آٹھ بجے کے نکلے ہوئے ہیں اور اب سوا تین بج رہے ہیں اور ابھی بھی ربوہ اکیاون کلومیٹر ہے۔ اب یہ منکشف ہوا کہ ترکھانوالہ چوک سے ہی ہم غلط سمت کو سفر کرتے رہے ہیں اور تیس کلومیٹر غلط سمت میں سفر کرچکے تھے۔ اور اب یہی تیس کلومیٹر کا سفر واپس بھی طے کرنا تھا پھر اس جگہ پہنچتے جہاں سے غلطی ہوئی تھی۔ خیر مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق سائیکل اٹھائی اور واپس چل پڑے۔ لیکن ابھی تو اس سائیکلنگ کے عشق کے مزید امتحان باقی تھے۔

تقریباً کوئی پچیس کلومیٹر سے زائد کا سفر طے کیا تھا کہ ایک ٹریجڈی ہوگئی۔ راستے میں ایک چھوٹا سا پل آیا جو اس قدر خستہ حالت میں تھا اس پر سے سائیکل اور موٹرسائیکل تو گزر سکتی تھی لیکن کار نہیں۔ اب ہوا یہ کہ ہم اس پل پر سے گزرنے لگے اور جب پل پار کرلیا تو سامنے سے ایک کار آرہی تھی۔ ان کار والے صاحب کو پل کے عین قریب پہنچ کر اندازہ ہوا کہ اس پل سے کار نہیں گزر سکے گی۔ لہذا انہوں نے اچانک بریک لگادی۔ خیر ہمیں کیا۔ ہم تو سائڈ سے آرہے تھے۔ لیکن اس کار کے پیچھے ایک موٹرسائیکل آرہی تھی۔ موٹرسائیکل والے صاحب نے جب اپنے آگے کار کو اچانک رکتے دیکھا تو وہ کار کی اس سائڈ پر ہوگئے جس طرف سے ہم آرہے تھے۔ ہم دونوں نے بریک لگائے لیکن رکتے رکتے بھی ان کی بائیک اور ہماری سائیکل کے اگلے ٹائر اس گرمجوشی سے بغل گیر ہوگئے جیسے دو بچھڑے دوست عرصہ دراز کے بعد ملے ہوں۔ سائیکل کا اگلا پہیہ کچھ زیادہ ہی نازک مزاج ثابت ہوا اور شدت جذبات سے دہرا ہوگیا۔ اللہ کا بڑا فضل ہوا کہ رفتار دونوں کی ہلکی تھی لہذا ہم دونوں کی تو بچت ہوگئی لیکن سائیکل اب مزید سفر کے قابل نہ رہی تھی۔ موٹرسائیکل والے صاحب بھی رک گئے اور ان کے چہرے پر شرمندگی کے آثار تھے۔ وہ چہرے پر عجیب تاثرات لئے ہماری سائیکل کو دیکھے جارہے تھے۔ ہم نے سوچا ہمارے ساتھ تو جو ہوا سو ہوا ان کی مشکل ہی آسان کردیں۔ اور ان سے عرض کیا کہ آپ کے اس طرح دیکھنے سے سائیکل کی شفایابی کے کوئی امکان نہیں اس لئے آپ تشریف لے چلئے اپنے وقت کا حرج کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس وقت شام کے چھ بج رہے تھے۔ اب سائیکل کو ایک طرف کھڑا کرکے سوچنے لگے کہ ’’ہُن کی کرئیے‘‘۔ یہاں کوئی زیادہ آبادی بھی نہ تھی بس ایک طرف دو چار کچے مکان بنے ہوئے تھے۔ اب ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آگے کیا ہوگا۔ کیونکہ یہ علاقہ ایسا تھا کہ یہاں سے کوئی رکشہ بھی ملنے کا امکان نہیں تھا۔ اگر بفرض محال رکشہ مل بھی جاتا تو اس پر ہم ہی بیٹھ سکتے تھے سائیکل کا کیا کرتے۔ مزید پریشانی یہ کہ مغرب کا وقت قریب ہے اور ربوہ پہنچنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ ربوہ یہاں سے بھی کوئی پچیس کلومیٹر تھا۔

اب اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے رب العالمین ہماری جس معصیت کا یہ وبال ہم پر پڑا ہے اس کی تجھ سے صدق دل سے معافی طلب کرتے ہیں۔ اب تو ہی کوئی راستہ نکال کہ اس سنسان جگہ اور آبادی سے دور شام کے وقت ہمارا کوئی بھی سہارا نہیں۔ یہ دعا کرتے ہوئے ایک طرف رومال زمین پر بچھایا اور اس پر بیٹھ گئے کہ بہت تھک چکے تھے۔ سورج دھیرے دھیرے مغرب میں چھپتا جارہا تھا اور ہماری بے چینی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ کافی دیر اس پریشانی میں وہاں بیٹھے رہے آخر رب العالمین کو ہمارے حال پر رحم آیا اور کچھ دیر کے بعد وہاں سے ایک ٹریکٹر ٹرالی گزری۔ ہاتھ سے سائیکل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے درخواست کی کہ اس سائیکل سمیت ہمیں کہیں آگے پہنچا دے۔ اس نیک دل انسان نے ہمیں سائیکل سمیت ترکھانوالہ چوک پر پہنچا دیا۔ وہاں ایک سائیکل مرمت کی دکان کھلی تھی ان کو سائیکل مرمت کے لئے دی۔ انہوں نے کہا کہ اب تو دکان بند کرنے کا وقت ہے۔ کل ہی ٹھیک ہو سکے گی۔ ہم نے سائیکل تو پھر ان کے حوالے کی اور خود رکشہ میں بیٹھ کر لالیاں پہنچے اور لالیاں سے دوسرے رکشہ پر ربوہ آگئے۔ یوں لوٹ کے بدھو صبح ساڑھے آٹھ بجے کے نکلے ہوئے رات ساڑھے آٹھ بجے گھر پہنچے۔ رائیڈنگ کی ایپ اوپن کی تو پتہ لگا کہ صبح کے نکلے ہوئے اب تک کل 120 کلومیٹر سے زائد کا سفر طے کرچکے ہیں اور کل وقت گیارہ گھنٹے سے زائد خرچ ہوا۔ یوں ہمارا چار گھنٹوں میں پچاس کلومیٹر کی رائیڈ کا ارادہ گیارہ گھنٹوں میں 120 کلومیٹر کی صورت پورا ہوا۔

(بشارت اللہ)

پچھلا پڑھیں

کتاب تعلیم (کتاب)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ